اپنے والدین کی قربانیوں کو ہرگز نہ بھولو
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے والدین سے حسنِ سلوک کے بارہ میں بڑی تاکید فرمائی ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے روکیں۔ یا شرک کی تعلیم دیں۔ اس کے علاوہ ہربات میں ان کی اطاعت کا حکم ہے۔ اور یہ حکم اس لئے ہے کہ جو خدمت انہوں نے بچپن میں ہماری کی ہے اس کا بدلہ تو ہم نہیں اتار سکتے۔ اس لئے یہ حکم ہے کہ ان کی خدمت کے ساتھ ساتھ ان کے لئے دعا بھی کرو کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے اور بڑھاپے کی اس عمر میں بھی ان کو ہماری طرف سے کسی قسم کا کبھی کوئی دکھ نہ پہنچے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خدمت اور دعا کے باوجود یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم نے ان کی بہت خدمت کر لی اور ان کاحق ادا ہو گیا۔ اس کے باوجود بچے جو ہیں اس قابل نہیں کہ والدین کا وہ احسان اتار سکیں جو انہوں نے بچپن میں ان پر کیا۔
اس ضمن میں جو دو آیات [(بنی اسرائیل:۲۵-۲۴)] مَیں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :اور تیرے ربّ نے فیصلہ صادر کردیا ہے کہ تم اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے احسان کا سلوک کرو۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک تیرے پاس بڑھاپے کی عمر کو پہنچے یا وہ دونوں ہی، تو اُنہیں اُف تک نہ کہہ اور انہیں ڈانٹ نہیں اور انہیں نرمی اور عزت کے ساتھ مخاطب کر۔ اور ان دونوں کے لئے رحم سے عجز کا پَرجُھکا اور کہہ کہ اے میرے ربّ! ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری تربیت کی۔
اس آیت میں سب سے پہلے یہ بات بیان فرمائی کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور وہ خدا جس نے تمہیں اس دنیا میں بھیجا اور تمہیں بھیجنے سے پہلے قسما قسم کی تمہاری ضروریات کا خیال رکھااور اس کا انتظام بھی کردیا۔ اور پھر یہ کہ اس کی عبادت کرکے اور اس کا شکر اداکرکے تم اس کے فضلوں کے وارث ٹھہروگے اور سب سے بڑا فضل جو اس نے ہم پر کیاوہ یہ ہے کہ تمہیں ماں باپ دئے جنہوں نے تمہاری پرورش کی، بچپن میں تمہاری بے انتہاء خدمت کی، راتوں کو جاگ جاگ کر تمہیں اپنے سینے سے لگایا۔ تمہاری بیماری اور بے چینی میں تمہاری ماں نے بے چینی اور کرب کی راتیں گزاریں، اپنی نیندوں کو قربان کیا، تمہاری گندگیوں کو صاف کیا۔ غرض کہ کون سی خدمت اور قربانی ہے جو تمہاری ماں نے تمہارے لئے نہیں کی۔ اس لئے آج جب ان کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے تم منہ پرے کر کے گزر نہ جاؤ، اپنی دنیا الگ نہ بساؤاور یہ نہ ہو کہ تم ان کی فکر تک نہ کرو۔ اور اگر وہ اپنی ضرورت کے لئے تمہیں کہیں تو تم انہیں جھڑکنے لگ جاؤ۔ فرمایا :نہیں، بلکہ وہ وقت یاد کرو جب تمہاری ماں نے تکالیف اٹھاکر تمہاری پیدائش کے تمام مراحل طے کئے۔ پھر جب تم کسی قسم کی کوئی طاقت نہ رکھتے تھے، تمہیں پالا پوسا، تمہاری جائز وناجائز ضرورت کو پورا کیا۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶؍جنوری ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۲؍مارچ ۲۰۰۴ء)