امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ ہالینڈ 2019ء
اس رپورٹ کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
جلسہ سالانہ ہالینڈ کے دوسرے روز غیر از جماعت مہمانوں کے پروگرام میں شاملین کے تأثرات اور میڈیا کوریج
جلسہ سالانہ ہالینڈ کے تیسرے روز کی روئیداد
انفرادی و فیملی ملاقاتیں۔ملاقات کرنے والوں کے تأثرات
…………………………………
28؍ستمبر2019ء بروزہفتہ (حصہ دوم۔ آخری)
…………………………………
غیر از جماعت مہمانوں کے ساتھ یہ پروگرام سات بجے تک جاری رہا۔ بعدازاں جب حضورِانور مارکی سے باہر تشریف لائے تو آئیوری کوسٹ سے آنے والے ایک احمدی نوجوان نے حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ سے شرف مصافحہ حاصل کیا۔
موصوف Idrissa Kone آئیوری کوسٹ سے Pilot کی پڑھائی اور ٹریننگ کے لیے ایک سال کے لیے بیلجیم آئے ہوئے ہیں۔ حضورِانور نے موصوف سے دریافت فرمایا کہ کس ایئرلائن کے لیے کام کرتے ہیں ۔ جس پر موصوف نے عرض کیا Air Cote D’Ivore کے لیے کام کرتے ہیں۔ حضورِانور کے استفسار پر موصوف نے بتایا کہ وہ افریقہ کے ممالک میں جہاز چلاتے ہیں۔
حضورِانور نے دریافت فرمایا کہ کیا آپ پیدائشی احمدی ہیں۔ جس پر موصوف نے عرض کیا کہ انہوں نے چند سال قبل بیعت کی تھی۔ موصوف نے حضورِانور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کو کامیاب کرے۔
بعدازاں موصوف نے بتایا کہ انہیں جو پائیلٹ بننے کے لیے منتخب کیا گیا ہے وہ حضورِانور کی دعاؤں کے طفیل ہی ہے۔ واقعہ اس طرح ہوا کہ وہ چند سال قبل جب جلسہ سالانہ آئیوری کوسٹ میں شامل ہوئے تو وہاں ان کے دوست نے ان سے کہا کہ میں نے ایک اشتہار دیکھا ہے کہ Air Ivory Coast لوگوں کو اپنی سروس میں لینے کے لیے مقابلہ کروارہی ہے۔ لیکن فائل جمع کروانے کی تاریخ گزر گئی ہے۔ موصوف بتاتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ تاریخ گزرگئی تھی۔ میں نے حضورِانور کی خدمت میں دعا کے لیے لکھا اور ساتھ ہی اپنی فائل جمع کروادی۔ کچھ دنوں بعد ان کو جواب ملا کہ اگرچہ آپ نے فائل تاخیر سے جمع کروائی ہے۔ لیکن ہم آپ کو اجازت دیتے ہیں کہ آپ اس مقابلہ میں حصہ لیں۔
اس کے بعد انہوں نے اس مقابلہ کے لیے تحریری امتحان دیا اور ایک ہزار اُمیدواروں میں سے صرف پندرہ اُمیدوار منتخب ہوئے۔ جن میں ان کا نام بھی شامل تھا۔ موصوف نے کہا یہ سب کچھ حضورِانور کی دعاؤں کے طفیل ہوا۔
موصوف کہنے لگے کہ میں نے حضورِانور کو MTA پر دیکھا تھا۔ آج زندگی میں پہلی مرتبہ اپنی آنکھوں سےا پنے انتہائی قریب دیکھا ہے اور حضورِانور سے باتیں کی ہیں۔ حضورِانور نے کافی دیر تک میرا ہاتھ پکڑے رکھا۔ آج میں انتہائی خوش نصیب انسان ہوں، میں اپنی زندگی میں ان لمحات کو کبھی بھلا نہیں سکتا۔
بعدازاں حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاپنے دفتر تشریف لے آئے اور دفتری ڈاک، خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور ہدایات سے نوازا۔
آٹھ بجے حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لے جا کر نمازمغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے آئے۔
حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے آج کے خطاب نے غیرمسلم اور غیرازجماعت مہمانوں پر گہرا اثر چھوڑا اور بعض مہمان اپنے جذبات اور تاثرات کااظہار کیے بغیر نہ رہ سکے۔
ایک مہمان Gert Van Den Berg جو کہ نن سپیٹ کے کونسلر ہیں، نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
بہت عرصہ پہلے میں یہاں آنے کو پسند بھی نہیں کرتا تھا۔ مگر اب ہمارے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ میں نے خلیفہ کا نن سپیٹ آنے پر استقبال بھی کیا۔ میں خلیفہ کا خطاب سننے کے لیے پھر دوبارہ آنا چاہتا تھا۔ میں خلیفہ کے خطاب سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ آپ سب میں ایک گہرا باہمی رشتہ محسوس ہوتا ہے۔ آپ لوگ معاشرہ کے لیے ایک فعال حصہ ہیں۔ اس لیے یہاں آنے کو دل کرتا ہے۔
شہر Rotter Dam سے آنے والے ایک مہمان Erik JAN KliJNصاحب نے کہا آپ کا جلسہ بڑا پُر امن تھا۔ مجھے خلیفہ کی سب سے اچھی بات یہ لگی کہ انہوں نے انسانی حقوق پر بات کی اور لوگوں کو امن اور سلامتی کی طرف بلایا۔
ROTTERDAMسے آنے والے ایک دوسرے مہمان Herman Mee Ter صاحب نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
جلسہ پر آنے سے قبل میں گھبرایا ہوتا تھا کہ اس جلسہ پر مسلمان اکٹھے ہورہے ہیں پتہ نہیں کہ کیا ہوگا مگر یہاں آکر بڑی حیرت ہوئی کہ امن کی باتیں ہورہی ہیں۔ مجھے خلیفہ کی سب سے اچھی بات یہ لگی کہ انہوں نے بڑی جرأت سے بات کی ہے۔ پوپ عمومی رنگ میں امن کی بات کرتا ہے مگر آپ کے خلیفہ نے برملا طاقت ور قوموں کو مخاطب کرکے بات کی ہے۔
ایک خاتون Christna نے بیان کیا کہ میں جماعت کو ایک عرصہ سے جانتی ہوں۔ اس جماعت کا مہمان نوازی کا ایک خاص خلق ہے۔ جماعت کارہ نما اچھا ہے اس لیے جماعت بھی اچھی ہے۔ مجھے حضور کا خطاب بہت اچھا لگا۔ خلیفہ وقت نے ہر بات بہت واضح اور کھل کر کی۔ خلیفہ نے جو باتیں بھی کیں۔ وہ وقت کی ضرورت کے عین مطابق تھیں۔
ایمسٹرڈم (Amsterdam) سے آنے والے مہمان Siros Raja Jugdeنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: حضور کا پیغام بہت پُرامن ہے اور دلوں پر اثر کرنے والا ہے۔ جلسہ بہت منظم تھا۔ میں تمام انتظامات سے بہت حیران ہوا ہوں۔
ایک نومبائع دوست توفیق جاماوی صاحب جن کا تعلق مراکش سے ہے اور وہ بیلجیم میں مقیم ہیں اور وہاں سے اس پروگرام میں شمولیت کے لیے آئے تھے۔ بیان کرتے ہیں کہ ہم اس لیے یہاں آئے کہ حضورِانور کو دیکھ سکیں اور حضور کی اقتداء میں نمازیں پڑھ سکیں۔ حضورِانور کے خطاب کا ایک ایک لفظ ہمارے دل تک پہنچا ہے۔ حضورِانور نے رسول کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ کو پیش کرکے دنیا کو اسلام کی اصل تصویر دکھائی ہے۔ حضورِانور کے خطاب نے ہم میں ایک نئی جان ڈال دی ہے۔
بیلجیم سے دو نومبائعین، ایک شیخ حسن صاحب جن کا تعلق مراکش سے ہے اور دوسرے بشیربن کحلہ صاحب۔ ان کا تعلق الجزائر سے ہے، یہ دونوں جلسہ میں شامل ہوئے۔یہ دونوں بعض فتنہ پردازوں کی وجہ سے آہستہ آہستہ جماعت سے دور ہورہے تھے۔ انہوں نے جماعت کا واٹس ایپ گروپ بھی چھوڑ دیا تھا۔ حضورِانور کے خطابات سننے کے بعد ان دونوں نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ جماعت سے اور خلافت سے دور ہو کر ہم سے بہت بڑی غلطی ہونے لگی تھی۔ ہم اس خیال کو ترک کرتے ہیں۔ اب انہوں نے کہا ہے کہ ہم دونوں کو دوبارہ جماعت کے واٹس ایپ گروپ میں ڈال دیا جائے۔
ایک ڈچ میاں بیوی Fatih اور Gisele آج کے اس پروگرام میں شامل ہوئے۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ جلسہ میں سب لوگ بہت ہی خوش اخلاق تھے۔ آج ایک جنت نظیر ماحول تھا۔ خلیفہ کا خطاب بہت پراثر تھا۔ آپ کے مترجمین نے بھی ہمیں بہت متاثر کیا ہے، وہ بہت اچھا ساتھ ساتھ رواں ترجمہ کرلیتے ہیں۔
٭ نن سپیٹ شہر کے میئر Van der Weert نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا۔
نن سپیٹ کے لوگوں کی طرف سے یہاں چند الفاظ کہنے کی دعوت ملی۔ گذشتہ سال بھی میں ایک پروگرام میں آیا تھا۔ اس دفعہ تو حضور تشریف لائے ہوئے ہیں، اس لحاظ سے یہ پروگرام بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ گذشتہ سال کی طرح اب بھی مجھے آپ کے پروگرام میں شامل ہو کر بہت اچھا لگ رہا ہے۔
حضورِ انور نے بہت اعلیٰ انگریزی زبان میں خطاب کیا، جو کہ میرے جیسوں کے لیے کچھ سمجھنا مشکل تھا۔ تاہم جو کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے یہاں مشاہدہ کیا ہے، وہ بیان سے باہر ہے۔ ایک بڑے ہال میں لوگ بڑی توجہ سے حضور کی باتیں سن رہے تھے۔
یہ میں نے اپنی تقریر میں بھی کہا تھا۔ آج کل کے حالات میں ہمیں زندگی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی عیسائی ہےیا مسلمان ، ضروری یہ ہے کہ ہم اپنی تخلیق کی وجہ تلاش کریں اور اسے سمجھیں۔اور ایسے پروگرام میں شرکت کرکے آپ کو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ بہت ہی قیمتی پیغام تھا۔
احمدیہ مسلم جماعت معاشرے میں ایک اہم کردار ادا کررہی ہے۔ بطور میونسپلٹی ایڈمنسٹریٹر میرے یہاں احمدیوں سے اچھے روابط ہیں۔ ہم جب چاہیں ایک دوسرے سے مل سکتے ہیں اور اس کے بہت فوائد ہیں۔ جب بھی ضرورت ہو ہم ایک دوسرے کو بلا لیتے ہیں۔آج جیسے پروگرام جہاں میونسپلٹی بھی انتظام میں شامل ہے، تو یہاں آپ لوگوں کے نمائندے اور ہمارے نمائندے مل بیٹھ کر پلان کرتے ہیں۔ بعض ثقافتی فرق ہیں، جو ہمیں اب وقت کے ساتھ سمجھ آگئی ہے اور اب ہم اس کے عادی ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو بہتر سے بہتر جان رہے ہیں اور اسی کوشش میں ہیں۔
میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ مزید ایسے پروگرام کریں گے تاکہ انسانی زندگی کے بارے میں پیدا ہونے والے سوالات کے جواب مل سکیں۔
٭ بیلجیم سے تعلق رکھنے والی ایک مہمان Annie Sels صاحبہ بھی اس تقریب میں شامل ہوئیں۔ انہوں نے کہا:
میں بیلجیم سے یہاں حضور کی تقریر سننے آئی ہوں۔ آپ کو دیکھ اور سُن کر بہت طاقت ملتی ہے اور آپ روئے زمین پر سب سے زیادہ امن پسند شخصیت ہیں۔ آپ اتنے بڑے لیڈر ہیں لیکن پھر بھی بڑے آسان الفاظ میں عام لوگوں سے ان کی سمجھ کے مطابق بات کرتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ دنیا کے دیگر رہ نما بھی آپ سے سبق سیکھیں کیونکہ دنیا بہت انتہا پسند ہو رہی ہے۔لوگ ایک دوسرے کو نہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ لوگ صرف سوشل میڈیا سے سیکھے ہوئے نعرے لگاتے ہیں، یہ ٹھیک نہیں ہے۔اس کے برعکس آپ جس طرح لوگوں کو سمجھاتے ہیں، یہ بہت ہی متاثر کن ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ آپ دنیا کے بہت سے لیڈرز کے لیے قابلِ تقلید نمونہ ہیں۔
حضورِ انور کی شخصیت بہت دھیمی ہے۔ کمال عاجزی ہے۔ آپ ایسے نہیں ہیں کہ اپنی آواز بلند کرکے سمجھائیں، بلکہ آپ کے بولنے کا انداز بہت ہی نرم اور دل ربا ہے۔ یہ بہت ہی ضروری ہے۔
٭ ایک مہمان Dini Harkink صاحب بھی اس تقریب میں شامل تھے۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
میرا تعلیمی بیک گراؤنڈ ہے اور چار سال قبل میں نے ایک ادارہ میں ڈچ زبان پڑھانا شروع کیا۔ یہاں میری ملاقات ایک پاکستانی فیملی سے ہوئی جو تقریباً ایک سال قبل ہی ہالینڈ آئی تھی۔یہ زبان سیکھنے اس ادارہ میں آئے تھے۔ ان سے میل ملاپ بڑھا۔ انہیں میں نے ہر طرح سے تعاون کا یقین دلایا۔ ان کے بچے مجھے ملتے رہتے ہیں اور ہر ہفتہ کچھ وقت وہ میرے ساتھ ہی گزارتے ہیں۔ ان بچوں سے مجھے آپ کی جماعت کے بارے میں علم ہوا۔
مجھے یہاں آکر بہت اچھا محسوس ہو رہا ہے کیونکہ آپ کے خلیفہ بھی تمام افراد کے مابین امن اور ہم آہنگی کی بات کر رہے ہیں۔ میں خود عیسائی ہوں اور دیکھ سکتا ہوں کہ آپ کی جماعت صرف احمدیوں سے ہی نہیں بلکہ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے سے اچھا برتاؤ کرتی ہے۔ خاص کر ایک مسلمان رہ نما سے یہ باتیں سننا بہت اچھا تھا کیونکہ آج کل اسلام کے بارے میں غلط تصورات موجود ہیں۔
آپ جیسی جماعت جوکہ ہالینڈ کے معاشرے میں مدغم ہونے پر یقین رکھتی ہے، ایسی جماعت سے باہمی ہم آہنگی اور امن و پیار کے پیغام کی معاشرے کو بہت ضرورت ہے۔ آپ لوگ محبت پر یقین رکھتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہم سب کو محبت پھیلانے کی ہی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ اگر ہم محبت پھیلائیں گے تو یہ ہالینڈاور دنیا کے لیے بہتر ہوگا۔ خلیفہ کے وجود میں جو امن اور سکون نظر آتا ہے، وہ بہت شاندار تھا۔ آپ نے دنیا میں پھیلی بدامنی کا ذکر کیا اور پھر امن کے قیام کی ضرورت پر زور دیا۔ ہم زمین پر ایک دوسرے سے مل کر رہتے ہیں۔ ہمیں ساتھ رہنا ہے ، ساتھ مل کر کام کرنا ہے۔
مجھے اس تقریب میں مدعو کرنے کا بہت شکریہ۔ میری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں۔
حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہالینڈ آمد پر ‘‘Ons Almere’’ نے اپنی 25؍ستمبر بروز بدھ کی اشاعت میں لکھا:
امن کا خلیفہ ہالینڈ تشریف لا رہا ہے۔
حضرت مرزا مسرور احمد 39ویں جلسہ سالانہ ہالینڈ میں شرکت کے لیے اور مسجد بیت العافیت کے افتتاح کے لیے ہالینڈ تشریف لائے ہیں۔ خلیفۃ المسیح پوری دنیا میں انسانی ہمدردی اور خدمت خلق کی خدمات بجا لارہے ہیں۔ نیز پوری دنیا میں امن اور مذہبی رواداری کو فروغ دے رہے ہیں۔ خلیفہ وقت نے دنیا کے دیگر پارلیمنٹ کے علاوہ ڈچ پارلیمنٹ میں بھی خطاب کیا ہے۔ یکم اکتوبر کو وہ المیرے شہر میں مسجد بیت العافیت کا افتتاح کریں گے۔
…………………………
29؍ستمبر2019ء بروزاتوار
……………………………
حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے صبح ساڑھے چھ بجے جلسہ گاہ میں تشریف لا کر نمازِفجر پڑھائی۔ نمازِفجر کے وقت بہت تیز بارش ہورہی تھی۔ حضورِانور کی رہائش گاہ سے جلسہ گاہ تک کا فاصلہ ایک فرلانگ کے قریب ہے۔ سیکیورٹی سٹاف نے گاڑیاں تیار کی ہوئی تھیں لیکن حضورِانور اس تیز بارش میں پیدل ہی تشریف لے گئے۔ چھتری نے صرف اُسی حد تک کام کیا جتنا اس کا دائرہ کار تھا۔ باقی بارش نے بھی اپنا کام دکھایا۔ راستہ میں بھی جگہ جگہ پانی کھڑا تھا۔ ہر قدم دیکھ کر رکھنا پڑتا تھا۔ پھرنماز کی ادائیگی کے بعد بھی بارش میں ہی واپسی ہوئی۔
صبح حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے دفتری ڈاک، خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اورہدایات سے نوازا۔ حضورِانور کی مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔
آج جماعت احمدیہ ہالینڈ کے جلسہ سالانہ کا تیسرا اور آخری روز تھا۔ پروگرام کے مطابق تین بجے حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لائے اور نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں۔
نماز وںکی ادائیگی کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جونہی سٹیج پر تشریف لائے تو ساری جلسہ گاہ پر جوش نعروں سے گونج اُٹھی۔ احباب جماعت نے بڑے ولولہ کے ساتھ نعرے بلند کیے۔
اختتامی تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم ایمن فضل عودہ صاحب نے کی اور بعد میںاس کا اردو ترجمہ مکرم سعید احمد جٹ صاحب مبلغ ہالینڈ نے پیش کیا۔
اس کےبعد مکرم حماد احمد عباسی صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام
کس قدر ظاہر ہے نور اس مبدأ الانوار کا
بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا
خوش الحانی سے پیش کیا۔
بعدازاں پروگرام کے مطابق حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے 14طلباء کو اسناد اور میڈل عطافرمائے۔
تعلیمی اسناد حاصل کرنے والے ان خوش نصیب طلباء کے نام درج ذیل ہیں:
1۔ ھشام رانا Primary Education بورڈ کے امتحان میں 100 فیصد نمبر
2۔ فراز ھارون چوہدری پرائمری ایجوکیشن بورڈ کےامتحان میں 100 فیصد نمبر
3۔قمرجاوید سلہری ہائرسیکنڈری ایجوکیشن بورڈ کے امتحان میں 81فیصد نمبر ہالینڈ
4۔ اسامہ احمد بن نورایف ایس سی پری میڈیکل Eindhoven
5۔ زین باری ملک بی ایس سی بائیومیڈیکل نیچرل سائنسز ایمسٹرڈم
6۔ سعد احمد بی ایس سی الیکٹریکل انجنیئرنگ Zwolle ہالینڈ
7۔ ظل الرحمٰن بی ایس سی اکاؤنٹنسیLeiden ہالینڈ
8۔ انس اقبال ایم ایس سی پاکستان سٹڈیز نن سپیٹ
9۔ مشہود چوہدری ایم ایس سی Medicine Maastricht
10۔ شرجیل احمد ملک ایم ایس سی ICT in Business Leiden
11۔ راحیل احمد چوہدری ایم ایس سی، انٹرنیشنل مینجمنٹ اینڈگلوبل بزنس جماعت Schiedamہالینڈ
12۔ فراز احمد ایم ایس سی الیکٹریکل انجنیئرنگ Arnhem ہالینڈ
13۔ محمد احمد طارق ایم ایس سی اکاؤنٹنسی Almere ہالینڈ
14۔ طلحہٰ احمدایم ایس سی Mathematics ایمسٹرڈم ہالینڈ
تعلیمی ایوارڈ کی اس تقریب کے بعد تین بج کر چالیس منٹ پر حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطاب فرمایا۔
(خطاب کا خلاصہ الفضل انٹرنیشنل 04؍اکتوبر2019ءمیں شائع ہو چکا ہے۔اس خطاب کا مکمل متن حسب طریق الگ سے شائع ہو گا۔)
اس کے بعد پروگرام کے مطابق اطفال الاحمدیہ ہالینڈ اور خدام الاحمدیہ ہالینڈ نے باری باری اردو زبان میں ترانے پیش کیے۔
اس کے بعد بنگالی احباب نے بنگلہ زبان میں ایک نظم پیش کی۔ بعدازاں عرب احباب پر مشتمل گروپ نے عربی زبان میں اپنا پروگرام پیش کیا۔
آخر پرافریقن احباب پر مشتمل گروپ نے اپنے مخصوص انداز میں کلمہ طیبہ کا ورد کیا اور بڑے پرجوش انداز میں نعرہ ہائے تکبیر بلند کیے۔
بعدازاں چار بج کر پچیس منٹ پر حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے آئے۔
پروگرام کے مطابق چھ بجے حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ آج شام کے اِس سیشن میں 29 فیملیز کے 127 افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔ اس کے علاوہ 14 خواتین نے انفرادی طور پر اور 113 افراد جماعت نے انفرادی طور پر حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے شرف ملاقات پایا۔
ملاقات کرنے والی یہ فیملیز اور احباب ہالینڈ کی جماعتوں Zwolle، Almere، Denbosh، زوترمیر، ایمسٹرڈم، Den Haag، Maastricht، Rotterdam، Nunspeet، Arnhem، Eindhoven، Utrecht اور Amstelveen سے آئے تھے۔
آج حضورِانور سے ملاقات کرنے والے یہ سبھی وہ لوگ تھے جو حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے اپنی زندگی میں پہلی بار مل رہے تھے۔ چند ایک فیملیز ایسی تھیں جن کے بعض افراد کی پہلی ملاقات تھی۔
محمد بشیر کامل صاحب جن کا تعلق جھنگ سے ہے، انہوں نے اپنے تاثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ خداتعالیٰ نے میری سب مرادیں پوری کردی ہیں۔ موصوف نے بتایا کہ جب 2003ء میں خلافت خامسہ کا انتخاب ہورہا تھا اور رات دیر ہوچکی تھی تو میں نے والدصاحب سے کہا کہ جونہی اعلان ہو مجھے اُسی وقت جگادیں۔ چنانچہ جب والد صاحب جگانے آئے تو میں نے والد صاحب کو بتادیا کہ ابھی میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح منتخب ہوگئے ہیں۔ ابھی میں نے خواب میں دیکھا۔ چنانچہ اس کے کچھ دیر بعد MTA پر اعلان ہوگیا۔ موصوف نے بتایا کہ میں اکیلا باہر آیا ہوں۔ سال 2015ء میں حضورِانور سے ملاقات ہوئی تھی۔ تو میں نے بچوں کے لیے دعا کی درخواست کی تو اس پر حضورنے فرمایا کہ ‘‘فکر نہ کریں بچے آجائیں گے۔’’ میں ملاقات کرکے دفتر سے باہر نکلا تو اُسی وقت میرے کیمپ سے مجھے فون آیا کہ آپ کے بچوں کے آنے کا لیٹر آگیا ہے۔ کس شان سے حضورانور کی بات پوری ہوئی۔ یہ میرے لیے ایک معجزہ سے کم نہ تھا۔ آج میرے ان بچوں اور فیملی کی بھی حضورِانور سے ملاقات ہوگئی ہے۔ اللہ نے میری سب مرادیں پوری کردی ہیں۔ آج تو ہمارے لیے خوشی کا دن ہے۔
فیصل آباد سے آنے والے ایک نوجوان رضوان محمود صاحب نے کہا کہ میری زندگی کی ایک بہت بڑی خواہش تھی جو آج پوری ہوگئی ہے۔ مجھے اپنی زندگی میں اس کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے۔ آج مجھے سب کچھ مل گیا ہے۔
اعجاز محمود چیمہ صاحب جن کا تعلق نارنگ منڈی سے ہے، کہنے لگے کہ آج میرا دل بڑھ گیا ہے۔ میں بہت خوش قسمت انسان ہوں۔ میری یہ ملاقات میری زندگی کی سب سے قیمتی چیز ہے۔
انجم نوید صاحب جو خانیوال سے آئے تھے کہنے لگےکہ میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ جذبات کا اظہار کرنا بہت مشکل ہے۔ میری ایک پرانی خواہش پوری ہوگئی۔ میری برسوں کی دعا خدا نے آج سُن لی اور پیارے آقا کا دیدار نصیب ہوگیا۔ اس کاکوئی نعم البدل نہیں ہے۔
افتخار احمد صاحب جو ننکانہ سے آئے تھے، انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے خاندان کا پہلا پوتا ہوں جس نے خلیفۃ المسیح سے ملاقات کی ہے۔ خاندان میں یہ موقع صرف مجھے نصیب ہوا ہے۔ میرے ماں باپ اور سارے خاندان والوں نے بہت دعائیں کی تھیں کہ مجھے یہ سعادت نصیب ہوجائے۔ آج پاکستان میں میرے سارے گھر والوں کی خوشی کی انتہا نہیں ہے۔
فیصل آباد سے آنے والے نوجوان محمد یاسر صاحب نے بیان کیا کہ آج مجھے بے انتہا خوشی ہے۔ پاکستان میں MTA پر دیکھا کرتے تھے اور میںدعا کیا کرتا تھا کہ کبھی میری زندگی میں بھی پیارے آقا کا دیدارنصیب ہو۔ خدا نے آج میری دعا سن لی ہے۔ حضورِانور نے میرا ہاتھ پکڑے رکھا اور میں نے تصویر بھی بنوائی۔
عثمان علی صاحب جو گوجرانوالہ سے آئے تھے۔ جب ان سے ان کے احساسات کے بارہ میں پوچھا گیا تو کہنے لگے کہ میرا دل دھڑک رہا ہے۔ میرا جسم کانپ رہا ہے۔ میں نے حضور سے بات کرنے کی کوشش کی، مجھ سے بات نہیں ہوسکی۔ آج میں بہت خوش نصیب ہوں۔
کراچی سے آنے والے ایک نوجوان عثمان احمد صاحب نے کہا: ہمیں اپنے آقا سے ملنے کے لیے ایک تڑپ تھی۔ آقا کو دیکھنے کے لیے ترستے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعائیں سن لیں اور آج ملاقات کی گھڑی نصیب ہوگئی۔ اللہ کا کرم ہے۔ خدا کا شکر ہے۔ اللہ کے فضل کے علاوہ یہ گھڑی نصیب نہیں ہوسکتی۔ خدا حضور کا سایہ ہم پر تادیر سلامت رکھے۔ آمین
ملتان سے آنے والے ایک نوجوان عمار مبشر صاحب نے بیان کیا کہ اس وقت جذبات سے میری یہ حالت ہے کہ الفاظ منہ سے نکل نہیں رہے۔ زندگی میں پہلی بار خلیفہ وقت کو قریب سے دیکھا ہے۔ مجھ سے بولا نہیں جارہا تھا۔ میں نے بڑی مشکل سے والدین کے لیے دعا کے لیے کہا۔
نبیل احمد صاحب علی پورچٹھہ ضلع گوجرانوالہ سے آئے تھے، کہنے لگے کہ میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ حضورسے ملاقات میرا ایک خواب تھا اور مجھے اب بھی یقین نہیں آرہا کہ یہ پورا ہوگیا ہے اور مجھے حضور سے ملاقات کی نعمت نصیب ہوگئی ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا ایسا خاص فضل ہے کہ میں عمر بھر اس کا شکر ادا نہیں کرسکتا۔ خداتعالیٰ حضور کا سایہ ہم پر سلامت رکھے اور ہمیں حضور کی ہر ہدایت پر عمل کی توفیق بخشے۔
ربوہ سے آنے والے ایک نوجوان محسن رضا صاحب کہنے لگے کہ مجھ سے بولانہیں جارہا۔ آج زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہوگئی ہے۔ میرے دل کی دھڑکن اس وقت تیز ہے۔ مجھے یقین نہیں آرہا کہ آج میری ملاقات ہوگئی ہے۔ ملاقات نے مجھے بدل کررکھ دیا ہے۔
خرم شہزاد صاحب جو کہ ربوہ سے آئے تھے کہنے لگے کہ ہم MTA پر جلسے دیکھتے تھے جن میں حضورِانور شریک ہوتے تھے۔ میری شدید خواہش تھی کہ ان جلسوں میں شامل ہوں۔ حضورِانور کا دیدار کریں اور ملاقات بھی نصیب ہو۔ خدا نے اپنے فضلوں سے آج وہ دن دکھایا ہے اور میرے پاس الفاظ نہیں کہ اپنی خوشی کا اظہار کرسکوں۔ جلسہ میں بھی شامل ہوا اور آج ملاقات کی گھڑی نصیب ہوگئی۔ یہ خدا کا اتنا بڑا انعام ہے کہ اس سے بڑی نعمت کوئی بھی نہیں ہے۔
ایک نوجوان مسعود امجد شہزاد صاحب سردار والا ضلع سرگودھا سےآئے تھے، کہنے لگے کہ جومیری کیفیت ہے ایک انسان اُسے بیان نہیں کرسکتا۔ میری حضورِانور سے ملنے کی شدید خواہش تھی اور میں حضورِانور کو خط لکھا کرتا تھا کہ میرے لیے دعا کریں کہ میری زندگی میں ایک دن ایسا آجائے جب حضورِانور کے ہاتھوں کو چھو سکوں۔ دعا قبول ہوگئی۔ میں آج دنیا کا خوش قسمت انسان ہوں کہ خلیفہ نے میرے ہاتھ کو پکڑا ہے اور میں نے حضور سے بات کی ہے اور تصویر بھی بنوائی ہے۔
ننکانہ سے ایک نوجوان بابراقرار صاحب آئے تھے۔ کہنے لگے کہ میں بتا نہیں سکتا کہ میری حضورِانور سے ملاقات کی کتنی شدید خواہش تھی۔ میں جلسہ جرمنی پر اس لیے گیا تھا کہ وہاں حضورِانور کے چہرہ کا دیدار کروں گا۔ جب حضورِانور کا چہرہ نظرآیا تو میرے منہ سے بے اختیار ماشاءاللہ نکلا۔ آج اللہ تعالیٰ نے ملاقات کی خواہش پوری فرمادی۔ میں نے انتہائی قریب سے پیارے آقا کا دیدار کیا۔ میں آج کتنا خوش نصیب ہوں۔
خالد احمد چٹھہ صاحب نصرت آباد فارم میرپورخاص سندھ سے آئے تھے کہنے لگے کہ آج میرے دل کو سکون ملا ہے۔ پاکستان کے جس علاقے سے میں ہوں وہاں سے کسی عام آدمی کا آنا بہت مشکل ہے۔ میری حضورِانور سے ملاقات کی شدید خواہش تھی۔ ہم MTA پر دیکھا کرتے تھے۔ خداتعالیٰ نے بہت مشکلات کے باوجود یہاں آنے کے سامان بنائے اور آج میری خواہش پوری ہوگئی ہے۔ میں اس کا شکرادا نہیں کرسکتا۔
ڈاکٹر (ڈینٹسٹ) قیصر خرم صاحب چنیوٹ سے آئے تھے۔ کہنے لگے کہ میں نے 2003ء میں بیعت کی تھی۔ بعدمیں میری والدہ نے بھی بیعت کرلی اور پھر بیوی نے بھی کرلی۔ آج میں انتہائی خوش قسمت انسان ہوں کہ مجھے حضورِانور سے ملاقات کا موقع ملا۔ میں نے زندگی میں پہلی بار حضور کو انتہائی قریب سے دیکھا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا بات کروں۔ بس یہی بات کی کہ والد صاحب کی ہدایت کے لیے دعا کریں کہ وہ بھی احمدی ہوجائیں۔ ملاقات کے بعد میں محسوس کررہا تھا کہ میں اندر سے صاف ہوگیا ہوں۔ روئی کی طرح ہلکا ہوگیا ہوں اور بالکل بدل گیا ہوں۔ ایک منٹ سے بھی کم وقت تھا لیکن اس لمحہ نے مجھے بدل کر رکھ دیا ہے۔ میرے خدا نے مجھے سب کچھ دے دیا۔
ملاقاتوں کا یہ پروگرام آٹھ بج کر دس منٹ تک جاری رہا۔ بعدازاں حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کچھ دیر کے لیے اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
نمازِمغرب و عشاء کی ادائیگی کا انتظام بیت النور سے ملحقہ مارکی (خواتین کے جلسہ گاہ) میں کیا گیا تھا جبکہ بیت النور میں خواتین نماز کے لیے جمع تھیں۔
آج بچیوں کی آمین کا پروگرام بھی تھا جو بیت النور میں خواتین کے حصہ میں ہی ہوئی۔ پروگرام کے مطابق ساڑھے آٹھ بجے حضورِانور بیت النور میں تشریف لائے اور تقریب آمین شروع ہوئی۔
درج ذیل تیس بچیاں اس تقریب میں شامل ہوئیں۔ حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے باری باری ہر ایک سے ایک ایک آیت سنی اور آخر پر دعا کروائی۔ بچیوں کے اسماء درج ذیل ہیں:۔
عزیزات وردہ کاشف، مہوش نعمانہ عارف، منسا اظہر ممتاز، ماریہ نصیر، سحررانا، ثانیہ صدیقی، کاشفۃ النور محبوب، انیسہ عمران چوہدری، فاتحہ عامر، عنایہ علی، ناجیہ اسلم، دانیہ احمد جٹ، عیشاہ سلطان، عطیۃ الباسط، نمودِسحرمحمود، Noerحیا منان، عدیلہ فاروق، ھبۃ البصیر ملک، آصفہ ملک، طاہرہ El Hadouchi، مہ نور اکمل، صبغۃ المقیت، مناہل منصور، Saniha نصیر، Anosh Sakhi، دریشاہ انجم، عروج میر، عارفہ مبشر عارف، جاذبہ کمال قاضی، عطیۃ السبوح۔
بعدازاں حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مارکی میں تشریف لا کر نمازمغرب وعشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
جلسہ سالانہ ہالینڈ میں مختلف ممالک سے احباب جماعت شامل ہوئے۔ ان میں ایک تعداد نومبائعین کی بھی تھی۔ ان نومبائعین نے بھی جلسہ کے ماحول اور پروگراموں سے بھرپور استفادہ کیا۔
مراکش سے تعلق رکھنے والی خاتون آمنہ صاحبہ بیلجیم سے جلسہ میں شمولیت کے لیے آئی تھیں۔ بیان کرتی ہیں کہ جلسہ سالانہ ہالینڈ میں مجھے پہلی مرتبہ حضورِانور کے پیچھے نماز پڑھنے کی توفیق ملی ہے۔ اور مجھے دعائیں کرنے کا موقع ملا ہے۔ اور میرے دل کو بہت سکون ملا ہے۔
مسز عائشہ کابندہ ملک Congo سے تعلق رکھتی ہیں اور بیلجیم میں مقیم ہیں۔ کہتی ہیں کہ حضورِانور نے لجنہ میں جو خطاب فرمایا ہے اس سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے۔ مجھے حضورِانور کی اقتداء میں نمازیں پڑھنے کی سعادت بھی ملی۔ حضورِانور نے اپنے خطاب میں جو نصائح فرمائی ہیں ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ان پر عمل کریں۔
توفیق جاماوی صاحب جن کا تعلق مراکش سے ہے، اپنی فیملی کے ساتھ جلسہ میں شامل ہونے کے لیے آئے تھے۔ کہتے ہیں ہم اس لیے جلسہ میں شامل ہوئے کہ حضورِانور کا دیدار کرسکین اور حضورِانور کی اقتداء میں نمازیں پڑھ سکیں۔ جلسہ کا ایک روحانی ماحول ہوتا ہے اور ہمیں اس سے بہت فائدہ ملتا ہے۔ حضورِانور کے خطابات کا ایک ایک لفظ ہمارے دل تک پہنچا ہے۔ حضورِانور کے خطابات نے ہمیں دوبارہ چارج کردیا ہے۔
ایک غانین دوست عبدالصمد صاحب جو بیلجیم میں مقیم ہیں۔ جلسہ میں شامل ہوئے۔ کہتے ہیں کہ میں نے حضورِانور کے تمام خطابات سنے ہیں۔ حضورِانور نے ہمیں ہماری روحانی لحاظ سے بھی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ یہ کہ ہماری بیرونی لباس کی خوبصورتی سے زیادہ ہماری اندرونی اور روحانی خوبصورتی ہونی چاہیے جوکہ نماز کے ذریعہ پیدا ہو سکتی ہے۔ حضورِانور کے خطابات کے ایک ایک لفظ نے میرے دل پر بہت اثر کیا ہے۔ حضورِانور نے ہمیں ہماری کمزوریوں کی طرف بھی متوجہ کیا ہے۔ میں اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت سمجھتاہوں کہ یہاں آکر حضورِانور کی اقتداء میں نمازیں ادا کیں اور اس روحانی ماحول سے فائدہ اُٹھایا۔
ایک نومبائع دوست کربوز ادریس صاحب جوکہ مراکش سے ہیں اور بیلجیم میں مقیم ہیں۔ جلسہ میں شامل ہونے کے لیے آئے تھے۔ کہتے ہیں کہ پہلے مجھے جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہونے کا موقع ملا تھا اور اب ہالینڈ کے جلسہ میں شامل ہوا ہوں۔ ان جلسوں میں وہی اخوت اور بھائی چارہ کی تعلیم ملتی ہے جو اسلام پیش کرتا ہے۔ لوگ بڑی خوشی اور محبت کے ساتھ ایک دوسرے کو ملتے ہیں۔ جلسوں میں شامل ہو کر ایمان کو بڑی تقویت ملتی ہے۔ جب بھی خلیفہ وقت کا دیدار ہوتا ہے تو دل کو ایک سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ یہاں میں نے باربار حضورِانور کا دیدار کیا اور دلی سکون پایا۔ میں خدا کا شکرادا کرتاہوں۔
ملک روانڈا (Rwanda) سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان وذیلی صدام صاحب بیلجیم سے آئے تھے۔ موصوف نے بتایا کہ اس جلسہ میں شامل ہو کر میں نے خلافت کی برکات کو سمیٹا ہے۔ مجھے حضورِانور کے خطابات سننے کا موقع ملا۔ حضورِانور کی نصائح سنیں۔ اس لحاظ سے میں اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت سمجھتاہوں۔ حضورِانور کے بابرکت وجود سے برکت لینے کی ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے۔ میں نے بھی جلسہ میں شامل ہو کر اس برکت سے حصہ لیا ہے۔
ملک یمن سے تعلق رکھنے والے ایک دوست عبداللہ الحمری صاحب بیلجیم سے آئے تھے۔ کہنے لگے سب سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے مجھے اس جلسہ میں شامل ہونے کا موقع دیا۔ اور میں اپنے آپ کو بڑا خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ مجھے حضورِانور کے دیدار کی، حضورِانور کے قرب کی سعادت نصیب ہوئی۔ میں نے حضور کی اقتداء میں نمازیں ادا کیں۔ میرا تعلق ایک عرب ملک سے ہے۔ میں بہت دعا کرتا ہوں کہ حضور کی خواہش کے مطابق عرب لوگوں تک بھی جماعت احمدیہ کا پُرامن پیغام پہنچے اور وہ بھی خلافت کی نعمت سے فیضیاب ہوسکیں اور جو سکون مجھے جماعت میں شامل ہوکر حاصل ہوا ہے تمام عرب ممالک کے لوگ بھی اس سکون کو پاسکیں۔آمین
٭…٭…٭