خلیفہ درحقیقت رسول کا ظِل ہوتا ہے
قانون قدیم حضرت ربّ العالمین کا یہی ہے کہ جب دنیا میں کسی نوع کی شدت اور صعوبت اپنے انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو رحمتِ الٰہی اس کے دُور کرنے کی طرف متوجہ ہوتی ہے جیسےجب اِمساک باران سے غایت درجہ کا قحط پڑ کر خلقت کا کام تمام ہونے لگتا ہے تو آخر خداوند کریم بارش کر دیتا ہے اور جب وبا سے لاکھوں آدمی مرنے لگتے ہیں تو کوئی صورت اصلاح ہوا کی نکل آتی ہے یا کوئی دوا ہی پیدا ہو جاتی ہے اور جب کسی ظالم کے پنجہ میں کوئی قوم گرفتار ہوتی ہے تو آخر کوئی عادل اور فریاد رس پیدا ہو جاتا ہے۔ پس ایسا ہی جب لوگ خدا کا راستہ بھول جاتے ہیں اور توحید اور حق پرستی کو چھوڑ دیتے ہیں تو خداوند تعالیٰ اپنی طرف سے کسی بندہ کو بصیرت کامل عطا فرما کر اور اپنے کلام اور الہام سے مشرف کر کے بنی آدم کی ہدایت کے لئے بھیجتا ہے کہ تا جس قدر بگاڑ ہو گیا ہے اس کی اصلاح کرے۔
(براہین احمدیہ حصہ دوم، روحانی خزائن جلد۱ صفحہ۱۱۳-۱۱۴ حاشیہ)
خلیفہ درحقیقت رسول کا ظِل ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلّی طور پر ہمیشہ کیلئے تا قیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکاتِ رسالت سے محروم نہ رہے۔
(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد۶ صفحہ۳۵۳)
میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اُس روشنی سے حصّہ لے گا مگر جوشخص وہم اور بدگمانی سے دُور بھاگتاہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا۔اس زمانہ کا حصنِ حصین میں ہوں۔ جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزّاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گامگر جو شخص میری دیواروں سے دُور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت درپیش ہے! اور اُس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی۔
(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۳۴)