اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
جنوری۲۰۲۴ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
پاکستان میں سال۲۰۲۴ء کا آغاز بھی جماعت احمدیہ مسلمہ کے لیے کئی دہائیوں سے مسلسل ہونے والے ظلم و ستم میں مزید اضافے کے ساتھ ہوا۔ جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے ۸۳؍افراد کی قبروں کے کتبے مسمار کیے گئے اور کئی مساجد سے کلمہ اور مقدس الفاظ کو ہٹا دیا گیا۔ نئے سال کے پہلے ہی روز ایک احمدی کے خلاف امتناع قادیانیت آرڈیننس کے تحت مقدمہ درج کروا کے اسے پابند سلاسل کروا دیا گیا۔ اسی طرح اگلے ماہ ہونے والے قومی انتخابات میں ہر بار کی طرح احمدیوں کو امتیازی سلوک کا نشانہ بناتے ہوئے اپنے ووٹ کا جمہوری حق استعمال کرنے سے روک دیا گیا۔ اور احمدی مجبور ہو گئے کہ وہ اس امتیازی سلوک کے باعث اس الیکشن کا بائیکاٹ کریں۔ظلم و ستم کا یہ نہ رکنے والا سلسلہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ بین الاقوامی اور پاکستانی انتظامیہ اپنا صحیح کردار ادا کرے اوراب یہ بات ناگزیر ہو چکی ہے کہ مذہبی عدم برداشت کے اس بے قابو جنّ کو قانون کی بوتل میں بند کیا جائے اور انصاف اور مساوات کے اصولوں کو لاگو کیا جائے۔
احمدیوں نے خود کو ملک گیر انتخابات سے الگ کر لیا
ربوہ۔ ۳۱؍جنوری ۲۰۲۴ء: مذہب کی بنیاد پر صرف اور صرف احمدیوں کے لیے ایک الگ انتخابی فہرست بنا کر انہیں امتیازی سلوک کا نشانہ بنانے کی وجہ سے احمدیوں نے اگلے ماہ ہونے والے انتخابات اور کسی بھی لحاظ سے خود کو احمدیوں کا نمائندہ قرار دینے والے کسی بھی امیدوار سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ دہائیوں سے احمدیوں کو منظم طریق پر امتیازی رویّہ کا نشانہ بناکر انتخابات میں شامل ہونے اور اپنے ووٹ کا جمہوری حق استعمال کرنے سے روکا جا رہا ہے۔
۱۷؍جون ۲۰۰۲ء کو اسلام آباد سے شائع ہونے والے گزٹ آف پاکستان میں چیف ایگزیکٹو کا آرڈر نمبر ۱۵ جاری کیا گیا جس کا عنوان۲۰۰۲ء کے الیکشن کے ضابطہ اخلاق کی ترمیم نمبر۲ تھا۔ اس ترمیم میں ووٹروں کی اضافی فہرست میں احمدیوں کو غیر مسلموں کے ساتھ شامل کر دیا گیا۔ باوجود اس کے کہ مخلوط انتخابات کے عمل کا اعلان ہو چکا تھا جنرل مشرف نے مولویوں کے شور و غوغا کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے آرڈنمبر ۱۵ جاری کیا جس کی وجہ سے احمدیوں کی انتخابی فہرست میں کوئی ردّ و بدل نہیں کیا گیا۔ اور ساتھ ہی آرٹیکل 7C کے ذریعہ مسلمان ووٹروں کے لیے یہ لازم قرار دے دیا گیا کہ وہ آنحضرتﷺ کے ہر لحاظ سے آخری نبی ہونے کے حلف نامہ پر دستخط کریں گے ورنہ ان کو بھی ووٹروں کی اضافی فہرست میں غیر مسلموں کے ساتھ شامل کر دیا جائے گا۔ چنانچہ یہ اس مخلوط انتخابات کے تابوت میں آخری کیل تھا اور اس انتخابی نظام کا پہلے نظام سے کوئی بھی خاص فرق نہیں تھا۔ خاص طور پر احمدیوں کے لیے تو بالکل بھی نہیں۔
امتیازی شقوں پر مبنی ان ترامیم کو ۲۰۱۷ء کے انتخابات کا بھی حصہ بنا دیا گیا اور یہی مقامی سطح پر ہونے والے انتخابات پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ان افسوس ناک ترامیم کا نتیجہ بہر حال یہی ہونا تھا کہ احمدی خود کو اس انتخابی عمل سے علیحدہ کر لیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ پانچ دہائیوں سے کوئی احمدی قومی،صوبائی،ضلعی یا مقامی سطح پر بطور نمائندہ منتخب نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ ۹۵؍فیصد احمدی آبادی والے شہر ربوہ میں بھی مقامی کونسل میں کوئی احمدی نہیں ہے۔
۲۰۲۴ء کے انتخابات کے حوالے سے جماعت احمدیہ کی جانب سے اعلامیہ جاری کیا گیا جو یوں ہےکہ جماعت احمدیہ ۸؍فروری ۲۰۲۴ء میں ہونے والے عام انتخابات سے علیحدگی کا اعلان کرتی ہے۔ اگرچہ انتخابات بظاہر مخلوط انتخابی عمل کے تحت ہو رہے ہیں لیکن احمدیوں کے مذہبی عقائد کی وجہ سے ان کے لیے الگ سے انتخابی فہرستیں بنائی گئی ہیں۔فی الوقت صرف ایک انتخابی فہرست نافذ العمل ہے جس میں مسلمان،ہندو،مسیحی،سکھ اور پارسی شامل ہیں۔ لیکن احمدیوں کے لیے ایک بالکل الگ فہرست بنائی گئی ہے جس پر لکھا گیا ہےکہ ’’قادیانی مرد یا عورت‘‘۔ عمداً کیا جانے والا یہ امتیازی سلوک اس بات کا عکاس ہے کہ احمدیوں کو جان بوجھ کر اس انتخابی عمل سے الگ کیا جارہا ہے۔ یہ چیز احمدی شہریوں کی حق تلفی،بانی پاکستان محمد علی جناح کے موقف کے مخالف اور پاکستان کے آئین اور مشترکہ انتخابی عمل کی روح کے منافی ہے۔جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان عامر محمود کے مطابق ان حالات کے پیش نظر جماعت احمدیہ ان عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی۔
پنجاب پولیس نے ۸۰؍احمدیوں کی قبروں کے کتبے مسمار کر دیے
سیالکوٹ۔۲۴؍جنوری۲۰۲۴ء:موسے والا قبرستان کی زمین اوقاف کی طرف سے احمدیوں کو دی گئی ہے اور اس میں ۱۰۱؍قبریں ہیں۔ جن میں سے پولیس نے ۶۵؍قبروں کے کتبے مسمار کر دیے۔۲۴ جنوری کو ڈسکہ کے صدر پولیس سٹیشن سے چار پولیس اہلکار موسے والا آئے اور قبروں کے کتبے مسمار کرنے شروع کر دیے۔ جب احمدی احباب کو اس واقعہ کا علم ہوا تو جائے وقوعہ پر پہنچے اور اس کارروائی کے جواز پر سوال اٹھایا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ایس ایچ او نے یہ حکم جاری کیا ہے۔ اس پر تین احمدی اس کے پاس گئے اور اس کارروائی کے متعلق دریافت کیا۔ جس پر ایس ایچ او نے کہا کہ اس کارروائی کا حکم اسسٹنٹ کمشنر نے دیا ہے۔ موسے والا میں کتبے مسمار کرنے کے بعد پولیس بھاروکے موضع کے قبرستان میں بھی گئی اور وہاں ۲۵؍ قبروں کے کتبے مسمار کر دیے۔ ۵؍کتبوں پر پولیس نے سیاہی پھیر دی۔اس قبرستان کے ایک کونے میں احمدیوں کے لیے تھوڑی سی جگہ مختص کی گئی ہے۔ اس واقعہ کی ویڈیو بنا کر بھی نشر کی گئی جس میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس والے کس افسوسناک طریق پر کتبوں کو مسمار کر رہے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے ترجمان نے اس واقعے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسسٹنٹ کمشنر سے باز پرس ہونی چاہیے کہ اس نے کس قانون کے تحت ایسا گھناؤنا حکم جاری کیا؟ ترجمان نے مزید کہا کہ اگر پولیس خود ہی ایسے شرمناک واقعات میں ملوث ہو گئی تو احمدی کس کے پاس اپنی داد رسی کے لیے جائیں گے۔
تحریک لبیک کے شر پسندوں نے ایک احمدی کی تدفین روک دی
ساہووالا۔ ضلع شیخوپورہ۔ ۲۹؍ جنوری ۲۰۲۴ء: ۲۸؍جنوری کو ایک احمدی فضل کریم کی وفات ہو گئی۔ ۲۹؍جنوری کو ان کی تدفین کی تیاری کی گئی۔ گاؤں میں ایک ہی قبرستان ہے اور اس میں احمدیوں کے لیے جگہ مختص کی گئی ہے۔ گاؤں کی اکثریت گاؤں میں بسنے والے واحد احمدی خاندان کے ساتھ تعاون کرتی ہے اور بہت کم مخالفت ہے۔ گاؤں کی مسجد کا مولوی گاؤں سے باہر تھا۔ اس کی غیر موجودگی میں ایک غیر احمدی نے مسجد سے فضل کریم کی وفات کا اعلان کر دیا۔ واپس آنے پر جب مولوی کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے اس غیر احمدی کو زدو کوب کیا۔ مولوی نے قریبی گاؤں کے مولویوں کو اطلاع کر دی۔ جس پر فتنہ پرور لوگ ڈنڈے،کلہاڑیاں اور اسلحہ لے کر قبرستان پہنچ گئے۔سالار سیداں سے آئے ہوئےتحریک لبیک کے ایک شرپسند راہنما نے اشتعال انگیز تقریر کی۔اس پر پولیس کی کچھ نفری وہاں پہنچ گئی اور احمدیوں سے کہا کہ اگر مزید پولیس بھی یہاں آجائے تو بھی مخالفین نہیں رکیں گے اور ممکن ہے کہ بعد میں وہ قبر کی بھی بے حرمتی کریں۔ چنانچہ پولیس کے اس بہانے کے بعد احمدیوں کو کسی دور دراز کے مقام پر تدفین کرنا پڑی۔اس کے بعد اس مفسد گروہ نے اُن غیراحمدیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جنہوں نے قبر کھودنے اور تدفین کی تیاری میں احمدیوں کی کسی بھی طرح مدد کی تھی۔پھر ان لوگوں نے اس کھودی ہوئی قبر کو مٹی سے بھرنا شروع کر دیا اور سیمنٹ کی سلوں کو توڑ کر اسی میں ڈال دیا۔ اس وقت ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ عقل و دانش سے عاری ان لوگوں کے سر پر حیوانیت سوار ہے اور وہ اس کام سے بہت زیادہ محظوظ ہو رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر نشر کی جانے والی ویڈیو کو دیکھ کر صاحب عقل و دانش شرفاء صرف دکھ اور افسوس کا ہی اظہار کر سکتے تھے کہ اس شر انگیز تحریک نے لوگوں کی اخلاقی حالت کو کس قدر گرا دیا ہے اور انتظامیہ اور پولیس کس حد تک ان کے سامنے بے بس ہے۔
ایک جھوٹا مقدمہ
کوٹلی۔آزاد جموں کشمیر:سخاوت حسین نامی ایک شخص نے ایک احمدی کے خلاف امتناع قادیانیت آرڈیننس کے تحت مقدمہ درج کروا دیا۔ جن دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے ان کی سزا تین سال قید ہے۔سخاوت حسین کے بیٹے ساجد محمود نے ۲۰۱۰ء میں احمدیت قبول کر لی تھی اور ان کی شادی ان احمدی کی بیٹی سے ہوئی جن کے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے۔ اس پر ساجد محمود کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور اسی وجہ سے ان کو ملک سے ہجرت کرنی پڑی۔ سخاوت حسین نے الزام لگایا کہ ان کی ہی تبلیغ کی وجہ سے ساجد احمدی ہوا ہے اور اسی بات کا بدلہ لینے کے لیے اس نے یہ مقدمہ درج کروایا۔ موصوف کی عبوری ضمانت منظور ہو گئی تھی لیکن جب وہ عدالت میں پیش ہوئے تو جج نے ضمانت خارج کر دی اور پولیس نے ان کو گرفتار کر لیا۔
(مرتبہ:مہر محمد داؤد)