متفرق مضامین

استعارہ

(م۔ ا۔ شہزاد)

حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے بیان فرمودہ دلچسپ واقعات

بعض دفعہ لوگ استعارہ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اور بعض دفعہ لفظی معنے ایسے لے لیتے ہیں جو حقیقت کے خلاف ہوتے ہیں اور اس طرح بات کہیں کی کہیں پہنچ جاتی ہے

استعارات کو حقیقت قرار دینے کا نتیجہ

استعارہ میں جب بھی بات کی جائے تو گو وہ باریک نہیں ہوتی مگر عوام الناس اُس زبان کو نہ جاننے کی وجہ سے اس کے ایسے معنی کر لیتے ہیں جو حقیقت پر مبنی نہیں ہوتے۔

مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک واقعہ پیش آیا۔ جب شام کی جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہؓ کو سالارِ لشکر بنا کر بھیجا اور فرمایا کہ اگر زید مارے جائیں تو جعفر بن ابی طالب کمان لے لیں اور اگر جعفر مارے جائیں تو عبداللہ بن رواحہ کمان لے لیں تو جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ویسا ہی وقوع میں آیا اور حضرت زیدؓ اور حضرت جعفرؓ اور حضرت عبداللہؓ تینوں شہید ہو گئے اور حضرت خالد بن ولیدؓ لشکر کو اپنی کمان میں لے کر بحفاظت اُسے واپس لے آئے۔ جس وقت مدینہ میں یہ خبر پہنچی تو جن عورتوں کے خاوند مارے گئے تھے یا جن والدین کے بچے اِس جنگ میں شہید ہوئے تھے اُنہوں نے جس حد تک کہ شریعت اجازت دیتی ہے رونا شروع کر دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اظہارِ افسوس کے لیے نہ اس لیے کہ عورتیں جمع ہو کر رونا شروع کر دیں فرمایا: جعفرؓ پر تو کوئی رونے والا نہیں۔

میرے نزدیک اِس فقرہ سے آپ کا یہ منشا ہر گز نہیں تھا کہ کوئی جعفر کو روئے بلکہ مطلب یہ تھا کہ ہمارا بھائی بھی آخر اِس جنگ میں مارا گیا ہے جب ہم نہیں روئے تو تمہیں بھی صبر کرنا چاہیے۔ کیونکہ حضرت جعفرؓ کے رشتہ دار وہاں یا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے یا حضرت علیؓ تھے اور یہ جس پایہ کے آدمی تھے اس کے لحاظ سے ان کی چیخیں نہیں نکل سکتی تھیں۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غالباًاس بات کے اظہار کے لیے کہ میرا بھائی جعفرؓ بھی مارا گیا ہے مگر مَیں نہیں رویا فرمایا جعفرؓ پر تو کوئی رونے والا نہیں۔

انصار نے جب یہ بات سنی تو چونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کو پورا کرنے کا بے حد شوق رکھتے تھے اس لیے انہوں نے اپنے اپنے گھر جا کر عورتوں سے کہنا شروع کیا کہ یہاں رونا دھونا چھوڑو اور جعفرؓ کے گھر چل کر روؤ۔ چنانچہ سب عورتیں حضرت جعفرؓ کے گھر میں اکٹھی ہوگئیں اور سب نے ایک کہرام مچا دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ آواز سنی تو فرمایا کیا ہوا؟ انصار نے عرض کیا۔ یا رسول  اللہ! ﷺ آپ نے جو فرمایا تھا کہ جعفرؓ پر کوئی رونے والا نہیں اس لیے ہم نے اپنی عورتیں حضرت جعفرؓ کے گھر بھیج دی ہیں اور وہ رو رہی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: میرا یہ مطلب تو نہیں تھا۔ جاؤ انہیں منع کرو۔ چنانچہ ایک شخص گیا اور اُس نے انہیں منع کیا۔ وہ کہنے لگیں تم ہمیں روکنے والے کون ہو؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو آج افسوس کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جعفرؓ کو رونے والا کوئی نہیں اور تُو ہمیں منع کرتا ہے۔ وہ یہ جواب سُن کر پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ کیونکہ بعض لوگوں کو دوسروں کی ذرا ذرا سی بات پہنچانے کا شوق ہوتا ہے اور عرض کیا وہ مانتی نہیں۔آپؐ نے فرمایا: اُن کے سروں پر مٹی ڈالو۔ مطلب یہ تھا کہ چھوڑو اور اُنہیں کچھ نہ کہو خود ہی رو دھو کر خاموش ہو جائیں گی۔ مگر اُس کو خدا دے اُس نے اپنی چادر میں مٹی بھرلی اور اُن عورتوں کے سَروں پر ڈالنی شروع کر دی۔ انہوں نے کہا پاگل کیا کرتا ہے؟ وہ کہنے لگا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مٹی ڈالو۔ اس لیے مَیں تو ضرور ڈالوں گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اُسے ڈانٹا اور فرمایا تُو بات کو تو سمجھا ہی نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا تو یہ تھا کہ ان کا ذکر چھوڑو اور جانے دو۔وہ خود ہی خاموش ہو جائیں گی۔ یہ مطلب تو نہیں تھا کہ تم مٹی ڈالنا شروع کر دو۔

اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک استعارۃً کلام تھا مگر وہ واقعہ میں مٹی ڈالنے لگ گیا۔ تو بعض دفعہ لوگ استعارہ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اور بعض دفعہ لفظی معنے ایسے لے لیتے ہیں جو حقیقت کے خلاف ہوتے ہیں اور اس طرح بات کہیں کی کہیں پہنچ جاتی ہے۔

میں نے یہ عرب کی مثال آپ لوگوں کے سامنے پیش کی ہے اب میں پنجاب کی ایک مثال دے دیتا ہوں۔

قرآن کریم میں آتا ہے کہ سحری کا وقت اُس وقت تک ہے جب تک سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے الگ نظر نہیں آتا۔ یہ ایک استعارہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک پَو پھٹ نہ جائے کھاتے پیتے رہو۔ مگر پنجاب میں بہت سے زمیندار رمضان کی راتوں میں سفید اور سیاہ دھاگا اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور چونکہ دھاگا اچھی روشنی میں نظر آتا ہے اس لیے وہ دن چڑھے تک خوب کھاتے پیتے رہتے ہیں۔ اب یہ اسی استعارہ کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے اور چونکہ بعض لوگوں کی نگاہ نسبتاً کمزور ہوتی ہے اس لیے ممکن ہے وہ دن چڑھنے کے بعد بھی اس آیت کی رُو سے کھانے پینے کا جواز ثابت کر لیں کیونکہ انہیں سورج کی روشنی میں ہی اِس فرق کا پتا لگ سکتا ہے۔

ہمارے ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ جب اپنے طالب علمی کے زمانہ میں لاہور میں پڑھتے تھے تو ایک احمدی دوست کے گھر رہتے تھے۔ رمضان کے دن تھے۔ ایک رات انہوں نے یہ خیال کر کے کہ یہ بچہ ہے اُسے کیا جگانا ہے روزے کے لیے نہ جگایا مگر میر صاحب کو جیسا کہ بچوں کا عام طریق ہے روزے رکھنے کا بڑا شوق تھا۔ اُن کی آنکھ ایسے وقت میں کھُلی جب کہ سحری کا وقت گذر چکا تھا اور روشنی پھیل گئی تھی۔ اِدھر گھر کے مالک کو خیال آیا کہ ان کا دل میلا ہوگا انہیں روٹی کھِلا دینی چاہیے۔ چنانچہ میر صاحب دروازہ کھولنے لگے تو وہ کہنے لگا ہیں! ہیں! کھولنا نہیں روشنی آئے گی مَیں اندر سے کھانا پکڑادیتا ہوں۔

غرض بعض لوگ استعارہ کے اس طرز پرمعنی کرتے ہیں کہ اس کو حقیقت بنا لیتے ہیں اور پھر اس کا کچھ کا کچھ مفہوم ہو جاتا ہے۔ (فضائل القرآن نمبر ۶۔انوارالعلوم جلد ۱۴صفحہ۵ تا۷)

استعارات کو سمجھنے کی بجائے حقیقت قرار دینے والے

خدا اور اُس کے انبیاء کا کلام تو الگ رہا لوگ بزرگوں کے کلام میں بھی انتہا درجہ کی سختی سے کام لیتے ہیں اور اُن کے استعارات کو سمجھنے کی بجائے حقیقت قرار دیتے ہیں۔

ہمارے شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے ’’سِلکِ مروارید‘‘ نام سے ایک ناول لکھا ہے جس میں قصہ کے طور پر ایک عورت کا ذکر کیا ہے جو بڑی بڑی بحثیں کرتی اور مولویوں کا ناطقہ بند کر دیتی تھی۔ ہماری کاٹھگڑھ کی جماعت کے ایک دوست تھے انہوں نے یہ کتاب پڑھی تو ایک دفعہ جب کہ جلسہ سالانہ کے ایام تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا زمانہ تھا، دوستوں نے اُن سے پوچھا کہ کیوں بھئی! جلسہ پر چلو گے؟ انہوں نے کہا اب کے تو کہیں اَور جانے کا ارادہ ہے۔ انہوں نے پوچھا کہاں جاؤ گے؟ تو پہلے تو انہوں نے نہ بتایا مگر آخر اصرار پر کہا کہ اِس دفعہ میرا ارادہ سہارنپور جانے کا ہے کیونکہ وہاں ایک بڑی بزرگ اور عاملہ عورت رہتی ہیں جن کا ذکر ’’سِلکِ مروارید‘‘ میں ہے اُن کی زیارت کا شوق ہے۔ (شیخ یعقوب علی صاحب نے ناول میں لکھا تھا کہ وہ سہارنپور کی ہیں) انہوں نے کہا۔ نیک بخت! وہ تو شیخ صاحب نے ایک ناول لکھا ہے جس میں فرضی طور پر سہارنپور کی ایک عورت کا ذکر کیا ہے یہ تو نہیں کہ سہارنپور میں واقعہ میں کوئی ایسی عورت رہتی ہے۔ وہ کہنے لگا۔ اچھا! تم شیخ یعقوب علی صاحب کو جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے صحابی ہیں جھوٹا سمجھتے ہو۔ وہ کہنے لگے کہ اِس میں جھوٹا سمجھنے کی کیا بات ہے وہ تو ایک قصہ ہے اور قصوں میں بات اسی طرح بیان کی جاتی ہے۔ وہ دوست کہتے ہیں کہ پہلے تو اُسے ہماری بات پر یقین نہ آیا مگر جب ہم نے بار بار اُسے یقین دلایا تو کہنے لگا۔ اچھا! یہ بات ہے؟ مجھے قادیان پہنچنے دو۔ میں جاتے ہی حضرت صاحب سے کہوں گا کہ ایسے جھوٹے شخص کو ایک منٹ کے لیے بھی جماعت میں نہ رہنے دیں فوراً خارج کر دیں۔ میں تو پیسے جمع کر کر کے تھک گیا اور میرا پختہ ارادہ تھا کہ سہارنپور جاؤں گامگر اب معلوم ہواکہ یہ سب جھوٹ تھا۔

اب اس بیچارے کے لیے یہی سمجھنا مشکل ہو گیا کہ ایسی عورت کوئی نہیں یہ ایک فرضی قصہ ہے جو اس لیے بنایا گیا ہے کہ تا وہ لوگ جو قصے پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں وہ اس رنگ میں احمدیت کے مسائل سے واقف ہو جائیں ۔(فضائل القرآن نمبر ۶۔انوارالعلوم جلد ۱۴صفحہ۸)

ہر زبان میں تشبیہ اور استعارہ کا استعمال

دنیا میں ہر زبان میں تشبیہ اور تمثیل کا استعمال موجود ہے ۔ہر اعلیٰ علمی کتاب میں تشبیہات و تمثیلات بیان ہوتی ہیں ۔ہر ملک میں استعاروں کا استعمال کیا جاتاہے۔ہمارے ملک میں محاورہ ہے کہ ’’آنکھ بیٹھ گئی‘‘ مگر کوئی نہیں کہتا کہ کیا آنکھ کی بھی ٹانگیں ہیں۔یا وہ بیٹھی ہے تو کس پلنگ اور کرسی پر ۔کیونکہ ہر شخص جانتاہے کہ بیٹھنے کے معنی یہ ہیں کہ آنکھ ضائع ہو گئی اور پھوٹ گئی۔اسی طرح اَور بیسیوں نہیں سینکڑوں محاورے زبان اردو میں استعمال کئے جاتے ہیں اور یہ استعارے زبان کے کمال پر دلالت کرتے ہیں۔(فضائل القرآن نمبر ۶۔انوارالعلوم جلد ۱۴صفحہ۱۵)

سَوفسطائی

بعض لوگوں نے اس حد تک استعارات کو بڑھایا ہے کہ میں نے ایک تفسیر دیکھی جس میں تمام قرآن کو استعارہ اور مجاز ہی قرار دیا گیا ہے۔ اگر کسی جگہ موسیٰ کا نام آیا ہے تو اِس کے کچھ اور ہی معنی لیے ہیں اور اگر آدم کا لفظ آیا ہے تو اِس کے بھی کچھ اور معنی لیے گئے ہیں۔ ایسا آدمی بالکل سَوفسطائی بن جاتا ہے

اور اِس کی مثال اُس شخص کی سی ہو جاتی ہے جو بادشاہ کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ بادشاہ سلامت! ہر چیز وہم ہی وہم ہے۔ بادشاہ نے اُسے نیچے صحن میں کھڑا کر کے مست ہاتھی چھوڑ دیا اور احتیاطاً ایک سیڑھی بھی لگا دی تا کہ وہ اس کے حملہ سے بچ کر سیڑھی پر چڑھ جائے۔ جس وقت ہاتھی نے حملہ کیا تو وہ بھاگا اور دَوڑ کر سیڑھی پر چڑھنے لگا۔ بادشاہ کہنے لگا کہاں جاتے ہو؟ ہاتھی واتھی کوئی نہیں یہ تو وہم ہی وہم ہے۔ وہ بھی کچھ کم چالاک نہ تھا کہنے لگا بادشاہ سلامت! کون بھاگ رہا ہے یہ بھی تو وہم ہی ہے۔ تو بعض لوگ استعارہ کو اس حد تک لے جاتے ہیں کہ کوئی کلام بغیر استعارہ پر محمول کیے نہیں چھوڑتے۔(فضائل القرآن نمبر ۶۔انوارالعلوم جلد ۱۴صفحہ۱۷)

الفاظ بھی ایک قسم کا استعارہ ہی ہیں

جہاں وسعت مضمون ہوگی اور جہاں تھوڑے الفاظ میں مضامین کا ادا کرنا ناممکن ہوگا وہاں استعارہ ہی استعمال کرنا پڑے گا۔ بلکہ خود الفاظ بھی ایک قسم کا استعارہ ہی ہیں۔ مثلاً جب ہم گھوڑا کہتے ہیں تو یہ خود ایک استعارہ ہوتا ہے۔ ورنہ گ ھ و ڑ اور الف کا گھوڑے سے کیا تعلق ہے؟پس یہ ایک تشبیہ اور استعارہ ہے جو انسانی کلام میں تجویز کیا گیا۔ ورنہ اگر گھوڑے کی تشریح کی جاتی تو بڑی مشکل پیش آ جاتی۔

جیسے مشہور ہے کہ کوئی حافظ صاحب تھے جنہوں نے کبھی کھِیر نہیں کھائی تھی۔ ایک دن کسی نے اُن کی دعوت کی اور شاگرد نے آکر بتایا کہ آج اُس نے کھِیر پکائی ہے۔ وہ کہنے لگے کھِیر کیا کھانا ہوتا ہے؟ اُس نے بتایا کہ میٹھا میٹھا اور سفید سفید ہوتا ہے۔ اب حافظ صاحب نے چونکہ رنگ بھی کبھی نہ دیکھے تھے اس لیے انہوں نے پوچھا کہ سفید رنگ کس طرح کا ہوتا ہے؟ شاگرد کہنے لگا بگلے کی طرح ہوتا ہے۔ حافظ صاحب پوچھنے لگے بگلا کس طرح کا ہوتا ہے؟ اس پر شاگرد نے ہاتھ کی شکل بگلے کی طرح بنائی اور اُس پر حافظ صاحب کا ہاتھ پھیر دیا۔ حافظ صاحب نے فوراً شور مچا دیا اور کہنے لگے جاؤ جاؤ میں ایسی دعوت میں شریک نہیں ہو سکتا۔ یہ کھِیر تو میرے گلے میں اٹک کر مجھے مار ڈالے گی۔

یہ ہے تو ایک لطیفہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ بگلے سے فلاں چیز مراد ہے، گھوڑے سے فلاں چیز مراد اور گدھے سے فلاں چیز تو کوئی گھوڑے کو گدھا سمجھے گا اور بھینس کو گھوڑا۔ پس استعارہ انسانی کلام کا ایک ضروری جزو ہے اور اسے کسی صورت میں بھی ترک نہیں کیاجا سکتا۔ استعاروں کے بغیر بعض مضامین ادا ہی نہیں ہو سکتے حقیقت یہ ہے کہ استعارہ کے صحیح استعمال کے بغیر مضمون صحیح طور پر ادا ہی نہیں ہو سکتا۔(فضائل القرآن نمبر ۶۔انوارالعلوم جلد ۱۴صفحہ۲۱)

گذشتہ کتب میں استعارہ

بائبل کی کئی آیات ان ہدایات پر مشتمل ہیں کہ اگر کپڑے کو کوڑھ ہو جائے تو تم کیا کرو۔ اب یہ امر کہ کپڑے کو کوڑھ کس طرح ہو سکتا ہے انسانی عقل سے بالا ہے۔ ڈاکٹر بھی اس بات سے ناواقف ہیں مگر بائبل کی کتاب گِنتی میں باقاعدہ کپڑوں کے کوڑھ کی قسمیں بیان کی گئی ہیں اور پھر اِس کوڑھ کا علاج بتایا گیا ہے۔ اب یقیناً یہ کوئی استعارہ ہو گا۔ مثلاً ممکن ہے کپڑوں سے مراد دل ہوں اور کپڑے کے کوڑھ سے مراد دل کی گندگی ہو۔ جیسے قرآن کریم میں بھی آتا ہے۔ وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ لیکن چونکہ اندرونی شہادت اِس میں موجود نہیں اور نبی آنے بند ہو گئے اس لیے اب انسان ان باتوں کو پڑھتا اور ہنستا ہے۔

گذشتہ دِنوں ایک جرمن اُستانی مَیں نے اپنی لڑکیوں کو تعلیم دینے کےلیے رکھی۔ اُسے انگریزی کم آتی تھی میں نے سمجھا اُسے انگریزی نہیں آتی تو اس سے جرمن زبان ہی سیکھ لیتے ہیں۔ چنانچہ وہ کچھ عرصہ پڑھاتی رہی۔ ایک دن ایک شخص میرے پاس آیا اور میں نے اُسے تبلیغ کی تو وہ کہنے لگی۔ ہر کتاب میں ہدایت کی باتیں ہیں۔ توریت میں بھی بڑی بڑی کام کی باتیں ہیں پھر قرآن کو ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے کہا ہدایت ہونے پر تو کوئی اعتراض نہیں۔ اعتراض تو اس امر پر ہے کہ اس میں بعض ایسی باتیں بھی پائی جاتی ہیں جو لغو ہیں۔ چنانچہ میں نے کہا کیا کپڑے کو بھی کوڑھ ہو سکتا ہے ؟اُس نے کہا نہیں۔ میں نے کہا بائبل میں یہ لکھاہے چنانچہ بائبل منگوا کر اُس کے سامنے رکھی گئی اور وہ باب نکال کر اُسے دکھایا گیا۔ وہ سارا دن سر ڈالے بار بار اُسے پڑھتی اور سوچتی رہی۔ آخر مجھے کہنے لگی یہ بات میری عقل سے باہر ہے۔ مَیں کسی پادری کو اِس کے متعلق لکھوں گی اور جو جواب اِس کاآئے گا وہ میں آپ کو بتاؤں گی۔ میں نے کہا۔ پادری بھی اِس کا مطلب کچھ نہیں بتا سکتا مگر خیر اُس نے ایک پادری کو خط لکھ دیا۔ کوئی دو مہینے کے بعد اُس کا جواب آیا مگر وہ بھی اُس نے خود نہیں لکھا بلکہ اُس کی کسی سہیلی سے لکھوایا۔ اور جواب یہ تھا کہ اگر سچ مچ تمہیں اسلام پسند آ جائے تو اسے اختیار کر لو ورنہ قومی مذہب ہی اچھا ہوتا ہے اور اِس قسم کی باتیں جو بائبل میں آتی ہیں یہ ہر ایک کو سمجھانے والی نہیں ہوتیں۔

تو اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک استعارہ تھا مگر چونکہ اندرونی شہادت موجود نہیں اور اِس کی تشریح کیلئے جو نبی آیا کرتے تھے اُن کا سلسلہ بند ہو گیا اس لیے لوگوں کے لیے ان باتوں کا سمجھنا بڑا مشکل ہو گیا۔(فضائل القرآن نمبر ۶ ۔انوار العلوم جلد ۱۴صفحہ۳۷۰-۳۷۱)

استعارہ اور تشبیہ کو نہ سمجھنے کے نقصانات

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ہم نے داؤدؑ اور سلیمانؑ کو علم عطا کیا اور ان دونوں نے کہا اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیۡرٍ مِّنۡ عِبَادِہِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۔ اللہ تعالیٰ ہی تمام تعریفوں کا مستحق ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت بخشی ہے وَوَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ اور سلیمانؑ داؤدؑ کا وارث بنا اور اس نے کہا اے لوگو! مجھے اور میرے باپ کو پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہم کو ہر ایک چیز دی گئی ہے اور ہم پر یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے۔ اور سلیمانؑ کے لیے لشکر جمع کیے گئے۔ وہ لشکر انسانوں کے بھی تھے اور جنوں کے بھی اور پرندوں کے بھی۔ گویا ہر ایک کی الگ الگ کمپنی تھی۔ حَتّٰی اِذَا اَتَوْا عَلٰی وَادِالنَّمْلِ۔ پھر حضرت سلیمانؑ اپنا لشکر لے کر چلے یہاں تک کہ وہ وَادِالنَّمْلِ یعنی چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے۔ ایک چیونٹی نے اُنہیں دیکھ کر کہا۔ اے چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں داخل ہو جاؤ ایسا نہ ہو کہ سلیمانؑ اور اس کا لشکر غیر شعوری حالت میں تمہیں اپنے پَیروں کے نیچے مسل دیں۔ حضرت سلیمانؑ اُس کا یہ قول سن کر ہنس پڑے اور انہوں نے کہا۔ اے میرے خدا! مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کر سکوں۔ وہ نعمتیں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیں اور یہ کہ میں نیک کام کروں جن سے تُو راضی ہو جائے اور مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں داخل فرما۔

پھر حضرت سلیمانؑ نے جب پرندوں والے لشکر کی دیکھ بھال کی تو فرمایا۔ یہ کیا بات ہے کہ ہُد ہُد نظر نہیں آتا۔ میں اُسے سخت عذاب دونگا ورنہ وہ دلیل پیش کرے اور وجہ بتائے کہ کیوں غیر حاضر ہوا؟ تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ ہُد ہُد آ گیا اور اُس نے کہا کہ حضور! ناراض نہ ہوں۔ میں ایسی خبر لایا ہوں جس کا آپ کو علم نہیں۔ میں سبا کے ملک سے ایک یقینی خبر لایا ہوں اور وہ یہ کہ میں نے وہاں ایک عورت کو دیکھا جو ان کی ساری قوم پر حکومت کر رہی ہے اور ہر نعمت اُسے حاصل ہے اور اُس کا ایک بڑا تخت ہے اور میں نے اُسے اور اُس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے اور شیطان نے اُن کے اعمال اُن کو خوبصورت کر کے دکھائے ہیں اور اُن کو سچے راستہ سے روک دیا ہے جس کی وجہ سے وہ ہدایت نہیں پاتے اور اس بات پر مُصر ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ نہیں کریں گے وہ اللہ جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ تقدیر کو ظاہر کرتا ہے اور جو کچھ تم چُھپاتے اور ظاہر کرتے ہو اُسے جانتا ہے حالانکہ اللہ وہ ہے جس کے سِوا کوئی معبود نہیں اور وہ ایک بڑے تخت کا مالک ہے۔ حضرت سلیمانؑ نے کہا اچھا ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ بولا ہے یا تو جھوٹوں میں سے ہے۔ تو میرا یہ خط لے جا اور اِسے اُن کے سامنے جا کر پیش کر دے اور پھر ادب سے پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو جا اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔

اِسی قسم کا مضمون سورہ سبا رکوع۲ میں بھی آتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَقَدۡ اٰتَیۡنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضۡلًا ؕ یٰجِبَالُ اَوِّبِیۡ مَعَہٗ وَالطَّیۡرَ ۚ وَاَلَنَّا لَہُ الۡحَدِیۡدَ۔ اَنِ اعۡمَلۡ سٰبِغٰتٍ وَّقَدِّرۡ فِی السَّرۡدِ وَاعۡمَلُوۡا صَالِحًا ؕ اِنِّیۡ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ یعنی ہم نے داؤدؑ پر بھی بڑا فضل کیا اور اُس کے زمانہ میں ہم نے پہاڑوں سے کہا کہ اے پہاڑو! اس کے ساتھ چلو اور پرندوں کو بھی حکم دے دیا کہ اُس کے ساتھ رہیں اور اس کے لئے ہم نے لوہا نرم کر دیا اور اُسے کہا کہ اس لوہے سے زِرہیں بناؤ اور ان کے حلقے چھوٹے رکھو اور نیک اعمال بجا لاؤ میں تمہارے کاموں سے خوب واقف ہوں۔ اسی طرح سورہ انبیاء رکوع۶ میں فرماتا ہے۔ وَسَخَّرۡنَا مَعَ دَاوٗدَ الۡجِبَالَ یُسَبِّحۡنَ وَالطَّیۡرَ ؕ وَکُنَّا فٰعِلِیۡنَ۔ وَعَلَّمۡنٰہُ صَنۡعَۃَ لَبُوۡسٍ لَّکُمۡ لِتُحۡصِنَکُمۡ مِّنۡۢ بَاۡسِکُمۡ ۚ فَہَلۡ اَنۡتُمۡ شٰکِرُوۡنَ۔ ہم نے داؤدؑ کے لئے پہاڑوں کو مسخر کر دیا جو ہر وقت تسبیح کرتے تھے اور پرندے مسخرکر دیئے اور ہم یہ سب کچھ کرنے پر قادر تھے اور ہم نے اس کو تمہارے لئے لباس کا بنانا سکھلایا تا کہ وہ تمہیں لڑائی میں تکلیفوں سے بچائے پس کیا تم شکر گذار بنو گے؟ پھر سورہ صٓ رکوع ۲ میں آتا ہے۔ وَاذۡکُرۡ عَبۡدَنَا دَاوٗدَ ذَاالۡاَیۡدِ ۚ اِنَّہٗۤ اَوَّابٌ۔ اِنَّا سَخَّرۡنَا الۡجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحۡنَ بِالۡعَشِیِّ وَالۡاِشۡرَاقِ۔ وَالطَّیۡرَ مَحۡشُوۡرَۃً ؕ کُلٌّ لَّہٗۤ اَوَّابٌ۔ وَشَدَدۡنَا مُلۡکَہٗ وَاٰتَیۡنٰہُ الۡحِکۡمَۃَ وَفَصۡلَ الۡخِطَابِ۔ یعنی ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو جو بڑی طاقت کا مالک تھا اور ہماری درگاہ میں بار بار جُھکتا تھا ہم نے اُس کے لئے پہاڑ مسخر کر دیئے جو صبح و شام تسبیح کرتے تھے۔ اسی طرح پرندے اُس کی خاطر اکٹھے کر دیئے تھے اور وہ سب کے سب خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے والے تھے۔ اور ہم نے اُس کی سلطنت کو خوب مضبوط بنا دیا تھا اور اُسے حکمت دی تھی اور ایسے دلائل سکھائے تھے جو دشمن کا منہ بند کر دیں۔

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے قبضہ میں جِنّ بھی تھے، پرندے بھی تھے، پہاڑ بھی تھے۔ وہ چیونٹیوں کی زبان بھی جانتے تھے۔ ایک ہُدہُد بھی انہوں نے رکھا ہوا تھا جو اُن کے بڑے بڑے کام کرتا تھا۔ اب جن لوگوں نے متشابہ کو محکم سے پڑھنے کی کوشش نہیں کی وہ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ اور حضرت داؤدؑ کے قبضے میں پہاڑ تھے۔ جِنّ تھے، پرندے تھے، حیوانات تھے اور سب مل کر حضرت داؤدؑ کے ساتھ ذکرِ الٰہی کرتے تھے۔ جب وہ کہتے سُبْحَانَ اللّٰہِ تو پہاڑ بھی اور پرندے بھی اور جِنّ بھی اور حیوانات بھی سب سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ کہنے لگ جاتے۔

جیسے کشمیری واعظوں کا دستور ہے کہ لیکچر دیتے ہوئے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد سَستانے کےلیے کہہ دیتے ہیں۔ پڑھو درود۔ وہ بھی گویا اِسی طرح کرتے تھے۔ جب خود ذکرِ الٰہی کرتے کرتے تھک جاتے تو کہتے ہمالیہ! پڑھو درود۔ اور وہ درود پڑھنے لگ جاتا۔ پھر جب انہیں آرام آ جاتا تو کہتے چپ کرو اَب میں خود درود پڑھتا ہوں۔ بعض کہتے ہیں پہاڑوں وغیرہ کا سُبْحَانَ اللّٰہِکہنا کونسی بڑی بات ہے وہ تو باقاعدہ رکوع و سجود بھی کرتے تھے۔ جب حضرت داؤد ؑ سجدہ میں جاتے تو سارے پہاڑ، پرند اور چرند بھی سجدہ میں چلے جاتے اور جب وہ رکوع کرتے تو سب رکوع کرنے لگ جاتے۔

بعض کو اِس تاویل سے بھی مزا نہیں آیا وہ کہتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ حضرت داؤدؑ جہاں بھی جاتے پہاڑ آپ کے ساتھ چل پڑتے۔ حضرت داؤدؑ تو شام میں تھے اور یہ ہمالیہ، شوالکؔ اور الپسؔ سب آپ کے ساتھ ساتھ پِھرا کرتے تھے۔ اسی طرح پرندے بھی مل کر تسبیح کرتے تھے۔ اُن دِنوں چِڑیاں بھی چوں چوں نہیں کرتی تھیں، بکریاں مَیں مَیں نہیں کرتی تھیں بلکہ سب سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ کیا کرتی تھیں۔ کوئی یہ نہ پوچھے کہ بکری کس طرح پرندہ ہوگیا؟ کیونکہ تفسیروں میں اِسی طرح لکھا ہے۔ غرض وہ عجیب زمانہ تھا۔ اسی طرح سلیمانؑ پر خدا تعالیٰ نے ایک اَور مہربانی کی اور وہ یہ کہ جِنّ اُن کے حوالے کر دیے جو اُن کے اشارے پر کام کرتے۔ جب چلتے تو پرندے اُن کے سر پر اپنے پَر پھیلا کر سایہ کر دیتے۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ حضرت داؤدؑ بڑے شکی طبیعت کے آدمی تھے۔ جب کہیں باہر جاتے تو اپنی بیویوں کو گھر میں بند کر کے جاتے۔ ایک دفعہ گھر میں آئے تو دیکھا کہ ایک جوان مضبوط آدمی اندر پھر رہا ہے۔ وہ اُسے دیکھ کر سخت خفا ہوئے اور کہنے لگے۔ تجھے شرم نہیں آتی کہ اندر آگیا ہے۔ پھر اُس سے پوچھا کہ جب مکان کے تمام دروازے بند تھے تو تو اندر کس طرح آ گیا؟ وہ کہنے لگا مَیں وہ ہوں جسے دروازوں کی ضرورت نہیں۔ آپ نے پوچھا کیا تو ملک الموت ہے؟ اُس نے کہا ہاں۔ اور یہ کہتے ہی اُس نے آپ کی جان نکال لی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو جب دفن کرنے لگے تو تمام پرندے اکٹھے ہوگئے اور انہوں نے آپ پر اپنے پَروں سے سایہ کیا۔ کہتے ہیں حضرت سلیمان علیہ السلام تمام پرندوں کی بولیاں جانتے تھے۔ کسی نے کہا کہ کیا جانوروں کی بولیاں جانتے تھے یا نہیں؟ تو مفسّرین نے اِس کا جواب یہ دیا ہے کہ جانتے تو تھے مگر اختصار کے لحاظ سے صرف پرندوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

کہتے ہیں ایک دفعہ بارش نہ ہوئی تو لوگوں نے حضرت سلیمانؑ سے کہا چلیں اِسْتِسقاءکی نماز پڑھائیں۔ حضرت سلیمان نے کہا کہ گھبراؤ نہیں بارش ہو جائے گی۔ کیونکہ ایک چیونٹی پیٹھ کے بَل کھڑی ہو کر کہہ رہی تھی کہ خدایا! اگر بارش نہ ہوئی تو ہم مر جائیں گی۔ ایک دفعہ وہ وادی النمل میں سے گزرے تو چیونٹیوں کی ملکہ نے سب کو حکم دیا کہ اپنے اپنے بِلوں میں گھس جاؤ۔ مگر مفسّرین نے یہیں تک اپنی تحقیق نہیں رہنے دی انہوں نے چیونٹیوں کے قبیلوں کا بھی پتہ لگایا ہے اور کہتے ہیں جس طرح انسانوں میں مغل، راجپوت اور پٹھان وغیرہ ہوتے ہیں اِسی طرح چیونٹیوں کی قومیں اور قبائل ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ علم آپ کے کام آئے گا کہ چیونٹیوں کے ایک قبیلے کا نام شیسان ہے جو مفسرین نے لکھا ہے۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ان کی جو سردار چیونٹی تھی وہ ایک پاؤں سے لنگڑی تھی اور اُس کا قد بھیڑ کے برابر تھا۔

یہ وہ واقعات ہیں جو استعارہ اور تشبیہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مفسّرین کو گھڑنے پڑے ہیں۔ حالانکہ بات بالکل صاف تھی۔(فضائل القرآن نمبر ۶۔انوارالعلوم جلد ۱۴ صفحہ۳۷۴تا۳۷۷)

پیشگوئی میں تمثیلی رنگ ہوتا ہے

قرآن کریم ایک الہامی کتاب ہے اور الہامی زبان میں نازل ہوئی ہے مگر مسلمانوں کویہ ایک عجیب غلطی لگی ہوئی ہے کہ وہ الہامی باتوں کا ترجمہ اپنی زبانوں میں کرتے ہیں حالانکہ وہ باتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں یا موسیٰ علیہ السلام کہیں یا عیسیٰ علیہ السلام کہیں بہر حال جب بھی وہ آئندہ کے متعلق کوئی بات کہیں گے پیشگوئی ہی ہو گی اور پیشگوئی تمثیلی رنگ میں ہوا کرتی ہے دکھایا اَور شکل میں جاتا ہے اور ظاہر اَور شکل میں ہوتا ہے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رؤیا میں انگوروں کا ایک خوشہ دیا گیااور کہا گیا کہ یہ ابوجہل کے لیے ہے۔ آپ نے یہ رؤیا دیکھی تو گھبرا کر آپ کی آنکھ کھل گئی کہ ابوجہل کے لیے جنت سے انگوروں کا خوشہ آنے کے کیا معنے ہیں؟مگر بعد میں جب اس کا بیٹا عکرمہؓ مسلمان ہو گیا تب اس خواب کی حقیقت آپؐ پر ظاہر ہوئی اور آپؐ نے فرمایا ابوجہل کے لیے جنت کے انگوروں کا خوشہ بھجوانے کی تعبیر یہ تھی کہ اس کا بیٹا مسلمان ہو جائے گا۔ آپ کو دکھایا گیا کہ آپ ایک مقام کی طرف ہجرت کر یں گے جہاں کثرت سے کھجوروں کے درخت ہوں گے آپ کاذہن نخلہ مقام کی طرف گیا کہ غالباً وہاں ہجرت مقدر ہے اسی لیے آپ طائف بھی تشریف لے گئے تھے مگر وہاں کے لوگوں نے آپ کی شدید مخالفت کی پتھروں سے آپ زخمی ہوئے اور کوئی شخص آپؐ کے دعویٰ پرغور کرنے کے لئے تیار نہ ہوا۔

یا مثلاً ایک صحابیؓ کے ہاتھ میں آپ نے کسریٰ شاہِ ایران کے کنگن دیکھے جس کی تعبیر یہ تھی کہ کسریٰ کی حکومت مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہونے والی ہے مگر دکھایا یہ گیا کہ کسریٰ کے کنگن ایک شخص نے پہنے ہوئے ہیں۔

اسی طرح آپؐ نے دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں خزائنُ الْاَرْض کی چابیاں دی گئی ہیں، مگر یہ چابیاں آپ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میںآئیں۔

پھر آپؐ کو بتایا گیا کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی بیویوں میں سے سب سے پہلے لمبے ہاتھوں والی بیوی فوت ہوگی۔ آپ کی بیویوں نے یہ بات سُنی تو انہوں نے فوراً اپنے ہاتھ ناپنے شروع کر دیے کہ دیکھیں سب سے لمبے ہاتھ کس کے ہیں؟ انہیں معلوم ہوا کہ سب سے لمبے ہاتھ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے ہیں مگر جب وفات ہوئی تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی ہوئی تب معلوم ہوا کہ لمبے ہاتھوں سے مراد ظاہری ہاتھوں کی لمبائی نہیں تھی بلکہ یہ سخاوت کی طرف اشارہ تھا۔

عربی محاورہ کے مطابق جب کسی کو لمبے ہاتھ والا کہا جائے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ بہت بڑا سخی ہے۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا چونکہ تمام بیویوں میں سے سب سے زیادہ سخی تھیں اس لئے پیشگوئی کے مطابق سب سے پہلے انہی کا انتقال ہوا۔

اسی طرح جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رَجُلٌ مِّنْ ھٰؤُلَاءِ توایمان کسی تھیلی کانام نہیں تھا جو ثریّا سے لٹکی ہوئی ہو یاثریاکوئی بنک کی والٹ (VAULT) نہیں تھا جس میں ایمان کو محفوظ رکھا جانا تھا۔

بہرحال یہ ایک تمثیلی کلام تھا اور اس لفظ کا استعمال استعارہ کے رنگ میں ہوا تھا پس ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اگر خواب میں کوئی ثریّا دیکھے تو اس کی کیا تعبیر ہوا کرتی ہے۔ اس غرض کے لیے جب ہم تعطیر الانام کو دیکھتے ہیں جو الشیخ عبدالغنی النابلسی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ہے اور علم تعبیر الرؤیا کی نہایت معتبر اسلامی کتاب ہے تو اس میں ہمیں یہ لکھا ہوا نظر آتا ہے کہ ھِیَ فِی الْمَنَامِ رَجُلٌ حَازِمٌ فِی الْاُمُوْرِیعنی ثریا سے مراد ایسا آدمی ہوتا ہے جو اپنے تمام کام نہایت خوش اسلوبی اورکامیابی کے ساتھ سرانجام دینے والا ہو۔ اسی طرح ابن سیرین جو مشہور تابعی گزرے ہیں اپنی کتاب ’’منتخب الکلام فی تفسیر الاحلام‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ھُوَرَجُلٌ حَازِمُ الرَّأْیِ یَرَی الْاُمُوْرَ فِی الْمُسْتَقْبِلِ یعنی ثریّا سے مراد ایسا انسان ہوتا ہے جو نہایت پختہ اور صحیح رائے رکھنے والا ہو، اور آئندہ زمانہ میںرونما ہونے والے واقعات کو بھی اپنی روحانی بصیرت سے دیکھ لیتا ہو۔ ان معنوں کے لحاظ سے ثریّا سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے اُن تمام فرائض کو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے سپرد کئے گئے تھے انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دیا اور ہمیشہ کامیابیوں اور کامرانیوں نے آپ کے قدم چومے۔لیکن چونکہ آپ نے ہمیشہ زندہ نہیں رہنا تھا اور زمانۂ نبوت سے بُعد کی وجہ سے لوگوں نے کئی قسم کی خرابیوں میں مبتلا ہو جانا تھا جن کو دُور کرنے کے لیے کسی آسمانی راہنما کی ضرورت تھی اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشگوئی فرمائی کہ اگر کسی وقت ایما ن سمٹ کر ثریّاتک بھی چلا گیا یعنی دنیا میں گمراہی پھیل گئی اور ایمان صرف آپؐ کی ذات تک محدود رہ گیا تو اُس وقت پھر اللہ تعالیٰ آپ کے روحانی افاضہ کے نتیجہ میں ایک ایسا انسان مبعوث فرمائے گا جو آپ سے فیض اور برکت پا کر ایمان دنیامیں قائم کر دے گا اور کفر کی تاریکیوں کو پھاڑ دے گا یہی وجہ ہے کہ مسیح موعود کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل شاگرد ہونے کی وجہ سے ثریّا قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس نے بھی ظلمت کو دُور کرنا تھا اور اسلام کا نور دنیامیں پھیلانا تھا چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کو النّجم کہا ہے جس کے معنے ثریّا کے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرماتے ہیں کہ اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ میرے سب صحابہ نجوم کی مانند ہیں۔

پس اس حدیث نے اس طرف اشارہ کر دیا کہ مسیح موعود بھی صحابہ میں سے ہو گا اور وہ بھی آپ کے شاگردوں اور غلاموں میں شامل ہوگا۔ اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے مطابق تمام بڑے اور اہم کام آسمان سے ہی ظاہر ہوتے ہیں۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ جب بھی کوئی بڑا تغیر رونما ہونے والا ہوتا ہے تو اس کے متعلق پہلافیصلہ آسمان پر ہوتا ہے اور اس کے بعد اس کا زمین پر ظہور ہوتا ہے۔ حدیثوں میں صاف طور پرآتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب کوئی بڑا کام کرنا ہوتا ہے تو پہلے وہ اپنے مقرب فرشتوں کو بتاتا ہے کہ میرا یہ ارادہ ہے۔ وہ فرشتے اپنے سے نچلے طبقہ کے فرشتوں کو اطلاع دیتے ہیں وہ اپنے سے نچلے طبقہ کے فرشتوں کو اطلاع دیتے ہیں یہاں تک کہ ہوتے ہوتے اُس کا دنیا میں ظہور شروع ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے جس بندہ کے متعلق چاہتا ہے اُس کی مقبولیت کو دنیا میں پھیلا دیتا ہے۔غرض جتنے بڑے کام ہوتے ہیں سب آسمان پرہوتے ہیں زمین پر نہیں ہوتے۔ صرف زمین پر تغیرات ہونے کا عقیدہ ان لوگوں کا ہے جو دہریہ ہیںورنہ خداتعالیٰ کے ماننے والے تو جانتے ہیں کہ ہر بات کا فیصلہ پہلے آسمان پر ہوتا ہے اور پھر اس کا زمین پر ظہور ہوتا ہے۔

گویا اگر ہم تمثیلی زبان اختیار کریں اور دنیا کو ایک تھیٹر کا ہال سمجھ لیں تو ڈرامہ آسمان پرلکھا جاتا ہے اور کھیل دنیا کے پردہ پر کھیلا جاتا ہے جب تک آسمان پر کوئی ڈرامہ نہیں لکھا جاتا زمین پر وہ کھیل نہیں کھیلی جاتی۔(سیر روحانی(۴) ،فرمودہ ۲۸؍مارچ ۱۹۴۸ء بمقام لاہور۔انوارالعلوم جلد ۱۹صفحہ ۵۰۵ تا ۵۰۸)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button