کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو
بعض نادان ایسے بھی ہیں جو ذاتوں کی طرف جاتے ہیں اور اپنی ذات پر بڑا تکبر اور ناز کرتے ہیں۔بنی اسرائیل کی ذات کیا کم تھی جن میں نبی اور رسول آئے تھے لیکن کیا اُن کی اس اعلیٰ ذات کا کوئی لحاظ خدا تعالیٰ کے حضور ہوا جب اس کی حالت بدل گئی۔ ابھی میں نے کہا ہے کہ ان کا نام سؤر اور بندر رکھا گیا اور اسے اس طرح پر انسانیت کے دائرہ سے خارج کر دیا۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت لوگوں کو یہ مرض لگا ہوا ہے۔خصوصاً سادات اس مرض میں بہت مبتلا ہیں۔ وہ دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں اور اپنی ذات پر ناز کرتے ہیں۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے ذات کچھ بھی چیز نہیں ہے اور اُسے ذرا بھی تعلق نہیں ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو سید ولد آدم اور افضل الانبیاء ہیں انہوں نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے صاف طور پر فرمایا کہ اے فاطمہ ؓ!تو اس رشتہ پر بھروسہ نہ کرنا کہ میں پیغمبر زادی ہوں۔ قیامت کو یہ ہرگز نہیں پوچھا جاوے گا کہ تیرا باپ کون ہے۔ وہاں تو اعمال کام آئیں گے۔ میں یقیناً جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے قرب سے زیادہ دُور پھینکنے والی اور حقیقی نیکی کی طرف آنے سے روکنے والی بڑی بات یہی ذات کا گھمنڈ ہے کیونکہ اس سے تکبر پیدا ہوتا ہے اور تکبر ایسی شئے ہے کہ وہ محروم کر دیتا ہے۔ علاوہ ازیں وہ اپنا سارا سہارا اپنی غلط فہمی سے اپنی ذات پر سمجھتا ہے کہ میں گیلانی ہوں یا فلاں سیّد ہوں۔ حالانکہ وہ نہیں سمجھتا کہ یہ چیزیں وہاں کام نہیں آئیں گی۔ ذات اور قوم کی بات تو مرنے کے ساتھ ہی الگ ہو جاتی ہے۔ مَرنے کے بعد اس کا کوئی تعلق باقی رہتا ہی نہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں یہ فرماتا ہے مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ۔(الزلزال:۹)کوئی بُرا عمل کرے خواہ کتنا ہی کیوں نہ کرے اس کی پاداش اس کو ملے گی۔ یہاں کوئی تخصیص ذات اور قوم کی نہیں۔
(ملفوظات جلد۷صفحہ۱۸۸-۱۸۹، ایڈیشن۱۹۸۴ء)
وہ شخص بھی جو اپنی طاقتوں پر بھروسہ کر کے دعا مانگنے میں سست ہے وہ متکبر ہے کیونکہ قوتوں اور قدرتوں کے سرچشمہ کو اُس نے شناخت نہیں کیا اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھا ہے ۔ سو تم اے عزیزو! ان تمام باتوں کو یاد رکھو ایسانہ ہو کہ تم کسی پہلو سے خدا تعالیٰ کی نظر میں متکبرٹھہر جاؤ اور تم کو خبر نہ ہو۔ ایک شخص جو اپنے ایک بھائی کے ایک غلط لفظ کی تکبر کے ساتھ تصحیح کرتا ہے اُس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے سننا نہیں چاہتا اورمنہ پھیر لیتاہے اُس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے ۔ ایک غریب بھائی جو اس کے پاس بیٹھا ہے اور وہ کراہت کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ ایک شخص جو دعا کرنے والے کو ٹھٹھے او رہنسی سے دیکھتا ہے اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی پورے طور پر اطاعت کرنا نہیں چاہتا اُس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ اور وہ جو خدا کے ماموراورمرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تا کہ ہلاک نہ ہو جاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پا ؤ۔
( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۴۰۲-۴۰۳)