روح القدس کیا ہے؟
قرآن کریم میں روح القدس کا کئی جگہ ذکر ہے۔ روح القدس ایک مرکب لفظ ہے جو روح اور القدس سے بنا ہے۔ روح کا مطلب ہے، ایک روح، ایک فرشتہ، خدا کا کلام؛ اور قدس کا مطلب ہے، تقدس۔ روح القدس کا مطلب ہوگا، خدا کا مقدس یا مبارک کلام۔ روح یا پاک فرشتہ۔ روح القدس سے عام طور پر مراد فرشتہ جبرائیل لیا جاتا ہے۔
قرآن پاک میں کئی جگہ پرروح القدس کا ذکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تعلق میں آتا ہے۔ جیسا کہ وَلَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَقَفَّیۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ بِالرُّسُلِ ۫ وَاٰتَیۡنَا عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ الۡبَیِّنٰتِ وَاَیَّدۡنٰہُ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ ؕ اَفَکُلَّمَا جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌۢ بِمَا لَا تَہۡوٰۤی اَنۡفُسُکُمُ اسۡتَکۡبَرۡتُمۡ ۚ فَفَرِیۡقًا کَذَّبۡتُمۡ ۫ وَفَرِیۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ۔(البقرۃ:۸۸)اور یقیناً ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے بعد بھی مسلسل رسول بھیجتے رہے۔ اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو کھلے کھلے نشان عطا کئے اور ہم نے روح القدس سے اس کی تائید کی۔ پس کیا جب بھی تمہارے پاس کوئی رسول ایسی باتیں لے کر آئے گا جو تمہیں پسند نہیں تو تم استکبار کروگے ؟۔ اور ان میں سے بعض کو تم جھٹلا دو گے اور بعض کو تم قتل کروگے؟
تِلۡکَ الرُّسُلُ فَضَّلۡنَا بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ۘ مِنۡہُمۡ مَّنۡ کَلَّمَ اللّٰہُ وَرَفَعَ بَعۡضَہُمۡ دَرَجٰتٍ ؕ وَاٰتَییۡنَا عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ الۡبَیِّنٰتِ وَاَیَّدۡنٰہُ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ ؕ وَلَوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَا اقۡتَتَلَ الَّذِیۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡہُمُ الۡبَیِّنٰتُ وَلٰکِنِ اخۡتَلَفُوۡا فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ اٰمَنَ وَمِنۡہُمۡ مَّنۡ کَفَرَ ؕ وَلَوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَا اقۡتَتَلُوۡا ۟ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَفۡعَلُ مَا یُرِیۡدُ (البقرۃ: ۲۵۴) وہ رسول ہیں جِن میں سے بعض کو ہم نے بعض (دوسروں) پر فضیلت دی۔ بعض ان میں سے وہ ہیں جن سے اللہ نے (رُوبرو) کلام کیا۔ اور ان میں سے بعض کو (بعض دوسروں سے) درجات میں بلند کیا۔ اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو کھلی کھلی نشانیاں دیں اور روح القدس سے اس کی تائید کی۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ لوگ جو اُن کے بعد آئے آپس میں قتل و غارت نہ کرتے، بعد اِس کے کہ ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں آچکی تھیں۔ لیکن انہوں نے (باہم) اختلاف کئے۔ پس اُن ہی میں سے تھے جو ایمان لائے اور وہ بھی تھے جنہوں نے کفر کیا۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ باہم قتل و غارت نہ کرتے۔ لیکن اللہ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے۔
ان آیات سے بظاہر لگتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا روح القدس سے ایک خاص تعلق ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ روح القدس خدا کے تمام انبیاء کے ساتھ ہوتا ہے اور قرآن کی دیگر آیات سے بھی اس بارے میں عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی امتیاز واضح نہیں ہے۔ قرآن میں اللہ، رسول اللہﷺ کے بارے میں فرماتا ہے:قُلۡ نَزَّلَہٗ رُوۡحُ الۡقُدُسِ مِنۡ رَّبِّکَ بِالۡحَقِّ لِیُـثَبِّتَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَہُدًی وَّبُشۡرٰی لِلۡمُسۡلِمِیۡنَ (النحل:۱۰۳)تُو کہہ دے کہ اسے روح القدس نے تیرے ربّ کی طرف سے حق کے ساتھ اتارا ہے تاکہ وہ اُن لوگوں کو ثبات بخشے جو ایمان لائے اور فرمانبرداروں کے لئے ہدایت اور خوشخبری ہو۔
درحقیقت روح القدس اپنی سب سے اعلیٰ شان کے ساتھ رسول اللہﷺ پر نازل ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:’’خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی، اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت سے منکر نہ ہوتے پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی۔ یہ نہایت پیاری نعمت ہے، یہ بڑی دولت ہے، اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی۔ قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں ہیچ ہیں۔ انجیل کے لانے والا وہ روح القدس تھا جو کبوتر کی شکل پر ظاہر ہوا جو ایک ضعیف اور کمزور جانور ہے جس کو بلی بھی پکڑ سکتی ہے اسی لئے عیسائی دن بدن کمزوری کے گڑھے میں پڑتے گئے اور روحانیت ان میں باقی نہ رہی کیونکہ تمام ان کے ایمان کا مدار کبوتر پر تھا مگر قرآن کا روح القدس اس عظیم الشان شکل میں ظاہر ہوا تھا جس نے زمین سے لے کر آسمان تک اپنے وجود سے تمام ارض و سما کو بھر دیا تھا پس کجا وہ کبوتر اور کجا یہ تجلی عظیم جس کا قرآن شریف میں بھی ذکر ہے۔قرآن ایک ہفتہ میں انسان کو پاک کر سکتا ہے اگر صوری یا معنوی اعراض نہ ہو قرآن تم کو نبیوں کی طرح کر سکتا ہے اگر تم خود اس سے نہ بھاگو۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۲۶-۲۷)
پس سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ پر روح القدس اپنی کامل اور عظیم الشان شکل میں ظاہر ہوا۔ بلکہ آپ یہ بھی وضاحت فرماتے ہیں کہ روح القدس دیگر رسولوں اور نبیوں پر بھی ظاہر ہوتا رہا ہے۔ آپ اپنی عربی تصنیف نور الحق میں سورۃ النبا کی آیت یَوۡمَ یَقُوۡمُ الرُّوۡحُ وَالۡمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّا ؕ٭ۙ لَّا یَتَکَلَّمُوۡنَ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَہُ الرَّحۡمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا۔ (آیت۳۹) کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس آیت میں لفظ روح سے مراد رسولوں اور نبیوں اور محدثوں کی جماعت مراد ہے جن پر روح القدس ڈالا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ہم کلام ہوتے ہیں …اور پھر خدا تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو روح کے لفظ سے یاد کیا یعنی ایسے لفظ سے جو انقطاع من الجسم پر دلالت کرتا ہے۔ یہ اس لیے کیا کہ تا وہ اس بات کی طرف اشارہ کرے کہ وہ مطہر لوگ اپنی دنیوی زندگی میں اپنی تمام قوتوں کی رُو سے مرضات الٰہی میں فنا ہو گئے تھے اور اپنے نفسوں سے ایسے باہر آ گئے تھے جیسے کہ روح بدن سے باہر آتی ہے اور نہ ان کا نفس اور نہ اس نفس کی خواہشیں باقی رہی تھیں اور وہ روح القدس کے بلائے بولتے تھے نہ اپنی خواہش سے اور گویا وہ روح القدس ہی ہو گئے تھے جس کے ساتھ نفس کی آمیزش نہیں۔ پھر جان کہ انبیاء ایک ہی جان کی طرح ہیں …وہ اپنے نفس اور اپنی جنبش اور اپنے سکون اور اپنی خواہشوں اور اپنے جذبات سے بکلی فنا ہو گئے اور ان میں بجز روح القدس کے کچھ باقی نہ رہا اور سب چیزوں سے توڑ کے اور قطع تعلق کر کے خدا کو جا ملےپس خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس آیت میں ان کے تجرد اور تقدس کے مقام کو ظاہر کرے اور بیان کرے کہ وہ جسم اور نفس کے میلوں سے کیسے دور ہیں پس ان کا نام اس نے روح یعنی روح القدس رکھا تا کہ اس لفظ سے ان کی شان کی بزرگی اور ان کے دل کی پاکیزگی کھل جائے اور وہ عنقریب قیامت کو اس لقب سے پکارے جائیں گے تا کہ خدا تعالیٰ لوگوں پر ان کا مقام انقطاع ظاہر کرے اور تا کہ خبیثوں اور طیبوں میں فرق کر کے دکھلا وے اور بخدا یہی بات حق ہے۔ ‘‘(نور الحق حصہ اوّل ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۹۸-۹۹)
’’جب جبریلی نور خدائے تعالیٰ کی کشش اور تحریک اور نفخہ نورانیہ سے جنبش میں آجاتاہے تو معاً اس کی ایک عکسی تصویر جس کو روح القد س کے ہی نام سے موسوم کرنا چاہیے محبت، صادق کے دل میں منقّش ہو جاتی ہے۔ اور اس کی محبت صادقہ کا ایک عرض لازم ٹھہر جاتی ہے تب یہ قوت خدائے تعالیٰ کی آواز سننے کے لئے کان کا فائدہ بخشتی ہے اور اس کے عجائباؔ ت کے دیکھنے کے لئے آنکھو ں کی قائم مقام ہو جاتی ہے اور اس کے الہامات زبان پر جاری ہو نے کے لئے ایک ایسی محرّک حرارت کا کام دیتی ہے جو زبان کے پہیہ کو زور کے ساتھ الہامی خط پر چلاتی ہے اور جب تک یہ قوت پیدانہ ہو اس وقت تک انسان کا دل اندھے کی طرح ہوتاہے اور زبان اس ریل کی گاڑی کی طرح ہوتی ہے جو چلنے والے انجن سے الگ پڑی ہو۔ لیکن یاد رہے کہ یہ قوت جو روح القدس سے موسوم ہے ہر یک دل میں یکساں اور برابر پیدا نہیں ہوتی بلکہ جیسے انسان کی محبت کامل یا ناقص طور پر ہوتی ہے اسی اندازہ کے موافق یہ جبریلی نور اس پر اثر ڈالتا ہے۔ (توضیح مرام، روحانی خزائن، جلد ۳صفحہ ۹۲)
ان اقتباسات سے یہ ثابت ہوا کہ …مراد رسولوں اور نبیوں اور محدثوں کی جماعت مراد ہے جن پر روح القدس ڈالا جاتا ہے۔
اسی طرح روح القدس مرتبہ کے لحاظ سےاللہ کے حکم سے مومنوں کی بھی مدد کرتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے۔ یُنَزِّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃَ بِالرُّوۡحِ مِنۡ اَمۡرِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖۤ اَنۡ اَنۡذِرُوۡۤا اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاتَّقُوۡنِ (النحل:۱۳)وہ اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے فرشتوں کو روح القدس کے ساتھ اتارتا ہے کہ خبردار کرو کہ یقیناً میرے سوا کوئی معبود نہیں پس مجھ ہی سے ڈرو۔
تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ ۚ مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍ(القدر:۵)بکثرت نازل ہوتے ہیں اُس میں فرشتے اور روح القدس اپنے ربّ کے حکم سے۔ ہر معاملہ میں۔
لَا تَجِدُ قَوۡمًا یُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ یُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللّٰہَ وَرَسُوۡلَہٗ وَلَوۡ کَانُوۡۤا اٰبَآءَہُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَہُمۡ اَوۡ اِخۡوَانَہُمۡ اَوۡ عَشِیۡرَتَہُمۡ ؕ اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡاِیۡمَانَ وَاَیَّدَہُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡہُ ؕ وَیُدۡخِلُہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡہُ ؕ اُولٰٓئِکَ حِزۡبُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰہِ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ(المجادلہ:۲۳)تُو کوئی ایسے لوگ نہیں پائے گا جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہوئے ایسے لوگوں سے دوستی کریں جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کرتے ہوں، خواہ وہ اُن کے باپ دادا ہوں یا اُن کے بیٹے ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے ہم قبیلہ لوگ ہوں۔ یہی وہ (باغیرت) لوگ ہیں جن کے دل میں اللہ نے ایمان لکھ رکھا ہے اور ان کی وہ اپنے امر سے تائید کرتا ہے اور وہ انہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں وہ اُن میں ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے۔ اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔ یہی اللہ کا گروہ ہیں۔ خبردار! اللہ ہی کا گروہ ہے جو کامیاب ہونے والے لوگ ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے اور وہ مسجد میں شعر پڑھ رہے تھے تو انہوں نے ان کی طرف غور سے دیکھنا شروع کر دیا۔ تو انہوں نے کہا میں شعر پڑھا کرتا تھا اور اس (مسجد) میں وہ (رسول اللہﷺ) موجود ہوتے تھے جو آپ (یعنی عمر رضی اللہ عنہ) سے بہتر ہیں۔ پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا تم نے رسول اللہ ﷺ سے یہ فرماتے ہوئے سنا تھاکہ میری طرف سے جواب دو اور اے اللہ! روح القدس کے ذریعے اس کی مدد فرما! تو انہوں نے کہا:اے اللہ تو (گواہ رہنا) ہاں (میں نے سنا تھا)۔
ان آیات کی تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’اور منجملہ اُن آیاتِ قرآنی کے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ رُوح القدس ہمیشہ کے لئے خداتعالیٰ کے ملہم بندوں کے ساتھ رہتا ہے اور انہیں علم اور حکمت اور پاکیزگی کی تعلیم کرتا ہے یہ آیت کریمہ ہے اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡاِیۡمَانَ وَاَیَّدَہُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡہُ(المجادلہ:۲۳)یعنی اُن مومنوں کے دلوں میں خداتعالیٰ نے ایمان کو لکھ دیا اور روح القدس سے ان کو مدد دی۔ دل میں ایمان کے لکھنے سے یہ مطلب ہے کہ ایمان فطرتی اور طبعی ارادوں میں داخل ہو گیا اور جُزوِ طبیعت بن گیا اور کوئی تکلّف اور تصنّع درمیان میں نہ رہا۔ اور یہ مرتبہ کہ ایمان دل کے رگ و ریشہ میں داخل ہو جائے اُس وقت انسان کو ملتا ہے کہ جب انسان روح القدس سے مؤیّد ہو کر ایک نئی زندگی پاوے اور جس طرح جان ہر وقت جسم کی محافظت کے لئے جسم کے اندر رہتی ہے اور اپنی روشنی اُس پر ڈالتی رہتی ہے اِسی طرح اِس نئی زندگی کی روح القدس بھی اندر آباد ہو جائے اور دل پر ہر وقت اور ہر لحظہ اپنی روشنی ڈالتی رہے اور جیسے جسم جان کے ساتھ ہر وقت زندہ ہے دل اور تمام روحانی قویٰ روح القدس کے ساتھ زندہ ہوں اِسی وجہ سے خداتعالیٰ نے بعد بیان کرنے اِس بات کے کہ ہم نے اُن کے دلوں میں ایمان کو لکھ دیا یہ بھی بیان فرمایا کہ روح القدس سے ہم نے اِن کو تائید دی کیونکہ جبکہ ایمان دلوں میں لکھا گیا اور فطرتی حروف میں داخل ہو گیا تو ایک نئی پیدائش انسان کو حاصل ہو گئی اور یہ نئی پیدائش بجُز تائید روح القدس کے ہرگز نہیں مل سکتی۔ رُوح القدس کا نام اِسی لئے روح القدس ہے کہ اُس کے داخل ہونے سے ایک پاک روح انسان کو مل جاتی ہے۔قرآن کریم روحانی حیات کے ذکر سے بھرا پڑا ہے اور جا بجا کامل مومنوں کا نام احیاء یعنی زندے اور کُفار کا نام اموات یعنی مُردے رکھتا ہے۔ یہ اِسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ کامل مومنوں کو روح القدس کے دخول سے ایک جان مل جاتی ہے اور کُفار گو جسمانی طور پر حیات رکھتے ہیں مگر اُس حیات سے بے نصیب ہیں جو دل اور دماغ کو ایمانی زندگی بخشتی ہے۔
اِس جگہ یاد رکھنا چاہیے کہ اِس آیت کریمہ کی تائید میں احادیث نبویہ میں جا بجا بہت کچھ ذکر ہے اور صحیح بخاری میں ایک حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے ہے اور وہ یہ ہے۔ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وضع لحسان ابن ثابت منبرا فی المسجد فکان ینافح عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰھم ایّد حسان بروح القدس کما نافح عن نبیّک۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسّان بن ثابت کے لئے مسجد میں منبر رکھا اور حسّان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کفار سے جھگڑتا تھا اور اُن کی ہجو کا مدح کے ساتھ جواب دیتا تھا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسّان کے حق میں دعا کی اور فرمایا کہ یا الٰہی حسّان کی روح القدس کے ساتھ یعنی جبرائیل کے ساتھ مدد کر اور ابو داؤد نے بھی ابن سیرین سے اور ایسا ہی جامع ترمذی نے بھی یہ حدیث لکھی ہے اور اُس کو حسن صحیح کہا ہے۔ اور بخاری اور مسلم میں بطول الفاظ یہ حدیث بھی موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسّان کو کہا اجب عنِّی اللّٰھم ایّدہ بروح القدس۔ یعنی میری طرف سے ( اے حسّان) کفار کو جواب دے یا الٰہی اس کی روح القدس سے مدد فرما۔ ایسا ہی حسّان کے حق میں ایک یہ بھی حدیث ہے ھاجھم وجبرائیل معک یعنی اے حسّان کفار کی بدگوئی کا بدگوئی کے ساتھ جواب دے اور جبرائیل تیرے ساتھ ہے۔
اب ان احادیث سے ثابت ہوا کہ حضرت جبرائیل حسّان کے ساتھ رہتے تھے اور ہر دم اُن کے رفیق تھے۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن، جلد ۵، صفحہ ۹۹-۱۰۴)
ایک اورجگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اور یہ جو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے ایمان ان کے دل میں اپنے ہاتھ سے لکھا اور روح القدس سے ان کی مدد کی۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کو سچی طہارت اور پاکیزگی کبھی حاصل نہیں ہو سکتی جب تک آسمانی مدد اس کے شامل حال نہ ہو۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن، جلد ۱۰ صفحہ ۳۷۹-۳۸۰)
اب خاکسار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے روح القدس کے بارے میں چند مزید اقتباس پیش کرتا ہے کہ کیسے انسان روح القدس سے طاقت حاصل کر کے پاک ہو سکتا ہے اور کمزوریاں دور کر سکتا ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں: یاد رکھو کہ قرآن سے دل اطمینان پکڑتے ہیں جو لوگ قرآن کے تابع ہو جائیں اُن کے دلوں میں ایمان لکھا جاتا ہے اور روح القدس انہیں ملتا ہے۔ روح القدس نے ہی قرآن کو اُتارا تا قرآن ایمانداروں کے دلوں کو مضبوط کرے اور مسلمین کیلئے ہدایت اور بشارت کا نشان ہو۔ ہم نے ہی قرآن کو اُتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں، یعنی کیا صورت کے لحاظ سے اور کیا خاصیت کے لحاظ سے ہمیشہ قرآن اپنی حالت اصلی پر رہے گا اور الٰہی حفاظت کا اس پر سایہ ہوگا۔ (روحانی خزائن، جلد۴، صفحہ ۴۳۰)
اور جب محبتِ الٰہی بندہ کی محبت پر نازل ہوتی ہے تب دونوں محبتوں کے ملنے سے روح القدس کا ایک روشن اور کامل سایہ انسان کے دل میں پیدا ہوجاتا ہے اور لقا کے مرتبہ پر اس روح القدس کی روشنی نہایت ہی نمایاں ہوتی ہے اور اقتداری خوارق جن کا ابھی ہم ذکر کر آئے ہیں اسی وجہ سے ایسے لوگوں سے صادر ہوتے ہیں کہ یہ روح القدس کی روشنی ہر وقت اور ہر حال میں ان کے شامل حال ہوتی ہے اور اُن کے اندر سکونت رکھتی ہے اور وہ اُس روشنی سے کبھی اور کسی حال میں جدا نہیں ہوتے اور نہ وہ روشنی ان سے جدا ہوتی ہے۔ (روحانی خزائن، جلد ۴ صفحہ ۷۲)
آپؑ سورہ المومنون کی ابتدائی آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں: پھر بعد اس کے روحانی پیدائش کا چھٹا درجہ ہے جو مصداق ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ (المومنون:۱۵) کا ہے۔ وہ مرتبہ بقا ہے جو فنا کے بعد ملتا ہے جس میں روح القدس کامل طور پر عطا کیا جاتا ہے اور ایک روحانی زندگی کی روح انسان کے اندر پھونک دی جاتی ہے۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۰۷ حاشیہ در حاشیہ)
پھر سورہ النجم کی آیات وَمَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی۔ اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰیکی تفسیر میں آپؑ فرماتے ہیں:اور اس کلام اور الہام میں فرق یہ ہے کہ الہام کا چشمہ تو گویا ہر وقت مقرب لوگوں میں بہتا ہے اور وہ روح القدس کے بلائے بولتے اور روح القدس کے دکھائے دیکھتے اور روح القدس کے سنائے سنتے اور ان کے تمام ارادے روح القدس کے نفخ سے ہی پیدا ہوتے ہیں اور یہ بات سچ اور بالکل سچ ہے کہ وہ ظلّی طور پر اس آیت کا مصداق ہوتے ہیں وَمَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی۔ اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ( النجم۴-۵)۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵صفحہ ۲۳۱)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مطابق تو نیک آدمی کے دل پر روح القدس روشنی ڈالتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’نیک آدمی ایک پاک خیال کے ساتھ سوچتا ہے۔ اور اس کا حکمت اور حق کے ساتھ کلام ہوتا ہے نہ ٹھٹھے اور ہنسی کے رنگ میں اور وہ صداقت اور انصاف کے پاک جذب سے بولتا ہے نہ غضب اور غصہ کی کشش سے اس لئے خدا اس کی مدد کرتا ہے اور روح القدس اس کے دل پر روشنی ڈالتا ہے۔‘‘ (ضیاء الحق، روحانی خزائن جلد ۹صفحہ ۲۷۹)
’’اے نادانو! وہ جو خود اندھا ہے وہ تمہیں کیا راہ دکھائے گابلکہ سچا فلسفہ روح القدس سے حاصل ہوتا ہے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے۔ تم روح کے وسیلہ سے ان پاک علوم تک پہنچائے جاؤ گے جن تک غیروں کی رسائی نہیں اگر صدق سے مانگو تو آخر تم اُسے پاؤ گے۔‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۲۴)
روح القدس کی تائید سے انسانوں کی کمزوری دور ہو سکتی ہے اور وہ ترقی کر سکتے ہیں خدا کی محبت پیدا کر سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس ضمن میں فرماتے ہیں: ’’ایک آسمانی فرشتوں کے لئے قضاو قدر کا قانون ہے کہ وہ بدی کر ہی نہیں سکتے اور ایک زمین پر انسانوں کے لئے خدا کے قضاء وقدر کے متعلق ہے اور وہ یہ کہ آسمان سے اُن کو بدی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے مگر جب خدا سے طاقت طلب کریں یعنی استغفار کریں تو روح القدس کی تائید سے ان کی کمزوری دور ہو سکتی ہے اور وہ گناہ کے ارتکاب سے بچ سکتے ہیں جیسا کہ خدا کے نبی اور رسول بچتے ہیں اور اگر ایسے لوگ ہیں کہ گنہگار ہو چکے ہیں تو استغفار اُن کو یہ فائدہ پہنچاتا ہے کہ گناہ کے نتائج سے یعنی عذاب سے بچائے جاتے ہیں کیونکہ نور کے آنے سے ظلمت باقی نہیں رہ سکتی۔(کشتی نوح، روحانی خزائن، جلد ۱۹، صفحہ ۳۴)
’’یہ بھی یادرکھو کہ حقیقی اخلاق فاضلہ جن کے ساتھ نفسانی اغراض کی کوئی زہریلی آمیزش نہیں وہ اوپر سے بذریعہ روح القدس آتے ہیں سو تم ان اخلاق فاضلہ کو محض اپنی کوششوں سے حاصل نہیں کر سکتے جب تک تم کو اوپر سے وہ اخلاق عنایت نہ کئے جائیں اور ہر ایک جو آسمانی فیض سے بذریعہ روح القدس اخلاق کا حصہ نہیں پاتا وہ اخلاق کے دعویٰ میں جھوٹا ہے اور اس کے پانی کے نیچے بہت سا کیچڑ ہے اور بہت سا گوبر ہے جو نفسانی جوشوں کے وقت ظاہر ہوتا ہے سو تم خدا سے ہر وقت قوت مانگو جو اُس کیچڑ اور اُس گوبر سے تم نجات پاؤ اور روح القدس تم میں سچی طہارت اور لطافت پیدا کرے یاد رکھو کہ سچے اور پاک اخلاق را ستبازوں کا معجزہ ہے جن میں کوئی غیر شریک نہیں کیونکہ وہ جو خدا میں محو نہیں ہوتے وہ اوپر سے قوت نہیں پاتے اس لئے اُن کے لئے ممکن نہیں کہ وہ پاک اخلاق حاصل کر سکیں سو تم اپنے خدا سے صاف ربط پیدا کرو۔ ٹھٹھا،ہنسی، کینہ وری، گندہ زبانی، لالچ، جھوٹ، بدکاری، بدنظری، بد خیالی، دنیا پرستی، تکبر، غرور، خود پسندی، شرارت، کج بحثی، سب چھوڑ دو۔ پھر یہ سب کچھ آسمان سے تمہیں ملے گا۔ جب تک وہ طاقت بالا جو تمہیں اوپر کی طرف کھینچ کر لے جائے تمہارے شامل حال نہ ہو اور روح القدس جو زندگی بخشتا ہے تم میں داخل نہ ہو تب تک تم بہت ہی کمزور اور تاریکی میں پڑے ہوئے ہو بلکہ ایک مُردہ ہو جس میں جان نہیں اس حالت میں نہ تو تم کسی مصیبت کا مقابلہ کر سکتے ہو نہ اقبال اور دولت مندی کی حالت میں کبر اور غرور سے بچ سکتے ہو اور ہر ایک پہلو سے تم شیطان اور نفس کے مغلوب ہو سو تمہارا علاج تو درحقیقت ایک ہی ہے کہ روح القدس جو خاص خدا کے ہاتھ سے اُترتی ہے تمہارا منہ نیکی اور را ستبازی کی طرف پھیر دے۔‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۴۵)
’’پس تم یاد رکھو کہ بغیر یقین کے تم تاریک زندگی سے باہر نہیں آ سکتے اور نہ روح القدس تمہیں مل سکتا ہے۔ مبارک وہ جو یقین رکھتے ہیں کیونکہ وہی خدا کو دیکھیں گے۔ مبارک وہ جو شبہات اور شکوک سے نجات پا گئے ہیں کیونکہ وہی گناہ سے نجات پائیں گے۔ مبارک تم جب کہ تمہیں یقین کی دولت دی جائے کہ اس کے بعد تمہارے گناہ کا خاتمہ ہوگا۔‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ ۶۶)
’’خدا نے قدیم سے اور جب سے کہ انسان کو پیدا کیا ہے یہ سنّت جاری کی ہے کہ وہ پہلے اپنے فضل عظیم سے جس کو چاہتا ہے اُس پر رُوح القدس ڈالتا ہے اور پھر روح القدس کی مدد سے اس کے اندر اپنی محبت پیدا کرتا ہے اور صدق و ثبات بخشتا ہے اور بہت سے نشانوں سے اس کی معرفت کو قوی کر دیتا ہے اور اس کی کمزوریوں کو دُور کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ سچ مچ اس کی راہ میں جان دینے کو طیار ہوتا ہے اور اس کا اُس ذات قدیم سے کچھ ایسا غیر منفک تعلق ہو جاتا ہے کہ وہ تعلق کسی مصیبت سے دُور نہیں ہو سکتا اور کوئی تلوار اس علاقہ کو قطع نہیں کر سکتی اور اس محبت کا کوئی عارضی سہارا نہیں ہوتا۔ نہ بہشت کی خواہش نہ دوزخ کا خوف۔ نہ دنیا کا آرام اور نہ کوئی مال و دولت بلکہ ایک لامعلوم تعلق ہے۔ ‘‘ (لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ ۲۲۴-۲۲۵)
’’چاہئے کہ تم بھی ہمدردی اور اپنے نفسوں کے پاک کرنے سے روح القدس سے حصہ لو کہ بجز روح القدس کے حقیقی تقویٰ حاصل نہیں ہو سکتی۔‘‘(الوصیت، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۳۰۷)
’’لوگوں نے ابدال کے معنی سمجھنے میں غلطی کھائی ہے اور اپنے طور پر کچھ کا کچھ سمجھ لیا ہے۔اصل یہ ہے کہ ابدال وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرتے ہیں اور اس تبدیلی کی وجہ سے ان کے قلب گناہ کی تاریکی اور زنگ سے صاف ہو جاتے ہیں۔شیطان کی حکومت کا استیصال ہو کر اللہ تعالیٰ کا عرش ان کے دل پر ہوتا ہے۔پھر وہ روح القدس سے قوت پاتے اور خدا تعالیٰ سے فیض پاتے ہیں۔تم لوگوں کو میں بشارت دیتا ہوں کہ تم میں سے جو اپنے اندر تبدیلی کرے گا،وہ ابدال ہے۔انسان اگر خدا کی طرف قدم اٹھائے،تواللہ تعالیٰ کا فضل دوڑ کر اس کی دستگیری کرتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد۱ صفحہ ۲۸۴، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
’’کسی شخص کا سوال پیش ہوا کہ آپؑ نے جبرائیل کے متعلق جو تحریر کی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کا خیال بھی سید احمد کی طرح ہے کہ روح الامین انسان کے اندر ہی ہے اور اس کے سوائے کوئی اَور روح القدس اور جبرائیل نہیں۔ فرمایا: یہ بالکل غلط ہے۔ سید احمد کے ساتھ اس معاملہ میں ہمارے خیال کو کوئی مطابقت نہیں۔ ہمارا منشاء یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ کی طرف سے روح الامین کا نزول انسان پر اس وقت ہوتا ہے جبکہ انسان خود تقدس اور تطہر کے درجہ کو حاصل کر کے اپنے اندر بھی ایک حالت پیدا کرتا ہے جو نزول روح الامین کے قابل ہوتی ہے۔ اس وقت گویا ایک روح الامین ادھر ہوتاہے تب ایک اُدھر سے آتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد ۴صفحہ ۳۲۱، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
’’چاہئے کہ تمہارے ہر ایک کام میں خواہ دنیا کا ہو خواہ دین کا خدا سے طاقت اور توفیق مانگنے کا سلسلہ جاری رہے لیکن نہ صرف خشک ہونٹوں سے بلکہ چاہئے کہ تمہارا سچ مچ یہ عقیدہ ہو کہ ہر ایک برکت آسمان سے ہی اُترتی ہے تم راست باز اُس وقت بنو گے جبکہ تم ایسے ہو جاؤ کہ ہر ایک کام کے وقت ہر ایک مشکل کے وقت قبل اس کے جو تم کوئی تدبیر کرو اپنا دروازہ بند کرو اور خدا کے آستانہ پر گرو کہ ہمیں یہ مشکل پیش ہے اپنے فضل سے مشکل کشائی فرما تب روح القدس تمہاری مدد کرے گی اور غیب سے کوئی راہ تمہارے لئے کھولی جائے گی۔‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۳)
آپؑ کے مطابق روح القدس کے اُترنے کا کبھی دروازہ بند نہیں ہوتا۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہر یک دروازہ بند ہو جاتا ہے مگر روح القدس کے اُترنے کا کبھی دروازہ بند نہیں ہوتا تم اپنے دلوں کے دروازے کھول دو تا وہ ان میں داخل ہو۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۵)
اس مضمون کا اختتام خاکسار اس دعا پر کرتا ہے۔
اَللّٰھُمَّ اَیِّدْ اِمَامَنَا بِرُوْحِ الْقُدُسِ وَ بَارِکْ لَنَا فِیْ عُمُرِہٖ وَ اَمْرِہٖ۔