سورۃ فاتحہ کی اہمیت و فضیلت
سورۃ فاتحہ ایک ایسی سورۃ ہے جسے ہم ہر نماز میں پڑھتے ہیں۔ احادیث میں جہاں اس کے بہت سے نام اور فضائل بیان ہوئے ہیں وہاں ایک روایت میں اس کا نام سورۃ الصلوٰۃ بھی ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے صلوٰۃ یعنی سورۃ فاتحہ کو اپنے اور بندے کے درمیان نصف نصف کر کے تقسیم کر دیا ہے۔ یعنی آدھی سورۃ میں صفاتِ الٰہیہ کا ذکر ہے اور آدھی سورۃ میں بندے کے حق میں دعا ہے۔
پس یہ اس کی اہمیت ہے جسے ہر نماز پڑھنے والے کو ہمیشہ اپنے پیشِ نظر رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات پر بھی غور کرتے ہوئے اُن سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جائے اور اسی طرح اس بات پر بھی غور کر کے جو اس میں دعائیں ہیں، اس کی دعاؤں سے بھی فیض پانے کے لئے ہر نماز کی ہر رکعت میں بڑے غور سے پڑھنا چاہئے۔ اسی طرح یہ بات بھی ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ اس سورۃ کا اس زمانے میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ ہے اس سے بھی بہت نسبت ہے۔ پرانے صحیفوں میں بھی اس حوالے سے اس کا ذکر موجود ہے اور خود سورۃ فاتحہ کا مضمون بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت کے انعامات اور اس کے حصول اور اس زمانے کے شر اور گمراہی سے بچنے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پس اس لحاظ سے آجکل کے مسلمانوں کے لئے اس کی بڑی اہمیت ہونی چاہئے۔ لیکن بدقسمتی سے مسلمان علماء نے قوم کو اس حد تک اپنے قابو میں کر لیا ہے، اس حد تک اُن کی غور کرنے کی صلاحیت کو ختم کر دیا ہے کہ وہ اس بات پر غور کرنے کی طرف توجہ دینے کی طرف تیار ہی نہیں ہیں۔ اکثریت اُن میں سے، اس کی وجہ سے عموماً عامۃ المسلمین یہ غور کرنا نہیں چاہتے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ایسی تعداد بھی ہے جو سوچتی ہے، غور کرتی ہے اور مسیح و مہدی کی ضرورت کو سمجھتی ہے۔
پس یہ لوگ جو مولوی کے ہاتھ چڑھے ہوئے ہیں انہیں یہ مولوی اور یہ نام نہاد علماء تو شر اور گمراہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ پس جب ہر درد مند دل رکھنے والا انسان اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ شر، شرک اور گمراہی کا دور دورہ ہے اور یہ ہر جگہ ہمیں پھیلتی نظر آ رہی ہے اور اس کے دُور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے کسی خاص بندے کی ضرورت ہے، یہ احساس تو ہے ان میں، تو پھر تلاش بھی کرنا چاہئے کہ وہ بندہ کہیں آ تو نہیں گیا؟ یقیناً اللہ تعالیٰ کا وہ خاص بندہ آ چکا ہے، لیکن اکثریت جیسا کہ میں نے کہا علماء کے پیچھے چل کر اُسے ماننے کو تیار نہیں یا خوف کی وجہ سے ماننے کو تیار نہیں۔ پس علماء کو بھی اور عوام الناس کو بھی خدا تعالیٰ سے رہنمائی لینی چاہئے اور اپنی ضد چھوڑ دینی چاہئے۔ بہر حال ہمارا کام پیغام پہنچانا ہے اور وہ ہم انشاء اللہ تعالیٰ پہنچاتے رہیں گے، اپنا کام کرتے چلے جائیں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہم احمدیوں کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشقِ صادق کی طرف منسوب ہوتے ہیں، ہمیں بھی اپنا علم و عرفان بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ سورۃ فاتحہ کے مضامین سے زیادہ سے زیادہ فیضیاب ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰؍فروری ۲۰۱۲ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲؍مارچ ۲۰۱۲ء)