غزوۂ احد اور غزوۂ حمراء الاسد کے حوالے سے آنحضورﷺ کی سیرت کاایمان افروز تذکرہ نیزمشرق وسطیٰ میں بگڑتی صورتحال کے پیش نظر دعاؤں کی تحریک۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۱۹؍اپریل ۲۰۲۴ء
٭… اس جنگ کے حالات سے پتا چلتا ہے کہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم اخلاق کے کس بلند معيار پر کھڑے تھے
٭…اس جنگ سے صحابہ ؓکي عديم المثال قربانيوں کا بھي پتا چلتا ہے
٭… اللہ تعاليٰ مدينہ کي عورتوں پر رحم کرے انہوں نے ميرے ساتھ ہمدردي کا اظہار کيا ہے۔ مجھے پہلے ہي معلوم تھا کہ انصار کو ميرے ساتھ بڑي محبت ہے
٭… مشرقِ وسطیٰ میں بگڑتی صورتحال کے پیش نظر دعاؤں کی تحریک
٭… مولاناغلام احمد صاحب نسیم مربی سلسلہ اور ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب سابق امیر جماعت امریکہ کی وفات پر مرحومین کا ذکرِ خیر اور نماز جنازہ غائب
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۹؍اپریل ۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت دانیال تصوّرصاحب(مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: جنگِ اُحد کے واقعات کے ضمن میں بعض اَور واقعات پیش ہیں جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سیرت کا پتا چلتا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ جب عبداللہ بن عمرو ؓفوت ہوئے تو ان پر قرض تھا۔ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں عرض کیا کہ آپؐ ان کے قرض خواہوں کو سمجھائیں کہ وہ ان کے قرض میں سے کچھ کمی کردیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خواہش کا اظہار کیا مگر قرض خواہوں نے کمی نہ کی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ جاؤ! اور اپنی کھجوروں کو الگ الگ رکھو۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور کھجوروں کے ڈھیر کے درمیان بیٹھ گئے اور فرمایا :ان لوگوں کو ماپ کر دو۔ مَیں نے ماپ کردیا یہاں تک کہ جو ان کا حق تھا وہ سب ادا کردیا پھر بھی میری کھجوریں بچ گئیں اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ ان میں کچھ بھی کمی نہیں ہوئی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے شہداء کے لیے دعا کی کہ
اے خدا! اُحد کے شہیدوں کے پسماندگان کے لیے اچھے خبرگیر پیدا فرما۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور دعا کا ذکر ملتا ہے جو آپؐ نے ایک شہید کی بیوہ کو دی۔ وہ دعا یہ تھی کہ
مَیں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے خاوند سے بڑھ کر تمہاری خبرگیری کرنے والا کوئی شخص پیدا کردے۔
اس ضمن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس جنگ کے حالات سے پتا چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق کے کس بلند معیار پر کھڑے تھے۔ اور اس جنگ سے صحابہ ؓکی عدیم المثال قربانیوں کا بھی پتا چلتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسروں کے جذبات اور احساسات کا کس قدر احترام تھا اس حوالے سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنگِ اُحد سے واپس تشریف لائے تو کیونکہ زخموں کی وجہ سے آپ کو نقاہت زیادہ تھی تو صحابہؓ نے آپؐ کو سہارے سے گھوڑے سے اتارا۔ مغرب کا وقت تھا۔چنانچہ آپؐ نماز ادا کرکے گھر تشریف لے گئے۔ مدینے کی عورتوں کو اپنے مردوں کی شہادت کی خبریں پہنچ چکی تھیں۔چنانچہ انہوں نے ان شہیدوں پر رونا شروع کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آوازیں سنیں تو آپؐ کو مسلمانوں کی تکالیف کا خیال آیا اور آپؐ کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے چچا اور رضاعی بھائی حمزہ بھی شہید ہوئے ہیں مگر ان پر رونے والا کوئی نہیں۔ جب یہ خبر ان عورتوں تک پہنچی تو انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر حاضر ہوکر حضرت حمزہ ؓکے لیے رونا شروع کردیا۔ اس دوران عشاء کا وقت ہوا مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم زخموں کی شدت اور نقاہت کی وجہ سے سو چکے تھے اور حضرت بلالؓ نے آپؐ کو جگانا مناسب نہ سمجھا۔ جب ثلث رات گزر گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگایا گیا۔ اس وقت تک وہ عورتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر حضرت حمزہ ؓکے لیے رو رہی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آوازیں سنیں تو فرمایا یہ کیسا شور ہے؟ عرض کیا گیا کہ مدینہ کی عورتیں حمزہ ؓکی وفات پر رو رہی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
اللہ تعالیٰ مدینہ کی عورتوں پر رحم کرے انہوں نے میرے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ انصار کو میرے ساتھ بڑی محبت ہے۔ ساتھ ہی فرمایا کہ اس طرح نوحہ کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ امر ہے۔
عرض کیا گیا کہ یہ ہماری قوم کی عادت ہے اور جب تک ہم مرنے والے پر روئیں نہ ہمارے جذبات ٹھنڈے نہیں ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَیں رونے سے منع نہیں کرتا مگر ان عورتوں سے کہو کہ اپنے منہ پر تھپڑ نہ ماریں اور اپنے بال نہ نوچیں، اپنے کپڑے نہ پھاڑیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
ان باتوں سے آپؐ کے اعلیٰ اخلاق کا پتا چلتا ہے کہ باوجود زخمی اور تکلیف میں ہونے کے آپ کو دوسروں کے احساسات اور جذبات کا کتنا احترام تھا۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں داخل ہوئے تو اپنی تلوار حضرت فاطمہ ؓکو پکڑاتے ہوئے فرمایا کہ اے میری پیاری بیٹی! اس تلوار سے خون کو دھو ڈالو۔ آج تو اس تلوار نے اپنا حق ادا کردیا۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار حضرت فاطمہ ؓکو دیتے ہوئے فرمایا کہ اس تلوار پر لگے خون کو دھو ڈالو۔ اللہ کی قسم! آج تو اس تلوار نے کمال کر دکھایا ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر آج تم نے کمال کر دکھایا ہے تو تمہارے ساتھ سہل بن حنیف اور ابو دجانہ نے بھی خوب دادِ شجاعت دی ہے۔ ایک اور روایت میں عاصم بن ثابت اور حارث بن سمہ کے نام بھی مذکور ہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ غزوۂ احد کے واقعات یہاں ختم ہوتے ہیں۔ایک اور غزوہ حمراء الاسد جو شوال تین ہجری میں ہوا اب اس کا ذکر کرتا ہوں۔ یہ غزوہ دراصل غزوۂ اُحد کا ہی حصّہ اور تتمہ ہے۔ اس غزوہ سے حاصل ہونے والے نتائج کی وجہ سے غزوۂ اُحد کو مسلمانوں کی ہی فتح تصور کیا جاتا ہے۔ حمراء الاسد مدینے سے ذوالحلیفہ جاتے ہوئے بائیں جانب مدینے سے آٹھ میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے۔ جب قریشِ مکہ جنگِ اُحد کے بعد واپس لوٹ رہے تھے تو ان کے لشکر میں یہ بحث چھڑ گئی کہ آیا انہیں واپس لوٹ جانا چاہیے یا پلٹ کر مدینے پر حملہ کرنا چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ اطلاع ملی تو آپؐ نے بڑے جلال سے فرمایا کہ
اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضے میں میری جان ہے! اگر قریش مدینے پر حملہ آور ہوئے تو ایسے پتھروں پر ان کے لیے نشان لگا دیے گئے ہیں جن کی بارش سے ان کا اس طرح نام و نشان مٹ جائے گا جس طرح گزرا ہوا کل ہوتا ہے۔
یہ ذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ دوسری بات جو عموماً میں تحریک کرتا رہتا ہوں وہ دعا کے لیے ہے۔ دعائیں جاری رکھیں۔ جیسا کہ خیال تھا اور خدشہ تھا ایران پر اسرائیل نے براہِ راست بھی حملہ کردیا۔ اس سے مزید حالات خراب ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ دنیا کے ان لیڈروں کو عقل دے جو عالمی جنگ کو مزید ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسی طرح
اللہ تعالیٰ مسلم امہ کو بھی عقل اور سمجھ دے کہ یہ ایک بن کر، متحد ہوکر مخالف کا مقابلہ کرسکیں۔
خطبے کے اگلے حصے میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل دو مرحومین کا ذکرِ خیر فرمایا اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا:
۱۔ مولانا غلام احمد صاحب نسیم مربی سلسلہ۔ آپ جامعہ احمدیہ ربوہ میں پروفیسر بھی رہے۔ آج کل امریکہ میں تھے۔ گذشتہ دنوں ۹۳؍سال کی عمر میں آپ وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم نے ۱۹۴۷ء میں زندگی وقف کرنے کے لیے خط لکھا۔ ۱۹۴۸ء میں مدرسہ احمدیہ احمد نگر میں تعلیم شروع کی۔ ۱۹۵۴ءمیں مولوی فاضل پاس کیا اور پھر جامعۃ المبشرین سے شاہد کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۵۷ء میں میدان عمل میں آئے۔ مرحوم کو سیرالیون،گیانا اور زیمبیا میں خدمت کی توفیق ملی۔ پاکستان میں جامعہ احمدیہ ربوہ میں خدمات بجا لاتے رہے۔ ایم اے عربی کا امتحان پاس کیا۔ مرحوم کو علمی خدمات کی بھی توفیق ملی۔ مرحوم بڑے پُر جوش اور کامیاب مبلغِ سلسلہ تھے۔
۲۔ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ امریکہ۔ مرحوم گذشتہ دنوں ۸۱؍ سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم کو مقامی صدر، نائب امیر جماعت احمدیہ امریکہ اور پھر ۲۰۰۲ءسے ۲۰۱۶ءتک امیر جماعت امریکہ کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ مرحوم بہت سی خوبیوں کے مالک، محبت کرنے والے، نہایت شفیق، وسیع الحوصلہ، خدا تعالیٰ سے گہرا تعلق رکھنے والے، عبادت گزار، قرآن کریم کا وسیع مطالعہ کرنے والے، ضرورت مندوں کی مدد کرنے والے، شکر گزار، خلافت سے گہری محبت رکھنے والے، علمی شخصیت کے مالک تھے۔
حضورِ انور نے مرحومین کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کی دعا کی۔
٭…٭…٭