۲۳؍ اپریل: عالمی یوم کتاب: کتب خانوں (Libraries)کی مختصر تاریخ
اللہ ان لوگوں کے درجات بلند کرے گا جو تم میں سے ایمان لائے ہیں اور خصوصاً ان کے جن کو علم عطا کیا گیا ہے۔ (المجادلہ: ۱۲)۔ علم کی وجہ سے ہی ’مدارس‘، ’کتب خانے‘ اور’تحقیقی شعبہ جات‘ سب وجود میں آئے۔
مشہور عربی شاعر متنبی اپنے ایک قصیدے میں کہتے ہیں خَیْرُالْجَلِیْسِ فِی الزَّمَانِ کِتَاب
یعنی ’’فی زمانہ بہترین ساتھی کتاب ہے‘‘ علم دوست احباب نے کتاب کو اچھا ہم نشین، رفیق و ساتھی، جذبہ ہمدردی وغم خوار ،ذہنی و روحانی آبیاری، سیرگاہ، دانشمندی سے بھرا ہوا ظروف اورعلم سے بھرا خزانہ قرار دیا ہے۔
۲۳؍اپریل کو کتاب کا عالمی دن منایا جاتا ہے جبکہ برطانیہ میں یہ دن مارچ کی پہلی جمعرات کو منایا جاتا ہے۔کتاب کے عالمی دن کا آغاز ۱۶۱۶ء میں سپین سےہوا۔حضرت مسیح موعودؑ ملفوظات میں فرماتے ہیں: علم ایک طاقت ہے اور طاقت سے شجاعت پیداہوتی ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ کتاب کی اہمیت و افادیت اور قدر و منزلت کبھی بھی کم نہیں ہو سکتی کیونکہ کتابیں پڑھنے سے جسمانی اور ذہنی صحت دونوں کو فائدہ ہوتا ہے اور علمی لحاظ سے شخصیت پروان چڑھتی ہے۔ارسطو کا قول ہے کہ جس گھر میں اچھی کتابیں نہیں وہ گھر حقیقتاً گھر کہلانے کا مستحق نہیں وہ تو زندہ مُردوں کا قبرستان ہے۔ پس اس دن کی مناسبت سے میں نے خیال کیا کہ کیوں نہ آج کتابوں کے مسکن کتب خانوں کی تاریخ کے حوالے سے کچھ لکھنے کی کوشش کی جائے۔
کہتے ہیں کہ اگر کسی ملک کی ترقی کا جائزہ لینا ہوتو وہاں کے تعلیمی اداروں کو دیکھا جائے، اور تعلیمی اداروں کی ترقی کاجائزہ لیناہوتو وہاں موجود لائبریریز کو ضروردیکھنا چاہیے، یعنی جہاں لائبریریز آباد ہوں گی، وہاں تعلیمی ادارے بھی تعلیم و تحقیق میں سرگرم ہوں گے۔ جس کا لازمی نتیجہ ملک کی معاشرتی ومعاشی ترقی اور عوام کی خوشحالی ہے۔ نیز، تاریخ بھی اُن ہی قوموں کا احترام کرتی ہے، جو اپنے عِلمی سرمائے کی حفاظت کرنا جانتی ہیں۔کتاب، مکتب اور مکتبہ، قوموں کی زندگی میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں کہ ہر قسم کی ترقی کے دروازے ان ہی کنجیوں سے کُھلتے ہیں۔ ان تینوں کوحصولِ علم و تعلیم کے بنیادی ذرائع کہا جاتا ہے۔
کتب خانوں کا وجود یعنی کتابوں کو ایک خاص جگہ اس طرح محفوظ رکھنے کا انتظام تاکہ وہ محفوظ رہیں اور بوقت ضرورت بغیر کسی دشواری کے حاصل کی جا سکیں، کسی نہ کسی شکل میں قدیم ترین زمانے سے ملتا ہے۔ چنانچہ بعثت نبویﷺ سے قبل ہی ہندوستان، ایران، یونان وغیرہ میں لائبریریاں قائم ہو چکی تھیں۔ انگریزی زبان کا لفظ Library لاطینی زبان کے لفظ Libra سے مشتق ہے جس کے معنی چھال یا گودا کے ہیں۔ لائبریری اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کتابوں، رسالوں، اخباروں اور معلوماتی مواد کو جمع کیا جاتا ہے۔ اردواور فارسی میں اس کے لیے کتب خانہ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جب کہ عربی میں اس کا مترادف لفظ خزانةالکتب،مکتبہ اور دارالکتبہے۔ کُتب خانہ ایک ایسا ادارہ ہے جہاں کتابوں کی شکل میں انسانی خیالات، تجربات اور مشاہدات کی حفاظت کی جاتی ہے تاکہ ایک شخص کے خیالات سے نہ صرف اس کی نسل کے ہزاروں افراد بلکہ نسلاً بعد نسلٍ کے افراد بھی استفادہ کرتے رہیں۔ نیز جہاں ہزاروں سالوں کا علمی و فکری اثاثہ لاکھوں کروڑوں اربابِ علم و دانش کی ذہنی اور قلمی کاوشوں کا ثمر اور حاصل جمع ہوتا ہے۔
کتب خانوں کی تاریخ پر اگر ہم نظر ڈالیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ یہ بہت قدیم ہے۔ انسان کو جب اپنی تاریخ و تمدن آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کرنے کا خیال آیا تو تحریر نے جنم لیا۔لیکن اصل مسئلہ تحریر کو محفوظ کیے جانے کا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے انسان نے پتھروں، چٹانوں ، درختوں کی چھال، چمڑے، کھالوں ، عمارتوں کی دیواروں اور مٹی کی تختیوں کو بھی اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا۔ لیکن جلد ہی انسان نے پاپائرس Papyrus نامی پودوں کے تنوں سے پیپرس نامی کاغذ بنا ڈالا جسے کاغذ کی ابتدائی شکل کہہ سکتے ہیں اور شاید لفظ پیپر بھی اسی پاپائرس سے ہی ماخوذہے۔ تاریخ کی بعض کتابوں سے پاپائرس کےبارے میں معلوم ہوتا ہے کہ اس کا آغاز تین ہزارسال قبل مسیح مصر سے ہوا تھا۔ سوسال قبل مسیح میں چین کے بادشاہ ووہو کے ایک درباری کائی لون نے کاغذ ایجاد کرکےتحریرکومحفوظ بنانےمیں آسانیاں پیدا کر دیں۔
لکھنے پڑھنے کی ابتدا سب سے پہلے یونان، مصر اور چین میں ہوئی تھی اس لیے سب سے پہلے کتب خانوں کی بنیاد بھی یہیں سے پڑی۔ تیسری صدی کے اوائل میں شہر نیپور جو موجودہ بغداد سے جنوب کی جانب ۱۰۰؍میل کےفاصلہ پر واقع تھا وہاں کے کھنڈرات سے بعض تختیاں ملی ہیں جو کہ بابلیوں کے ایک بےنظیر کتب خانہ کی نشاندہی کرتی ہیں، چوتھی صدی قبل مسیح میں ایتھنز میں ایک بہت بڑے کتب خانے کے آثاربھی ملے ہیں۔ اسی طرح چھٹی صدی قبل مسیح میں بعض یونانی مندروں میں بھی کتب خانوں کے سراغ ملے ہیں۔قدیم نینوا کے کھنڈرات سے ایک کتب خانے کا سراغ ملا ہے جو ۷۰۰قبل مسیح کا بتایا جاتا ہے۔اس کتب خانے سے مٹی کی تختیوں کی شکل میں جو تحریریں ملی ہیں ان کی تعداد لگ بھگ ۲۲؍ہزارہےجواس وقت برٹش میوزیم میں محفوظ ہیں۔
تاریخ کی کتابوں میں قدیم کتب خانوں کا ذکر بیشتر جگہوں پر ملتا ہے جس میں قدیم دور کے آشور بنی پال، سکندریہ کا کتب خانہ ،اسلامی ،یورپ اور برصغیر کے سلاطین کے کتب خانے قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح عراق کی میسوپوٹیمیائی تہذیب میں کھدائی کے دوران کھنڈرات سےمٹی کی تختیوں کی شکل میں بہت بڑا تحریری ذخیرہ ملا ہے۔ آشوریوں کے دور میں ۲۰۰قبل مسیح اور ۵۰۰ قبل مسیح کے دوران متعدد نجی کتب خانوں کے شواہد ملے ہیں۔
تاریخی اعتبار سےجس کتب خانہ میں سب سے پہلےتنظیم کی کوشش کی گئی۔ وہ آشور بنی پال (۶۲۶۔۶۶۸ق م)کا کتب خانہ تھا۔ آشور بنی پال نینوا کا حکمران تھا۔ جس میں دنیا کے بیشتر علوم پر مٹی کی تختیوں کی شکل میں کتب موجود تھیں۔مٹی کی ان تختیوں کو دو علیحدہ شعبوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔پہلا علوم فلکیات کے متعلق اوردوسرالغت،تاریخی کتب،حکایات اور رزمیہ نظموں پر مشتمل تھیں۔
مصر جو قدیم دور کی ترقی یافتہ تہذیبوں میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتا تھا اس کے حکمران بطلیموس دوم نے ۳۲۳ قبل مسیح میں ایک ایسے شہرہ آفاق کتب خانے کی بنیاد رکھی جو آگے چل کر پوری دنیا کے لیے علم و فنون کا ایک ایسا روشن مینار ثابت ہوا جس کی تاریخ میں بہت کم مثال ملتی ہے۔ مصر میں قائم ہونے والے اس کتب خانے کو دنیا ’’کتب خانہ سکندریہ ‘‘کے نام سے جانتی ہے۔یہ کتب خانہ جس میں کتابوں کا ذخیرہ نو لاکھ سے بھی زیادہ تھا اس لیے بھی منفرد تھا کہ یہ دنیا کا پہلا ’’منظم کتب خانہ ‘‘ تھا۔جس میں پہلی مرتبہ مواد کو مضامین کے مطابق ترتیب سے رکھا گیا۔ اس کتب خانے میں۷۲؍یہودی علماء عہد نامہ عتیق کا یونانی ترجمہ کرنے کے لیے مقرر کیے گئے تھے۔ نیزیہاں بائبل اور بدھ مت کی کتب کا ترجمہ بھی ہوتا تھا۔ مشہور سکالر کیلی کس (متوفی ۲۴۰ق م) نے اس کتب خانہ کا مکمل کیٹیلاگ تیار کرنے کا کام انجام دیا تھا۔
یہاں اشارۃً میں اس بات کا بھی ذکر کرتا چلوں کہ مخالفین اسلام نے حضرت عمرؓ کو اس کتب خانہ کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہےلیکن تاریخی شواہد سے یہ امر کمال ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ مخالفین کے محض سراسر افتراء کے علاوہ یہ اور کچھ نہیں ہے۔(مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اکتوبر۲۰۲۱ء)
مصر کے ساتھ ساتھ چونکہ یونان بھی قدیم تہذیبوں کا گہوارہ ہوا کرتا تھا اور فلاسفی کی دنیا میں سب سے زیادہ نامور فلسفیوں نے یہیں جنم لیا تھا۔ جہاں تک یونانی کتب خانوں کا تعلق ہے کتب خانہ ارسطو، کتب خانہ افلاطون اور پرگامم کا کتب خانہ یہاں کے سب سے قدیم کتب خانے ہیں۔ افلاطون کا کتب خانہ بھی اپنے دور کا ایک شاندار کتب خانہ بتا یا جاتا ہے۔ ارسطو وہ پہلا شخص تھا جس نے کتابوں کی ترتیب وتنظیم سائنسی بنیادوں پر رکھنے کی بنیاد متعارف کرائی۔
قدیم یونان کا دوسرا بڑا کتب خانہ پرگامم ہے جسے اتالوسی دوم نے۱۳۷ءسے۱۵۹ءتک قائم کیا تھا۔ پرگامم کی کتب کا مواد رولوں کی شکل میں تھا۔یہ ذخیرہ تقریباً دو لاکھ کے قریب تھا۔ روم کے کتب خانوں کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ یہاں سب سے زیادہ موضوعات کی کتب دستیاب تھیں۔ ۳۶۰ءسے ۳۷۰ء تک روم میں ۲۸؍عوامی کتب خانے موجود تھے۔ لیکن سولہویں صدی تک یہ تمام کتب خانے اپنا وجود کھو چکے تھے۔
اسلامی کتب خانوں کی تاریخ کا جائزہ لیں تواس میں سب سے اہم مقام مدینہ منورہ کو ہی حاصل ہے۔ کیونکہ قرون وسطیٰ (بغداد،مصر،ایران،اندلس اورعراق)وغیرہ میں جو مدارس اور کتب خانے قائم ہوئے وہ اصل میں مد ینہ کے نورعلم کی تجلیاں تھیں۔ اسی شہر کو یہ اعزاز وفخر حاصل ہے کہ ’’قرآن‘‘ جیسی عظیم الشان کتاب یہیں مرتب ہوئی۔ مدینہ کی مسجد ایک اسلامی یو نیورسٹی تھی، جو دنیا کی پہلی عوامی درسگاہ بھی تھی۔ نیزمدینہ علمی لحاظ سے بھی اور کتابوں کے لحاظ سے بھی دنیائے اسلام میں ایک خاص امتیاز کا حامل ہے۔ مدینہ میں کتب خانہ محمود یہ ایک قدیم کتب خانہ اب تک موجود ہے جس میں ایک ہزار تریسٹھ برس پرانی کتاب تفسیر ابن عباس کے چند اوراق ہرن کی کھال پر لکھے ہوئے ہیں اورسن کتابت ۳۱۹ھ ہے۔ اس کے علاوہ ابوہلال عسکری کی کتاب الا وائل مکتوبہ ۳۹۵ھ بھی اس کتب خانہ کے نایاب ذخائر میں سے ہے۔اس کے بعد اگر دیکھا جائے تواسلامی کتب خانوں میں بغداد وہ اوّلین مرکز ہے جہاں پہلا عظیم الشان کتب خانہ خزانۃ الحکمۃ موجود تھا۔جس کا بعد میں نام بیت الحکمت پڑ گیا تھا۔
عہدِ عباسیہ میں ہر علاقے میں ایک ’کتب خانہ‘ موجود ہوتا تھا۔ ان کتب خانوں میں ایک عظیم کتب خانہ ’بیت الحکمت بغداد‘ بھی تھا۔ مورخین کے مطابق اس سرکاری کتب خانے کی بنیاد خلیفہ ہارون الرشید نے ڈالی تھی جس کا فیض ہلاکو خاں کے حملہ بغداد (تیرھویں صدی) تک جاری رہا۔ یہ پہلا پبلک کتب خانہ تھا جو اعلیٰ پیمانہ پر قائم کیا گیا تھا۔ اس بےنظیر کتب خانہ میں عربی، فارسی ، سریانی، قبطی اور سنسکرت زبانوں کی دس لاکھ کتابیں تھیں۔ یہ کتب خانہ دو حصوں میں منقسم تھا، ایک کتب خانہ کےلیے خاص تھا جبکہ دوسرا غیر عربی زبانوں کے تراجم کےلیے مختص تھا۔
اسی طرح اسلامی اندلس میں کتب خانے ہی نہیں بلکہ علم پرور اور علم دوست حکمرانوں کی بدولت اندلس نے علم و فن کے ہر شعبہ میں ترقی کی۔قرطبہ میں ۳۸۰؍مساجد،سینکڑوں مدرسے اور کتب خانے جبکہ غرناطہ میں۱۳۷؍چھوٹے بڑے مدرسے اور ۷۰؍کے قریب کتب خانے تھے جو کہ ہر خاص و عام کے لیے ہمہ وقت کھلے رہتے تھے۔
عیسائی مورخ ڈوزی کے مطابق اسلامی اندلس میں ہر ایک لکھنا پڑھنا جانتا تھا جبکہ اس کے برعکس مسیحی یورپ میں سوائے بڑے لوگوں یا بعض پا دریوں کے سب کے سب ان پڑھ اور جاہل تھے۔
اگر یورپ کے کتب خانوں کی بات کی جائے تو اس کی ابتدا کا فی بعد میں بادشاہوں اور امیر زادوں کے ذاتی کتب خانوں سے ہوئی۔ فرانس کا موجودہ قومی کتب خانہ چارلس ہشتم کا ذاتی کتب خانہ تھا،اور ان کتب خانوں سے صرف خواص ہی مستفید ہو سکتے تھے۔ کیونکہ مطالعہ پر سخت پابندی تھی علم حاصل کرنےکا حق صرف خواص ہی کا سمجھا جاتا تھا۔ کتابیں زنجیروں میں باندھ کر رکھی جاتی تھیں تاکہ کوئی عام آدمی ان کو نہ پڑھ سکے۔ یورپ میں کتب خانوں کی ترقی کی ابتدا۱۸۵۰ءمیں برٹش پارلیمنٹ کے پاس کردہ ایکٹ پبلک لائبریری اینڈ میوزیم ایکٹ سے ہوئی۔ جس کی رو سے جو ٹیکس لگایا گیا وہ لائبریری سیس(library cess) کہلاتا تھا۔ اس وجہ سےمغربی دنیا میں موجود لائبریری تحریک کی بنیاد پڑی۔
انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کا ایک مقالہ نگار لکھتا ہے:یہ مسلمہ طور پر کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے کتب خانے مغربی کتب خانوں سے صدیوں پہلے قائم ہو گئے تھے۔اور اسلامی ممالک میں مغربی ممالک کی نسبت پبلک کتب خانوں کی عام ضرورت بہت پہلے محسوس کی جاچکی تھی۔(انسائیکلو پیڈیا آف اسلام جلد۲صفحہ۱۰۴۷)
مسلمان روئے زمین پر وہ پہلی قوم تھےجنہوں نے علوم کی نشاۃ ثانیہ کی جلیل القدر خدمات قلیل وقت میں سرانجام دیں اور سب سے پہلے علوم قدیمہ کا احیا کیا اور اقوام قدیمہ کے علوم و فنون کو تباہی و بربادی سے بچایا اور آنے والی نسلوں کے لیے ان کو محفوظ رکھا۔ چنانچہ بعض یورپین مورخین یہ کہے بغیر نہیں رہ سکے کہ اگر مسلمان نہ ہوتےتو یورپ کی عملی ترقیاں صدیوں پیچھے ہٹ جاتیں۔
(Historians History of the World, vol.8,p276)
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ عہد وسطیٰ میں مسلمانوں نے دنیا کی تمام اہم قوموں کا علمی سرمایہ اپنی زبان میں منتقل کر لیاتھا۔ اگر دنیا میں مسلمانوں کا وجود نہ ہوتا تو یونان،مصر،اور فارس کے تمام علمی ذخیرے برباد ہو جاتے۔ الحکمۃ ضالۃ المومن کے تحت مسلمانوں نے غیر اقوام کی تمام عمدہ باتوں کو اپناتے ہوئے جہاں ان کو نئی زندگی بخشی وہاں بہت سے نئے علوم کی بنیاد بھی ڈالی۔
جرجی زیدان لکھتے ہیں کہ مسلمانوں نے اس وقت کے تمام علوم و فنون ،فلسفہ ، طب، نجوم، ریاضی، ادب، تاریخ وغیرہ وغیرہ جو تمام اقوام عالم میں رائج تھے کو اپنی زبان میں لے لیا اور امم متمدنہ میں سے کسی کو نہ چھوڑا جس کی زبان سے عربی میں کتابیں نہ ترجمہ کی ہوں۔
مزید یہ کہ مسلمانوں نے تمام علمی ذخیرہ صرف ڈیڑھ صدی میں جمع کر لیا تھا اور اہل روما پوری چار صدی تک بھی یونانی علوم کو نقل نہ کرسکے تھے۔یہ مسلمانوں کی عجیب خصوصیت دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں۔(علوم عرب اردو ترجمہ اسلم جیراجپوری مطبوعہ علی گڑھ ۱۹۰۷ء۔از کتب خانے از محمد شفیق قیصر صفحہ ۴۹-۵۰)
یورپ کی یونیورسٹیاں ۶۰۰؍برس تک عربی کتابوں کے ترجمہ پر زندہ رہیں۔(العلم و العلماء اردو ترجمہ عبدالرزاق ملیح آبادی، ندوۃ المصنفین دہلی صفحہ ۲۷)
کتب خانوں کی بربادی ایک المیہ ہےاورکہتے ہیں کہ کتابوں کے چار دشمن آگ،پانی،کیڑے اور انسان ہیں مگر انسان ان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اسلام کی تاریخ جہاں دلچسپ واقعات سے بھری پڑی ہے وہیں دردناک حقائق بھی اسی تاریخ کا حصہ ہیں۔ انہی حقائق میں سےایک دردناک حقیقت لائبریریز کو جلانا اور مٹانا بھی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے دینی علوم کا کثیر حصہ دنیا سے ختم ہو گیا۔مختصراً درج ذیل ہیں۔
۵۰۳ھ میں طرابلس (لیبیا)پر عیسائیوں نے قبضہ کیا تو وہاں کے کتب خانوں کو جلا دیا۔ ان میں تقریبا ً۳۰؍لاکھ کتابیں تھیں۔ (اسلامی کتب خانے صفحہ۱۰۴)
۱۰۲۸ء میں کردوں نے مصر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ مستنصر باللہ کے تخریبی دور میں مشہور ہےکہ کئی نادر کتابیں کیمپوں میں جلا کر گرمی حاصل کرنے کے لیے نیز قیمتی جلدوں کے چمڑے کردوں کے غلام و خدمتگاروں کے جوتے بنانے میں استعمال کیے جاتے تھے۔(کتب خانے از محمد شفیق قیصر صفحہ۱۸۸)
بغداد کے محلہ کرخ میں ابو نصر شاپور نے۳۸۱ھ میں کتب خانہ قائم کیا تھا۔ اس کتب خانے میں دس ہزار سے زائد ایسی کتب تھیں جو خود مصنفین یا مشہور خطاطوں کی لکھی ہوئی تھیں۔ یہ مایہ ناز کتب خانہ ۴۵۱ھ میں طغرل بیگ سلجوقی نے جلاڈالا۔(کشف الظنون ،جلد۲ و الاعلام الزرکلی ، جلد۳،صفحہ۸۸۴،مطبوعہ مصر)
جب چنگیز خان نے خوارزم کی طرف پیش قدمی کی تو یاقوت حموی (جس کا نام ادب ، تاریخ اور جغرافیہ میں دنیا کے سامنے ہمیشہ زندہ رہے گا) نے اپنے سامنے کتب خانوں کو شعلوں کی لپیٹ میں دیکھ کر خوارزم کو خیر آباد کہہ دیا۔
اسی طرح ۱۲۵۸ء میں چنگیز خان کے بیٹے ہلاکو خان نے بغدادتاراج کرنے کے بعد وہاں بغداد کے عظیم الشان کتب خانے تباہ کیے اور تمام کتب دریا بُردکر دیں جس سے دریا پر ایک پل بن گیا اوران کتب کی سیاہی کی وجہ سے دریا کا پانی سات دن تک سیاہ رہا۔
تاتاریوں کا یہ سیلاب صرف بغداد تک ہی محدود نہ رہا بلکہ ترکستان،،ماوراءالنہر،خراسان،فارس،عراق ،جزیرہ اور شام سے گزرا اور تمام اسلامی اثاثوں کو صفحہ ہستی سے مٹاتا چلا گیا۔
اندلس کے کتب خانوں کی بات کریں تو،وحشیان بربر نے جب قرطبہ کو لوٹا تو کتابوں کی بےبہا جلدیں اکھاڑ کر جوتے بنائے نیز جلدوں سے سونا اور جواہرات اتار کر کتابوں کو پامال کیا۔
سپین کے اسقف اعظم فرانسسکو شمینس نے بربریت سے علمی ذخیروں کو تباہ کیا۔اسے غرناطہ میں جس قدر عربی کتابیں ملیں سب کو ضبط کیا جو کہ تقریباً دس لاکھ تھیں۔ جو کہ برابر دس روز تک جلتی رہیں۔ (اسلامی کتب خانے صفحہ۱۵۱تا۱۵۲)
Cardinal Ximenesنے ایک ہی دن میں ۸۰ ہزار کتب نذر آتش کر دیں۔ (کتاب الخطاط المقریزی ،جلد ۱، صفحہ۲۵۴،مطبوعہ مصر)
تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ علوم و فنون کا بے بہا اور انمول خزانہ کاشیمینش نے تاریخی چوک باب الرملہ میں ڈھیر لگاکر آگ کی نذر کردیا اور چوک خاک و سیاہ کر دیا گیا۔ اسی طرح صلیبی جنگوں کے دوران عیسائیوں نے مصر ،شام ،سپین اور دیگر اسلامی ممالک کے کتب خانوں کو بری طرح جلا کر تباہ وبرباد کر دیا۔
ایسی لائبریریاں بنانا جو کہ علمی خدمات کے لیے صدقہ جاریہ ہوں نیزجہاں علم وحکمت ایک عام آدمی کی دسترس میں آجائےیہ یقیناً بنی نوع انسان کی ایک بہت بڑی کاوش ہے۔ عصر حاضر کی جدید دس بڑی لائبریریوں کےنام درج ذیل ہیں۔
۱۔امریکی کانگریس کی لائبریری،واشٹنگٹنڈی سی
۲۔ برٹش لائبریری لندن انگلینڈ
۳۔ نیویارک پبلک لائبریری نیویارک
۴۔ رشین سٹیٹ لائبریری
۵۔نیشنل لائبریری آف رشیا
۶۔نیشنل ڈائٹ لائبریری جاپان
۷۔نیشنل لائبریری آف چائنا
۸۔نیشنل لائبریری آف فرانس
۹۔بودلیئن لائبریری،آکسفورڈ برطانیہ
۱۰۔بوسٹن پبلک لائبریری
خلافت لائبریری
کتب خانوں کی مختصر تاریخ خلافت لائبریری کے ذکر کے بغیر نا مکمل اور ادھوری تصور ہوگی۔خلافت لائبریری دراصل متعدد لائبریریوں کامجموعہ ہے۔ قیام پاکستان سے قبل یہ لائبریری قادیان میں احمدیہ مرکزی لائبریری کی صورت میں قائم تھی۔ قیام پاکستان کے بعد اس کی بعض کتابیں قادیان سے لاہور اور پھر ربوہ منتقل ہوئیں۔ اس لائبریری کا منصوبہ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۵۲ء کی شوریٰ کے موقعہ پر بالتفصیل فرمایا۔ اور خلافت لائبریری کے قیام کی منظوری عطا فرمائی۔
مئی ۱۹۵۳ء میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے ذاتی کتب خانہ اور صدرانجمن احمد یہ ربوہ پاکستان کی مرکزی لائبریری کو یکجا کر دیا گیا جس پر عملاً اس لائبریری کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے بعد کئی احباب کے ذاتی کتب خانے بھی اس میں بطور عطیات شامل ہوئے۔ اس کتب خانے میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا کتب خا نہ جو آپؑ بھیرہ سے قادیان اپنے ساتھ لائے تھےاس کے ساتھ ساتھ بعض دیگر اہم کتب خانوں کی بعض Collections بھی شامل ہیں۔ جیسے ریویو آف ریلیجنز کی لائبریری، تشحیذ الاذہان کا کتب خانہ ، حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ کی صادق لائبریری ، حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمیؓ کی بعض کتب اور بیسیوں دیگر احباب کے عطیات کتب بھی اس کی زینت ہیں۔ کتب خانہ ہذا کے سب سے پہلے انچارج چودھری محمد صدیق صاحب واقف زندگی مقرر ہوئے۔
خلافت لائبریری کی نئی عمارت کا با قاعدہ افتتاح سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ۱۹۷۳ء میں کیا۔ ۲۳؍مارچ ۲۰۰۱ء میں اس لائبریری میں با قاعدہ ایک نئے بلاک کاآغاز ہوا۔ موجودہ لائبریری مندرجہ ذیل سیکشنز پر مشتمل ہے۔
مین ہال لینڈ نگ لائبریری۔ ٹیکسٹ بکس سیکشن، مشرقی علوم کا سیکشن ، اور یئنٹل سیکشن ، (یہ تمام مین ہال کے اندر ہیں۔ البتہ ٹیکسٹ بک سیکشن Basement میں ہے۔) چلڈرن سیکشن بالائی منزل پر ہے۔ جس میں بچوں کی دلچسپی کے لیے سینکڑوں کتب وجرائد موجود ہیں۔
اخبارات و جرائد سیکشن: جس میں تازہ اخبارات و رسائل ۱۰۰؍سے زائدتعداد میں مختلف زبانوں میں آتے ہیں۔
ریکار ڈ سیکشن : جس میں برصغیر کے کئی اخبارات و رسائل کے ریکارڈ ہیں۔
آڈیو ویڈیو مائیکرو فارم سیکشن : جس میں اہم مواد ہے۔ مین لائبریری جس میں اوریئنٹل( اردو، عربی، فارسی، ہندی، پنجابی گورمکھی زبانوں میں صوتی کتب دستیاب ہیں۔) اور دوسرا سیکشن یورپین Collections پر مشتمل ہے جس میں انگریزی کے علاوہ دیگر یورپی اور ایشیائی زبانوں میں قریباً تمام اہم اور عمومی موضوعات پرلٹریچر دستیاب ہے۔ نیز مین لائبریری جس میں صیغہ عام سے لےکر تاریخ عالم تک اور عمومی طور پر اہم موضوعات پر کتب ،جرائد و مفید کولیکشن موجود ہے۔(کتب خانے از محمد شفیق قیصر صفحہ ۳۲۳-۳۲۶)
خلافت لائبریری ربوہ کا شمار پاکستان کی ممتاز لائبریریوں میں ہوتا ہے۔ لائبریری میں اس وقت تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزارسے زائد کتب و جرائد نیز مجلد اخبارات و دستاویزات بھی ہیں۔ لائبریری میں اہم سہولیات کے ساتھ ساتھ کئی نادر اوراہم علوم پر مشتمل کتب کا اضافہ ہوا ہے نیز بعض نئے سیکشن بھی بڑھائے گئے ہیں۔