حضرت مصلح موعودؓ کی یاد میں
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں چند یادیں پیش خدمت ہیں، یہ ان ایام کی ہیں جبکہ خاکسار سکول کا طالبعلم تھا یا پھر کالج اور بعد میں جامعہ کا۔ یہ یادیں ان احباب کی یادوں کی طرح تو نہیں جنہوں نے حضورؓ کے بالکل قریب رہنے،یا آپ کے ساتھ کام کرنے کا شرف پایا۔
خاکسار کو حضورؓ کے خطبات ِ جمعہ، تقاریر جلسہ سالانہ، اجتماعات خدام الاحمدیہ میں خطابات وغیرہ سننے کا موقع ملا، مسجد مبارک میں بعض اوقات نماز عصر کے بعد کی محافل میں قریب بیٹھنے کا موقع پایا۔ مسجد مبارک میں سورت مریم کے آخری حصے کا درس بھی سنا جس میں حضور نے سَیَجۡعَلُ لَہُمُ الرَّحۡمٰنُ وُدًّا کی تفسیر میں لفظ ودّ کی تشریح فرمائی تھی، اسی طرح خطباتِ نکاح بھی بہت دفعہ سننے کی سعادت حاصل ہوئی۔ربوہ کے سب سے پہلے جلسہ سالانہ میں بھی دو دن حاضر ہونے کی توفیق پائی۔
حضورؓ کی شخصیت میں عظیم مقناطیسی کشش تھی۔ جب حضورؓ کسی موضوع پر گفتگو فرماتے تو اس کے مختلف پہلوؤں کو نہایت عمدگی سے اُجاگر فرماتے۔ عاجز کی یادیں تو اُس نوجوان کی ہیں جو حضورؓ کو دیکھ کر آنکھوں کی ٹھنڈک پاتاجسے شاید حضور جانتے بھی نہ ہوں گے کہ وہ کون ہے۔ جب حضورؓ کی وفات ہوئی اس وقت خاکسار کی عمر ۲۹ سال تھی۔
۱۹۴۹ء میں خاکسار گورنمنٹ ہائی سکول سرگودھا میں نویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ ان دنوں حضرت مصلح موعودؓ کا ایک لیکچر سرگودھا کے کمپنی باغ میں ہوا تھا جو استحکام پاکستان سے متعلق تھا، جس کی تشہیر کے لیے بڑے بڑے اشتہار شہر کے مختلف مقامات پر چسپاں کیے گئے۔ مخالفین ان اشتہارات کو پھاڑ دیتے یا اُوپر کوئی اور اشتہار چسپاں کردیتے۔ بہت سے اعلیٰ افسران اور معززین کو دعوت نامے بھی بھجوائے گئے۔ ہمارے سکول کے اساتذہ کو بھی دعوت نامے آئے۔ بعض اساتذہ لیکچر میں تشریف لائے اور بعد میں اچھے تاثرات کا اظہار بھی کیا۔ ہمارے ریاضی کے استاد نے لیکچر کے اگلے روز کلاس میں بتایا کہ انہیں بھی دعوت ملی تھی مگر وہ نہیں گئے۔ جبکہ عربی کے استاد جو باوقار علمی شخصیت تھے تشریف لائے اور بہت متاثر ہوئے۔ لیکچر سے ایک دن قبل ہمارے عربی کے پیریڈ میں ایک طالبعلم نے منفی رنگ میں حضور کے لیکچر کے تعلق میں بات کی تو ہمارے عربی کے استاد نے سختی سے ڈانٹا اور کہا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے إذَا أَتَاکُمْ کَرِیْمَ قَوْمٍ فَأَ کْرِمُوْہُ کہ جب کسی قوم کا معزز آئے تو اس کا اکرام کرو۔ اس سے باقی طلبہ پر بھی اچھا اثر ہوا۔
ہمارے سکول کے صحن میں ایک بہت بڑا بلیک بورڈ تھا جس پر روزانہ کی اہم خبریں لکھی جاتی تھیں۔ اس بورڈ پر بھی حضورؓ کے لیکچر کی خبرلکھی گئی جسے دیکھ کر ہمارے سیکنڈہیڈ ماسٹر صاحب ناراض ہوئے اور کہا کس نے یہ لکھا ہے، مٹاؤ اسے۔ بہر حال مخالفت بھی تھی۔ مگر بعض موافقت کرنے والے بھی تھے۔
کمپنی باغ کے گراسی پلاٹ میں لیکچر کے لیے بہت بڑا شامیانہ (marquee) لگایا گیا۔ کمپنی باغ میں ہاکی گراؤنڈ بھی تھی جس کے ساتھ لیکچر کا پنڈال تھا۔ کثرت سے لوگ آئے، پنڈال کھچا کھچ بھر گیا۔ چار بجے یہ لیکچر شروع ہوا اور قریباً دو گھنٹے تک رہا۔ عین لیکچر کے وقت ہاکی گراؤنڈ میں نوجوان ہاکی کھیلنے کے لیے آگئے۔ مجھے بہت تشویش ہوئی خصوصاً جب ان کی hits پنڈال کی طرف آتیں۔ ایک دوبار تو کھلاڑی آکر گیند لے گئے، مگر پھر جب گیند آئی اور کھلاڑی لینے کے لیے آیا تو وہ وہیں ٹھہر گیا۔پھر آہستہ آہستہ باقی کھلاڑی بھی ہاکیاں پکڑے وہاں آگئے۔ خاکسار کو اس وقت خاص طور پر تشویش ہوئی کہ یہ کسی بُری نیت سے نہ آئے ہوں۔لیکن حضور کی آواز کی کشش نے انہیں لیکچر سننے میں محو کر دیا اور خدا کے فضل سے کوئی نقضِ امن کا خطرہ پیدا نہ ہوا۔ لیکچر ختم ہوا تو عاجز کی جان میں جان آئی کہ الحمد للہ ہر طرح سے خیر یت گزری۔
حضورؓنے نہایت مؤثر انداز میں استحکام پاکستان کے تعلق میں نصائح فرمائیں، اور آخر میں فرمایا کہ پاکستان زندہ باد اور ہندوستان مردہ باد کے کھوکھلے نعروں سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ آپ کے ہندوستان مردہ باد کہنے سے ہندوستان کی ایک چوہیا بھی نہیں مرے گی۔ لیکن اگر تم ان باتوں پر عمل کرو گے جو مَیں نے بیان کی ہیں تو نتیجہ یہی ہوگا کہ پاکستان زندہ باد…
۱۹۵۳ء میں یہ عاجز تعلیم الاسلام کالج لاہور میں F.Sc کا طالبعلم تھا۔ فسادات کے ایام میں بعض اوقات اندر ہی رہنا پڑا۔ اگر چہ اس وقت عاجز کا لج کا طالبعلم تھا مگر حضورؓ کی تحریرات اور خصوصاً تفسیر کبیر زیر مطالعہ رہتی تھی۔ خاکسار کے والد صاحب قادیا ن سے تفسیر سورۂ کہف کچھ عرصہ پہلے لائے تھے۔ وہ بھی خاکسار نے پڑھی ہوئی تھی۔ جب ۱۹۵۳ء کے فسادات میں ہمیں کچھ دن محصور رہنا پڑا تو مجھے خیال آیا کہ ہم پر کہف کا زمانہ آ گیا ہے اور اب ہم شاید ۳۰۰ سال تک اِسی حالت میں رہیں گے۔ ان ایام میں جب حضرت مصلح موعودؓ کا پیغام آیا کہ ’’خدا میری طرف دوڑا چلا ا ٓرہا ہے‘‘ تو دل کو خاص سکینت حاصل ہوئی۔پھر ۳۰۰ سال کا عرصہ محض تین دن میں بدل گیا ا ور مارشل لاء لگنے پر امن قائم ہو گیا۔
۱۹۵۴ء میں، ان فسادات پر حکومت کی طرف سے جسٹس منیر اور جسٹس کیانی کے تحت تحقیقاتی عدالت کا قیام عمل میں آیا۔ جس میں تمام جماعتوں کے نمائندگان شامل تھے۔ اس عدالت کا کام یہ تحقیق کرنا تھا کہ کس کس جماعت کا ان فسادات میں کتنا کردار ہے۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے ملک عبدالرحمٰن خادم صاحب ترجمان تھے۔ ان کے ساتھ حوالوں وغیرہ کے لیے بعض علماء معاون تھے۔مجھے معلوم ہوا کہ حضورؓ نے محترم خادِم صاحب کو ہدایت فرمائی تھی کہ ہر سوال کا جواب مختصر ترین الفاظ میں دیں۔ لوگوں کو اندر جاکر کارروائی سننے کی اجازت تھی۔ خاکسار بھی اندر جاکر کارروائی سنتا رہا،بعض دلچسپ باتیں بھی ہوئیں۔ ملک خادم صاحب مرحوم نے نہایت حکمت کے ساتھ بڑے ہی مؤثر انداز میں حضورؓ کی ہدایت کے مطابق اس فرض کو نبھایا کہ دل خوش ہو گیا۔ مختلف جماعتوں کے سرکردہ علماء کتب لیے حاضر تھے۔ سوال کرنے کا طریق یہ تھا کہ مخالف علماء سوال ایک چِٹ پر لکھ کر جسٹس صاحبان کو پہنچاتے پھر جسٹس منیر وہ سوال مکرم خادم صاحب سے کرتے اور خادم صاحب اس کا جواب دیتے۔ اندر زیادہ لوگوں کی جگہ نہیں تھی۔ زیادہ لوگ کمرۂ عدالت کے باہر جمع رہتے۔
حضرت مصلح موعودؓ کا بیان بھی دو دن ہوا۔ مگر یہ ساری کارروائی in camera تھی۔ پبلک کو اندر جانے کی اجازت نہ تھی۔ ہم لوگ باہر تھے اور حالات کا جائزہ لیتے۔ ایک آدھ بار معمولی طور پر کچھ گڑبڑ ہوئی۔مکرم عبدالشکور صاحب کے بڑے بھائی سے ایک مخالف کی ہلکی سی جھڑپ ہوئی مگر امن قائم رہا۔ حضورؓ کے بیانات اور حضورؓپر بعض علماء کے سوالات کے بارے میں اخبارات سے معلومات حاصل ہوتی رہیں۔ اخباروں نے لکھا کہ مولویوں نے حضورؓ کو trap کرنے کے لیے مختلف سوالات کیے مگر مرزا صاحب ایک آدھ جملے سے صاف نکل جاتے۔
انہی ایام میں ۱۵؍ جنوری کو جمعہ کا دن آگیا۔ اس زمانے میں لاہور میں جماعت احمدیہ کی مرکزی مسجد دلی دروازہ والی مسجد احمدیہ تھی جو کثرت سے بیرونی احباب کی آمد پر جمعہ کے لیے بالکل ناکافی تھی اس لیے وہ جمعہ رتن باغ میں ادا کیا گیا۔
حفاظتی امور کے مدنظر عمارت کے ایک کمرے میں مائیکرو فون فٹ کیا گیا کہ حضور وہاں سے خطبہ جمعہ ارشاد فرمائیں گے اور اس کمرے میں چند عہدیدار حضور کے سامنے ہوں گے۔ باقی کثیر تعداد احباب کے لیے رتن باغ کے گراسی پلاٹ میں انتظام تھا۔ اس پلاٹ کے غربی جانب ایک سٹیج بنا کر اس پر ایک منبر بھی رکھا گیا۔ جس سے عمومی تاثر یہ ملتا تھا کہ حضوراُس منبر پر آکر خطبہ جمعہ ارشاد فرمائیں گے۔ اس لیے بیرون سے آئے ہوئے بہت سے احمدی احباب سب سے آگے صف میں بیٹھ گئے۔
دروازے پر جالی لگی تھی اور خاکسار کی نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ اتنے میں حضورؓ اپنے کمرے سے باہر تشریف لائے۔عاجز کا خیال تھا کہ آپ مائیک والےکمرے میں داخل ہوں گے مگر آپ اس کمرے کی بجائے باہر تشریف لے آئے جہاں کثرت سے احباب صفوں میں بیٹھے تھے۔ حضور نے احباب پر ایک نظر ڈالی۔ خاکسار کا خیال تھا کہ حضور جائزہ لے رہے ہیں کہ کس قدر احباب آئے ہیں۔ پھر حضور چلتے چلتے اس سٹیج پر پہنچ گئے اور منبر کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ اتنا تو خاکسار نے دیکھا۔ بعد میں خاکسار کے بڑے بھائی (جو آجکل ایڈنبرا میں ہوتے ہیں )نے مجھے بتایا کہ حضور اس منبر پر آکر مسکرا ئے اور فرمایا : ’’جو آگے تھے وہ پیچھے ہوگئے ہیں اور جو پیچھے تھے وہ آگے ہو گئے ہیں‘‘ اور خطبہ شروع فرمادیا۔
اس پر منتظمین نے جلد جلد اندر سے مائیک لاکر حضور کے سامنے فٹ کیا مگر کچھ خطبہ گزر چکا تھا۔ اب تو خاکسار کی جان مٹھی میں تھی۔ اگرچہ چاردیواری موجود تھی مگرسٹیج کی وجہ سے بیرونی سڑک پر تانگے یا بسوں سے گزرنے والے لوگوں کو کم ازکم حضور کا عمامہ مبارک ضرور نظر آرہا تھا۔ میں بہت بے چین ہوا۔ یا اللہ خیر کرنا۔ مگر حضور نہایت اطمینان سے خطبہ ارشاد فرماتے رہے۔ جب خطبہ ختم ہوا تو خاکسار کی جان میں جان آئی کہ الحمد للہ کوئی خرابی پیدانہیں ہوئی۔خاکسار کا گہرا تاثر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضورؓ کے دل میں ڈالا ہوگا کہ باہر جاکر خطبہ دیں اور یہ کہ کوئی mishap نہیں ہوگا۔ کیونکہ اندر مائیک والا سارا انتظام بھی تو حضور کی منظوری سے ہی ہوا ہوگا۔ حضورؓکے توکّل علی اللہ اور عظیم شجاعت کا یہ اقدام خاکسار کے ذہن میں آج بھی تازہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے خلفاء کو حیرت انگیز شجاعت دیتا ہے۔
۱۹۵۴ء میں خاکسار تعلیم الاسلام کالج لاہور کے ہاسٹل میں مقیم تھا۔ وہاں طریق کار یہ تھا کہ نمازوں کے لیے وقت سے کچھ پہلے گھنٹی بجتی تھی تاکہ طلبہ تیار ہوجائیں۔ کچھ دیر بعد اذان ہوتی پھر ہال میں نماز ادا کی جاتی۔ ایک دن نماز مغرب اور کھانے کے بعد ابھی عشاء کا وقت نہیں ہوا تھا کہ عام وقت سے بہت پہلے گھنٹی بجنی شروع ہوئی اور بجتی چلی گئی۔ ہم سب پریشان ہو کر کمروں سے باہر نکل کر کھلی جگہ آ گئے۔ سب پریشان تھے،کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ کیا ہوا ہے۔ کچھ دیر بعد ہمارے سپرنٹنڈنٹ محترم چودھری محمد علی صاحب تشریف لائے تو امید پیدا ہوئی کہ اب بات معلوم ہوگی۔ محترم چودھری صاحب پر رقت طاری تھی۔ کچھ بول نہ سکے۔ بڑی مشکل سے اتنا کہا کہ ’’حضرت امیر المو منین…‘‘پھر زبان بند ہو گئی، گلے میں پھندا پڑ گیا۔ پھر آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ رُک رُک کر بھرّائی ہوئی آواز میں بول کر یہ مفہوم ادا کیا کہ حضورؓ پر حملہ ہوا ہے۔ اس پر ہماری چیخیں نکل گئیں۔ سخت پریشانی کا عالم تھا۔ آہستہ آہستہ تفصیلات معلوم ہوئیں۔ مجھے یاد ہے وہ رات کس قدر تکلیف میں گزری تھی۔ میرے بعض کلاس فیلوز مجھے کہنے لگے اب کیا ہوگا؟زبان چلتی نہیں تھی مَیں صرف اتنا کہہ سکا کہ حضورؓ کا ایک الہامی نام فضل عمر بھی ہے۔ حضرت عمرؓ پر بھی ایک غیر مسلم نے حملہ کیا تھا جس سے آپ شہید ہوگئے تھے۔ یہاں بھی ایک غیر از جماعت نے حملہ کیا ہے۔ پھر خاموش۔ جماعتی لٹریچر میں موجود ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کی حضرت عمرؓ سے کئی مشابہتیں ہیں۔ اب کیا ہو گا ؟ میں نے کہا اللہ تعالیٰ سب کچھ کر سکتا ہے، خوب دعائیں کریں۔ مجھے یاد ہے میں نے یہ دعا بھی کی کہ یا اللہ مجھے تُو امتحان میں فیل کر دے مگر حضورؓ کو بچا لے۔ ایک طالبعلم کی بہت بڑی خواہش امتحان میں کامیاب ہونے کی ہوتی ہے۔ یہ دعا اللہ تعالیٰ کی صفا ت کے شاید مطابق نہ تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ تو امتحان میں بھی پاس کر سکتا ہے اور حضور کو بھی بچا سکتا ہے۔بہر حال جذبات کی شدت میں یہ دعابھی مَیں نے کر دی۔ اس رات زندگی کی سب سے بڑی پریشانی سے ہم دو چار تھے۔ مجھے خوب یاد ہے ہمارے ہاسٹل کی کچی سڑک پر میں بے چینی سے ٹہل رہا تھا، دعائیں کررہا تھا۔ میرے دل میں آیا کہ اب تو اس دنیا کے جاری رہنے کا جواز باقی نہیں رہا۔اب قیامت آجانی چاہیے۔پھر خدا نے فضل فرمایا۔ حضور کو صحت بخشی اور اس کے گیارہ سال بعد تک زندگی پائی۔ پھر فضل عمر کا معاملہ بھی حضورؓ ہی کی زبان مبارک سے حل ہوا۔ حضور نے فرمایا کہ میں فضل عمر ہوں یعنی حضرت عمرؓ سے مشابہت تو ہے مگر فضل سے مراد ہے کہ اس حملہ کے بعد اللہ تعالیٰ بچا لے گا، فضل فرمائے گا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے حضور کو صحت بخشی اور خاکسار کو بھی نہ صرف امتحان میں فیل نہ ہونے دیا بلکہ یونیورسٹی کے ایف ایس سی کے امتحان میں کالج کے نان میڈیکل گروپ میں اللہ تعالیٰ نے اول پوزیشن عطا فرمائی، فالحمدللہ علیٰ ذٰلک۔ ان ایام میں میٹرک، F.Sc اور F.A کے فائنل امتحان پنجاب یونیورسٹی لیتی تھی۔ آج کل بورڈ کے تحت یہ امتحان ہوتے ہیں۔ ضمناً یہ بھی عرض ہے کہ پنجاب یونیورسٹی نے اپنے نام اور اپنی تمام مطبوعات میں پنجاب کے ہجے Panjab مقرر کیے ہوئے تھے۔ ہمارے میٹرک اور F.Sc کے سرٹیفکیٹس پنجاب یونیورسٹی نے جاری کیے اور ان پر Panjab University درج ہے۔
خاکسار نےB.Scتعلیم الاسلام کالج ربوہ سے کی ہے۔ تب ہمارا کالج لاہور سے ربوہ آگیا تھا۔ ہر کالج میں طلبہ کی ایک یونین ہوتی ہے۔ ہمارے کالج کی یونین کے صدر نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں بذریعہ خط عرض کی کہ حضور ازراہِ شفقت کالج تشریف لا کر طلبہ سے خطاب فرمائیں۔ مَیں یونین کے عہدیداروں میں سے نہیں تھا۔ مجھے بعد میں اس خط کا علم ہوا اور یہ بھی کہ حضور نے جواب دیا ہے کہ میں ایسے کالج میں پاؤں نہیں رکھنا چاہتا جس کے طلبہ گریجوایٹ ہوکر زندگی وقف نہیں کرتے بلکہ نوکریاں ڈھونڈتے ہیں۔ (ان دنوں گریجوایٹ کو نوکری مل جاتی تھی۔ آج کل تو M.A بھی Jobless پھر رہے ہیں ) اس جواب سے خط لکھنے والے کانپ اٹھے۔ اُن میں سے چھ نے زندگیاں وقف کردیں۔ پھر انہوں نے دیگر طلبہ کے پاس جاکر کہنا شروع کیا کہ وقف کرو،وقف کرو۔ میرے پاس بھی آئے اور بغیر اس تازہ پس منظر بیان کرنے کے تحکم سے زندگی وقف کرنے کا کہا۔اور کہا کہ وقف کرو ورنہ آپ منافق ہو۔ اس پر میں نے جوش سے کہہ دیا کہ جاؤ نہیں کرتا وقف۔ لیکن پھر حضورؓ کے بعض خطبات میں جب وقف کرنے کی پُر زور تحریک کا سنا تو خیال آیا کہ وہ لوگ ٹھیک ہی مجھے منافق قرار دے رہے تھے۔ جب خطبہ سن کر مسجد مبارک سے باہر آتا تو ذہن میں حضور کا خطبہ گونج رہا ہوتا۔ مجھے یاد ہے کہ صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید انجمن احمدیہ کے دفاتر کے درمیان والی سڑک پر قریباً درمیان تک پہنچ جاتا تو آہستہ آہستہ یہ خیال مدھم ہو جاتا اور پھر کالج کی فضا میں جا کر محو ہو جاتا۔ لیکن کئی بار حضور سے وقف کا سننے کے بعد ذہن کو کچوکے لگتے۔ اس پر میں نے اپنے ایک نہایت گہرے دوست سے کہا کہ حضور وقف کا فرماتے ہیں اور ہم نہیں کر رہے اور ہم نے حضور کی بیعت کی ہوئی ہے۔ کیوں نہ ہم دونوں اکٹھے وقف کریں۔ فزکس کی لیبارٹری میں پریکٹیکل کرتے ہوئے یہ بات ہوئی۔ انہوں نے بھی ساتھ دیا کہ ٹھیک ہے۔ میں نے کہا کہ پھر آج ہی ہم دونوں اپنے اپنے والدصاحب کو خط کے ذریعے اطلاع دے کر اجازت لیں۔ وہ کہنے لگے میں گرمیوں کی چھٹیوں میں گھر جا کر اپنے والد صاحب سے بات کروں گا۔ مگر میں نے اسی دن والد صاحب کو خط لکھ دیا۔ کہ میں نے وقف کر دینے کا فیصلہ کیا ہےبشرطیکہ آپ خوشی سے اجازت دیں۔ ورنہ دوسری صورت میں ساری عمر مَیں خوش نہیں رہوں گا۔ اس پر والد صاحب کا فوری طور پر جواب آیا کہ میں بہت خوش ہوا ہوں کہ تم نے خود ہی وقف کرنے کا کہہ دیا ہے۔ اور ساتھ ہی انہوں نے حضورؓ کی خدمت میں خط لکھ دیا کہ میرا بیٹا حضور کی خدمت میں وقف کے لیے حاضر ہو گا، حضور اسے قبول فرمائیں۔
میرے بڑے بھائی جو اُن دنوں افسر تعمیرات تھے اور آجکل یورپ میں مقیم ہیں،وکالتِ دیوان سے وقف زندگی کا فارم لے آئے۔ میں نے پُر کیا۔ اس میں جب اس شرط پر آیا کہ جماعت جو بھی حکم دے گی اس پر عمل کروں گا، تو خاکسار نے ایک لمحہ کے لیے سوچا کہ زیادہ سے زیادہ کیا حکم دیا جا سکتا ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر جماعت ربوہ کی گلیوں میں روزانہ جھاڑو دینے کا حکم دے، تو ؟ عاجز نے اک لمحہ سوچ کر کہا: yes، اس پر عمل کروں گا، تب میں نے فارم پر دستخط کر دیے۔ پھر میرے بھائی جان محترم نے حضورؓ سے ملاقات کی اجازت حاصل کی اور ہم دونوں فارم لے کر قصرِ خلافت میں حضور کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ حضورؓ بہت خوش ہوئے اور فارم پر کچھ لکھا۔ جب ہم واپس جانے لگے تو وہ فارم ہمارے ہاتھ میں تھا۔ حضورؓ جلدی سے بولے کہ یہ فارم کہاں لے جارہے ہو۔ اور ہم سے لے لیا۔ میں نے یہ فارم ۲۰؍ فروری ۱۹۵۶ء کو پُر کیا۔ یعنی یوم مصلح موعودؓ کے مبارک موقع پر کہ یہ وقف کی تحریک حضور کی طرف سے تھی، اور میرے لیے بھی حضور ہی کے خطبات تحریک بنے تھے۔
حضرت مصلح موعودؓ کے توکل علی اللہ اور شَجاعت پر ایک اَور واقعہ پیش خدمت ہے جس کا ذکر ہمارے لٹریچر میں غالباً نہیں۔ بعض ایسے امور ہوتے ہیں جن کا ذکر لٹریچر میں آنے سے رہ بھی جاتا ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ قصر خلافت کے اِحاطے میں واقع مسجد مبارک میں نماز پڑھانے کے لیے قصر خلافت سے باہر تشریف لاتے تومسجد مبارک کی غربی دیوار کی کھڑکیاں سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے بند کردی جاتیں۔ پھر حضورؓ محراب کے دائیں طرف جو دروازہ ہے، سے داخل ہو کر محراب میں پہنچ جاتے تو کھڑکیاں کھول دی جاتیں۔ شروع شروع میں محراب میں دروازہ نہیں تھا۔ بعد میں بنا یا گیا۔ خاکسار جمعہ کے روز اس دروازہ کے پاس بیٹھتاتھا جس میں سے گزر کر حضور مسجد میں تشریف لاتے۔ ایک بارامریکہ سے ایک احمد ی دوست ربوہ آئے تو وہ بھی وہاں بیٹھے اور اپنا رومال دروازے کے آگے بچھا دیا کہ حضورؓ اس پر قدم مبارک رکھ کر اندر داخل ہوں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور ان صاحب نے (غالباً )وہی رومال سرپر باندھ کر نماز جمعہ ادا کی۔ بہرحال میں کہہ رہا تھا کہ اس طرح کھڑکیاں بند کرنے کا طریق جاری تھا۔ مگر جو بات میں بیان کرنے لگا ہوں وہ ان دنوں کی ہے جب محراب میں دروازہ بن چکا تھا۔ حضور نماز کے لیے تشریف لائے۔ غالباً عصر کی نماز تھی۔ جب نماز کے بعد واپس تشریف لے جانے کے لیے کھڑے ہوئے تو کھڑکیاں بند کی گئیں۔ کھڑکیاں بند کرنے پر جو کھٹ کھٹ کی آواز آئی تو حضورؓ نے پوچھا یہ کیسی آواز ہے؟ عرض کیا گیا حضور کھڑکیاں بند کی ہیں۔ فرمایا کیوں کی ہیں؟ عرض کیا گیا حفاظت کے لیے۔ فرمایا کھول دو، حفاظت کے لیے اتنی دور جانے کی کیا ضرورت ہے۔ کھڑکیاں کھو ل کر مجھے رپورٹ کرو پھر میں یہاں سے جاؤں گا۔ چنانچہ کھڑکیاں کھول دی گئیں اور حضور کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ حضورؓ کھڑکیاں کھول دی ہیں۔ اس پر حضورؓ تشریف لے گئے۔ اس کے بعد حضور کے ارشاد کے مطابق کھڑکیاں تو کھلی رکھی جاتیں مگر ہر کھڑکی کے آگے ایک خادم پہرے کے لیے کھڑا ہوتا۔ یہ بھی حضورؓ کی شجاعت کا ایک شاندار واقعہ ہے۔
حضور کی آواز نہایت پُر رعب اور حیرت انگیز طور پر پُرکشش تھی۔ میں تو اکثر سوچا کرتا کہ ایسی پُر شوکت معارف سے لبریز آواز سن کر بھی کوئی جماعت سے باہر رہ سکتا ہے؟ ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر حضورؓ تقریر فرمارہے تھے۔ پنڈال سے باہر کچھ لوگ کھڑے ہو کر سن رہے تھے۔ حضورؓ نے تقریر روک کر فرمایا کہ پنڈال کے اندر جگہ ہے باہر والے لوگ اندر آجائیں۔ مگر وہ لوگ اندر نہیں آئے۔ پھر کچھ دیر بعد حضورؓنے تقریر کے دوران فرمایا مجھے بتایا گیا ہے کہ باہر جو احباب ہیں وہ احمدی نہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہم نے مرزا صاحب کی تقریر تو سننی ہے مگر پنڈال کے اندر نہیں آنا۔ اندر جادو ہے ڈر ہے ہم بیعت کرلیں گے۔ حضورؓ نے فرمایا کہ اگر کوئی جادو ہے تو وہ میری آواز میں ہے۔ اور وہ تو باہر بھی پہنچ رہی ہے۔
ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر خاکسار کے بڑے بھائی ایک مسلمان دہریہ کو تحریک کرکے لاہور سے ربوہ لائے۔ میں بھی ساتھ تھا ہم تینوں ماڑی انڈس (ٹرین ) پر آدھی رات کو ربوہ پہنچے اور بھائی جان کے کوارٹر میں ہی قیام کیا۔ یہ صاحب مسلمان تھے جو دہریہ ہو چکے تھے، خدا کی ہستی پر ایمان اٹھ چکا تھا۔ یہ صاحب خاکسار کے اردو کے ٹیچر بھی رہے تھے جبکہ عاجز پانچویں جماعت میں ہیڈ رسول کے مڈل سکول میں طالبعلم تھا۔ اُس جلسہ سالانہ میں حضور نے ’’نوبت خانوں‘‘ والی تقریر (سیر روحانی ) فرمائی تھی۔ انہوں نے بڑے انہماک سے سنی اور جب تقریر ختم ہوئی تو کہنے لگے : ’’مرزا صاحب کی تقریر سے یہ تو پتا لگتا ہے کہ خدا ہے ضرور‘‘۔
حضور کی جلسہ سالانہ کی دوسرے اور تیسرے دن کی تقاریر ظہر وعصر کی نمازیں جمع کرکے شروع ہوتیں اور قریباً عشاء کا وقت ہو جاتا۔ اکتاہٹ قریب بھی نہ پھٹکتی۔ ایک ہی freshness سے آخر تک ہم سنتے۔ غالباً سب کی حالت یہی ہو گی جو عاجز کی ہوتی تھی کہ جب تقریر نصف سے زیادہ ہو چکتی تو خاکسار کو یہ گھبراہٹ ہونے لگتی کہ ہائے اب یہ تقریر ختم ہو جائے گی۔ دل چاہتا کہ وقت ختم ہی نہ ہو۔ کئی گھنٹے سننے کے بعد بھی تشنگی باقی رہتی۔
خاکسار نے ۲۰؍ فروری ۱۹۵۶ء (یوم مصلح موعودؓ ) کو زندگی وقف کی تھی جب کہ عاجز B.Scکا طالبعلم تھا۔ پھر B.Sc پاس کرنے کے بعد ۱۹۵۶ء میں جامعۃ المبشرین کے سال اول کا طالبعلم بنا۔اُس وقت جامعۃ المبشرین کے پرنسپل ہمارے نہایت محترم مولانا ابوالعطا ء صاحب تھے۔ خاکسار کو معلوم ہوا کہ نمازِ عصر میں حضورؓنے محترم مولانا سے فرمایا کہ اب کبھی جامعہ نے دریا پہ ٹرپ نہیں کیا۔ اِس پر محترم مولانا نے فوری طورپر جامعہ کے طلبہ کے ٹرپ کا دریا ئے چناب کے کنارے انتظام کیا اور حضورؓ کو تشریف لانے کے لیےعرض کیا۔ خدام الاحمدیہ سے موٹر بوٹ بھی حضور کے لیے لی گئی۔ حضور نے کشتی میں تھوڑی دیر سیر کی۔ پھر حضور کے سامنے جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ بیٹھ گئے۔ اور کچھ ہلکی پھلکی باتیں ہوئیں۔ حضورؓ کی اجازت سے بعض نے لطائف بھی سنائے۔ ایک طالبعلم نے یہ لطیفہ سنایا کہ چینی خاندان میں نومولود کے نام رکھنے کی تقریب اس طرح منائی جاتی ہے کہ خاندان کے تمام لوگ جمع ہوجاتے ہیں۔ بچے کا نام رکھنے کا مرحلہ آتا ہے تو لوہے کی ایک سلاخ کو آگ میں خوب گرم (red hot) کیا جاتا ہے اور پھر اسے ساتھ رکھے ہوئے پانی کے برتن میں ڈالتے ہیں تو جو بھی شُوں شاں کی آواز نکلتی ہے وہ بچے کا نام رکھ دیا جاتا ہے۔ اس پر سب مسکرائے۔ طلبہ میں محترم عثمان چینی صاحب بھی تھے۔ انہوں نے حضور کی اجازت سے ایک کرتب دکھایا۔ ان کے پاس ایک پُھندنا تھا جسے انہوں نے فضا میں اچھالا پھر کبھی دایاں کندھا مارا کبھی بایاں، کبھی سر، کبھی ٹخنہ۔ غرض کئی منٹ تک اس پُھندنے کو زمین پر گرنے نہ دیا۔ یہ دیکھ کر حضور نے اُس لطیفہ سنانے والے سے کہا کہ اب یہ بھی کرکے دکھاؤ نا ! محترم عثمان چینی صاحب کے پاس ایک harmonica (بچوں کا باجا جسے منہ کے ساتھ لگا کر اس میں پھونک مارتے ہوئے دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں لے جاتے ہیں تو سریلی آوازیں نکلتی ہیں) تھا۔ انہوں نے حضور سے اجازت چاہی کہ وہ اس کی مہارت دکھانا چاہتے ہیں۔ حضور نے اجازت دیتے ہوئے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے بھی دف سُنی تھی۔ اس پر عثمان چینی صاحب نے بڑی مہارت سے بچوں کے اس کھلونے کو منہ سے لگا کر طرح طرح کی سریں نکالیں۔
سائے ڈھل چکے تھے۔ نماز مغرب کا وقت قریب تھا۔ اس پر مجلس برخاست ہوئی، اور حضور تشریف لے گئے۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مصلح مو عودؓ پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے۔ ہمیں توفیق دے کہ ہم وہ بن جائیں جو حضورؓ ہم سے چاہتے تھے۔ آمین