محترم عبد الکریم قدسی صاحب
جماعت احمدیہ کی نامور شخصیت اور ایک اعلیٰ پائے کے شاعر محترم عبدالکریم قدسی صاحب مورخہ ۱۰؍ نومبر۲۰۲۳ء فلوریڈا امریکہ میں وفات پاگئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اذکروامحاسن موتاکمیعنی اپنے پیارے اور محبوب بزرگوں کا ذکر خیر کیا کرو۔ اپنے پیاروں کا ذکرِ خیر رسول کریمﷺکے اس ارشاد کی تعمیل ہی ہے۔
ہر انسان کی یہ طبعی خواہش ہوتی ہے کہ وہ غیر معمولی اوصاف کے حامل اپنے عزیزوں، بڑی شخصیتوں، اہل علم و فضل بزرگوں اور اللہ تعالیٰ کے نیک اور برگزیدہ بندوں کے اعلیٰ اخلاق اوصاف حمیدہ اور شمائل و فضائل کو حرز جان بنا کر رکھے۔ان کے فرمودات پر عمل کرے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی بھرپور سعی کرے۔
عبدالکریم قدسی صاحب ایسی ہی ہستیوں میں سے ایک تھے۔ساری عمر منارۂ نور بن کر اہل دنیا کو روشنی پہنچاتے رہے اور اپنے پاک اور نیک نمونہ سے دوسروں کےلیے ایک سادہ اور سیدھی راہ متعین کر گئے جس پر چلتے ہوئے انسان دین ودنیا میں کامیاب اور کامران ہوتا ہے۔
چند سال قبل جلسہ سالانہ یو کے میں مرکزی مہمانان کرام اور شعرائے کرام جو جلسہ پر آئے تھے، ان کی ہمارے گھر دعوت تھی۔شعرائے کرام کی ایک محفل بھی تھی۔اس میں عبدالکریم قدسی بھی تشریف لائے تھے۔اس طرح ان سے تعارف ہوا جو تعلق میں بدلتے بدلتے پیار بن گیا اور یہ پیار ان کے آخری وقت تک بڑھتا ہی رہا۔
آپ مورخہ ۶؍ جون ۱۹۴۸ء کو موضع کرتو ضلع شیخوپورہ (پاکستان)میں پیدا ہوئے تھے۔آپ نے پنجابی فاضل تک تعلیم حاصل کی۔آپ ایک عظیم اور مقبول روایتی پنجابی شاعرتھے۔آپ کے والد صاحب کا نام میاں اللہ دتہ صاحب تھا۔
آپ نے ۱۹۶۸ء میں اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ آپ کوریڈیو سے مشاعرے سننے کا شوق تھا۔لاہو، کراچی، جالندھر، دہلی سے نشر کردہ مشاعروں سے اچھے شعر نوٹ کرتے اور پسندیدہ شعروں کی تلاش نے آپ کو خود شعر کہنے کا حوصلہ دیا۔
آپ کی ادبی شناخت ایک شاعر، افسانہ نگار، کہانی کار، سفر نامہ نگار، گیت نگارکے طور پر ہوئی۔
اردو میں جماعتی کلام میں درج ذیل کتب شامل ہیں:
٭…منظوم اردو ترجمہ ’’القصیدہ‘‘ ٭…اے میرے پیارے امام (خلفائے احمدیت کی خدمت میں لکھے گئے قصائد اور نظمیں )٭…رزقِ خیال (جماعتی موضوعات پر غزلیں،نظمیں، قطعات )٭…آدابِ ہجر (جماعتی موضوعات پر غزلیں،نظمیں، قطعات )٭…دستِ منور (جماعتی موضوعات پر غزلیں، نظمیں، قطعات )٭…حُسنِ حروف (جماعتی موضوعات پر غزلیں،نظمیں،قطعات) ٭…سروں کے چراغ (جماعتی موضوعات پر غزلیں، نظمیں، قطعات)٭…وادیٔ غربت (جماعتی موضوعات پر غزلیں، نظمیں،قطعات) ٭…ہجرت بداماں زندگی (جماعتی موضوعات پر غزلیں،نظمیں،قطعات)٭…سنگ تعصب (جماعتی موضوعات پر غزلیں،نظمیں،قطعات )
پنجابی جماعتی کلام میں:
٭…چانن منظوم پنجابی ترجمہ’’القصیدہ‘‘ مع ۳۱۳ شعر درثمین٭…صبر دی بیعت (جماعتی موضوعات تے غزلاں،نظماں،چو مصرعے)
غیرجماعتی اردو کتب میں:
٭…اشکِ رواں (اردو غزلیات)٭…سارے بند مکاں(اردو غزلیات )
دیگر پنجابی کلام میں:
٭…پیڑ دے پتھر(آزاد نظمیں )٭…سردل (غزلاں)مسعود کھدر پوش اول انعام یافتہ ۲۰۰۱ء مطبوعہ ٭…برہوں دی رڑک (گیت)٭…مہینا وار پکھیرو ’’پنجابی بال گیت نمبر‘‘ جنوری۲۰۰۶ء٭…گوماں دا گلاب (بال گیت)علی ارشد میر ایوارڈ۲۰۲۰ء٭…اپنے گھریں پروہنے (پنجابی غزلیات)٭…تریوَڑ(پنجابی غزلیات،نظمیں )٭…قلم کبوتر (پنجابی منظوم خطوط)
زیر طبع جماعتی کتب میں:
٭…گوش بر آواز (جماعتی موضوعات پر غزلیں،نظمیں،قطعات)٭…گنجہائے گراں مایہ (مختلف احباب کی وفات پر لکھا گیا کلام)٭…ایہ کوئی گل اے (جماعتی موضوعات تے غزلاں،نظماں،چو مصرعے)
زیر طبع غیر جماعتی کتب میں:
٭…زادِ سفر (اردو غزلیں،نظمیں)٭…نیوندرا (پنجابی غزلیات،نظمیں ) ٭…ہنگال (پنجابی غزلیات، نظمیں)
پاکستان میں تشدد کی وجہ سے بہت تکلیف میں تھے۔ایک دفعہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں حالات پر ایک نظم لکھ دی جس کے چند اشعار تھے:
ہر روز کر رہے ہیں گرفتاریاں حضور
ہیں منتشر خیال تو اعصاب چکنا چور
ملزم ہیں ہم وطن میں تو مجرم وطن سے دُور
دیکھے ہماری آ کے کوئی حالت زبوں
پیارے حضور ! ہیں ابھی حالات جوں کے توں
ان حالات سے تنگ آکر ہجرت کا فیصلہ کیا اور سری لنکا آ گئے۔وہاںا سائلم والوں کی خدمت کےلیے میرا اکثر آنا جانا ہوتا تھا اور ان کی صحبت میسر آتی تھی۔میرے جیسے ادنیٰ ترین خادم سلسلہ کے ساتھ ان کا کریمانہ اور محبانہ سلوک ان کے اعلیٰ اخلاق کا مثالی نمونہ تھا۔
اپنی ہجرت کا اظہار انہوںنے سیدنا حضور انور سے ان اشعار میں کیا:
ہجرت کا داغ دل پہ لیا، کیا بُرا کیا
بےچارگی کا جام پیا، کیا بُرا کیا
اشکوںسے ہے جلایا دیا، کیا بُرا کیا
اس شہر بے چراغ میں، مَیں اَور کیا کروں
پیارے حضور! ہیں ابھی حالات جوں کے توں
بہت تکلیف دہ اور مشکل حالات میں بھی آپ ہمیشہ پُرسکون نظر آتے تھے۔اللہ تعالیٰ پر توکل اور حضور کی دعائیں ان کی زندگی تھی۔اس کا اظہار ایک مرتبہ انہوں نے ان اشعار میں کیا:
ہم بے وطن ہیں، پُشت پہ لیکن خدا تو ہے
دامن مسیح پاک کا پکڑا ہوا تو ہے
ہر شخص آج قدسیؔ سراپا دعا تو ہے
اس خوف کی فضا میں ملے امن اور سکوں
پیارے حضور! ہیں ابھی حالات جوں کے توں
اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی طور پر ان کی دعائیں سنیں اور وہ جلدہی مستقل سکونت کےلیے امریکہ چلے گئے۔وہاں بھی آخری دم تک زندگی ادب کی خدمت میں گزاری۔
آپ کی ادبی خدمات کے صلے میں پاکستان میں آپ کوحکومتی اور ادبی حلقوں کی طرف سے جن اعزازات سے نوازا گیا اور سراہا گیا ان کی تفصیل اس طرح ہے:
٭…پاکستان رائٹرز گلڈ ایوارڈ
٭…مسعود کھدر پوش ایوارڈ
٭…پاکستان ٹیلی ویژن لاہور (بہترین گیت نگار)
٭…حرف نواایوارڈ(بہترین پنجابی غزل )
٭…ساغر صدیقی ایوارڈ
٭…علی ارشد میر ایوارڈ
بہت سادہ، مخلص اور درویش صفت انسان تھے۔ہر ایک کے ساتھ عزت و احترام اور پیار کا سلوک تھا۔میرے ساتھ تو بہت ہی تھا۔قدم قدم پر حوصلہ افزائی کرتے۔ سری لنکا میں ایک دفعہ مَیں ان کے گھر گیا تو انہوں نے یہ اشعار عطا کیے:
خاص لمحوں کی دعا میں یاد رکھیے گا مجھے
سلسلہ کا مَیں بھی اِک ادنیٰ سا ہوں خدمت گزار
آپ آئے ہیں امامِ وقت کی خواہش پہ یاں
عرض کرنا ان کی خدمت میں ہمارا حالِ زار
قدسی صاحب نے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے اپنی زندگی گزاری اور ہر آن اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہے۔اپنے اخلاق اور کردار کے بے حد حسین نقوش دلوں پر نقش کر گئے۔
میرے ساتھ محبت و پیار کا اظہار اشعار میں کرتے۔ ہمارے بیٹے انتصار کی وفات پر اور بعدمیں مختلف اعزازات ملنے پر اور حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہونے پر اور پھر مردِقلندر کے عنوان سے ایک نظم بھی لکھ کر بھجوائی۔
مرحوم ایک بلند پایہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اَور بھی بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے، لواحقین کو صبر جمیل نیز ان کی نیکیاں جاری و ساری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اللہ تعالیٰ ان کو اپنے قرب میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کافیض ہمیشہ جاری و ساری رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی بیگم اور ان کے داماد عزیزم فیضان اور ان کے بیٹوں کا خود کفیل ہواور ان سب کو ان کی خوبیوں کی اعلیٰ مثال بننے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
٭…٭…٭