روزنا مہ الفضل کے ساتھ ساتھ
روزنامہ الفضل نے ہر دور میں احباب جماعت کی دینی، روحانی، علمی اور تربیتی امور میں ترقی اور استحکام میں بہت بھر پور کردار ادا کیا ہے۔ آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اخبار الفضل ایک عالمگیر معلّم کے طور پر اکنافِ عالم میں یہ فریضہ سر انجام دے رہا ہے
روز نامہ الفضل سے میرے تعلق، تعارف اور استفادہ کا سفر ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ پر پھیلا ہوا ہے۔ قادیان دارالامان سے ہجرت کے بعد ہم کچھ عرصہ چنیوٹ میں رہے۔ پھر احمد نگر آگئے اور بچپن کا زمانہ وہیں گزرا۔ سب سے پہلے میں نے الفضل اسی جگہ دیکھا۔ پرائمری سکول میں تھا اور اردو لکھنا پڑھنا سیکھ رہا تھا۔ ان دنوں گھر میں الفضل آتا تو اسے دیکھتا اور پڑھنے کی کوشش کرتا۔ یہ گویا میرا پہلا تعارف تھا اس عظیم روز نامہ اخبار سے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر دور میں جماعت کا ترجمان، احباب جماعت کا مرکز اور جماعت اور خلافت سے تعلق کا ازحد مفید ذریعہ رہا ہے۔ اب تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی سفر یا کسی اَور مجبوری کی وجہ سے چند دن الفضل پڑھنے کا موقع نہ مل سکے تو زندگی میں ایک خلا محسوس ہونے لگتا ہے۔ اسی عرصہ میں غالباً ۱۹۵۲ء میں مجھے اپنے خالو مکرم و محترم خانصاحب قاضی محمد رشید صاحب کے ہاں نو شہرہ میں کچھ وقت رہنے کا موقع ملا۔ اس دوران بھی الفضل نظروں میں آتا رہا۔ پوری طرح پڑھ اور سمجھ تو نہ سکتا تھا لیکن ہر روز الفضل پر نظر ڈالنا روزانہ کے معمولات میں شامل رہا۔
احمد نگر میں کئی سال قیام کے دوران الفضل سے یہ تعلق رفتہ رفتہ بڑھنے لگا۔ اس دور کی ایک عجیب یاد یہ ہے کہ ان دنوں الفضل میں ایک اعلان بڑی باقاعدگی سے شائع ہوا کرتا تھا جس کا عنوان ہوتا تھا :’’قبر کے عذاب سے بچو‘‘
نیچے لکھا ہوتا تھا : کارڈ آنے پر مفت۔ یہ اعلان یا اشتہار حضرت سیٹھ عبدالله الٰہ دین صاحب آف سکندر آباد کی طرف سے ہوتا تھا۔ مجھے بڑا تجسس ہوا اور میں نے انہیں ایک کارڈ لکھ دیا۔ چند دنوں کے بعد مجھے اس کے جواب میں بذریعہ ڈاک ایک چھوٹا سا پمفلٹ موصول ہوا۔ اپنے نام یہ پمفلٹ پاکر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ میں نے اسے بڑے شوق سے پڑھا اور سمجھنے کی کوشش کی۔ معلوم ہوا کہ یہ احمدیت کا پیغام غیروں تک پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے جو آپ نے اختیار کیا ہوا تھا اور سالہا سال یہ سلسلہ جاری رہا۔
اس کے بعد ہم نقل مکانی کر کے ربوہ آگئے۔ ہماری رہائش ابتدا میں تحریک جدید کے کوارٹرز میں تھی۔ ہمارے ساتھ وا لے مکان میں مکرم و محترم شیخ عبد الواحد صاحب مبلغ چین و فجی رہا کرتے تھے۔ دوسری طرف والے مکان میں مکرم و محترم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب کی رہائش تھی جن کو لمبا عرصہ گھانا، امریکہ اور جرمنی میں خدمت کی تو فیق ملی۔ ہمارے عقب میں مکرم و محترم مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب کا مکان تھا جن کو جامعہ میں تدریس اور تصنیف کے میدان میں خدمت کا خوب موقع ملا۔ الفضل کے ساتھ جو تعلق قائم ہو چکا تھا وہ مضبوط سے مضبوط تر ہونے لگا اور مضامین پڑھنے میں بھی دلچسپی پیدا ہونے لگی۔ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں روزانہ عصر کے بعد اور مغرب سے پہلے اخبار تقسیم کرنے والا آیا کرتا تھا۔ کبھی تو وہ دروازہ میں اخبار اٹکا دیتا اور کبھی دروازہ کے ا وپر سے گھر کے اندر پھینک دیتا تھا۔ گھر میں یہ معمول بن گیا تھا کہ جو نہی اخبار آنے کی آہٹ محسوس ہوتی تو فوراً اُسے اٹھا لیا جاتا اور گھر کے سب افراد باری باری بڑے شوق سے استفادہ کرتے اور بعد میں ایک مقررہ جگہ پر اسے محفوظ کر لیا جاتا۔ یہ گویا ہمارا روز کا معمول بن گیا اور الفضل کا مطالعہ روزانہ زندگی کا حصہ بن گیا تھا۔ ان دنوں ابھی ٹیلی فون کا نظام ربوہ میں نہیں تھا اس لیے جماعتی حالات اور احباب کی خیر و عافیت اور دیگر اطلاعات کا سب سے اہم ذریعہ اخبار الفضل ہی تھا۔
۱۹۶۱ء یا ۱۹۶۲ء کے لگ بھگ کی بات ہے کہ میں اور میرے بڑے بھائی مکرم عطاء الرحیم حامد صاحب ( حال مقیم امریکہ ) غالباً ڈیڑھ دو ماہ کی گرمیوں کی تعطیلات میں کوٹلی آزاد کشمیر گئے۔ وہاں میاں علم الدین صاحب کے ہاں ہمارا قیام تھا۔ ساری نمازیں مسجد احمدیہ میں ادا کرتے۔ ان دنوں ماسٹر امیر عالم صاحب امیر جماعت تھے اور مکرم و محترم مولانا محمد الدین صاحب مربی سلسلہ تھے۔ ظفر میڈیکل ہال، کوٹلی کے بڑے بازار میں احمدیوں کی معروف دکان تھی۔ روزانہ کا معمول کچھ اس طرح تھا کہ ہم دونوں بھائی دوپہر سے قبل شہر سے کچھ فاصلہ پر منڈی نامی ایک چشمہ پر نہانے کے لیے جاتے تھے۔ اس چشمہ کا پانی بہت ٹھنڈا ہوتا تھا۔ اتنا زیادہ کہ پانی کے دھارے کے نیچے ایک منٹ تک ٹھہرنا بھی مشکل ہوتا تھا۔ ہم وہاں جی بھر کر نہاتے۔ سخت گرمی کی وجہ سے خوب لطف آتا۔ نہانے کے بعد سر پر تولیہ رکھ کر واپس شہر آتے اور ظفر میڈیکل ہال سے روزانہ آنے والا اخبار الفضل حاصل کرتے۔ کوٹلی میں ان دنوں ہمارے لیے پڑھنے کی کتب کچھ زیادہ نہ تھیں۔ ان حالات میں الفضل کا تازہ پرچہ ایک عظیم نعمت ثابت ہوتا۔ ہم گھر واپس آکر باری باری الفضل کے تازہ پرچہ کو شروع سے لے کر آخر تک ایک ایک لفظ پڑھ ڈالتے کیونکہ تازہ ترین ارشادات، اطلاعات، جماعتی خبروں اور دیگر اطلاعات کا یہی ایک ذریعہ تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ہم دونوں الفضل کے مضامین تو شوق سے پڑھتے ہی تھے ان کے علاوہ نکاح و شادی کے اعلانات، وفات اور تدفین کی خبریں، تلاش گمشدہ کے اعلان حتیٰ کہ الفضل میں شائع ہونے والے سرکاری ٹینڈر نوٹس بھی اسی شوق میں پڑھ جاتے۔ اس طرح الفضل کو خوب اچھی طرح کھنگال کر اگلے روز وہ پرچہ دکان پر واپس کر دیتے اور نیا پرچہ گھر لے آتے۔ یہ سلسلہ سارے عرصہ قیام میں جاری رہا۔
۱۹۵۹ء میں مَیں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور تعلیم الاسلام کالج میں داخلہ لیا۔ ۱۹۶۵ء تک وہاں ایف اے، بی اے اور ایم اے (عربی) کرنے کی توفیق ملی۔ اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے حضرت ابا جان مرحوم و مغفور نے محلہ دارالرحمت وسطی میں نصف کنال زمین پر اپنا مکان بنوانے کی سعادت پائی۔ اس کا نام آپ نے ’’بیت العطاء‘‘ رکھا۔ یہ مکان ربوہ کے مشہور ٹھیکیدار مکرم ولی محمد صاحب نے تعمیر کیا۔ ۱۹۶۳ء میں اس کی تعمیر مکمل ہونے پر ہم کوارٹرز تحریک جدید سے اس مکان میں منتقل ہو گئے۔
اس مکان کے حوالہ سے الفضل کی ایک دو یا د یں ذہن میں تازہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہر روز عصر کے قریب جب اخبار تقسیم کرنے والا آتا تو اخبار الفضل کے نیچے فرش پر گرنے کی آواز سے جو بھی قریب ہوتا وہ چونک جاتا اور فوراً دوڑ کر اخبار اٹھالاتا۔ مجھے یاد ہے کہ بعض اوقات تو ایک مقابلہ کی صورت بن جاتی کہ کون پہلے جاکر اخبار اٹھانے میں کامیاب ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ جو اخبار اٹھاتا اسی کا اولین حق بنتا تھا کہ وہ سب سے پہلے اخبار کا مطالعہ کرے۔ یہ شوق، جذبہ اور مسابقت کی روح بھی کیا روح پر ور یاد ہے جس کو سوچ کر آج بھی لطف آتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہماری بیٹھک میں پاکستان کے اطراف سے آنے والے احمدی اور غیر احمدی اخبارات و ر سائل با قاعدہ ترتیب کے ساتھ لٹکائے ہوئے ہوتے تھے۔ الفضل ان سب میں افضل اور مقدم ہوتا تھا۔ اپنے نام کے لحاظ سے بھی اور مقام کے لحاظ سے بھی۔
الفضل کے لیے میں نے سب سے پہلا مضمون کب لکھا اور کس موضوع پر لکھا ؟ یہ امور تحقیق طلب ہیں البتہ مجھے اپنے ابتدائی مضامین میں سے ایک مضمون بہت اچھی طرح یاد ہے۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا ۱۹۶۵ء میں وصال ہوا اور اس کے بعد مقررہ قواعد کے مطابق مجلس انتخابِ خلافت کا اجلاس مسجد مبارک ربوہ میں منعقد ہوا تو میں اس وقت ان ہزارہا احمدیوں میں شامل تھا جو شدید اضطراب اور فکرمندی کی حالت میں احاطہ قصر خلافت اور دفاتر و کوارٹرز صدر انجمن احمدیہ کے درمیانی گراسی پلاٹ میں بیٹھے تھے۔ اس وقت سب کی عجیب حالت تھی۔ ایک طرف حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے وصال کا غم اور دوسری طرف آئندہ کے بارہ میں شدید فکرمندی اور بے چینی کی کیفیت جس کے زیر اثر ہر خوردو کلاں اس وقت مجسم دعا بنا ہوا تھا۔ وقت بہت آہستہ رفتار سے گزر رہا تھا اور ایک ایک لمحہ عشاق پر بو جھل اور طویل ہوتا جا رہا تھا۔ اتنے میں اچانک مسجد مبارک کے لاؤڈ سپیکر پر حضرت ابا جان مرحوم و مغفور کی آواز سنائی دی۔ آپ نے اعلان فرمایا کہ قواعد کے مطابق انتخابِ خلافت کے اجلاس کی کارروائی مکمل ہو گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے سایہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا انتخاب بطور خلیفۃ المسیح الثالث ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہو چکا ہے اور وہ اب سب حاضر احباب سے بیعت عام لیں گے۔ اس اعلان کے سنتے ہی حالتِ خوف امن میں بدل گئی، مومنین نے سجدات شکر ادا کیے اور پھر ایک عجیب وارفتگی کے عالم میں مسجد مبارک کی طرف بھاگنا شروع کر دیا۔
مجھے یاد ہے کہ میں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل تھا جو سرپٹ دوڑتے ہوئے مسجد مبارک کے اندر وسطی حصہ تک جا پہنچے اور پھر سرکتے سرکتے محراب کے سامنے ابتدائی صفوں میں جگہ پانے میں کامیاب ہو گئے۔ آناً فاناً مسجد اتنی بھر گئی کہ تل دھرنے کی جگہ نہ رہی۔ کارروائی کا آغاز ہوا۔ حضور انور کے پُر درد اور مختصر خطاب کے بعد سب حاضر احباب نے انتہائی گداز دلوں اور آنسو بہاتی آنکھوں کے ساتھ خلافتِ ثالثہ کی پہلی عام بیعت میں شرکت کی سعادت پائی اور نو منتخب خلیفہ کی اقتدا میں دعا میں شرکت کا اعزاز پایا۔ اللہ تعالیٰ کا بے حد کرم اور احسان ہے کہ یہ عاجز نابکار بھی اس تاریخ ساز موقع پر حاضر تھا۔ وللہ الحمد
الفضل کے حوالہ سے یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس عاجز کو اس موقعہ پر ایک مضمون لکھنے کی توفیق ملی جس میں احباب جماعت کی دلی کیفیات اور مخلصانہ جذبات کو بھی بیان کرنے کی کوشش کی۔ الحمد للہ کہ یہ قلم برداشتہ مضمون انہی دنوں ۹؍دسمبر ۱۹۶۵ء کے روزنامہ الفضل میں شائع ہو گیا تھا۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے کالج کے زمانہ میں بھی بعض مضا مین الفضل کے لیے لکھے اور پھر ۱۹۶۵ء سے ۱۹۶۹ء تک جامعہ میں تعلیم کے دوران بھی چند مضامین لکھنے کی توفیق ملی۔ ایک مضمون کا عنوان تھا : ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقصد بعثت‘‘۔ یہ مضمون کئی قسطوں میں تھا۔ ان دنوں میرا معمول یہ تھا کہ میں مضمون لکھ کر دار الرحمت وسطی کی مسجد نصرت میں نماز کی ادائیگی کے لیے جاتے ہوئے یا واپسی پر اسے مکرم و محترم شیخ خورشید احمد صاحب مرحوم نائب ایڈیٹر الفضل کے گھر کے لیٹر بکس میں ڈال دیتا تھا جو چند دنوں کے بعد شائع ہو جاتا تھا۔ مضمون کی اشاعت سے خوشی بھی ہوتی اور مزید مضامین لکھنے کا شوق پیدا ہو جاتا تھا۔
الفضل کے فیض کا دائرہ صرف احمدی احباب اور خواتین تک محدود نہیں بلکہ غیر از جماعت عوام اور خواص بھی اس روحانی مائدہ سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر کرتا ہوں۔ ۱۹۶۷ء میں مجھے مکرم و محترم سید میر محمود احمد ناصر صاحب (سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوه) اور مکرم ملک فاروق احمد صاحب آف ملتان کے ساتھ مری میں وقف عارضی پر جانے کا موقع ملا۔ ہم نے احباب سے رابطہ اور تعلیم و تربیت کی کوشش کے علاوہ کچھ لٹریچر بھی تقسیم کیا۔
اسی و قفِ عارضی کے دوران ایک روز خیال آیا کہ اس علاقہ میں پیر صاحب موہڑہ شریف کا مرکز بھی دیکھا جائے۔ چنانچہ ہم تینوں کوہ مری کے ایک نشیبی علاقہ کلڈنہ سے مزید نشیب میں پہاڑوں کے دامن میں اتر گئے اور کافی لمبا سفر کرنے کے بعد بالآخر منزل پر پہنچے گئے۔ وہاں پہنچے تو مرکز کے کارکنان نے ہمارا پر تپاک استقبال کیا۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہم ربوہ سے آئے ہیں اور پیر صاحب سے ملنا چاہتے ہیں۔ چند منٹوں میں ہم پیر صاحب کے کمرہ میں تھے۔ پیر صاحب کی شخصیت بہت وجیہ اور پروقار تھی۔ وہ ایک فرشی قالین پر گدی پر بیٹھے تھے۔ درمیانی عمر، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کھلے ذہن کے مالک تھے۔ بہت اچھے ماحول میں بات چیت ہوئی۔ ہم نے اپنا تعارف کروایا تو بہت خوش ہوئے اور بتایا کہ وہ احمدیت سے خوب متعارف ہیں۔ یہ ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اس قالین کا (جس پر وہ بیٹھے ہوئے تھے) ایک کونہ اٹھایا تو ہم نے دیکھا کہ اس کے نیچے الفضل اور الفرقان کے تازہ پر چے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ دونوں جرائد ان کے نام باقاعدہ آتے ہیں اور وہ بڑے شوق سے ان کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی کہنے لگے کہ میں ان جرائد کو احتیاطاً قالین کے نیچے رکھتا ہوں تا کہ باقی لوگوں کی نظر نہ پڑے !
جہاں تک احمدی احباب کے لیے الفضل کی افادیت کا تعلق ہے، میں یہ بات پورے وثوق سے اور اپنے ذاتی تجربہ اور مشاہدہ سے کہہ سکتا ہوں کہ روزنامہ الفضل نے ہر دور میں احباب جماعت کی دینی، روحانی، علمی اور تربیتی امور میں ترقی اور استحکام میں بہت بھر پور کردار ادا کیا ہے۔ آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اخبار الفضل ایک عالمگیر معلّم کے طور پر اکنافِ عالم میں یہ فریضہ سر انجام دے رہا ہے۔ اس پہلو سے آج اخبار الفضل ہر احمدی گھرانے کی پہچان بن گیا ہے۔ بزرگ بھی استفاده کرتے ہیں اور عام احمدی بھی۔ بزرگ لوگوں کے استفادہ کی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔
۱۹۷۰ء میں یہ عاجز پہلی بار اعلائے کلمہ حق کی خاطر ملک سے باہر گیا۔ میری تقرری لندن میں ہوئی۔ میں نے احمدیت کی برکت سے پہلی بار ہوائی جہاز کا سفر کیا۔ لندن میں ۱۹۷۰ءسے ۱۹۷۳ء تک کے عرصہ قیام میں حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ کے ساتھ انتہائی یادگار وقت گزرا۔ یہاں صرف ایک بات کا ذکر کرتا ہوں اور اس کا تعلق اخبار الفضل سے ہے۔ حضرت چودھری صاحب لندن میں مختصر قیام کے لیے جب بھی ہالینڈ سے لندن تشریف لاتے تو ان کی خواہش ہوتی کہ اولین فرصت میں انہیں الفضل کے گذشتہ چند پیکٹ مل جائیں تا کہ اگر کوئی پر چہ یا اس کا کچھ حصہ مصروفیات کی وجہ سے ان کی نظر سے نہ گزرا ہو تو وہ اس کا مطالعہ کر لیں۔ ہر بار بڑی باقاعدگی اور اہتمام سے الفضل کا مطالعہ کرتے اور اسی طرح رسالہ الفرقان کا بھی۔ فرمایا کرتے تھے کہ میں بڑے شوق سے ان جرائد کو پڑھتا ہوں اور ہمیشہ اس موقع کا منتظر رہتا ہوں۔
میرے لیے بھی مرکز سلسلہ سے باہر جانے کا یہ پہلا موقع تھا۔ ربوہ میں تو روزانہ الفضل کا مطالعہ زندگی کا حصہ بن گیا تھا۔ اب یہاں یہ صورت نہ تھی۔ یہاں اُن دنوں الفضل کا پیکٹ ہفتہ وار آتا تھا۔ گویا ایک پورے ہفتہ کے ’’روزہ‘‘ کے بعد الفضل کا پیکٹ ملتا تو جی چاہتا کہ باقی معمول کے کام چھوڑ کر فوراً اس مائدہ سے ’’افطار‘‘ کیا جائے۔ بہت لطف آتا اور عام طور پر ایک شام میں ہی سارے اخبارات کا مطالعہ کر لیتا اور پھر انتظار شروع ہو جاتا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک وقت ہم نے روزانہ اخبار بھی لگوا لیا تھا اور ہفتہ وار پیکٹ بھی اسی طرح جاری رکھا۔ الفضل کے ذریعہ حضور کے ارشادات، جماعتی ہدایات اور خبروں کا علم ہوتا جن سے احباب جماعت کو بھی ساتھ کے ساتھ مطلع کر دیا جاتا۔
میرے لندن میں قیام کے دوران ۱۹۷۲ء میں ہالینڈ کے مبلغ انچارج محترم مولانا ابوبکر ایوب صاحب کی وفات ہو گئی۔ اس صورتِ حال میں مجھے وہاں جانے کی ہدایت کی گئی۔ چنانچہ مولانا عبد الحکیم اکمل صاحب مرحوم کے ہالینڈ آنے تک ایک ماہ کے عرصہ میں مجھے وہاں خدمت کی توفیق ملی۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ اس سارے عرصے میں اخبار الفضل نے میرا خوب ساتھ دیا۔ دیگر مصروفیات کے بعدمیرا اکثر وقت الفضل کے تازہ اور پرانے پر چے پڑھنے میں صرف ہوتا۔ مشن کی لائبریری میں الفضل کے پرانے اخبارات کی متعدد جلدیں بھی محفوظ تھیں۔ مشن میں کبھی کبھار کوئی آتا تھا۔ الفضل ایک خاموش دوست کے طور پر میرے ساتھ رہا اور اس کا مطالعہ علمی لحا ظ سے بہت فائدہ مند رہا۔
لندن میں تین سال اور پھر ربوہ میں قریباً ڈیڑھ سال گزارنے کے بعد ۱۹۷۵ء میں مجھے جاپان جانے کا ارشاد ملا اور میں فروری میں وہاں پہنچ گیا۔ جاپان ایک لحاظ سے دنیا کا کونہ ہے۔ ان دنوں جماعت بھی بہت چھوٹی تھی۔ ویسے بھی پاکستان سے آنے جانے والوں کی تعداد بہت ہی کم تھی۔ اور مجھے جاپانی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں آتا تھا حتیٰ کہ جب جہاز ٹوکیو کے HANEDA ایئرپورٹ پر اترا تو مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ جاپانی لوگ اپنے ملک کو کس نام سے پکارتے ہیں۔ میرے خیال میں تو ملک کا نام جاپان تھا لیکن وہاں جا کر معلوم ہوا کہ جاپانی لوگ تو اپنے ملک کو NIPPON کہتے ہیں۔ مرکز سے ہزاروں میل دور اس عالَم تنہائی میں میرا ایک خاموش اور وفادار دوست ’’الفضل‘‘ تھا جس کی آمد کا مجھے ہمیشہ بہت ہی اشتیاق رہتا۔ ان دنوں یہ طریق تھا کہ جماعتی ڈاک مرکزی ڈاکخانہ کے پوسٹ بکس کے پتہ پر آتی تھی۔ ہر ہفتہ الفضل کا پیکٹ بڑی باقامدگی سے آتا۔ پیکٹ دیکھ کر بے حد خوشی ہوتی۔ ڈاکخانہ میں بیٹھ کر پڑھنے کی جگہ بنی ہوئی تھی۔ اکثر میں اس جگہ بیٹھ کر، گھر آنے سے قبل، وہیں پر الفضل پر ایک سرسری نگاہ ڈال لیتا۔ شوق کا یہ عالم ہوتا تھا کہ اکثر گاڑی میں بیٹھ کر بھی الفضل کا مطالعہ جاری رکھتا جبکہ میرے ارد گرد کے جاپانی لوگ بڑی حیرت اور تعجب کی نگاہوں سے کبھی مجھے دیکھتے اور کبھی الفضل کو۔ میں اس نظارہ سے خوف لطف اندوز ہوتا !
۱۹۸۳ء میں میری جاپان سے واپسی ہوئی۔ ربوہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سے شرفِ ملاقات اور ہدایات حاصل کرنے کے بعد میں نو مبر۱۹۸۳ء میں لندن آگیا۔ لندن کا شہر تو میرے لیے نیا نہیں تھا لیکن نئی ذمہ داریاں اور کام کی وسعت کا احساس بہت غالب تھا۔ یہاں آئے ابھی پانچ ماہ ہی ہوئے تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ الله تعالیٰ ۳۰؍اپریل ۱۹۸۴ء کو لندن تشریف لے آئے۔ پھر تو یوں لگا کہ دن رات بدل گئے۔ گویا ساری دنیا ہی بدل گئی۔ یہ ایک لمبی داستان ہے جس کے بیان کرنے کا یہ موقع نہیں لیکن الفضل کے حوالہ سے یہ ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ الفضل سے رفاقت کا سلسلہ آج تک جاری وساری ہے۔ کڑے قوانین کی تلواروں کے سایہ میں بھی اخبار الفضل خلافت احمدیہ کی عالمگیر آواز کے طور پر جماعت احمدیہ کی ترجمانی کی ذمہ داری پوری شان سے اوربھر پور انداز میں سر انجام دیتا رہا ہے۔ یہ کام کتنا مشکل ہے اس کا صحیح اندازہ تو وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اس دور میں سے عملاً گزر رہے ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ جن دنوں محترم مولانا نسیم سیفی صاحب مرحوم الفضل کے ایڈیٹر ہوتے تھے میں نے ایک بار انہیں ایک ذاتی خط میں لکھا کہ جس طرح آپ قانونی طور پر ممنوع الفاظ کے متبادل الفاظ تلاش کر کے الفضل کی ناؤ کو مخالفانہ لہروں میں سے بحفاظت نکالتے چلے جارہے ہیں، آپ کی ہمت بہت لائق تحسین ہے۔ میں نے تجویز دی کہ متبادل الفاظ کی ایک فہرست بھی کسی جگہ محفوظ ہو جانی چاہیے تاکہ آئندہ کے مورخین کو کوئی الجھن پیش نہ آئے !
لندن آنے کے بعد سے لے کر کچھ عرصہ تک الفضل کے ہفتہ وار پیکٹ کا سلسلہ جاری رہا۔ گھر میں پیکٹ آتے ہی سب کی کوشش یہ ہوتی کہ سب سے پہلے پڑھنے کا موقع ملے اور مرکز سلسلہ سے ہزاروں میل دُور بیٹھے ہوئے بھی مرکز کی خبروں اور جماعتی اطلاعات سے آگا ہی ہو سکے۔ پیکٹ ہاتھ میں آنے پر میرا طریق تو یہ رہا کہ ایک نظر تو فوری طور پر سب اخباروں پر ڈال لیتا اور دوسری بار وقت نکال کر تفصیل سے مطالعہ کرتا تھا۔ الفضل پڑھنے والوں کو اس میں کیا ملتا ہے ؟ بظاہر سادہ سا سوال ہے لیکن اس کا جواب بہت مفصل ہے اور بڑی تفصیل چاہتا ہے۔ جماعت احمدیہ تو ایک عالمگیر جماعت ہے اور اس کے افراد ایک عالمگیر فیملی کی طرح ہیں۔ الفضل میں قرآن و حدیث اور مسیح پاک علیہ السلام اور خلفاء کے ارشاد ات کے علاوہ بیش قیمت علمی اور تحقیقی مضامین، خلیفہ ٔوقت کے تازہ بتازه خطبات جمعہ، خطابات، ارشادات، پیغامات ، ہدایات اور ضروری جماعتی اعلانات شائع ہوتے ہیں۔ اکناف عالم میں جماعت کی ترقیات کی خبریں، عالمی اور ملکی خبریں، مساجد کی تعمیر اور نئی کتب پر تبصرے اور نئی ایجادات اور تحقیقات کے علاوہ جماعت احمدیہ پر نازل ہونے والے افضالِ الٰہیہ کا ذکر بھی ہوتا ہے۔ MTA کے پروگراموں کی تفصیل۔ پڑھائی کے نئے کورسز کی اطلاعات۔ ملازمتوں کے مواقع کی نشاندہی۔ جماعت احمدیہ کے افراد پر ہونے والے ظلم وستم کی داستا نیں اور راہ مولیٰ میں جانیں قربان کرنے والے خوش نصیبوں کا تذکرہ اور مرحومین کا ذکر بھی یادرفتگان کے تحت الفضل میں شائع ہوتا ہے۔ عالمگیر فیملی کے حوالہ سے مختلف قسم کے اعلانات، اعلانات نکاح، تقاریب شادی، دعوت ولیمہ، بچوں کی ولادت اور ان کے ناموں کا اعلان، تقاریب آمین، حادثات کی اطلاعات، رحلت کی خبریں، نماز جنازہ اور تدفین اور مختلف نوعیت کی درخواست ہائے دعا کے اعلانات۔ الغرض یہ سب باتیں قارئین الفضل کے علم و عرفان میں ترقی کا موجب بنتی ہیں اور ساری جماعت کے افراد کو دوسرے احباب کے حالات سے آگاہ کرتے ہوئے مومنانہ اخوّت اور بھائی چارہ کو مستحکم کرتی ہیں اور سات سمندر پار کے احمدی احباب کو باہم محبت اور قربت کی دولت سے مالا مال کرتی ہیں۔ یہ ایک بڑی نعمت ہے جو آج اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے صرف اور صرف جماعت احمدیہ کے افراد کو حاصل ہے۔
روز نامہ الفضل کا ایک اور بڑا دلچسپ اور یادگار فائدہ جو میں نے ذاتی طور پر حاصل کیا وہ یہ ہے کہ مجھے اپنی صحیح تاریخ پیدائش کا علم الفضل کے ذریعہ سے ہوا۔ ہوا یوں کہ سکول میں داخلہ کے وقت میری پیدائش کی تاریخ کا جو اندراج ہوا وہ درست نہیں تھا۔ میری بڑی ہمشیرہ مکرمہ و محترمہ امۃ الله خورشید صاحبہ مرحومہ ( مدیره مصباح، جن کو ہم سب آپا اچھّی کے نام سے پکارتے تھے ) کا خیال تھا کہ یہ تاریخ (جو بھی تھی ) وہ درست نہیں بلکہ ان کی یادداشت کے مطابق میری پیدائش کا دن جولائی، اگست یا ستمبر میں بنتا ہے۔ بہر حال یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ ایک روز مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ اپنی صحیح تاریخ پیدائش معلوم کی جائے۔ غالباً یہ سنہ ۱۹۵۹ء کے لگ بھگ کی بات ہے۔ میں ایک دن وقت نکال کر ربوہ خلافت لائبریری گیا جو ان دنوں مسجد مبارک کی غربی جانب قصر خلافت سے ملحقہ عمارتوں میں ہوا کرتی تھی۔ پیدائش کا سنہ تو قطعی طور پر معلوم تھا۔ چنانچہ میں نے ۱۹۴۳ء کی جلد نکال کر یکم جولائی سے اخبارات دیکھنے شروع کیے۔ جولائی کے اخبارات میں کوئی ذکر نہ ملا اور نہ ہی اگست میں۔ لیکن جب میں ستمبر کے مہینہ میں پہنچا تو ۱۲؍ستمبر۱۹۴۳ء کے اخبار میں مجھے یہ ذکر مل گیا۔ بےحد خوشی ہوئی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ صحیح تاریخ کا علم ہو گیا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ خیال بھی آیا کہ شاید دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے اپنی ولادت کا اعلان خود اپنی آنکھوں سے پڑھا ہو۔ بہر حال الفضل کی برکت سے میرے لیے خوشی کا یہ موقع میسر آیا۔ اُس زمانہ میں فوٹو کاپی کی سہولت تو میسر نہیں تھی۔ میں نے فوراً اعلان ولادت نقل کر لیا جو روزنامہ الفضل قادیان دارالامان میں اخبار احمدیہ کے کالم میں صفحہ نمبر ۴ پر دیگر اعلانات کے ساتھ شائع ہوا تھا۔ عبارت اس طرح پر تھی :
’’ولادت : (۱) ۲۷؍ اگست مولوی ابوالعطاء صاحب کے ہاں چوتھا لڑکا تو لد ہوا۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے عطاء المجیب نام تجویز فرمایا۔ احباب مولود مسعود کی درازئ عمر، نیک خادم دین بننے کی دعا فرمائیں۔ مولود کا تاریخی نام مختار الملک ۱۳۶۲ھ ہے۔‘‘
بعد میں مَیں نے اس اعلان کی فوٹو کاپی بھی حاصل کر لی جو میرے پاس محفوظ ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ میرے ابا جان نے مجھے بتایا کہ میرا یہ تاریخی نام مکرم و محترم حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب مرحوم و مغفور نے نکالا تھا۔
الفضل کے حوالہ سے یہ چند واقعات اور متفرق امور تحریر میں لے آیا ہوں۔ الفضل کے ساتھ ساتھ تو یہ بابرکت سفر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے جاری ہے۔ اب تو الفضل انٹرنیٹ پر بھی آجاتا ہے اور روزانہ ہی اسے پڑھنے کا موقع مل جاتا ہے اور میری طرح دنیا میں ہزاروں لاکھوں احمدی احباب ( اور غیر احمدی احباب بھی) اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے اس دریائے فیض کو جاری و ساری رکھے اور اس کا فیضان اکنافِ عالم میں پھیلتا چلا جائے۔ آمین