خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:ہزاروں خطوط ہیں جو ہر مہینے مجھے آتے ہیں اس بات کے اظہار کے لیے کہ لکھنے والوں کا کس قدر جماعت سے اخلاص و وفا کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ خود لوگوں کو کس طرح خلافت کے ساتھ جوڑتا ہے اور کس طرح ان کے دلوں میں خلافت سے محبت اور تعلق پیدا کر دیتا ہے۔اس وقت میں بعض خطوط کے نمونے آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعودؑ کی سچائی کی طرف لوگوں کی راہنمائی کرتا ہے اور پھر یہ بات بھی لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے بعد آپؑ کی خلافت کا جو جاری نظام ہے یہ خدا تعالیٰ کی خاص تائید لیے ہوئے ہے۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خداتعالیٰ کی دوقدرتوں کےظہورکی کیاتفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو جب یہ خبر دی کہ آپ کا اس دنیا سے رخصت ہونے کا وقت قریب ہے تو آپؑ نے جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:اللہ تعالیٰ دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے۔ (۱) اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے (۲)دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتےہیں۔تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔ پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے وقت میں ہوا جب کہ آنحضرت ﷺ کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے۔ تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا(النور:۵۶) یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے۔ ایسا ہی حضرت موسیٰؑ کے وقت میں ہوا جب کہ حضرت موسیٰؑ مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اِس سے جو بنی اسرائیل کو وعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچا دیں فوت ہوگئے اور بنی اسرائیل میں ان کے مرنے سے ایک بڑا ماتم برپا ہوا جیساکہ توریت میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل اس بےوقت موت کے صدمہ سے اور حضرت موسیٰؑ کی ناگہانی جدائی سے چالیس دن تک روتے رہے۔فرمایا ’’…سو اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا وے سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو مَیں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا۔اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیساکہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیساکہ خدا فرماتا ہے کہ میں اِس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی۔ میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اَور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہرہوں گے۔‘‘ فرمایا کہ ’’…خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے مَیں دنیا میں بھیجا گیا۔ سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے۔‘‘
سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خلفائے احمدیت کےادوار میں اٹھنے والےفتنوں کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: جب حضرت مسیح موعودؑ کا وصال ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق جماعت کو حضرت حکیم مولانا نورالدین خلیفة المسیح الاوّلؓ کے ہاتھ پر جمع کیا۔ گو بعض لوگ چاہتے تھے کہ انجمن کے ہاتھ میں انتظام رہے لیکن حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ نے آہنی ہاتھوں سے اس فتنے کا خاتمہ فرمایا۔ پھر حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ کے وصال کے بعد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانیؓ خلافت پر متمکن ہوئے۔ آپ کے خلیفہ منتخب ہونے کے وقت بھی بعض لوگ جو اپنے آپ کو علمی اور عقلی لحاظ سے بہت بڑا سمجھتے تھے انہوں نے فتنہ اٹھانے کی کوشش کی اور ان کی یہ کوشش تھی کہ انتخابِ خلافت کو اگر مکمل طور پر نہیں روکا جا سکتا تو چند ماہ کے لیے ملتوی کر دیا جائے تا کہ انہیں جماعت میں تفرقہ ڈالنے کا موقع مل جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر اپنے وعدےکے موافق مومنین کی جماعت کو ایک ہاتھ پر جمع کر دیا اور مخالفینِ خلافت اور منافقین ناکام و نامراد ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپؓ کی خلافت تقریباً باون سال کے عرصے پر محیط ہوئی اور دنیا میں مشن کھلے۔ جماعت کا انتظامی ڈھانچہ مضبوط ہوا۔ یہ سب آپؓ کے دَور میں ہوا۔ پھر آپؓ کے وصال کے بعد خلافت ثالثہ کا دَور شروع ہوا اور حضرت مرزا ناصر احمد خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی تائیدو نصرت سے خلافت کے مقام پر فائز ہوئے۔ پھر جب خدائی تقدیر کے مطابق آپؒ کا وصال ہوا تو حضرت مرزا طاہر احمد خلیفة المسیح الرابعؒ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کے چوتھے خلیفہ کے مقام پر فائز فرمایا اور پھر آپؒ کی وفات پر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مقام پر متمکن فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے باوجود میری کمزوریوں اور کمیوں کے حضرت مسیح موعودؑ سے کیے ہوئے وعدے کے مطابق جماعت کو ترقی کی راہوں پر گامزن رکھا۔ اس عرصے میں دشمن نے جماعت میں تفرقہ ڈالنے ، اسے ختم کرنے ، خوفزدہ کرنے کی بےشمار کوششیں کیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں احمدیوں کو شہید کیا گیا، دنیاوی لالچ دیے گئے لیکن اللہ تعالیٰ احمدیوں کو خلافت سے تعلق اور ایمان اوریقین میں بڑھاتا چلا گیا۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تنزانیہ کی ایک خاتون کےقبولیت احمدیت کاکیاواقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: تنزانیہ میں ایک مونزے (Mwanza) ریجن ہے۔ معلم نے وہاں سے رپورٹ دی اور لکھا کہ ایک دن نماز فجر کے بعد مبلغ کے ساتھ احبابِ جماعت سے ہم ملاقات کی غرض سے گئے۔ نماز ظہر سے قبل جب ہم مسجد واپس پہنچے تو مسجد میں سیڑھیوں پر ایک خاتون کو دیکھا۔ خیریت معلوم کرنے پر پتا چلا کہ وہ دعا کروانے آئی ہے۔ غالباً ان کا خیال تھا کہ جیسے غیر از جماعت مسلمانوں میں دم درود وغیرہ کا طریق رائج ہے ویسے ہی ہم بھی کرتے ہیں۔ افریقنوں میں بڑا رواج ہے یہ دم درود کا۔ چنانچہ مربی صاحب نے انہیں جماعتی تعلیمات سے آگاہ کیا اور ان کے لیے وہاں دعا بھی بہرحال کروائی۔ اس خاتون نے بتایا کہ مجھے خواب آتے ہیں جن میں ایک لمبی داڑھی والے گندمی رنگ کے آدمی مجھے ایسے ہی دین سمجھاتے ہیں جیسے یہ مربی صاحب نے سمجھایاہے۔ اس پر اس کو جماعتِ احمدیہ کا تعارف کرایا گیا۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ اور خلفاء کی تصاویر دکھائی گئیں۔ اس کا کہنا تھا کہ جو بزرگ انہیں خواب میں آ کر سمجھاتے ہیں ان کی شکل حضرت مسیح موعودؑ یا حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓسے ملتی ہے۔ اس کے بعد اس خاتون نے اپنے تین بچوں سمیت بیعت بھی کر لی۔ اس زمانے میں بھی خلیفةالمسیح الثانی ؓکی شکل بھی حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ دکھائی گئی۔
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انڈونیشیاکی ایک فیملی کےقبول احمدیت کاکیاواقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: انڈونیشیا کا صوبہ مغربی کالمنتان ہے۔ وہاں کے ایک علاقے کے رہائشی ہیں۔ ان کا نام عبداللہ ہے۔ انہوں نے اپنے بیوی اور بچوں کے ساتھ بیعت کی۔ ان کا جماعت سے رابطہ ۲۰۱۹ء سے تھا اور مبلغ کی باتوں سے وہ کافی متاثر تھے اس لیے ان کا مسجد آنا جانا تھا۔ کیونکہ ان کو یہ خیال تھا کہ یہ دوسرے مولویوں سے بہت مختلف ہیں۔ بہرحال ان کے اس طرح ہمارے مشنری کے قریب ہونے کی وجہ سے اس علاقے کے مولوی اور محلے والوں نے ان پہ الزام تراشیاں شروع کر دیں، بے دخل کر دیا، ان کو اپنی مسجد بھی نہیں آنے دیتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے خواب دیکھا کہ ایک ایسے بھنور میں پھنس گیاہوں جو مجھے غرق کر دے گا لیکن ایک بزرگ مجھے بچانے آئے جنہوں نے جُبّہ پہنا ہوا تھا اور لاٹھی پکڑی ہوئی تھی۔ اس پر ہمارے مبلغ نے انہیں حضرت مسیح موعودؑ کی ایک تصویر دکھائی جس میں حضورؑ ایک چھڑی پکڑے ہوئے تھے۔ اس نے لرزتے ہوئے کہا کہ یہ وہی بزرگ ہیں جنہوں نے خواب میں مجھے اپنی لاٹھی سے بھنور سے بچایا تھا۔ اسی طرح ان کے بیٹے نے بھی خواب دیکھی اب صرف باپ نے نہیں دیکھی بلکہ بیٹے نے بھی دیکھی۔ اس نے کئی لوگوں کو اس طرح جبہ پہنا ہوا دیکھا۔ اس پر ہمارے مبلغ نے ان کو حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ خلفاء کی تصاویر بھی دکھائیں تو اس لڑکے نے حیرت کے ساتھ کہا کہ جو لوگ اس نے دیکھے تھے ان میں حضرت خلیفة المسیح ثالثؒ بھی تھے، خلیفة المسیح رابعؒ بھی تھے اور مَیں بھی تھا۔ اس نے کہا یہ تو سارے وہی لوگ ہیں جو مَیں نے دیکھے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو اکٹھا کر کے بھی دکھا دیا کہ خلافت کا نظام جو حضرت مسیح موعودؑ کے بعد ہے ایک ایسا نظام ہے جو تسلسل قائم کیے ہوئے ہے۔ بہرحال ان خوابوں کے بعد اس فیملی نے بیعت کر لی۔ اگر سچی تڑپ ہو تو پھر اس طرح اللہ تعالیٰ راہنمائی بھی فرماتا ہے۔
سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گنی بساؤکی ایک خاتون کےقبول احمدیت کاکیاواقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:گنی بساؤ ایک ملک ہے۔ مبلغ انچارج کہتے ہیں کہ یہاں ایک علاقہ ہے وہاں کی ایک خاتون ہیں ماریہ صاحبہ۔ عائشہ ماریہ نام ہے ان کا۔ ان کے دو بیٹوں نے احمدیت قبول کی تو عائشہ صاحبہ کے بڑے بھائی جو کہ جماعت کے بہت مخالف ہیں اور وہی عائشہ اور اس کی فیملی کو سنبھالتے ہیں اور کھانے وغیرہ کی اشیاء بھی لے کر دیتے ہیں انہوں نے اپنی بہن کو فون کیا اور تنبیہ کی کہ اگر تمہارے بیٹوں نے احمدیت نہیں چھوڑی تو میں تم لوگوں کی مدد کرنا چھوڑ دوں گا اور میرا تم لوگوں سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ یہ بات سن کر عائشہ بہت پریشان ہو گئیں۔ بیٹوں کو بلایا اور کہا کہ احمدیت چھوڑ دو لیکن ان بیٹوں نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہمارے لیے کافی ہے اور ہم کبھی بھی احمدیت نہیں چھوڑیں گے۔ بیٹوں کا یہ جواب سن کے عائشہ اَور زیادہ پریشان ہو گئیں۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کریں ۔دو دن کے بعد کہتی ہیں میں نے خواب میں دیکھا کہ وہ خواب میں بہت پریشان ہیں اور زور زور سے رو رہی ہیں۔ اتنے میں سفید لباس میں ملبوس ایک سفید داڑھی والے شخص نے انہیں بلایا اور رونے کی وجہ پوچھی جس پر انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا تو انہوں نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ فکر نہ کرو تمہارے بیٹے ان سب کے اوپر رہیں گے۔ یہ بات سن کے ان کی آنکھ کھل گئی۔ ان کا دل خواب کے بعد مطمئن تھا۔ صبح ہوتے ہی انہوں نے خواب ہمارے مشنری کو سنائی اور جب ان کو مشنری صاحب نے میری تصویر دکھائی تو انہوں نے کہا یہ تو وہی شخص تھے جو مجھے خواب میں آئے تھے اور انہوں نے مجھے تسلی دلائی تھی۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ نہایت مخلص احمدی ہیں اور لجنہ کے ہر کام میں صف اول میں شامل ہوتی ہیں۔