اداریہ: خلافتِ احمدیہ کی لندن ہجرت، اتفاقِ محض یا تقدیرِ الٰہی؟
(’’مَیں… خدا سے دعا کرتا ہوں کہ …[مسجد فضل] حضرت محمد مصطفیٰ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت احمد مسیح موعود نبی اللہ بروز و نائب محمد علیہما الصلوٰۃ والسلام کی نورانی کرنوں کو اس ملک اور دوسرے ملکوں میں پھیلانے کے لیے روحانی سورج کا کام دے۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ)
افسانہ نگاری یا فکشن ادب کی ایک شاخ ہے۔ بعض اوقات کسی افسانے کا پلاٹ یا کہانی ایسے موڑ پر پہنچ جاتی ہے جہاں کچھ سمجھ نہیں آتی کہ آگے کیا ہو گا، افسانہ نگار کو بھی بات بڑھانے کے لیے ’اتفاقی امور‘ یا بالفاظ دیگر coincidence کی صنف یا تکنیک کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ قارئین جانتے ہی ہیں کہ اتفاقات ایسے واقعات کے مجموعے کو کہتے ہیں جن کا ظہور میں آنا گویا ناممکنات میں سے ہو۔ مثلاً کہانی کے سمندر میں گر جانے والے کردار کو سمندر کی لہروں پر بغیر ملّاح کے تیرتی ہوئی کشتی مل جانا، رات کے وقت جنگل میں بھٹکتے نوجوان کو خالی جھونپڑی مل جانا جس میں آگ جلانے اور کھانے پینے کا انتظام موجود ہو یا پیراشوٹ نہ کھلنے کے باعث تیزی سے زمین کی جانب گرتے کردار کی جان کسی گھنے درخت پر گر کر بچ جانا وغیرہ۔
اگرچہ اتفاقات بھی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں اور شاید ہی کوئی افسانہ یا ناول ہوگا جس میں اتفاقات شامل نہ ہوں لیکن ناقدین کہتے ہیں کہ کسی کہانی میں جتنے زیادہ ’اتفاقات‘ کا سہارا لیا جائے اتنا ہی اس کا پلاٹ کمزور ہوتا ہے۔
دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ بادی النظر میں اتفاقات نظر آنے والے واقعات اگر حقیقی زندگی میں وقوع پذیر ہوں تو وہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور بعض اوقات معجزے کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ ان کے پیچھے خاص منشائے الٰہی کارفرما ہوتی ہے اور کسی کی زندگی میں جتنے زیادہ معجزات ہوں اتنا ہی وہ خدا تعالیٰ کا منظور نظر کہلاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت دشمن کے کڑے پہرے کے باوجود بحفاظت گھر سے نکل جانا ، غارِثور کے دہانے پر مکڑی کا جالا بُن دینا اور کبوتری کا انڈے دے دینا، سراقہ بن مالک کے گھوڑے کا ریت میں دھنس جانا اور پھر نیّت صاف ہو جانے پر اسی کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچنا ممکن ہو جانا، حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام اور بنی اسرائیل کے لیے دریائے نیل میں راستہ نمودار ہوجانا اور کچھ ہی دیر بعد اسی راستے میں فرعون کا اپنے لاؤلشکر کے ساتھ غرق ہو جانا محض اتفاقات نہیں بلکہ ایسے معجزات کی مثالیں ہیں جن کے پیچھے خاص الٰہی تقدیر کارفرما نظر آتی ہے۔
اب ہم چلتے ہیں آج سے ٹھیک چالیس برس پیچھے۔ مقام ہے پاکستان میں قائم جماعتِ احمدیہ کا عالمی مرکز ربوہ۔ ۲۶؍ اپریل ۱۹۸۴ء جمعرات کی شام حکومتی مواصلاتی ذرائع سے امتناعِ قادیانیت آرڈیننس (نمبر۲۰) کا اعلان ہو چکا ہے۔ اس مرتبہ دشمن نے جماعتِ احمدیہ کی مخالفت میں ایک انتہائی خطرناک منصوبہ بنایا ہے۔ براہِ راست جماعت کی شہ رگ یعنی ’’خلافتِ احمدیہ‘‘ پر ہاتھ ڈالنے کی تیاریاں ہیں۔ قانونی جال بُنا جا چکا ہے۔ ایجنسیاں ربوہ کے اندر اور اردگرد سرگرمِ عمل ہیں جنہیں کارروائی کرنے کے لیے بس ایک بہانے، ایک چھوٹی سی لغزش کا انتظار ہے۔ دشمن نے جماعت احمدیہ کو ایک ایسے موڑ پر لاکھڑا کیا ہے جہاں سے آگے تمام راستے مسدود ہیں۔ صرف ربوہ ہی نہیں دنیا بھر میں بسنے والے احمدی مردو زَن، بچے بوڑھے سب ہی سخت بے چینی کی حالت میں اپنے خدا کے حضور بزبانِ حال اور بزبانِ قال سجدہ ریز ہیں کہ سب قدرتوں کا مالک خدا تعالیٰ ہی معجزہ دکھا کر اپنی پیاری جماعت کو ان سخت حالات سے نجات دلا سکتا ہے۔
قارئین!آئیے آپ کو لیے چلتے ہیں ۱۹۸۴ء سے مزید ساٹھ سال پیچھے۔ مقام ہے لندن کے جنوب مغرب میں مرکزی آبادی سے کئی میل دور واقع پٹنی کا علاقہ جہاں اکتوبر ۱۹۲۴ء میں خداتعالیٰ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے دستِ مبارک سے مسجد فضل کی بنیاد رکھتے یہ تحریر لکھوا رہا ہے:
’’اعوذباللہ من الشیطٰن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھوالناصر
قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَنُسُکِیۡ وَمَحۡیَایَ وَمَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ
مَیں میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ جس کا مرکز قادیان پنجاب ہندوستان ہے۔ خدا کی رضا کے حصول کے لیے اور اس غرض سے کہ خدا تعالیٰ کا ذکر انگلستان میں بلند ہو اور انگلستان کے لوگ بھی اس برکت سے حصہ پاویں جو ہمیں ملی ہے آج ۲۰؍ ربیع الاول ۱۳۴۳ھ کو اس مسجد کی بنیاد رکھتا ہوں اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمام جماعت احمدیہ کے مردوں اور عورتوں کی اس مخلصانہ کوشش کو قبول فرمائے اور اس مسجد کی آبادی کے سامان پیدا کرے اور ہمیشہ کے لیے اس مسجد کو نیکی، تقویٰ، انصاف اور محبت کے خیالات پھیلانے کا مرکز بنائے اور یہ جگہ حضرت محمد مصطفیٰ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت احمد مسیح موعود نبی اللہ بروز و نائب محمد علیہما الصلوٰۃ والسلام کی نورانی کرنوں کو اس ملک اور دوسرے ملکوں میں پھیلانے کے لیے روحانی سورج کا کام دے۔ اے خدا تُو ایسا ہی کر۔۱۹؍ اکتوبر ۱۹۲۴ء‘‘
اپریل ۱۹۸۴ء میں جب دشمن بزعمِ خود احمدیت کا قصہ (نعوذباللہ)تمام کرنے کی مکمل تیاری کر چکا تھا، کاتبِ تقدیر کو کچھ اَور ہی منظور تھا۔ اُس نے ایک کے بعد دوسرا معجزہ دکھا کر بظاہر مومنوں کی کمزور جماعت پر اپنا ہاتھ رکھا اور چند ہی دن میں خلافت ہجرت کر کے بخیر و عافیت اسی مسجد فضل لندن میں پہنچ گئی جس کے سنگِ بنیاد رکھے جانے کا ذکر ہو چکا ہے۔ عام آدمی سوچ سکتا ہے کہ یہ اتفاق تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ جرمنی، امریکہ یا انڈونیشیا نہیں گئے بلکہ لندن آ گئے۔ جی بالکل، اگر یہ کوئی افسانہ یا کہانی ہوتی تو اسے اتفاق یا coincidence ہی کہا جانا تھا لیکن نہ تو یہ افسانہ تھا اور نہ ہی اس کو لکھنے والا کوئی افسانہ نگار۔ اس تمام واقعہ کے پیچھے قادر اور غالب خدا تعالیٰ کی وہ تقدیر کام کر رہی تھی جس نے اپنے خلیفہ کے ہاتھ سے مسجد فضل کی دیوار پر مستقبل کا نوشتہ تحریر کروایا تھا جس کا لفظ لفظ آج اپنی سچائی کی گواہی دے رہا ہے۔ دشمن کی احمدیت کی ترقی پر بند باندھنے کی کوشش تو دراصل وہ مکر تھاجس کے نتائج خدا تعالیٰ نے جماعت کے حق میں ظاہر فرمادیے۔ اللہ تعالیٰ نےمسجد فضل کو نیکی، تقویٰ، انصاف اور محبت کے خیالات پھیلانے کا مرکز بنادیا اور تاریخ نے گواہی دی کہ جس طرح ۱۹۸۴ء کے بعد اس مسجد نے حضرت محمد مصطفیٰ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت احمد مسیح موعود نبی اللہ بروز و نائب محمد علیہما الصلوٰۃ والسلام کی نورانی کرنوں کو اس ملک اور دوسرے ملکوں میں پھیلانے کے لیے روحانی سورج کا کام دیا یہ سعادت کسی اَور مقام کو حاصل نہ ہوئی۔
آج بھی دنیا خدا تعالیٰ، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور امام الزماں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات کے انکار کے باعث تیزی سے ایک بڑی تباہی، ایک تنگ گلی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ آج بھی کاتبِ تقدیر خدائے عزّوجلّ ہی ہے جو اس دنیا کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔ اگر ہم خدا کی پناہ میں آنا چاہتے ہیں تو ہمیں اِس زمین پر اُس کے انتخاب یعنی خلیفۃ المسیح کی سچی پیروی اور اطاعت کرتے ہوئے خلافت کے سایۂ شفقت و عاطفت میں جگہ بنانی ہو گی، اس کی ڈھال کے پیچھے آنا ہو گاجس نے خداداد نورِ فراست سے ماضی میں بھی اپنے پیروکاروں کو مشکلات کے نرغے سے نکال کر بفضلِ خدا محفوظ مقام تک پہنچایا۔