اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز (جلسہ سالانہ کینیڈا ۲۰۱۶ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ دہم)
ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب
خدمت کا ایک موقع
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو پیس ولیج کے قیام کے دوران پولیس کا ایک بھرپور حفاظتی دستہ فراہم کیا گیا۔ ۳۰؍اکتوبر۲۰۱۶ء کی صبح شیخ داؤد خورشید صاحب (عمر چھتیس سال )جو ٹورانٹو میں ایک احمدی پولیس آفیسر ہیں، نے مجھے بتایا کہ یہ کیسے ممکن ہوا۔ داؤد صاحب ٹورانٹو پولیس سروس سکواڈ کا حصہ تھے اور ان کے فرائض میں پولیس آفیسرز کو پولیس کی حفاظتی تربیت دینے کا کام بھی تھا۔ ماضی میں انہوں نے حفاظتی دستہ میں شامل ہو کر خود کئی خاص اور سرکردہ شخصیات کو تحفظ فراہم کیا تھا جن میں سعودی عرب کے بادشاہ بھی شامل ہیں جب انہوں نے کینیڈا میں منعقد ہونے والی G20کانفرنس میں شرکت کی تھی۔
اس تجربہ کے بارے میں داؤد صاحب نے بتایا کہ کئی سال پہلے جب میں سعودی بادشاہ کو پولیس کا تحفظ فراہم کر رہا تھا تو مجھے شدید خواہش پیدا ہوئی کہ حضور انور کی بھی ایسی خدمت کر سکوں۔ ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے میرے لیے حضور انور دنیا کے روحانی بادشاہ ہیں۔ میں اس امید پر پولیس کے اس حفاظتی دستہ میں شامل رہا کہ ایک دن میں یہ خدمات آپ کے لیے بھی پیش کر سکوں۔
موصوف نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ انہیں لگتا ہے کہ جس طرح اس قافلہ کو حالیہ دورہ کے دوران پولیس کا حفاظتی دستہ فراہم کیا گیا، وہ محض دعاؤں کا ہی نتیجہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حضور انور کی تشریف آوری سے چند روز قبل تک ابھی انتظامات طے نہیں ہوئے تھے اور میں اپنےسینئر افسر کو ملا اور درخواست کی کہ کیاحضور انور کو آمد اور روانگی پر پولیس کا حفاظتی دستہ فراہم کیا جا سکتا ہے۔
چند دن پہلے میری سابقہ خدمات کے اعتراف میں میرے افسر نے مجھے نہایت اعلیٰ اور جدید ٹریننگ کورس کے لیے کیلیفورنیا بھجوانے کی آفر کی تھی۔ تاہم اس صبح میں نے انہیں بتایا کہ حضور انور کے لیے اپنی خدمات فراہم کرنا میرے لیے اس کورس سے کہیں زیادہ اہم ہے۔
یہ سننے پر میرے افسر نے کہا کہ پولیس سکواڈ، تمہاری ٹیم ہے اس لیے آزادانہ طور پر انہیں استعمال کر سکتے ہو۔ محض استقبال اور اختتام پر نہیں بلکہ سارے دورے کے دوران یا جملہ تقریبات پر بھی انہیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
جب میں نے یہ سنا تو میں حیرت زدہ رہ گیا کیونکہ ان افسر کے مزاج کا عمومی تاثر بہت سخت ہونے کاتھا۔ یوں میں پورے یقین سے کہ سکتا ہوں کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے کام ہیں۔ بصورت دیگر ایسے آدمی کا ایسا رویہ روا رکھنا ناقابلِ یقین ہے۔جس طرح یہ سب واقعہ رونما ہوا اس نے میرے ایمان کو بڑھایا اور مجھے دکھایا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کسی کے دل کو بدل سکتا ہے۔
خلافت کی محبت کی ایک مثال
حضور انور کے دورہ کی وجہ سے جامعہ احمدیہ کینیڈا ایک ماہ پہلے سے بند تھا اور حضور انور کے پیس ولیج کے ایک ماہ کے قیام کے دوران طلبہ جامعہ احمدیہ مختلف فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ بعض سیکیورٹی ڈیوٹی دے رہے تھے،کچھ طلبہ دفاتر میں تھےجبکہ کچھ لنگر خانہ میں اور دیگر شعبہ جات میں خدمات بجا لا رہے تھے۔
جہاں تک پریس اینڈ میڈیا کا تعلق ہے، نیویارک سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم فراست احمد کینیڈا کی نیشنل ٹیم اور خاکسار کی بھی گذشتہ ایک ماہ سے معاونت کر رہے تھے۔ اس شام وہ میرے پاس آئے اور پوچھا کہ آیا میں ان کے لیے مغربی کینیڈا کے دورہ کے دوران ہمراہ رہنے کے حوالے سے اجازت کے لیے لکھ سکتا ہوں تاکہ وہ میڈیا کے کام میں معاونت جاری رکھ سکیں۔ جواب میں خاکسار نے ان کو بتایا کہ میں اس بارے میں سوچوں گا اور چند گھنٹوں میں انہیں جواب دوں گا۔ میرا پہلا خیال تو یہی تھا کہ اس کے لیےخط لکھوں کیونکہ اس طالب علم نے بہت محنت سے کام کیا تھا اور میری اور مقامی میڈیا ٹیم کی بھی خوب معاونت کی تھی۔تاہم دوسری طرف مجھے معلوم نہ تھا کہ آیا حضور انوراس کو سفر کی اجازت مرحمت فرمائیں گے یا نہیں کیونکہ اس کی وجہ سے اس کا جامعہ احمدیہ کی دو ہفتوں کی پڑھائی کا حرج ہونا تھا۔بہرحال کچھ منٹوں کے بعد فراست میرے دفتر میں واپس آیا اور اس کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا۔میرے پوچھنے پر کہ کیا ہوا ہے عزیزم نے بتایا کہ دس منٹ قبل میں نے آپ سے اپنے لیے لکھنے کا کہا تھا لیکن اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ نجیب (جامعہ احمدیہ کے ایک اَورطالب علم)نے حضور انور کی خدمت میں اجازت کے لیے لکھا تھا کہ وہ مغربی کینیڈا کے دورہ کے لیے شامل ہوکردفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں اپنے فرائض بجا لا تا رہے اور اس کو ابھی جواب موصول ہوا ہےجس میں حضور انور نے اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا ہے کہ تمہیں اجازت ہے اور فراست بھی پریس اور میڈیا کے کام کے لیے جا سکتا ہے۔
یہ ایک مثال ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ خلوص دل سے کی گئی دعاؤں کو سنتا ہے اور کس طرح حضور انور احمدیوں کی دلی خواہشات اور امیدوں کو بخوبی جانتے ہیں اگرچہ وہ ان کا اظہار کریں یا نہ کریں۔
ایک جذباتی ملاقات
اس دن کے پچھلے حصہ میں، میری ملاقات ایک بزرگ اور عمر رسیدہ میاں بیوی محمد عارف نسیم صاحب اور ان کی اہلیہ عطیہ عارف صاحبہ سے ہوئی۔ ان کے ۳۹؍سالہ بیٹے ناصر محمود خان صاحب کی ۲۸؍مئی ۲۰۱۰ءکے واقعہ لاہور میں شہادت ہو گئی تھی۔
ان سے گفتگو نہایت جذباتی رنگ رکھتی تھی۔انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے بیٹے کی شہادت کیسے ہوئی اور اس حوالے سے اپنے غم کا تذکرہ کیا۔ اپنے بیٹے کے بارے میں عطیہ صاحبہ نے بتایا کہ اس حملے کے وقت میرے بیٹے نے اپنا رومال نکالا تاکہ وہ ایک زخمی احمدی جس کو پانی کی تلاش تھی، کے زخموں پر باندھ سکے۔تاہم اس وقت دہشت گرد ہر طرف ہینڈ گرنیڈز پھینک رہے تھے۔اسی اثنا میں ایک گرنیڈ سیدھا میرے بیٹے کو آ کر لگا اور وہ دونوں، میرا بیٹا اور اس کے قریب احمدی موقع پر ہی شہید ہو گئے۔
عطیہ صاحبہ نے مزید بتایا کہ ہمیں اپنے بیٹے پر بہت فخر ہے جس طرح وہ ہمارے خاندان کا پہلا موصی تھا اسی طرح وہ ہمارے خاندان کا پہلا شہید بھی بنا۔ میرا ایمان ہے کہ اللہ نے اس کو اس سعادت کے لیے چُنا تھا کیونکہ وہ ایک متقی انسان تھا۔ میری سب سے بڑی امید اور دعا یہ ہے کہ اس کے بچے سیدھے راستے پر رہیں اور جماعت کے خدمت گار بنیں۔ مجھے امید ہے کہ جو شہداء کے بچے یہاں کینیڈا آئے ہیں، انہیں کینیڈا کی جماعت مکمل راہنمائی دے گی کہ وہ اپنے ایمان کے ساتھ اس معاشرے کا مفید حصہ کیسے بن سکتے ہیں۔
بعد ازاں ان کے شوہر محمد عارف نسیم صاحب نے بتایا کہ میرے خاندان میں، مَیں اکیلا احمدی ہوں۔ اس لیے میرے بیٹے کی شہادت کے بعد جب حضور انور نے میرے ساتھ فون پر گفتگو فرمائی تو یہ میرے لیے خاص معنی رکھتی تھی۔ میں جذبات سے مغلوب تھا کہ کس طرح میرے روحانی باپ نے اس قدر محبت اور رحم کے ساتھ مجھے راحت پہنچائی ہے۔ یہ محض خلافت کی محبت ہے جس کی بدولت ہم اپنے بیٹے کو کھونے کے غم پر صبر کر سکے ہیں اور یہاں کینیڈا شفٹ ہوئے ہیں جہاں ہمیں تحفظ حاصل ہے۔(ڈائری دورہ کینیڈا اکتوبر -نومبر۲۰۱۶ء)
(مترجم:’ابو سلطان‘معاونت :مظفرہ ثروت)