اداریہ

وقت ہے توبہ کرو جلدی مگر کچھ رحم ہو!

’’میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا۔ جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دُور نہیں۔‘‘(حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)

اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری گویا ’یک طرفہ‘ جنگ نے ایک خطرناک صورت اُس وقت اختیار کر لی جب یکم اپریل کو اسرائیل نے شام میں موجود ایرانی سفارت خانے پر میزائل داغ دیے۔ اسرائیل اس حملے کی جو بھی وجوہات بیان کرے، سٹریٹیجک تجزیہ نگار اس حملے کے پیچھے کارفرما ممکنہ عوامل میں سے ایک یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ نتن یاہو ایک عرصے سے ایران پر حملہ کرنے کے لیے کسی بہانے کی تلاش میں تھے تاکہ اپنے اتحادی امریکہ اور دیگر ممالک کو ایران سے برسرِپیکار کر دیں اور دنیا کی توجہ اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر کیے جانے والے حملوں سے ہٹ جائے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایران کی جانب سے اس حملے کا جواب دیاجانا معاملات کو مزید پیچیدہ کر سکتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ ۵؍ اور پھر ۱۲؍ اپریل ۲۴ء کے چند جملوں میں حالاتِ حاضرہ کا تجزیہ فرما کر دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔ فرمایا کہ جنگ عظیم تو شروع ہو چکی ہے۔ فلسطین کی سرحدوں سے اب یہ جنگ باہر نکل گئی ہے۔ اسرائیل نے سیریا میں ایران کے سفارت خانے پر جو حملہ کیا ہے یہ کسی بھی قانون کے تحت ایک بہت بڑا جرم ہے۔ …خطرہ ہے ایران پر بھی حملہ ہو اور پھر مزید جنگ پھیلے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔

چنانچہ ویسا ہی ہوا جیسا حضورِانور نے فرمایا۔ ۱۳؍ اپریل کی شام یہ خبر آئی کہ ایران نے اسرائیل پر میزائلوں اور ڈرونز سے براہِ راست حملہ کر دیا ہے۔ ساری رات بین الاقوامی میڈیا اس غیرمعمولی خبر کی کوریج کرتا رہا۔ ڈرونز اور میزائل کتنی دیر میں اسرائیل کی فضا تک پہنچے، اُن میں سے کتنے امریکہ، فرانس، برطانیہ اور اردن کی افواج نے راستے میں مار گرائے، کتنے اسرائیل پہنچ پائے اور پھر ان باقی ماندہ وارہیڈز میں سے کتنے اسرائیل کے حفاظتی نظام نے فضا میں ہی ناکارہ کر دیے اور کتنے اسرائیل میں آگرے اور اُن سے کتنا نقصان ہوا، یہ ایک الگ بحث ہے۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ جنگ مزید پھیل رہی ہے۔ اس وقت ایران اور اسرائیل کا حساب برابر ہے یعنی اسرائیل نے ایران کے سفارت خانے پر حملہ کیا جس کے جواب میں ایران نے اسرائیل پر حملہ کر کے حساب چکتا کر دیا۔ ایران کے مطابق اس کا یہ حملہ اقوامِ متحدہ کےچارٹر میں موجود آرٹیکل ۵۱؍ کے عین مطابق اسرائیل کی جانب سے دمشق میں قائم ایرانی سفارت خانے پر کیے جانے والے حملے کے جواب میں اپنے دفاع کے لیے کیا گیا ہےاور اس معاملے کو یہاں ختم سمجھا جائے۔ لیکن اگر اسرائیل نے ایسی غلطی دوبارہ کی تو اُس کا جواب زیادہ سختی کے ساتھ دیا جائے گا۔ نیز ایران نے اسرائیل کے ساتھ ہونے والے اس تنازعے سے امریکہ کو کنارہ کش رہنے کی تجویز دی ہے۔ یاد رہے کہ تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ایران نے اپنی سرزمین سے براہِ راست اسرائیل پر حملہ کیا ہے۔

اسرائیل کی وار کیبنٹ آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کر رہی ہے۔ خبروں کے مطابق اسرائیل کے اتحادیوں نے اسے عندیہ دیا ہے کہ اگر اُس نے ایران پر مزید حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو وہ اُس کا ساتھ نہیں دیں گے۔

خبررساں ادارے روئیٹرز کی طرف سے شائع کی جانے والی ایک حیرت انگیز خبر یہ بھی ہے کہ اقوامِ متحدہ میں تعینات اسرائیلی مستقل مندوب گیلاد ایردان (Gilad Erdan)نے ہفتے کے روز سیکیورٹی کونسل کے صدر، مالٹا کو لکھے جانے والے ایک خط میں انہیں جلد از جلد سیکیورٹی کونسل کی میٹنگ رکھنے کی استدعا کی۔ اپنے خط میں گیلاد نے لکھا کہ ایران کے حملے کی وجہ سے دنیا کے امن وامان کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ سیکیورٹی کونسل ایران کے خلاف مؤثر اقدامات کرنے کی ہرممکنہ کوشش بروئے کار لائے گی۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس خبر کو ’حیرت انگیز‘ کیوں کہا گیا؟ وہ اس لیے کہ گیلاد ایردان جس ملک کے مندوب ہیں وہ اسی سیکیورٹی کونسل کی جانب سے منظور کی جانے والی غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد پر جسے ’بدقسمتی‘ سے اُس کے کسی اتحادی نے ویٹو بھی نہیں کیا ٹھیک تین ہفتے گزر جانے کے باوجود دُور دور تک عمل کرتا دکھائی نہیں دے رہا! پندرہ میں سے چودہ ارکان کی جانب سے منظور ہونے والی سیکیورٹی کونسل کی ایک انتہائی اہم قرارداد سے جس ملک کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، وہ کس منہ سے اسی سیکیورٹی کونسل سے اپنی دادرسی کا مطالبہ کر رہا ہے! یاد رہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر کیے جانے والے بے دریغ حملوں میں اس وقت تک لگ بھگ چونتیس ہزارافراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں اور شہید ہونے والوں میں ستر فی صد تعداد معصوم عورتوں اور بچوں کی ہے۔

اسرائیل کے مندوب کی درخواست پر اگلے ہی روز سیکیورٹی کونسل کی میٹنگ رکھ لی گئی۔ ۱۴؍ اپریل کو ہونے والی اس میٹنگ میں اکثر ممبران بشمول اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس نے خطے میں امن کے فروغ پر زور دیتے ہوئے ایران اور اسرائیل دونوں کے جارحانہ اقدامات کی مذمّت کی اور غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ایران کو مزید کوئی کارروائی کرنے سے خبردار کیا گیا جبکہ ایران نے اس امر کا اظہار کرتے ہوئے کہ وہ معاملات کو نہ تو مزید ہوا دینا چاہتا ہے اور نہ ہی جنگ کا خواہش مند ہے یہ موقف اختیار کیا کہ اگر ایران پر، اس کے شہریوں پر یا اُس کے مفادات پر حملہ کیا گیا تو اُسے اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے۔ اسرائیل کے مندوب نے ایران پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے اس پر پابندیاں عائد کرنے کی استدعا کی۔ یہ الگ بات ہے کہ دنیا اس بات کا شدت سے انتظار کر رہی ہے کہ کب اقوامِ متحدہ کی جانب سے ایران کے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور اقوامِ متحدہ کی قرارداد پر عمل نہ کرنے کی پاداش میں اسرائیل پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ؎

ایں خیال است و محال است و جنوں!

اس وقت دنیا میں امن و امان کی صورتِ حال نہایت مخدوش ہے۔ ۱۹۳۹ء کی طرح یو این غیر مؤثر نظر آتی ہے۔ نتیجۃً دنیا تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ذمہ دار افراد ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ ایک معمولی سی غلطی بڑے پیمانے پر جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہےاور اُس جنگ کے کیا نتائج ہوں گے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔

امام جماعت احمدیہ مسلمہ حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک حاذق طبیب کی طرح جو بظاہر چنگے بھلے آدمی کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس کے اندر پنپنے والی خطرناک بیماریوں کی تشخیص کر کے بروقت علاج تجویز کر دیتا ہے، ایک عرصے سے دنیا کو ان خطرناک حالات سےمتنبہ فرمانے کے ساتھ ساتھ ان کا علاج بھی تجویز فرما رہے ہیں۔ دنیا تجویز کردہ علاج سےفائدہ اٹھائے یا نہ اٹھائے، طبیب نے اپنا کام کر دیا!

اگر دنیا میں حقیقی انصاف قائم نہ کیا گیا تو دنیا کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ اور حقیقی انصاف کا قیام انسان کے اپنے خالق اور قادر ربّ اور اُس کے بھیجے ہوئے فرستادے پر ایمان لائے بغیر، اُس خدا کی امان میں آئے بغیر ممکن نہیں۔

امامِ وقتؑ نے دنیا کو ان حالات سے سوا صدی قبل ایسے متنبہ فرما دیا تھا گویا وہ اپنی آنکھوں سے انہیںدیکھ رہے ہوں! فرمایا ’’اے یورپ! تُو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا! تُو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دُور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اِس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے۔ نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے۔ جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ۔‘‘ (حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۲۶۹)

اللہ تعالیٰ اس دنیا کے فیصلہ سازوں کو درست فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب خدا کی امان کے نیچے جگہ پانے والے ہوں۔ بالفاظِ حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانیت کو بچا لے اور ہمیں دعاؤں میں بھی اپنا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button