اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف ،ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا!
واضح رہے کہ جہاں ویٹو پاور موجود ہے وہاں انصاف کا ترازو کبھی متوازن نہیں ہو سکتا۔ (حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)
۱۸؍ اپریل ۲۴ء بروز جمعرات کو سلامتی کونسل میں فلسطین کی اقوامِ متحدہ کی مستقل رکنیت کی ابتدائی قرارداد پر رائے دہی ہوئی۔ پندرہ میں سے بارہ ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دیا، برطانیہ اور سویٹزرلینڈ نے اپنا حقِ رائے دہی محفوظ رکھا جبکہ امریکہ نے اس ابتدائی قرارداد کو ویٹو کر کے ناکام بنا دیا۔
اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا!
اگر اس قراردار کو ویٹو نہ کیا جاتا تو اسے اگلے مرحلے پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا جانا تھا جہاں دو تہائی اکثریت کے حاصل ہو جانے پر فلسطین کو اقوامِ متحدہ کی مستقل رکنیت مل جاتی اور اس طرح فلسطین کا قیام بطور آزاد و خودمختار ریاست عمل میں آجاتا جسے اکثرمبصرین مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کی جانب ایک مثبت قدم قرار دے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ فلسطین ۲۰۱۲ء سے غیررکن زائر ممبر کی حیثیت سے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شامل ہے۔
اسرائیل کے وزیرِ خارجہ اسرائیل کاتز (Israel Katz)نے قرارداد کو ویٹو کرنے پر امریکہ کی تعریف کرتے ہوئے بیان دیا کہ "The shameful proposal was rejected. Terrorism will not be rewarded.”اقوامِ متحدہ میں برطانیہ کی مندوب باربرا وُڈورڈ (Barbara Woodward) نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین کی شناخت بطور ایک الگ ریاست نہ تو (بطور ایک آزاد و خودمختار ملک بننے کے) اس مرحلے کے بالکل آغاز پر ہونی چاہیے اور نہ ہی بالکل انتہا پر۔ جبکہ فلسطین کے صدر محمود عباس نے امریکہ کی جانب سے مذکورہ قرارداد کو ویٹو کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ کے اس اقدام کو غیرمنصفانہ، غیراخلاقی اور بلاجواز قرار دیا۔ اُن کے مطابق امریکہ نے ویٹو کا حق استعمال کرکے بین الاقوامی برادری کی مرضی کا احترام نہیں کیا جو فلسطین کو اقوامِ متحدہ کا مستقل رکن بنانے کے خواہاں ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتیرس (Antonio Guterres) نے سلامتی کونسل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ خطے میں ہونے والی حالیہ کشیدگی سے اسرائیل کے ساتھ ساتھ مکمل طور پر آزاداور خودمختار فلسطین کے قیام اور ان دونوں کے درمیان دیرپا امن کے قیام کی ضرورت کی اہمیت اور بھی زیادہ اجاگر ہوئی ہے۔ اس معاملے کے دو ریاستی حل کی طرف توجہ نہ کرنے سے خطے میں بسنے والے کروڑوں لوگ ہمیشہ خوف کے سایوں میں زندگی گزارنے پر مجبور رہیں گے۔
۲۹؍ نومبر ۱۹۴۷ء کو اقوامِ متحدہ کی مشہور قرارداد نمبر ۱۸۱ کو جسے the partition resolution بھی کہا جاتا ہے منظور کر لیا گیا۔ اسی کی بنیاد پر ۱۴؍ مئی ۱۹۴۸ء کو فلسطین میں برطانیہ کا عمل دخل (mendate)ختم ہوتے ساتھ ہی Jewish Agency کے سربراہ ڈیوڈ بِن گوریون (David Ben-Gurion) نے اسرائیل کی آزادی کا اعلان کر دیا اور امریکی صدر ہیری ٹرومین (Harry S. Truman) نے اسی روز اسرائیل کو بطور ایک آزاد مملکت تسلیم کر لیا۔ ٹرومین سے پہلے امریکی صدر روزویلٹ نے خطے کے بارے میں کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے سے پہلے مسلمانوں اور یہودیوں سے کیا وعدے کیے تھے، نیز اسرائیل کے قیام کے اگلے ہی روز عرب ممالک نے اسرائیل پر کن وجوہات کی بنا پر حملہ کیا تھا، فی الوقت ان تفصیلات میں جانے کا موقع نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جنگ عظیم دوم میں فاتح قرار پانے والی عظیم الشان قوتوں کے نمائندوں کو سلامتی کونسل کا مستقل ممبر قرار دینے اور اس میں پیش ہونے والی قرارداد کو ویٹو کرنے کا حق دینے سے ہی سیکیورٹی کونسل کے قیام کا مقصد فوت ہو گیا تھا کیونکہ اس طرح گویا انصاف پر شب خون مارنے کو قانون کی پشت پناہی حاصل ہو گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے قیام کی ایک دہائی کے بعد ہی ریاستہائے متحدہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان چلنے والی سردجنگ کے دوران سلامتی کونسل کی افادیت کی قلعی کھل گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ چاہے سلامتی کونسل کے پندرہ میں سے چودہ ممبران (جن میں سے چار ویٹو کا برابر حق بھی رکھتے ہیں) کسی قرارداد کے حق میں رائے دے دیں اور صرف ایک مستقل ممبر اُسے ویٹو کر دے تو وہ قرار داد مسترد قرار پائے گی۔ یعنی دس منتخب ارکان کے ووٹوں کی اہمیت ہو نہ ہو، پانچ مستقل ممبران میں سے چار ہم پلّہ ووٹوں کی بھی کسی پانچویں یعنی صرف ایک ووٹ کے سامنے کوئی حیثیت نہیں۔ دنیا کے کسی حساب کتاب میں بھی یہ فارمولا درست بیٹھتا نظر نہیں آتا۔ ۱۸؍ اپریل کو سلامتی کونسل میں ایک مرتبہ پھر ایسا ہی ہوا۔ جہاں غالب دنیا مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کا واحد حل فلسطین کے آزاد اور خودمختار قیام میں دیکھتی ہے وہاں ایک امریکہ ویٹو کا حق استعمال کر کے سلامتی کونسل کو اس عمل سے روک دیتا ہے۔
امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک عرصے سے کمال فراست کے ساتھ ویٹو کے اختیار کو دنیا میں حقیقی انصاف اور دیرپا امن کے قیام کی راہ میں ایک بڑی روک قرار دیتے چلے آرہے ہیں۔ حال ہی میں مورخہ ۹؍ مارچ ۲۰۲۴ء کو جماعتِ احمدیہ برطانیہ کی جانب سے منعقد ہونے والی اٹھارہویں امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
تلخ حقیقت یہ ہے کہ وہ ادارے بھی جنہیں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے بنیادی مقصد کے ساتھ قائم کیا گیا تھا تیزی کے ساتھ اپنی ساکھ کھوتے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اقوام متحدہ ایک کمزور اور تقریباً بے اختیار ادارہ بن گیا ہے جہاں چند اثرورسوخ رکھنے والے ممالک تمام اختیارات پر اجارہ داری رکھتے ہیں اور اکثریت کے خیالات کو آسانی سے مسترد کر دینے کا اختیار رکھتے ہیں۔ نمائندہ ممالک ہر مسئلے کو حقائق اور میرٹ کی بنیاد پر طے کرنے کے بجائے اپنے اپنے اتحادیوں اور اپنے مفادات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے طے کرتے ہیں۔ بالآخر، اہم فیصلے اُن چنیدہ ممالک کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جن کے ہاتھ میں ویٹو پاور ہے۔ جہاں بھی ان کے مفادات کو خطرہ لاحق ہوتا ہے بجائے اس کے کہ امن اور انصاف کے قیام کے لیے مخلصانہ کوششوں کی حمایت کی جائے وہ اپنا ویٹو کا حق ترپ کے پتے کی طرح استعمال کرتے ہیں چاہے اس کی وجہ سے دوسری قوموں کا امن و امان پامال ہوتا ہو اور چاہے سینکڑوں بے گناہ ہلاک ہوتے ہوں۔ لہٰذا واضح رہے کہ جہاں ویٹو پاور موجود ہے وہاں انصاف کا ترازو کبھی متوازن نہیں ہو سکتا۔
حضورِ انور نے یہ بھی واضح فرمایا کہ جب تک ویٹوپاور موجود ہے دنیا میں حقیقی امن کا قیام ناممکن ہے۔ اسی وجہ سے اقوامِ متحدہ اپنی پیش رو تنظیم لیگ آف نیشنز کی طرح روز بروز غیرمؤثر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ فرمایا کہ اگر بین الاقوامی قوانین کی عمارت چاہے وہ کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو منہدم ہو گئی تو جو بدنظمی اور تباہی دیکھنے میں آئے گی اس کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ حضورِ انور نے یہ بھی فرمایا کہ یوکرین ،رشیا جنگ اور اسرائیل، فلسطین جنگ کے معاملات طے نہ پاسکنے کی ایک وجہ ویٹو پاور کا ہونا بھی ہے کیونکہ ویٹوپاور بالفاظ دیگر انصاف کی روح کے خلاف اور جمہوریت اور مساوات کے اصول کی سراسر نفی ہے۔
حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ویٹو پاور کے متعلق جن تحفظات کا اظہار فرمایا ۱۸؍ اپریل کو دنیا نے ایک مرتبہ پھر ان کا تجربہ کر لیا۔ فیصلہ سازوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کسی بھی سطح پر عدل و انصاف کی پامالی بے چینی اور ناامیدی پیدا کرتی ہے۔ اور بےچینی او رناامیدی میں مبتلا فرد یا معاشرہ معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتا ہے جس کا نتیجہ فساد کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا۔ اگر اس بنیادی اصول کو پیش نظر رکھا جائے تو اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عالمی سطح پر بے انصافی کا نتیجہ عالمی نوعیت کی بے چینی، ناامیدی اور پھر عالمی فساد کے سوا بھلا اور کیا ہو سکتا ہے اور لگتا ہے کہ ارباب اختیار اسی بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ دنیا کے کرتے دھرتے ہر سطح پر حقیقی انصاف کے قیام کو یقینی بنائیں تاکہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔ آمین