پنڈت لیکھرام کی ہلاکت
ایک انذاری پیشگوئی کا ظہور
بانی اسلام حضرت محمد ﷺ کی کامل غلامی میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے کا دعویٰ فرمایا تو سنت انبیاء کے مطابق آپؑ سے بھی عوام اور علماء کی طرف سے ان عظیم الشان دعاوی کی صداقت کے ثبوت مانگے گئے۔ تب گو آپؑ کے حق میں صحف مقدسہ اور بزرگان سلف کی تحریرات بطور دلیلِ صداقت موجود تھیں، پھر بھی آپؑ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بیش بہاتائیدی نشانات عطاکیے گئے تا حق کے طالبوں پر اتمامِ حجت ہو سکے۔
آپؑ کا دعویٰ نہ صرف مسلمانوں بلکہ عیسائیوں اور ہندوؤں کی توجہ کا یکساں مرکز بنا کیونکہ یہ تمام مذاہب آخری زمانہ میں ایک ’نجات دہندہ‘کے منتظر تھے۔ ان تینوں مذاہب کے صحف مقدسہ میں آخری زمانہ میں آنے والے کرشن، اوتار اور مسیحا کی پیش خبریاں موجود تھیں پس صرف مسلمانوں کو ہی اس دعویٰ مسیحیت کی سچائی کے ثبوت درکار نہ تھے بلکہ دیگر بڑے مذاہب کے پیروکار بھی ا ن کے متقاضی تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی متعدد معرکۃ الآراء تصنیفات میں دیگر مذاہب کے صحفِ مقدسہ میں موجود ان پیش خبریوں پر سیر حاصل بحث موجود ہے جن میں آخری زمانہ میں آنے والے منجی اور مسیح کا ذکر ہے۔ ان کتب میں آپؑ نے وہ دلائل پیش کیے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کس رنگ اور پہلو سے وہ پیشگوئیاں آپؑ کی ہی ذات میں پوری ہوتی ہیں۔
جس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے یہ نظریاتی بحثوں کا زمانہ تھا جس میں محض علم کلام کے ذریعہ اپنے دلائل کی تشریح اس دَور کے ہندوستان میں کافی نہ سمجھی جاتی تھی۔
اس زمانہ میں مناظرہ کا جو طریق متعدد ہندوستانی ریاستوں میں رواج پکڑ چکا تھا اس کے مطابق فریقَین ایک دوسرے کے ساتھ بحث مباحثہ کرتے اور آخر تک ہرایک اپنے آپ کو فاتح ثابت کرنے کی کوشش کرتا، مگر اس طرح نتیجہ کچھ بھی نہ نکلتا تھا کیونکہ ہر ایک کا مقصد طلبِ حق یا حصولِ علم کی بجائے فریقِ مخالف کی تذلیل و تحقیر ہوتا۔ حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوٰۃو السلام نے بھی متعدد مناظرے کیے مگر اس طریق کےبے فائدہ ہونے کے باعث آپ ؑ نے اس طرز تبلیغ کو ترک کردیا۔ آپؑ نے حق کے طالبوں کی روحانی تسکین کے لئے ایک منفرد طریق متعارف کروایا اور وہ طریق حق کو پہچاننے کیلئے زندہ خدا یعنی اللہ تعالیٰ سے براہِ راست رہنمائی حاصل کرنے کا تھا۔ آپؑ نے فرمایا کہ ہدایت کے متلاشی کو آپؑ کے پاس آنا چاہیے اور کچھ وقت آپؑ کی صحبت میں گزارنا چاہیے تا وہ آپؑ پر خدا تعالیٰ کے نازل ہونے والے افضال اور ظاہر ہونے والے الٰہی تائیدی نشاناتکا خود مشاہدہ کر سکے۔ چنانچہ ہزاروں افراد نے اس طریق کے مطابق عمل کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کی اور اپنی نجات کے سامان کیے۔
اگرچہ آپؑ کا یہ طرزِ عمل آنحضور ﷺ اور امت مسلمہ کے صلحاء و صوفیاء کی سنت مقدسہ کے عین مطابق تھا لیکن امت مسلمہ میں مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ تقریباً ناپید ہو چکا تھا۔
انبیاء کی سنت کے مطابق ایک اَور طریق جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اختیار فرمایا وہ آئندہ ہونے والے واقعات کے متعلق اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر پیشگوئی کرناتھا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
فَلَا یُظْھِرُ عَلیٰ غَیْبِہٖ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ
(سورۃ الجن ، آیت نمبر27-28)
کہ اللہ تعالیٰ غیب کا علم صرف اپنے چنیدہ رسولوں پر ہی ظاہر فرماتا ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ متعدد پیشگوئیاں عالمگیر اثرات کی حامل تھیں جبکہ بعض پیشگوئیاں چند مخصوص افراد سے تعلق رکھتی ہیں۔ چنانچہ ان میں پنجاب میں طاعون کی وباء پھیلنے کی پیشگوئی سے لیکر زَارِ روس کی سلطنت کی تباہی اور عالمی تباہ کاریوں اور جنگوں کی پیشگوئیاں شامل ہیں جو کہ عین اپنے مقررہ وقت پر پوری ہوئیں۔
(Ahmadiya Movement and Its Western Propaganda by James Thayer Addison, Published: Harvard Theological Review 22, No. 1, January 1929: 1-32)
نیز وقت نے یہ بھی دکھلایا کہ کچھ افراد کے متعلق آپؑ کی بعض پیشگوئیوں نے عالمی شہرت حاصل کی جن میں مغربی دنیا میں الوہیت کے دعویدار مثلاً پگٹ اور ڈوئی کے متعلق پیشگوئیاں جو برطانوی، امریکی اور آسٹریلوی اخبارات اور جرائد میں شائع ہوئیں شامل ہیں۔
ایسی ہی ایک پیشگوئی لیکھرام کے متعلق تھی جو کہ آریہ سماج تحریک کا ایک سرگرم رکن تھا۔ یہ پیشگوئی دراصل آپؑ کی طرف سے اس کیلئے ایک تنبیہ اور انذار تھی۔ لیکھرام آنحضرت ﷺ کی مقدس ذات کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا تھا۔ آپؑ نے اولا اسے اس مکروہ عمل سے منع فرمایا لیکن جب وہ اپنی بدزبانی میں تمام حدود پار کرچکا تو خدا کی پکڑ اور اُس کے عذاب کا مورَد بن کر رہتی دنیا تک عبرت کا ایک نشان بن گیا۔
برطانوی راج میں ہندوستان کا صوبہ پنجاب بے شمار مذاہب کی آماجگاہ اور مذہبی مناظروں کا ’اکھاڑہ‘ بن چکا تھا۔ اس صوبہ میں مسلمان، ہندو اور سکھ کثرت سے آباد تھے۔ مزید برآں عیسائیت کی ترویج بھی نئے طور طریقوں سے زور پکڑ رہی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سوامی دیانند سرسوتی نے 1875ء میں آریہ سماج کی تحریک کی بنیاد رکھی تا ہندو مذہب کے پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکے اور ان لوگوں کو دوبارہ ہندو مذہب میں شامل کیا جاسکے جو ہندو مت کو چھوڑ چکے تھے۔
عقائد میں جدت کی بنا پر سوامی دیانند کو اپنے ہی دیگر ہندو شدت پسند فرقوں کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ مخالفت مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرف سے کی جانے والی مخالفت سےبھی بڑھ کر تھی۔ 1883ء میں سوامی دیانند کی وفات کے بعد اس کے تین شاگرد: گرو دت، پنڈت لیکھرام اور لالہ منشی رام نے آریہ سماج کے عقائد کی تشکیل اور ان کی ترویج میں نہایت بنیادی کردار ادا کیا۔ گرو دت نہایت تعلیم یافتہ اور علمی طبقہ میں اثرو رسوخ کا حامل تھا۔ اس نے اپنے ارد گرد ایک ایسی جماعت اکٹھی کر لی جو دیانند کی تعلیمات کی تفسیر پر یقین رکھتی تھی۔ چنانچہ تاریخ نے اس اہم موڑ پر آریہ سماج کو ایک شدت پسند تنظیم میں بدلتے ہوئے دیکھا۔
(Communalism in the Punjab: The Arya Samaj Contribution, by Kenneth W. Jones, Published: The Journal of Asian Studies 28, No, 01 (November 1968) 39-54)
بعد ازاں پنڈت لیکھرام جو کہ اس مذہبی شدت پسند تنظیم کا سربراہ مقرر ہوا اس نے اسلام کی شدید مخالفت کو اپنی توجہات کا مرکز بنایا۔ مذکورہ بالا ماخذ میں کینیتھ جونز لیکھرام کی شدت پسندی کی بابت لکھتا ہے:
’’مسلمانوں کے علاقہ میں پرورش حاصل کرنے کے بعد اور مسلمان پولیس افسران کے تحت اپنی خدمات انجام دینے کے بعد لیکھرام نفسانی طور پر متشدد ہندو کا روپ دھار گیا۔‘‘
آہستہ آہستہ تقریر اور تحریر میں لیکھرام کے اسلام پر پَے در پَےحملے اس کی پہچان بن گئے۔ تب نہ صرف مسلمان اس کے اس متشدد رویہ کا تذکرہ کرتے بلکہ خود اس کے ساتھیوں کا بھی یہی خیال تھا اور انہوں نے سر عام اس کے اس رویہ کی بابت متعدد جگہ اظہار کیا۔
(کلیات آریہ مسافرازپنڈت لیکھرام،مطبوعہ:ستیا دھرم پرچارک پریس سہارن پور، 1904ء)
آریہ سماجی تاریخ دانوں کا خیال تھا کہ اس کے اپنے مذہب آریہ سماج کیلئے پیار اور محبت کے جذبات نے اس کو اس حد تک متعصّب کر ڈالا تھا کہ وہ اپنے مخالفین کی کمیوں اور کوتاہیوں کو کبھی معاف نہ کرتا جبکہ وید کے متعلق کوئی بات کی جاتی تو وہ خاموش نہ رہ سکتا تھا اور نہایت سخت الفاظ میں حملہ آور ہوتا۔ وہ اس بات کی بھی پروا نہ کرتا کہ اس کے سامنے کون بیٹھا ہوا ہے۔
(کلیات آریہ مسافرازپنڈت لیکھرام،مطبوعہ:ستیا دھرم پرچارک پریس جالندھر،1897ء)
مذکورہ بالا مقام پرمصنف نے مزید تحریر کیا کہ لیکھرام کا لہجہ زبانی مباحثہ کے دوران نہایت درشت ہو جاتا۔
1893ء میں آریہ سماج دو گروہوں میں بٹ گیا اور دونوں عقائد کے لحاظ سے ایک دوسرے کے عین مخالف میدان میں آ کھڑے ہوئے۔ کسی قدر علمی شغف رکھنے والا طبقہ لالہ ہنس راج اور لالہ لجپت رائے کے گروہ میں شامل ہوگیا جبکہ دوسرا گروہ جس کے عقائد شدت پسندی پر مبنی تھے لیکھرام کی قیادت میں آ شامل ہوئے۔
(Hindu-Muslim Relations in British India: A Study of Controversy, Conflict and Communal Movements in Northern India, 1923-1928, by G R Thursby)
آریہ سماج کا یہ شدید جارحیت پسند گروہ ہر اس طریق پر گامزن رہا جس پر چل کر وہ کھلم کھلا مسلمانوں کی مخالفت کر سکتے تھے۔
اختلاف
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے، سخت بے باکی سے گند اچھالنے اور استہزاء کرنے میں کینہ پرور اور گندہ دہن لیکھرام کو دعوت دی کہ وہ قادیان آئے اور آپؑ کے ہاں چند دن قیام کرےتا اس کے اعتراضات کا مدلل جواب اسے دیا جاسکے۔ وہ ان دنوں میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونے والے نشانوں کا مشاہدہ بھی کرے اور اسے کوئی خاص نشان بھی دکھایا جا سکے۔
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ 651، مطبوعہ:اسلام انٹرنیشنل پبلی کیشنز، سرے، انگلستان 2009 و استفتاء، روحانی خزائن جلد 12،صفحہ 110،لندن 1984ء)
لیکھرام نے اس دعوت کو قبول کیا اور 1885ء میں عازم قادیان ہوا۔
(Communalism in the Punjab: The Arya Samaj Contribution, by Kenneth W. Jones, Published: The Journal of Asian Studies 28, No, 01 (November 1968) 39-54)
اپنے قیام کے دوران اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ خط و کتابت کا سلسلہ جاری رکھا اور اسلام، بانی اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے عقائد کو اپنے طعن و تشنیع کا متواتر نشانہ بناتا رہا۔
(استفتاء، روحانی خزائن جلد 12،صفحہ 113-116،لندن 1984ء)
اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نشان نمائی کا مطالبہ کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ بھی اپنے پرمیشر سے ہندو مذہب کے حق میں نشان نمائی کیلئے درخواست کر رہا ہے۔
(استفتاء، روحانی خزائن جلد 12،صفحہ 110،لندن 1984ء)
لیکھرام نے آپؑ کو مباہلہ کی دعوت دی اور کہا کہ دونوں یہ دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو وہ سچے کی زندگی میں اس دنیائے فانی سے کوچ کر جائے۔
(استفتاء، روحانی خزائن جلد 12،صفحہ 110،لندن 1984ء)
چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں لیکھرام کے تمام اعتراضات کا جواب دیا وہاں آپؑ نے لیکھرام کے اس چیلنج کو بھی قبول فر مایا۔
(استفتاء، روحانی خزائن جلد 12)
لیکھرام نے پیشگوئی کی کہ پیشگوئی کی تاریخ سے تین برس کے اندر اندر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیضہ کی وبا سے وفات پا جائیں گے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیشگوئی کی کہ خدا تعالیٰ نے آپؑ کو مخاطب ہو کر فرمایا ہے کہ لیکھرام چھ سال کی میعاد کے اندر اندر جبکہ یہ پیشگوئی عوام الناس تک پہنچ جائے عید کے روز اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔
( (Ahmadiya Movement and Its Western Propaganda by James Thayer Addison,Published: Harvard Theological Review 22, No. 1, January 1929: 1-32)
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5، صفحہ 650، اسلام انٹرنیشنل پبلی کیشنز، سرے، انگلستان، 2009ء)
اس جھگڑے کی اصل حقیقت کو معلوم کرنے کیلئے لازم ہے کہ اس کی وجوہات تک پہنچا جائے۔
لیکھرام تمام مذہبی جماعتوں میں اپنی شعلہ بیانی اور شدت زبانی کے باعث مشہور تھا۔ اس نے یہ طرز عمل آریہ سماج کے بانی پنڈت دیانند سے ورثہ میں حاصل کیا تھا جو کہ ایسے حملے دیگر تمام مذاہب پر روا رکھتا تھا۔ اور ان کا اولین نشانہ اسلام تھا۔
(اخبار عام لاہور، صفحہ 169، مقامی اخبارات،برٹش لائبریری)
نیز دیکھیے:
(The Light of Truth, by Ganga Prasad Upadhaya, Page 780)
تقریر و تحریر میں اس کی طرف سے الفاظ کا چناؤ تما م مسلمانوں کیلئے نہایت تکلیف کا موجب تھا۔ مثلاًمذکورہ بالا مصنف نے لکھاہے کہ اس نے اسلامی نظریہ بہشت کو کنچنیوں کے دَر سے تشبیہ دی۔ لیکھرام نے اپنا یہ کاروبار آنحضور ﷺ کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے میں گزارا اور اس طرح ہندو مسلم فسادات کی پنجاب میں بنیاد رکھ دی۔
(Arya Dharm by Kenneth W. Jones, University of California Press,1976, Page:146)
گو اس کی گندہ دہنی نے مسلمان حلقوں میں غصہ اور رنج کی ایک لہر پیدا کر ڈالی مگر ان کی طرف سے معقول طریق پر احتجاج کی کمی تھی۔
(پنجاب سماچار، برٹش لائبریری ، مقامی اخبارات، صفحہ 184)
لیکھرام اور اس کے متبعین کی طرف سے اسلام اور بانی اسلام آنحضور ﷺ کے خلاف کی جانے والی ہرزہ سرائی کا جواب مسلمان یا تو گالیوں سے دیتے یا جبرو تشدد کی آڑ لیتے۔ 1880ء اور 1890ء کی اخیر کی دہائی میں مقامی زبانوں میں شائع ہونے والے اخبارات مسلسل مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کی صورتحال کو محفوظ کرتے رہے اور انہوں نے اس امر کو بڑی تفصیل سےبیان کیا کہ کس شدت کے ساتھ یہ دونوں مذاہب ایک دوسرے کے عقائد پر حملہ آور ہوتے رہے۔ اس دہائی کے اخیر تک خصوصاً 1897ء میں ایسی خبروں کی تعداد بہت بڑھ چکی تھی۔
(برٹش لائبریری، مقامی اخبارات، خلاصہ جات، انڈیا آفس ریکارڈ)
آریہ سماج کی اسلام اور بانی اسلام کے خلاف گندہ دہنی پر معقول طریق احتجاج صرف اور صرف حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی طرف سے سامنے آیا جن کے اسلام کے بطل جلیل ہونے میں کسی کو کوئی شک نہ تھا۔
(Communalism in the Punjab: The Arya Samaj Contribution, by Kenneth W. Jones, Published: The Journal of Asian Studies 28, No, 01 November 1968 146-148)
آپؑ کی پہلی معرکۃ الآراء تصنیف براہین احمدیہ منظر عام پر آئی اور ’’باب وین ڈر لنڈن ‘‘ کے مطابق اس تحریر میں آپؑ نے نہایت احسن طریق پر اسلام کے خلاف دیگر مذہب خصوصاً آریہ سماج کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات کا مفصل جواب دیا ہے۔
(Moral Languages from Colonial Punjab by Bob van der Linden, Page 185, New Delhi, Manohar, 2008)
حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ تصنیف آریہ سماج کے بانی پنڈت دیانند کو بھی ارسال کی اور اس کو دعوت دی کہ وہ اس کتاب کی بابت مباحثہ کیلئے میدان میں آئیں مگر اس سےاس کا کوئی جواب ہی بن نہ پڑاچہ جائیکہ وہ اس کی کسی تحریر کا ردّ کرتا۔
(Moral Languages from Colonial Punjab by Bob van der Linden, Page 186, New Delhi, Manohar, 2008)
مسلمانوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تصنیف کا والہانہ اندازمیں خیرمقدم کیا جو اس بات کو ضروری سمجھتے تھے کہ ایسے اعتراضات کا سیر حاصل جواب دیا جائے۔
یہ کتاب نہ صرف اسلام کے دفاع میں لکھی گئی تھی بلکہ اس کتاب میں ہندوؤں اور عیسائیوں کے مقدس صحف کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے عقائد کی بیخ کنی کی گئی تھی۔ چنانچہ اس کتاب نے ہندوؤں اور عیسائیوں کی صفوں میں فکرمندی کی لہردوڑا دی۔
(Moral Languages from Colonial Punjab by Bob van der Linden, Page 104, New Delhi, Manohar, 2008)
نیز دیکھیے: (البلاغ ، فریاد درد، روحانی خزائن جلد 13، صفحہ 19)اور
(Communalism in the Punjab: The Arya Samaj Contribution, by Kenneth W. Jones, Published: The Journal of Asian Studies 28, No, 01 November 1968) 149)
دلائل کی رو سے لا جواب ہونے کے بعد ان ہر دو مذاہب کے پیرو کاروں نے اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کا کھلا محاذ چھیڑ دیا۔
لیکھرام نے براہین احمدیہ کے جواب میں ’تکذیب براہین احمدیہ ‘ لکھی جس کے بعد یکے بعد دیگرے حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام اور پنڈت لیکھرام کی طرف سے متعدد اشتہارات شائع ہوئے۔ لیکھرام گندہ دہنی اور ہرزہ سرائی کے لحاظ سے اسلام کی دشمنی میں تمام مخالفوں سے سبقت لے گیا اور نہایت تحقیر آمیز کلمات سے اسلام کی مخالفت میں مصروف عمل ہو گیا۔ گو اس دور میں پنجاب اختلاف مذاہب کے لحاظ سے ایک اکھاڑے کی حیثیت رکھتا تھا مگر کوئی اور موضوع اس قدر دشنام دہی اور مذہبی انتہا پسندی کا موجب کبھی بھی نہ بنا جتنا کہ پنڈت لیکھرام کی اسلام اور بانیٔ اسلام کے خلاف اگلنے والے زہر نے اپنا اثر دکھایا۔
(Communalism in the Punjab: The Arya Samaj Contribution, by Kenneth W. Jones, Published: The Journal of Asian Studies 28, No, 01 (November 1968) 152)
مباحثہ، تقریر، تحریر اور تشدد تک کو اسلام کے خلاف پرچار کرنے میں روا رکھا گیا۔ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی کتاب براہین احمدیہ مع دیگر کتب لیکھرام کے اعتراضات کا کافی و شافی جواب تھیں اور دلائل و براہین قاطعہ سے مرصع تھیں۔
(صدقہ جاریہ برائے فرقہ آریہ از محمد عبدالماجدنیز دیکھیے نجات آریہ از خلیل محمد آدم)
پیشگوئی دربارہ لیکھرام
یہ وہ موقع تھا جب اسلام کے اس بطل جلیل کی طرف سے ایک عظیم الشان پیشگوئی کی گئی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے یہ پیشگوئی 20؍ فروری 1893ء کو شائع ہوئی۔ آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہاماً یہ خبر دی گئی کہ اگر لیکھرام آنحضرتﷺ کے خلاف بد زبانی اور فتنہ پرداز گفتگو سے باز نہ آیا تو اس پر ایک دردناک عذاب نازل ہو گا جو کہ ہر لحاظ سے نہایت تکلیف دہ ہو گا۔
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 650)
اس پیشگوئی کا اظہار خدا تعالیٰ کی طرف سے گاہے گاہے ہوتا رہا اور اس کے عذاب لیکھرام کے جاری اعمال کے ساتھ بڑھتے چلے گئے۔ جب شروع میں لیکھرام نے پیشگوئی کا مطالبہ کیا تو حضرت مسیح موعود نے خدا تعالیٰ سے خبر پاکر یہ اعلان کیا کہ:
’عِجْلٌ جَسَدٌ لَّہٗ خُوَارٌ لَہٗ نصَبٌ وَ عَذَابٌ یعنی لہ کمثل نصب و عذاب‘
ترجمہ : یہ گوسالہ بےجان ہےجس میں روحانیت کی جان نہیں صرف آواز ہی آواز ہےپس سامری کے گوسالہ کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کیا جائیگا۔
پھر مورخہ 20؍فروری 1893ءکو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ دعویٰ کیا کہ آپؑ لیکھرام کی بابت دعا کر رہے تھے کہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا کہ آج کی تاریخ سے جو 20 ؍فروری 1893ء ہے چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بدزبانیوں کی سزا میں یعنی ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حق میں کی ہیں عذاب شدید میں مبتلاء ہو جائیگا۔
ایک اَور پیشگوئی جوکہ آپؑ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے موصول ہوئی یہ تھی:
چھ سال کے اندر اس کا کام تما م ہو جائیگا۔
چنانچہ اپنی معرکۃ الآراء کتاب کرامات الصادقین میں جو آپؑ نے الہام الٰہی کے تحت پیشگوئی کی میعاد مقرر کی جس میں اس پیشگوئی کا پورا ہو جانا لازم ٹھہرایا وہ عید کا دن ہوگا۔ (کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد 7)جب لیکھرام نے اپنے انجام کو پہنچنا تھاسوائے اس کے کہ وہ اپنی بدزبانی اور بدعملی سے باز آجائے ۔
اسی طرح آپؑ نے یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ لیکھرام کی موت کسی بیماری یا وبا کا نتیجہ نہ ہوگی بلکہ اسکی وجہ اور نتیجہ دونوں ہی اپنی نوعیت کے لحاظ سے پُر ہیبت اور خارق عادت ہوں گے۔
(برکات الدعا، روحانی خزائن جلد6، صفحہ 2-3)
پنڈت لیکھرام اپنی بد گوئی اور بدزبانی سے باز نہ آیا اور اس نے آنحضور ﷺ کے خلاف اپنی بدزبانی جاری رکھی۔ اگر تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مخالفین اسلام کے پاس آنحضورﷺ کی توہین کرنا وہ بہترین ہتھیار تھا جس سے وہ اپنے من پسند نتائج حاصل کرنے میں بآسانی کامیاب ہوتے رہے۔ (امہات المومنین ، رنگیلا رسول اور Satanic Versesجیسی کتب اور عصر جدید میں نبی کریم ﷺ کے خاکے بنانے جیسی مذموم حرکات دراصل پرتشدد ردعمل کو بھڑکانے کی ہی سازشیں ہیں)
اسلام پر اس مشکل گھڑی میں صرف بانی جماعت احمدیہ ہی مؤثر دفاع میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
(Gurus and Their Followers: New Religious Reform Movements in Colonial India, by Antony Copley, Page 111, Oxford University Press, New York, New Delhi, 2000)
لیکھرام کی طرف سے جاری شدہ گندہ دہنی پرمبنی بیانات خصوصاً بعنوان جہاد کے باعث مسلمان نہایت مشتعل ہوئے اور لیکھرام پورے پنجاب میں اپنی مفسدانہ کارروائیوں کے باعث نہ صرف مسلمانان پنجاب بلکہ، سکھوں اور ہندوؤں کے نشانہ پر بھی آگیا۔
(Moral Languages from Colonial Punjab by Bob van der Linden, Page 186, New Delhi, Manohar, 2008)
ظلم کی وہ آگ جو لیکھرام نے خود بھڑکائی تھی اور اس کو اپنی گندہ دہنی اور عناد سے ہوا دی تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کی صداقت کیلئے راہ ہموارکرتی چلی گئی۔
قتل لیکھرام
مسلمان روز بروز اپنی بے چینی میں بڑھتے چلے جارہے تھے۔ بمبئی کے ملاؤں نے لیکھرام کو عدالتی کارروائی کی دھمکی دی اگر اس نے وہ تما م شائع شدہ مواد جس میں اس نے اسلام اور بانی اسلام آنحضور ﷺ کے خلاف ہرزہ سرائی سے کام لیا تھا ان کو جمع نہ کروایا۔
(اکمال الاخبار،شمارہ21؍مارچ 1890ء) نیز دیکھیے:(Tribune, May 3, 1890 )
اس سب کے باوجود مسلمانوں اور آریوں میں خلش بڑھتی چلی گئی۔
پیسہ اخبار نے اپنے شمارہ 29؍اگست 1896ء میںیہ خبر شائع کی کہ کتاب تکذیب براہین احمدیہ کا مقصد ایک عظیم فتنہ برپا کرنا ہے۔ گو کہ بظاہر یہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب براہین احمدیہ میں موجود اعتراضات کے جواب میں لکھی گئی ہے مگر پنڈت نے سخت سے سخت تنقید کے علاوہ اسلام اور بانی اسلام اور دیگر انبیاء اور ہر اس چیز کیلئے جس کو مسلمان مقدس سمجھتے ہیں نہایت گندہ دہنی سے کام لیا ہے۔ اسی طرح پیسہ اخبار نے حکومت وقت سے بھی استدعا کی کہ لیکھرام کے خلاف مناسب اور فوری اقدامات کیے جائیں اور اس کی کتب اور پمفلٹس پر پابندی لگائی جائے۔ انہوں نے اسے عدالتی کارروائی کے ذریعہ دھمکانے کی کوشش کی اور اس کے خلاف دہلی کی عدالت میں توہین رسالت کا کیس بھی دائر کیا جو کہ مسترد کر دیا گیا۔
)Synopsis of the Lawsuit against Lekh Ram in Delhi, India Office Records, British Library, Shelf Mark IOR/LP/R/1/223(
نیز دیکھیے:
)Communalism in the Punjab: The Arya Samaj Contribution, by Kenneth W. Jones, Published: The Journal of Asian Studies 28, No, 01 (November 1968)152(
پنجاب کے باسی فتنہ و فساد کی طرف بڑھتے چلے جارہے تھے۔ لیکھرام نے اپنی گندہ دہنی اور فتنہ پردازیوں کے باعث نہ صرف مسلمانوں کی مخالفت سمیٹی بلکہ عیسائی، سکھ اور کٹر ہندو اور سناتن دھرم کے پیروکار بھی اس کے خلاف میدان میں برسر پیکار ہو گئے۔
(اخبار، چودہویں صدی، مارہ 23؍ مارچ1897ء)نیز دیکھیے:(اخبار : رہبر ہند ، لاہور، شمارہ 15؍ مارچ 1897ء)
1897ءمیں پنجاب کے مسلمانوں نے مؤرخہ 6؍ مارچ کو عید کا تہوار منایا۔ لاہور کی گلیوں میں خوشی اور تمکنت کی لہر دوڑ رہی تھی اور لیکھرام وچھو والی گلی اندرون لاہور میں اپنے گھر میں موجود تھا۔ آج وہ اپنے ایک شاگرد کے ساتھ کمرے میں اکیلا موجود تھا جو کہ کئی ہفتوں سے اس سے سنسکرت سیکھ رہا تھا۔ اس کی بیوی اور اس کی ماں گھر کے صحن میں اس کے کمرے کے باہر موجود تھیں۔ صبح کی خاموشی یک دم ایک ہولناک چیخ سے ٹوٹی۔ پریشانی اور تعجب کی حالت میں لیکھرام کی ماں اور اس کی بیوی کمرے میں دَوڑکر پہنچیں تو انہوں نے لیکھرام کو خون میں لت پت پایا۔ اس کے پیٹ میں خنجر کا وار کیا گیا تھا اور وہ اپنی انتڑیوں کو باہر آنے سے روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ (دافع الاوہام از پنڈت دیو پرکاش، صفحہ 81) قاتل جس نے شاگرد کا روپ دھار کر لیکھرام کا کام تمام کر ڈالا تھا کہیں بھی ڈھونڈے میں نہ آتا تھا۔ لیکھرام کی والدہ اور بیوی نے بھی گواہی دی کہ کمرے سے باہر کوئی بھی نہ آیا تھا اور اس کے علاوہ گھر سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ لیکھرام نے اپنے بستر مرگ پر اپنی موت کا سبب اسی طالب علم کو قرار دیا جو کہ اس کے پاس پاک اور پوتر ہونے کی غرض سے حاضر ہوا کرتا تھا۔ اس بیان کی تصدیق اس کی ماں اور بیوی دونوں نے کی۔
(اخبار عام ، لاہور، شمارہ 26مارچ 1897ء)نیز دیکھیے:( اخبار رہبر ہند ، لاہور شمارہ 15مارچ 1897ء)
آغاز سے ہی لیکھرام کے قتل کے واقعات حیران کن اور خارق عادت شمار کیے جا رہے تھے۔ مقامی اخباروں نے بیان دیے کہ قاتل کا تعلق سناتن دھرم سے ہو سکتا ہے کیونکہ اس مذہب کے عقائد مسلسل لیکھرام کی طعن و تشنیع اور گندہ دہنی کا نشانہ بنتے چلے آ رہے تھے۔ بعض اخباروں میں یہ بیانات دیے گئے کہ کیونکہ وہ برہنہ حالت میں آخری وقت میں پایا گیا تھا چنانچہ اس کا قتل کسی عورت کے ساتھ نا جائز تعلقات کا نتیجہ بھی ہو سکتا تھا اور اس کا قاتل اس عورت کا رشتہ دار تھا۔
یہ بات نہایت حیران کن ہے کہ اس شخص کے نام کا جو کہ لیکھرام کے پاس مسلسل 3 ہفتے تک پڑھنے آتا رہا اور کئی روز تک اس کے ساتھ رہا لیکھرام کے دوستوں اور رشتہ داروں کو علم تک نہ تھا۔
(راقم الحروف کو لیکھرام کے قتل اور اس بابت ہونے والی تحقیقات پر ہندوستان سے طبع ہونے والے لٹریچر کے مطالعہ میں کسی ایک جگہ بھی اس کے قاتل کا نام نہیں ملا خواہ وہ خود آریہ سماجی لٹریچر ہو، یا دیگر تحریرات)
قاتل کے نام اور شناخت کی کھوج میں مقامی اخباروں میں کئی قسم کے بیانات دیے جاتے رہے مگر آریہ ورت کی طرف سے نکلنے والے تمام اخباروں کی انگلیاں حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی طرف اٹھ رہی تھیں۔ اس کی وجہ وہ اس پیشگوئی کو قرار دے رہے تھے جو آپ ؑ کی طرف سے شائع کی گئی۔ تمام اخبار ات نہ صرف اس بات کا اظہار کر رہے تھے کہ آپ ؑ نے لیکھرام کا قتل پورے منصوبہ کے تحت کروایا ہے بلکہ دیگر پیروکار ان کو بھی ہوشیار رہنے کی تنبیہ کر رہے تھے گویا کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی طرف سے ان کے خلاف بھی ایسی کوئی کارروائی ہو سکتی ہو۔
(اخبار: بھارت سدھار، خصوصی اشاعت، شمارہ13 /مارچ 1897ء)
چنانچہ آریہ اخباروں میں یہ الزامات اس شد و مد سے لگائے گئے کہ پولیس کی تفتیشی ٹیموں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کی تلاشی لی تا آپؑ کے خلاف کوئی ثبوت مہیا ہو سکے۔
(اخبار عام، لاہور، شمارہ 11 /مارچ 1897ء)
آریہ سماج اور ان کے متضاد بیانات
فطری طور پر آریہ سماج نے حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام پر اپنی پیشگوئی کو پورا کرنے کی خاطر لیکھرام کو قتل کروانے کا الزام لگانا ہی تھا مگر ان کے پاس اس بات کی تصدیق کیلئے کسی قسم کے کوئی ٹھوس ثبوت نہ تھے۔ پیشگوئی کی تفصیلات جو کہ آریہ اخبارات میں شائع ہوئیں وہ بالکل غلط تھیں جیسا کہ انہوں نے 1897 ءکو پیشگوئی کا چھٹا سال قرار دیا جس تک لیکھرام کو اس دنیا سے پیشگوئی کے مطابق کوچ کر جانا چاہیے تھا۔(پنجاب سماچار، لاہور، شمارہ 13 ؍مارچ 1897ء)
یہ بالکل حقیقت کے برخلاف بیان تھا جو کہ صرف اداروں پر زور ڈالنے اور اپنا نقطہ نظر منوانے کیلئے پیش کیا جارہا تھا تا حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام پر قتل کا الزام ثابت ہو سکے۔
یہ پیشگوئی جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے فروری 1893ء میں کی گئی تھی چنانچہ چھ سال کی مقرر شدہ میعاد کسی بھی طرح 1899ءسے پہلے ختم نہ ہوتی تھی۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پیشگوئی کی مقرر شدہ میعاد آریوں پر واضح تھی مگر انہوں نے جان بوجھ کر اس کو غلط طریق پر شائع کیا تھا تا ان کی دروغگوئی کو تقویت مل سکے۔
(اخبار: بھارت سدھار، لاہور، شمارہ 13 ؍مارچ 1897ء)
چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ان کے الزامات میں موجود اس بھاری نقص سے پردہ اٹھاتے ہوئے یہ وضاحت پیش کی کہ اگر میں نے قتل کروانا ہوتا تو جس سال پیشگوئی کی میعاد ختم ہونی تھی اس سال کرواتا جس میں ابھی بھی دو سال کا عرصہ باقی ہے۔ چنانچہ پیسہ اخبار نے اس امر کو شائع کیا کہ ابھی پیشگوئی کے مطابق مقرر شدہ میعاد میں دو سال کا عرصہ باقی ہے۔
(پیسہ اخبار، لاہور، شمارہ 27 ؍مارچ 1897ء) نیز دیکھیے:( سراج الاخبار،جہلم شمارہ 22؍مارچ 1897ء)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ انہیں اپنے کسی بھی پیروکار کو قتل کرنے پر متعین کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو آپؑ کے پیروکار خود اس شک میں پڑ جاتے کہ یہ انسان خدا کی طرف سے ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور انسانوں کو دوسروں کے قتل کرنے کا حکم دیتا ہے چنانچہ آپؑ کے پیروکار اس حقیقت کو جان کر اسی وقت آپ سے قطع تعلقی اختیار کر لیتے۔ (حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے یہ بات متعدد جگہ بیان فرمائی جیسے آئینہ کمالات اسلام، الاستفتاء، برکات الدعا)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عقل پر مبنی یہ دلیل بھی پیسہ اخبار نے شائع کی اور کہا کہ
یہ ناممکن ہے کہ مرزا صاحبؑ نے اپنے کسی پیروکار کو لیکھرام کے قتل کا حکم دیا ہو کیونکہ آپؑ کے پیروکاروں میں سے اکثر پڑھا لکھا طبقہ ہے اور اگر مرزا صاحبؑ ایسا کوئی حکم دیتے تو وہ اپنے دعویٰ نبوت میں کاذب ہونے پر مہر ثبت کردیتے۔
(پیسہ اخبار، لاہور، شمارہ 27 ؍مارچ 1897ء)
آریہ سماج مسلسل اس بات پر زور دیتے رہے کہ اگر وہ اس قتل میں ملوث نہیں ہیں تو حضور کو چاہیے کہ وہ خدا تعالیٰ سے پوچھیں کہ پھر کس شخص نے لیکھرام کا قتل کیا ہے اور وہ کہاں موجود ہے تا یہ معمہ حل ہو سکے۔
آریہ سماج کے پرزور اصرار پر آپ کے گھر کی مکمل تلاشی لی گئی۔(پیسہ اخبار،لاہور،شمارہ 14؍اپریل 1897ء)مگراس کے باوجود پولیس کوئی بھی ثبوت حاصل کرنے میں ناکام رہی جس سے یہ ثابت ہوتاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اس قتل سے کسی بھی قسم کا تعلق ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سپرنٹنڈنٹ پولیس کو وہ معاہدہ پڑھ کر سنا یا جو کہ آپؑ اور لیکھرام کے درمیان طَے ہوا تھا اور جیسا کہ اس میں کوئی چھپانے والی بات نہ تھی پولیس نے بھی مزید کسی قسم کی تفتیش نہ کی۔
بعد ازاں آریہ اخبارات نے یہ بیان دیے کہ صرف حضرت مسیح موعود اس قتل میں ملوث نہ تھے بلکہ مسلمان علماء کا ایک گروہ کثیر تھا جو کہ اس منصوبہ کا حصہ تھا۔ چنانچہ اس پروپیگنڈا کے باعث دیگر نامور مسلمان تنظیموں کے گھروں کی بھی تلاشی لی گئی۔ چنانچہ انجمن حمایت اسلام اور اس کے دیگر سیکرٹریان کی تلاشی بھی لی گئی جس میں انجمن نعمانیہ کے سیکرٹری بھی شامل تھے۔ (اخبار: وفادار، لاہور، شمارہ 15؍مارچ 1897ء)
اس سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کی تلاشی بھی حق اور انصاف کے پہلوؤوں کو مد نظر رکھتے ہوئے لی گئی تھی اور جب پولیس نے حضورؑ کو اس قتل سے بری قرار دیا تو وہ کسی بھی قسم کے دباؤ کے تحت نہ تھا۔ حضورؑ نے صرف لیکھرام کی بابت پیشگوئی کی تھی اور اسے عوام الناس تک پہنچایا تھا۔
تفتیش کے وقت ایک ٹیلیگرام کی طرف توجہ دلائی گئی جو لیکھرام کے قتل سے کچھ دن قبل بمبئی سے بھجوائی گئی تھی۔ بھیجنے والے نے لیکھرام کا پتہ معلوم کیا تھا۔
(اخبار عام ، لاہور، شمارہ 19؍مارچ1897ء)
یہ حیران کن بات ہے کہ جب اس طرح کا مشکوک مواد موصول ہوا تو باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی موجود تھی حکام نے اس پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔ بعض لوکل اخبارات نے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ اگر اس بات کا خدشہ آریہ سماج والوں کو ہو گیا تھا تو عبداللہ آتھم کو جس طرح حضور ؑ کی پیشگوئی کے بعد عیسائیوں نے سیکورٹی فراہم کی تھی لیکھرام کو کیوں نہیں کی گئی۔
(اخبار:نور افشاں، شمارہ23؍اپریل 1897ء)
اخبار ’’چودھویں صدی‘‘ کے 23؍مارچ 1897ء کے شمارہ میں درج تھا کہ لیکھرام کو اس کی موت سے کچھ دن قبل اس کے انجام کے بارے میں تنبیہ کر دی گئی تھی۔ ایک عقل سلیم اس امر کی متقاضی ہے کہ لیکھرام اور اس کے حواریوں نے کیوں نہ حکام کو کہا کہ حضورؑ کی نگرانی کی جائے۔ اس طرح کا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا جس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ حضورؑ کی پیشگوئی کو کوئی اہمیت ہی نہ دی گئی تھی اور ان کو اس کے پورا نہ ہونے کا یقین تھا۔
قتل کی واردات یا پیشگوئی کا پورا ہونا؟
پولیس بر وقت موقع واردات پر پہنچی۔ اس نے اچھی طرح جگہ کی تلاشی لی لیکن اس نتیجے پر پہنچنے سے قاصر رہی کہ قاتل کس طرح فرار ہو سکا ہے جبکہ لیکھرام کی ما ں اور بیوی کمرے کے واحد دروازے کے سامنے موجود تھیں۔ لیکھرام کو انارکلی بازار سے قریب میو ہسپتال لے کر جایا گیا۔ یہاں وہ چھ گھنٹے زندہ رہا۔ اس وقت وہ شدید تکلیف میں مبتلا تھا لیکن ہوش کی حالت میں تھا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے قاتل کا ذکر کیا لیکن حضورؑ کے متعلق کوئی الزام نہ لگایا۔ اس کا علاج ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ اور لیفٹننٹ کرنل ایف پیری نے کیا۔ حالانکہ اوّل الذکر حضورؑ کے صحابہ میں سے تھے لیکن لیکھرام نے حضورؑ پر کوئی الزام نہ لگایا۔ جیسے کہانی اپنے اختتام کو پہنچتی ہے بہت سے مزید حیران کن معاملات کھل کر سامنے آتے ہیں۔ مثلاً پولیس اہلکار لیکھرام کے خنجر لگنے سے لے کر اس کی موت تک اس کے ساتھ تھے لیکن اس کے آخری الفاظ کسی نے نوٹ نہیں کیے۔
(اخبار: چودہویں صدی، شمارہ: 23 مارچ 1897ء)
یہ سوال بھی اٹھائے گئے کہ لیکھرام کا دوست جس نے اس کی زندگی خطرے میں ہونے کا اظہار کیا تھا اس کو آریوں نے سامنے پیش کیوں نہ کیا تا معلوم ہو کہ اس نے ان خطرات کا اظہار کس بنا پر کیا تھا۔ یہ چیز اس بات کو مزید واضح کرتی ہے کہ حضورؑ کا اس کے قتل میں کوئی ہاتھ نہیں تھا ورنہ اس کا دوست حکام کو ضرور مطلع کرتا۔ پولیس کی طرف سے ہر ممکن تفتیش کی کوشش کی گئی مگر قاتل نہ مل سکا۔ لیکھرام کے گھر سے ملحقہ تمام ہمسائے اور جگہ کو نشان زدہ کیا گیا اور تلاشی لی گئی مگر قاتل نہ مل سکا۔ جبکہ آریہ کی طرف سے حضورؑ اور مسلمانوں پر قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا حضورؑ ہی وہ واحد شخصیت تھے جن کی طرف کسی بھی قسم کی جارحانہ جوابی کارروائی نہیں کی گئی۔ لوکل اخبارات پنجاب میں مسلمانوں و آریہ کے ٹکراؤ و تنازع کی کہانیوں سے بھرے پڑے تھے لیکن ایک بھی واقعہ اس قسم کا قادیان یا کسی بھی علاقے میں رونما نہ ہوا جس کی حضور ؑ کی طرف سے تحریک کی گئی ہو۔
لیکھرام کی ہلاکت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پیشگوئی کے پورے ہونے کا کا اعلان فرمایا اور اظہار افسوس کیاکہ کاش لیکھرام نبی اکرمﷺ کے خلاف گندہ دہنی سے باز آ جاتا اور اس طرح خدا کے عذاب سے بچ جاتا۔(برکات الدعا)
احبابِ حل و عقدحضورؑ کی پیشگوئی کی فلاسفی کو نظر انداز نہ کر سکتے تھے چنانچہ بعض نے اس کا اظہار بھی کیا کہ گو ان کا نظریہ بھی یہی بن رہا تھا کہ حضورؑ لیکھرام کے قتل میں ملوث ہیں لیکن لیکھرام کی کتب پڑھ کر اوراس پر حضورؑ کے جوابات پڑھ کر ان کو اپنا نظریہ بدلنا پڑا۔ بعض نے اخبارات کو لکھا کہ وہ تو حلفیہ بیان دینے کے لئے تیار ہیں کہ حضورؑ نے کہیں بھی سخت الفاظ استعمال نہیں کیے بلکہ ہندو مذہب کی بعض کمزوریوں کو صرف اجاگر کیا ہے اور ان غلط باتوں کا رد کیا ہے جو آپ کے دشمنوں نے الزاماً لگائے تھے۔
(پیسہ اخبار، لاہور، شمارہ 10 ؍اپریل 1897ء)
مئی 1897ء تک جب قاتل گرفتار نہ ہو سکا تو کچھ مبہم سی رضامندی سامنے آنے لگی کہ ممکن ہے کہ حضورؑ کی پیشگوئی پوری ہوگئی ہو۔ مولوی محمد حسین بٹالوی نے اشاعة السنہ میں پیشگوئی کے متعلق لکھا کہ بیشک یہ پیشگوئی بظاہر صحیح بھی ثابت ہو گئی ہو اس کو ایک نجومی کی پیشگوئی سے زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
(جعفر زٹلی ، لاہور، یکم مئی 1897ء)
ایک اور جگہ ’’وفادار‘‘ میں تحریر کیا کہ مرزا پیشگوئی بیشک کرتا رہے یہ تو مسمریزم سے بھی کی جا سکتی ہے۔
(اخبار: وفادار، لاہور، شمارہ: 15مئی 1897ء)
کئی ماہ تک پنجاب بھر کے لوکل اخبارات میں آریہ سماجیوں کی طرف سے حضورؑ کو لیکھرام کی موت کا قصوروار ٹھہرانے کے لئے گورنمنٹ پر دباؤ ڈالا جاتا رہا۔ اپریل 1897ء کے اختتام پر پریس نے بالآخر حضورؑ کے بے قصور ہونے کے متعلق رپورٹس شائع کرنا شروع کر دیں۔
وکٹوریہ پیپر (سیالکوٹ) نے اپنے یکم مئی1897ء کے شمارے میں رپورٹ شائع کی جس میں تحریر کیا:
باوجود اس کے کہ مرزا غلام احمد ؑ کے دشمنوں نے آپؑ کے خلاف بہت سی شکایات درج کیں (کہ آپؑ ہی لیکھرام کے قاتل ہیں)، گورنمنٹ نے عقل مندی کا مظاہرہ کیا اور ثبوت کی کمی کی وجہ سے مداخلت کرنے سے گریز کیا۔ موجودہ لیفٹیننٹ گورنر اس بارہ میں داد کا مستحق ہے کہ سنی سنائی باتوں پر اس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
ہندوؤں نے گورنمنٹ پر مسلمانوں کی طرفداری کرنے کے الزامات لگائے اور یہ بھی کہا کہ لیکھرام کے قاتل کی تلاش کو سنجیدہ نہیں لیا گیا۔
(آریہ گزٹ، لاہور۔شمارہ: 24 جون 1897ء)
پنجاب گورنمنٹ اور سیکرٹری آف سٹیٹ برائے انڈیا کے مابین ایک خفیہ گفتگو سے جو لندن میں ہوئی اس الزام کو اب بے بنیاد ثابت کیا جا سکتا ہے۔ ان مراسلات سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ اس کیس کو انتہائی سنجیدگی سے لیا گیا جیسا کہ عوامی ونگ نے اپنے ایک خط میں گورنمنٹ انڈیا کو 25 مارچ 1897ء میں مخاطب ہو کر کہا:
گورنمنٹ انڈیا مشکور ہوگی کہ لیفٹیننٹ گورنر لیکھرام کے قتل کی وجہ سے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان جو تناؤ چل رہا ہے ان حالات میں اپنے نقطۂ نظر کو بھی بیان کریں اور اگر کوئی مزید تبدیلی آتی ہے تو اس سے بھی آگاہ رکھیں۔
(Telegram 444 Judicial and Public Department, India Office Records British Library File 765/1897(
پنجاب گورنمنٹ نے ٹیلی گرام نمبر372 جو 27؍مارچ 1897ء کو جواباً تحریر کیا گیا اس میں درج ذیل جواب لکھا:
لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کا خیال ہے کہ لوکل اخبارات میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تناؤکی اطلاعات جو لیکھرام کے قتل کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں وہ لاہور، امرتسر، لدھیانہ، ہوشیار پور، فیروز پور اور پشاور کے علمی طبقے تک محدود ہے، طلباء میں خاص کر موجود ہیں اور یہ آریہ سماج کی طرف سے بھڑکائی جا رہی ہیں جس سے لیکھرام کا تعلق تھا… لیکن قاتل ابھی تک نہیں مل سکا۔
(Telegram 444 Judicial and Public Department, India Office Records British Library File 765/1897(
پنجاب گورنمنٹ کی اس سے لیکھرام کیس میں دلچسپی واضح ہوتی ہے اور یہ بھی وضاحت ہوتی ہے کہ آریہ سماج کے خلاف کسی بھی قسم کا بغض نہیں رکھا گیا۔ اس مشکوک قاتل نے، جس کا نام آج تک معلوم نہیں ہو سکا، لیکھرام کو عید کے دن قتل کیا۔ وہ غائبانہ طور پر اس کمرے سے فرار ہو گیا جس کا صرف ایک دروازہ تھا اور وہی داخل ہونے اور باہر جانے کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ مذاہب کے ماننے والےایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہے کہ وہ اس قاتل کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ لیکھرام نے تمام بڑے ادیان کی کسی نہ کسی رنگ میں ہتک کی تھی اس لئے بالکل ممکن تھا کہ ان مذاہب کے کسی ماننے والے نے ہی اس کو ایسی اذیت ناک موت تک پہنچایا ہو۔ پس اس کا قتل مختلف رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے مشکوک ہی رہا۔ باوجود ہر قسم کی تفتیش کے اس کا معمہ حل نہ ہوسکا اور پیشگوئی لفظ بلفظ پوری ہوئی۔ حضورؑ کو ملزم قرار دینے کی ہر ایک کوشش بہت ہی بری طرح ناکام رہی۔
(Ahmadiya Movement and Its Western Propaganda by James Thayer Addison, Published: Harvard Theological Review 22, No. 1, January 1929: 1-32(
یہ کیس جو بند ہو گیا اور ہمیشہ بند رہے گا اور حضورؑ کی سچائی کا ایک بہت بڑا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپؑ، جو خدا کے مسیح موعودؑ تھے، خدا کے نبی تھے!
(اردو ترجمہ :حسیب احمد، طارق حیات،
بشکریہ ریویوآف ریلیجنز اگست 2015ء)
٭…٭…٭