پرسیکیوشن رپورٹس

نومبر، دسمبر۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

(مہر محمد داؤد)

سمندری میں انتظامیہ نے احمدیہ مسجد کے مینارے شہید کر دیے

سمندری ضلع فیصل آباد۔پنجاب۔۲۱-۲۲؍دسمبر ۲۰۲۳ء: ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے آدھی رات کو مقامی احمدیہ مسجد کے مینارے شہید کردیے۔اسسٹنٹ کمشنر اور ایس ایچ او درجن بھر پولیس والوں کےساتھ مغرب سے قبل ہی مسجد پہنچ گئے اور اندر آنا چاہا۔ اسسٹنٹ کمشنر، ایس ایچ او اور میناروں کے خلاف ناجائز درخواست دہندہ مسجد کے اندر آئے۔ اسسٹنٹ کمشنر نے وہاں موجود احمدیوں کو کہا کہ وہ اپنے اکابرین کو اس کے دفتر میں لائیں۔نماز عشاء کے بعد مقامی صدر جماعت اور چنددیگر احمدی احباب اسسٹنٹ کمشنر کو ملنے کےلیے گئے تو اس نے کہا کہ مقامی طور پر حالات کشیدہ ہیں اور مجھے سختی سے حکم ملا ہے کہ امن و امان کی صورت حال ہر طور سے برقرار رہنی چاہیے۔ اور جہاں تک میناروں کا تعلق ہے تو ڈپٹی کمشنر نے کہا ہے کہ یہ کام ہر صورت آج ہی مکمل ہونا چاہیے۔ اس نے حکم نامہ دکھا تو دیا لیکن اس کی نقل مہیا نہیں کی۔ جماعت احمدیہ کے وفد نے اسے اپنے موقف اور لاہور ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے سے آگاہ کیاکہ احمدیہ مساجد کے ۱۹۸۴ء سے قبل تعمیر شدہ میناروں کو استثنا حاصل ہے اور یہ مسجد ۱۹۵۶ء میں تعمیر کی گئی تھی۔وفد نے مزید کہا کہ وہ کسی بھی قانونی کارروائی کے درمیان حائل نہیں ہوں گے اور وہ جانتے ہیں کہ ایسا کرنا احمدیوں کے حق میں نہیں ہے۔ بعد ازاں رات ۹ بجے کے قریب اے سی نے پھر سے صدر جماعت کو بلایا اور کہا کہ ریجنل پولیس افسر یہاں موجود ہے اور اس نے کہا ہے کہ کام ختم کرکے اس کو رپورٹ دی جائے۔ اور دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر احمدیوں نے دوران کارروائی کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کی تو نتائج کی ذمہ داری احمدیوں پر ہو گی۔ رات ساڑھے بارہ بجے صدر جماعت کو دوبارہ بلایا گیا اور مسجد کے صدر دروازے کھولنے کا کہا۔دروازے کھلنے کے بعد چھ کے قریب کونسل کے مسیحی ملازمین کو کہا گیا کہ وہ مینارے شہید کر دیں۔ اس پر انہوں نے پولیس اور اے سی کی موجودگی میں مینارے شہید کر دیے۔

احمدیہ مسجد کے متعلق انتظامیہ کو دھمکی

بھابڑہ۔ تتہ پانی۔ کوٹلی۔ آزاد کشمیر۔ نومبر۲۰۲۳ء: کچھ دن پہلے تحریک لبیک کے مقامی راہنما ملک ظہیر احمد نے تتہ پانی کی مین مارکیٹ میں ریلی کی قیادت کی اور انتظامیہ کو دھمکی دی کہ اگر ۱۶؍دسمبر سے پہلے انتظامیہ نے بھابڑہ میں موجود احمدیہ مسجد کے مینارے اور محراب نہ ہٹائی تو وہ ۱۲؍ربیع الاول سے زیادہ لوگوں کو اکٹھا کرے گا اور کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کی ذمہ دار انتظامیہ ہو گی۔اس پر انتظامیہ نے اس معاملہ کو دیکھنے کے لیےمقامی غیر احمدی مفتی کی زیر نگرانی ایک کمیٹی بنا دی۔

پولیس نے احمدیہ مسجد سے کلمہ مٹا دیا

کھاکھی ضلع ملتان۔۸؍دسمبر ۲۰۲۳ء:ایس ایچ او شجاع آباد نے جماعت احمدیہ سے رابطہ کیا اور کہا کہ آپ لوگ اپنی مسجد سے محراب اور کلمہ ہٹا دیں۔ احمدی احباب نے کہا کہ وہ خود سے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے۔بعد ازاں ایس ایچ او نے جماعت احمدیہ کو بتایا کہ چند شیطان صفت لوگ ان معاملات کی آڑ میں امن عامہ کی صورتحال کو برباد کرنا چاہتے ہیںاور آپ کی مسجد پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔۹؍دسمبر کو پولیس کی نفری آئی اور مسجد سے کلمہ اور محراب ہٹا دیا اور احمدی احباب کو کہا کہ جب تک سیکیورٹی کی صورتحال واضح نہیں ہوتی تب تک یہاں نماز ادا نہ کریں۔اس کے بعد احمدیوں نے مسجد کی مرمت کا کام کیا اور اب ایک پولیس اہلکار ہمہ وقت مسجد کے باہر ڈیوٹی پر موجود ہوتا ہے۔

خوشاب میں نفرت انگیز مہم

جوہر آباد ضلع خوشاب۔دسمبر ۲۰۲۳ء:ملک عدنان قادری نےایک احمدی کے خلاف توہین کے مقدمات درج کرنے کی درخواست دی۔ اس نے یہ موقف اپنایا کہ موصوف کی رہائش گاہ پر احمدی جمعہ ادا کرتے ہیں اور ملکی قانون کے مطابق ان کواس امر کی اجازت نہیں ہے۔اسی شخص نے ایک غیر احمدی مسجد کے افتتاح کے موقع پر بھی ایسا مطالبہ دہرایا جہاں پر کچھ سیاسی عناصر بھی موجود تھے۔اس نے کہا کہ ہر شہر میں قادیانی جمعے ادا کررہے ہیں اور ہر شہر میں ان پر پابندی لگائی جانی چاہیے۔اس نے مزید کہا کہ یا تو مذکورہ احمدی کو شہر سے نکال دیا جائے یا پھر قادیانیوں کے جمعوں پر پابندی لگائی جائے۔ ورنہ وہ خود کوئی قدم اٹھائے گا۔اور پھر اگر شہر کا امن خراب ہوا یا مرزائیوں کو کوئی نقصان پہنچا تو وہ اس کا ذمہ دار نہ ہو گا۔اس کے بعد مقامی جماعت احمدیہ کا وفد ڈی پی او سے ملا اور اس کے متعلق بات چیت کی۔

سرگودھا میں احمدیہ مسجد مخالفین کے نشانے پر

سرگودھا۔دسمبر۲۰۲۳ء:پنجاب بھر میں مذہبی انتہاپسندوں کو انتظامیہ کی جانب سے ملنے والی ہلہ شیری کے باعث سرگودھا میں پھر سے غیر قانونی اوربےجافائدہ اٹھانے کا موقع مل گیا۔اور انہوں نے احمدیہ مساجد کے میناروں اور اسلامی عمارات سے مماثلت کے متعلق درخواستیں دائر کر دی ہیں۔ مخالفین نے چک نمبر ۳۸ میں احمدیوں کے خلاف متشددانہ کارروائی کرنے کا منصوبہ بنایا اور ملنے کےلیے بلایا۔احمدیوں کو ان کے اس منصوبے کا علم ہو گیا۔ جس کے باعث انہوں نے مقررہ جگہ پر جانے سے گریز کیا۔بعد ازاں اس ساری صورتحال سے پولیس کو آگاہ کیا گیا۔ڈی ایس پی نے گاؤں کا دورہ کیا اور فریقین کو پولیس سٹیشن میں طلب کیا۔ تاہم فریقین کی کسی بھی معاملے پر مفاہمت نہ ہو سکی۔ اس کے بعد جمعہ کے روز پولیس کی بھاری نفری احمدیہ مسجد کے باہر موجود رہی تا کہ امن و امان کی صورت حال برقرار رہے۔دریں اثناء غیراحمدیوں نے مطالبہ کیا کہ احمدی اپنی مسجد کے میناروں کو ڈھانپیں۔لیکن ان کی اس بات کو نہیں مانا گیا۔اسی طرح مخالفین نے ٹھٹھہ جوئیہ اور ہجکہ میں احمدیہ مساجد کے خلاف درخواستیں دائر کیں۔اس ضمن میں امیر جماعت احمدیہ سرگودھا نے ڈی پی او سے ملاقات بھی کی ۔

ایک اہم مقدمہ کی پیشرفت

ربوہ۔۱۹؍دسمبر ۲۰۲۳ء:توہین کی دفعات کے تحت ۶؍دسمبر ۲۰۲۲ء کو ربوہ پولیس سٹیشن میں جماعت احمدیہ کے چند عہدیداران کے خلاف درج ہونے والے مقدمے کی تفصیلات اور پیشرفت سے ہم احباب کو آگاہ کرتے رہے ہیں۔ انہی میں سے ایک عہدیدار پرجو ایک موقر ادارے کے انچارج ہیں قرآن کریم کے تحریف شدہ ترجمہ والی کاپیاں تقسیم کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ان پر جو دفعات لگائی گئیں ان کی سزا عمر قید ہے۔اس مقدمہ کا محرک وزیراعظم کے نمائنده خصوصى برائے بین المذاہب ہم آہنگی طاہر اشرفی کا بھائی حسن معاویہ تھا۔مبارک ثانی کی گرفتاری کے بعد ان کی ضمانت پہلے سیشن جج نے اور پھر ہائی کورٹ کے جج فاروق حیدر نے بھی خارج کر دی۔

احمدیہ مسجد پر حملے کے بعد
کوٹلی میں ہنگامہ آرائی کی صورتحال

دولیاہ جٹاں۔کوٹلی۔دسمبر ۲۰۲۳ء:گذشتہ ماہ مخالفین احمدیت نے احمدیہ مسجد پر حملہ کرکے مینارے مسمار کر دیےاور مسجد کی عمارت کو کافی نقصان پہنچایا۔اس واقعے کے بعد انتظامیہ نے مقامی مفتی کی زیر نگرانی ایک کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی نے احمدیوں کی بات سنی اور میٹنگ کو برخاست کر دیا۔ بعدازاں مقامی دکانداروں نے احمدیوں کا بائیکاٹ کر دیا اور اب احمدیوں کو روز مرہ اشیاء کی خرید اری کے لیے دور دراز جگہوں پر جانا پڑتا ہے۔

اس واقعے کے بعد ملک ظہیر نامی تحریک لبیک کے مقامی راہنما نے احتجاجی ریلیوں کی قیادت کیاور احمدیو ں کے نام لے کر انہیں دھمکیاں دیں۔ اسی طرح آگھار میں بھی ایک ریلی نکالی گئی اور احمدیوں کو دھمکیاں دی گئیں اور گالی گلوچ کی گئی۔مقامی جماعت احمدیہ کی طرف سے ان شر پسندوں کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی۔ ان میں سے انیس نے اپنی ضمانت منظور کروا لی۔مخالفین احمدیت معاملے کو ہائی کورٹ میں لے گئے۔ اب احمدیوں کو وکیل تلاش کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ کوئی بھی وکیل مقدمہ لڑنے کو تیار نہیں ہے۔

مخالفین نے ایک اشتہار بھی شائع کیا۔جو یوں تھا۔‘‘تحفظ ختم نبوت کے لیے۱۰؍محرم الحرام کو صبح ۱۰ بجے سے ایک منٹ بھی لیٹ نہیں کیا جائے گا۔مطالبات۔اول۔کوٹلی گلہار کالونی میں قادیانی مرکز کے محراب کو ہٹایا جائے۔ دوم۔قادیانیوں کی طرف سے جاری سرگرمیوں اور شعائر اسلام کے استعمال پر مکمل سخت ترین پابندی عائد کی جائے۔ منجانب۔ عاشقان مصطفیٰ۔نہیں تو ۱۰؍محرم کو یہ کام عوام علاقہ خود انجام دیں گے۔’’

احمدی اساتذہ اور طلبہ کو ہراساں کیا گیا

چک چٹھہ ضلع حافظ آباد۔دسمبر ۲۰۲۳ء:ایک غیراحمدی ہومیوپیتھک ڈاکٹر نے ایک احمدی پر الزام لگایا کہ انہوں نے اس پر کوئی سپرے کیا ہے جس سے وہ ہلاک ہونے لگا تھا۔ اس کے بعد اس ڈاکٹر کی بیٹی نے مقامی سکول میں احمدیوں کے خلاف پراپیگنڈا شروع کر دیا۔ اس نے سکول میں موجود بڑی عمر کے احمدی طلبہ کو نکالنے اور نوعمر احمدی طلبہ کو بہکانے کا منصوبہ بنایا۔ اسی طرح اس نے سٹاف روم میں احمدی اساتذہ کے خلاف گالی گلوچ کی۔یہ سکول مقامی غیر احمدی امام مسجد کا ہے۔ اسی طرح تحریک لبیک کے شر پسند مقامی احمدیہ مسجد کے خلاف کارروائی کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

منڈی بہاؤالدین میں احمدیت مخالف احتجاج

مخالفین نے ۱۰؍دسمبر ۲۰۲۳ءکو شاہ تاج شوگر مل کے باہر احتجاج کی کال دی تھی کیونکہ شاہ تاج شوگر مل میں موجود مسجد کے حوالے سے کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی تھی۔اس حوالے سے احمدیہ وفد نے ڈی پی او سے ملاقات کی ۔ اس وقت غیر احمدی بھی وہاں موجود تھے۔علاقے کے زمینداروں نے فصلوں کے نقصان کے حوالے سے پولیس کو آگاہ کیا۔ پولیس نے کہا کہ وہ کسی صورت صنعتی نقصان کو برداشت نہیں کریں گے۔۱۰؍دسمبر کو مخالفین شوگر مل کے باہر جمع ہونا شروع ہو گئے۔ پولیس مل کے اندر اور باہر موجود تھی۔ پولیس نے ان کو سڑکیں بند کرنے نہ دیں تو یہ لوگ مقامی بس اڈے کی طرف چلے گئےاور سڑکوں کو بند کرنا شروع کر دیا۔پولیس کی کارروائی کی وجہ سے پچاس سے زائد شرپسند پولیس پر پتھراؤ کرتے ہوئے وہاں سے فرار ہو گئے۔

احمدی طالبعلم کو عقیدے کی بنیاد پر
سکول سے نکال دیا گیا

گلشن پارک لاہور۔ ۱۵؍نومبر۲۰۲۳ء: ایک احمدی کے دوبیٹے ایک اکیڈمی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ایک روز پرنسپل نے والد کو بلایا۔وہ تو نہ جا سکے تاہم ان کی اہلیہ اکیڈمی میں گئیں۔ پرنسپل نے کہا کہ وہ نہیں جانتا تھا کہ آپ لوگ قادیانی ہیں۔ اب آپ کے بچے اس اکیڈمی میں نہیں پڑھ سکتے۔اس نے فیس واپس کر دی اور کہا کہ اکیڈمی کی نوٹ بکس واپس کر دیں۔ اس بات سے تمام اہل خانہ پریشان ہیں اوربچوں کے لیے کوئی اَور سکول تلاش کر رہے ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button