اس سلسلہ کو قائم کرنے کی غرض
اسلامی فرقوں میں دن بدن پھوٹ پڑتی جاتی ہے۔ پھوٹ اسلام کے لئے سخت مضر ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لَاتَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْهَبَ رِيْحُكُمْ۔ (الانفال:۴۷)جب سےاسلام کے اندر پھوٹ پڑی ہے دم بدم تنزل کرتا جاتا ہے۔ اس لئے خدا نے اس سلسلہ کو قائم کیا تا لوگ فرقہ بندیوں سے نکل کر اس جماعت میں شامل ہوں جو بے ہودہ مخالفتوں سے بالکل محفوظ ہے اور اس سیدھے راستے پر چل رہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا۔
(ملفوظات جلد۱۰صفحہ۳۷۰-۳۷۱، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
تمام انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی غرض مشترک یہی ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی سچی اور حقیقی محبت قائم کی جاوے اور بنی نوع انسان اور اخوان کے حقوق اور محبت میں ایک خاص رنگ پیدا کیا جاوے۔ جب تک یہ باتیں نہ ہوں تمام امور صرف رسمی ہوں گے۔
(ملفوظات جلد۳ صفحہ۹۵، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان، کان، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کر جاوے۔ تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو۔ اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو اور بےجا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو۔ میں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصہ کا نقص اب تک موجود ہے۔ تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بغض پیدا ہو جاتا ہے اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دِقّت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چپ کر رہے اور اس کا جواب نہ دے۔ ہر ایک جماعت کی اصلاح اول اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے۔ چاہیے کہ ابتدا میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بدگوئی کرے تو اس کے لیے دردِ دل سے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے اور دل میں کینہ کو ہرگز نہ بڑھاوے۔ جیسے دنیاکے قانون ہیں ویسے خدا کا بھی قانون ہے جب دنیا اپنے قانون کو نہیں چھوڑ تی تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو کیسے چھوڑے۔
(ملفوظات جلد ۷صفحہ ۱۲۷، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)