غزوۂ احد میں صحابہ اور صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جاں نثاری اور شہدائے احدکے بلند مقام کا ایمان افروز تذکرہ۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۱۲؍اپریل ۲۰۲۴ء
٭…تم صحابیات کی بروز ہو لیکن تم صحیح طور پر بتاؤ کہ کیا تمہارے اندر دین کی خدمت کا وہی جذبہ موجزن ہے جو صحابیات میں تھا؟(حضرت مصلح موعودؓ)
٭…یہ ایسے واقعات ہیں کہ جو باربار اور مختلف انداز میں سُن کر ایک عجیب ایمان کی کیفیت اور جوش پیدا ہوتا ہے
٭… جب مجھے احد کے شہداء یاد آتے ہیں تو خدا کی قسم! مجھے یہ خواہش ہوتی ہے کہ کاش مَیں بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پہاڑ کے درّے میں ہی رہ گیا ہوتا (حدیث)
٭…دنیا کے حالات نیز یمن کے اسیران راہِ مولیٰ کے لیے دعاؤں کی تحریک
٭…مکرم مصطفیٰ احمدخان صاحب ابن حضرت نواب عبد اللہ خان صاحبؓ نیز ڈاکٹر میر داؤد احمد صاحب آف امریکہ کی وفات پر ان کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۲؍اپریل۲۰۲۴ء بمطابق۱۲؍شہادت ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۲؍اپریل ۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد، تعوذاور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:رمضان سے پہلے خطبات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کا ذکر ہو رہا تھا۔ جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بھی بیان تھا، آج بھی مَیں اس حوالے سے کچھ بیان کروں گا۔
روایت میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن معاذ ؓکی والدہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو سعدؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ میری والدہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت گھوڑے پر سوار تھے آپ نے اپنا گھوڑا روک لیا اور فرمایا کہ ان کا استقبال کرو۔ وہ قریب آئیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے لگیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بیٹے حضرت عمرو بن معاذ ؓکی شہادت پر تعزیت فرمائی تو انہوں نے کہا کہ جب مَیں نے آپ کو صحیح سلامت دیکھ لیا تو میرا غم اور مصیبت سب ختم ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تمہیں خوش خبری ہو اور باقی سب شہداء کے لواحقین کو بھی یہ خوش خبری دے دو کہ یہ سب مقتولین جنت میں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں اور سب نے اپنے اپنے گھر والوں کے لیے بھی حق تعالیٰ سے شفاعت اور سفارش کی ہے۔
امِّ سعدؓ نے عرض کیا کہ ہم سب راضی ہیں اور اس خوش خبری کے بعد بھلا کون ان پر رو سکتا ہے۔ پھر انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ سب شہیدوں کے پسماندگان کے لیے دعا کریں۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ
اے اللہ! ان کے دلوں سے غم و الم کو مٹا دے۔ ان کی مصیبتوں کو دُور فرمادے اور شہیدوں کے جانشینوں کو ان کا بہترین جانشین بنادے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اہلِ مدینہ کی اس فدائیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اب دیکھو! کہ وہ عورت جس کا بڑھاپے میں عصائے پیری ٹوٹ گیا تھا، کس بہادری سے کہتی ہے کہ میرے بیٹے کی موت کے غم نے مجھے کیا کھانا ہے جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو مَیں اس غم کو بھون کر کھا جاؤں گی۔
ایک دوسرے موقعے پر اسی واقعے کا ذکر کرکے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے انصار! میری جان تم پر فدا ہو تم کتنا ثواب لے گئے۔
اسی طرح صحابیاتؓ کی قربانیوں کے تناظر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ایک موقعے پر احمدی خواتین کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ یہی وہ عورتیں تھیں جو اسلام کی اشاعت اور تبلیغ میں مردوں کے دوش بدوش چلتی تھیں اور یہی وہ عورتیں تھیں جن پر اسلامی دنیا فخر کرتی ہے۔ تمہارا بھی دعویٰ ہے کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائی ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز ہیں گویا دوسرے لفظوں میں تم صحابیات کی بروز ہو لیکن تم صحیح طور پر بتاؤ کہ کیا تمہارے اندر دین کی خدمت کا وہی جذبہ موجزن ہے جو صحابیات میں تھا؟
حضورِ انور نے فرمایا کہ بعض واقعات کا گو پہلے ذکر ہو چکا ہے، جیسے یہ واقعہ، اس کا بھی پہلے ذکر ہوچکا ہے، لیکن
یہ ایسے واقعات ہیں کہ جو باربار اور مختلف انداز میں سُن کر ایک عجیب ایمان کی کیفیت اور جوش پیدا ہوتا ہے۔
قرونِ اولیٰ کی ان جاںنثار صحابیاتؓ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ عیسائی دنیا مریم مگدلینی اور اس کی ساتھی خواتین کی اس بہادری پر خوش ہے کہ وہ صبح کے وقت دشمن سے چھپ کر مسیح کی قبر پر پہنچی تھیں مگر مَیں ان سے کہتا ہوں کہ
آؤ! اور ذرا میرے محبوب کے مخلصوں اور فدائیوں کو دیکھو کہ کن حالتوں میں انہوں نے اس کا ساتھ دیا اور کن حالتوں میں انہوں نے توحید کے جھنڈے کو بلند کیا۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ احد کے بعد مدینے پہنچے تو منافقین اور یہود خوشیاں منانے اور مسلمانوں کو برا بھلا کہنے لگے اور کہنے لگے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بادشاہت کے طلب گار ہیں (نعوذ باللہ) اور کسی نبی نے آج تک اتنا نقصان نہیں اٹھایا جتنا انہوں نے اٹھایا ہے۔ خود بھی زخمی ہوئے اور ان کے صحابہ ؓبھی زخمی ہوئے اور کہتے تھے کہ اگر تمہارے وہ لوگ جو قتل ہوئے ہمارے ساتھ رہتے تو کبھی قتل نہ ہوتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسی باتیں کرنے والے منافقین کے قتل کی اجازت چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا وہ اس شہادت کا اظہار نہیں کرتے کہ اللہ کے سِوا کوئی معبود نہیں اور مَیں اللہ کا رسول ہوں؟ کیا یہ لوگ کلمہ نہیں پڑھتے؟ حضرت عمرؓ نے کہا کہ کیوں نہیں! کلمہ تو پڑھتے ہیں مگر تلوار کے خوف سے، ورنہ منافقانہ باتیں کیوں کرتے۔ اب ان کا معاملہ ظاہر ہوگیا ہے، اور ان کے دل کی بات نکل گئی ہے، اور اللہ نے ان کے کینوں کو ظاہر کردیا ہے اب ان سے انتقام لینا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
جس نے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہا مجھے اس کے قتل سے منع کیا گیا ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ بات ان نام نہاد علماء کا منہ بند کرنے کے لیے کافی ہے جو احمدیوں کے بارے میں باوجود اس کے کہ احمدیوں میں منافقت کا شائبہ تک نہیں، پھر بھی انہیں کافر قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا قتل جائز ہے۔ ان نام نہاد علماء نے اسلام کو بدنام کیا ہوا ہے۔
احد کے شہداء کے جنازے کے متعلق بخاری کی روایت ہے جس سے ان شہداء کے مقام اور مرتبے کا پتا چلتا ہے۔
عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ سال بعد احد کے شہداء کی نمازِ جنازہ پڑھی۔ پھر منبر پر چڑھے اور فرمایا کہ
مَیں تمہارے آگے پیش رَو ہوں گا اور مَیں تُم پر گواہ ہوں گا۔ تم سے ملنے کی جگہ حوض ہے اور مَیں اسے اپنے اس کھڑے ہونے کی جگہ سے دیکھ رہا ہوں اور تمہارے متعلق مجھے یہ ڈر نہیں کہ تم شرک کرو گے مگر مجھے تمہارے متعلق دنیا کا ڈر ہے کہ تم اس کے لیے ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے لگو گے۔
حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ
جب مجھے احد کے شہدا ءیاد آتے ہیں تو خدا کی قسم! مجھے یہ خواہش ہوتی ہے کہ کاش مَیں بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پہاڑ کے درّے میں ہی رہ گیا ہوتا یعنی ان کے ساتھ ہی شہید ہوگیا ہوتا۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے شہداء کی قبروں کی زیارت کی اور یہ دعا کی کہ اے اللہ! بےشک مَیں تیرا بندہ اور نبی یہ گواہی دیتا ہوں کہ یہ لوگ شہید ہیں۔ جو ان کی زیارت کرے اور قیامت کے دن تک سلام بھیجے تو یہ اس کا جواب دیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احد کے لیے فرمایا کہ
یہ وہ لوگ ہیں جن کا مَیں گواہ ہوں۔
روایت میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال کے شروع میں شہدائے احد کی قبروں کی زیارت کے لیے تشریف لے جایا کرتے۔ راوی کہتے ہیں کہ بعد میں حضرت ابوبکرؓ اور پھر حضرت عمر ؓاور پھر حضرت عثمانؓ بھی اسی طرح ان شہداء کی قبروں پر تشریف لے جایا کرتے تھے۔
حضرت بِشؓر کے والد احد میں شہید ہوگئے تھے۔ وہ اپنے والد کے لیے رو رہے تھے تب ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے اور فرمایا کہ خاموش ہوجاؤ! کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ مَیں تمہارا باپ بن جاتا ہوں اور عائشہ تمہاری ماں۔ بِشر نے عرض کی کیوں نہیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس سے بڑھ کر اور خوشی کی کیا بات ہوگی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
جب حضرت بِشرؓ بوڑھے ہوگئے تو سارا سر سفید ہوگیا مگر وہ حصہ جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دستِ مبارک رکھا تھا بالوں کا وہ حصہ سیاہ ہی رہا۔ حضرت بِشرؓ کی زبان میں لکنت تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دم کیا تو لکنت جاتی رہی۔
یہ ذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فلسطین اور دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے متعلق دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ دعائیں جاری رکھیں۔ حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ ایران پر بھی حملہ ہو اور پھر یہ جنگ مزید پھیلے۔
یمن کے اسیران کا ذکر کرتے ہوئے حضورِ انور نے فرمایا کہ اکثر اسیران کی کل رہائی کی خبر آئی ہے۔ جو چند اسیران رہ گئے ہیں ان کے لیے بھی دعا کریں کہ حکّام کے دل ان کی طرف سے صاف ہوں۔ خاص کر ایک خاتون جو صدر لجنہ ہیں وہ اسیری میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی بھی جلد رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔ آمین۔مزید تفصیل کے لیے حسب ذیل لنک ملاحظہ کریں:
https://www.alfazl.com/2024/04/12/94546/
خطبے کے دوسرے حصے میں حضورِ انور نے درج ذیل دو مرحومین کی نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان کیا اور ان کا ذکرِ خیر فرمایا:
۱۔ مکرم مصطفیٰ احمد خان صاحب ابن حضرت نواب عبداللہ خان صاحبؓ اور حضرت نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ۔ آپ گذشتہ دنوں وفات پاگئے تھے انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب سے چھوٹے نواسے تھے۔ مرحوم موصی تھے۔ ۱۹۶۶ء میں سوئی ناردرن گیس کمپنی میں بطور سینئر جنرل مینیجر ملازمت شروع کی اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اسی کمپنی میں ڈائریکٹر بن گئے۔ بڑے غریب پرور، رشتے نبھانے والے، غریبوں کے علاج معالجے کا انتظام کرنے والے، مہمان نواز، نافع الناس، احسان کا سُلوک کرنے والے، عمدہ اخلاق کے مالک تھے۔
۲۔ مکرم ڈاکٹر میر داؤد احمد صاحب۔ آپ گذشتہ دنوں امریکہ میں وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ ڈاکٹر میر مشتاق احمد صاحب اور بلقیس بیگم صاحبہ کے بیٹے تھے۔ مرحوم نے ورلڈ بینک میں پینتیس سال بطور سینئر ڈیویلپمنٹ پروفیشنل خدمات سر انجام دیں۔ امریکہ کی جماعت کے ابتدائی ممبران میں سے تھے۔ آپ کو نیشنل سیکرٹری جائیداد امریکہ کے طور پر خدمت کا موقع ملا۔ مسجد بیت الرحمٰن کی تعمیر اور خاص کر توسیع کے منصوبے میں بہت کام کیا۔ مرحوم بڑی عاجزی سے کام کرنے والے، خوش اخلاق، نامساعد حالات میں تبلیغ کرنے والے، مالی قربانی کرنے والے، مہمان نواز شخصیت کے مالک تھے۔
حضورِ انور نے مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔
٭…٭…٭