غزوۂ احد اورحمراء الاسد کےحوالے سے آنحضورﷺ کی سیرت کا تذکرہ نیز دنیا کے حالات اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی صحت کے لیے دعا کی تحریک:خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۳؍مئی ۲۰۲۴ء
٭… امرِ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت کے جنگی اُصول و رواج کے مطابق اسے [غزوۂ احد کو]شکست نہیں کہا جاسکتا کیونکہ مسلمان تو اس وقت بھی میدان میں موجود تھے جب ابو سفیان محض نعرے لگاتا ہوا میدان سے روانہ ہوگیا تھا
٭… آنحضرتﷺ کي اوّل و آخر حيثيت ايک جنگي ماہر کي نہيں بلکہ ايک اخلاقي اور روحاني سردار کي تھي جس کے ہاتھ ميں مکارمِ اخلاق کاجھنڈا تھمايا گيا تھا
٭… جنگِ احد محمد رسول اللہﷺ کی صداقت کا ایک بہت بڑا نشان تھا
٭…دنیا کے حالات، مسلمانوں کی حالت اور فلسطین کے مظلومین کے حوالے سے دعا کی مکرر تحریک
٭… حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ کی صحت کے لیے دعا کی تحریک
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳؍مئی ۲۰۲۴ء بمطابق۳؍ہجرت ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۳؍مئی ۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانافیروزعالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: غزوۂ حمراء الاسد کا ذکر ہورہا تھا اس ضمن میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے غزوۂ احد سے مدینہ واپسی اور حمراء الاسد کا جو ذکر کیا ہے وہ بیان کرتا ہوں۔ آپؓ فرماتے ہیں یہ رات (یعنی غزوۂ احد سے واپس لوٹنے کی رات) ایک سخت خوف کی رات تھی۔ کیونکہ باوجود اس کے کہ لشکرِ قریش نے بظاہر مکّہ کی راہ لے لی تھی مگر خدشہ تھا کہ اُن کا یہ فعل مسلمانوں کو غافل کرنے کی نیّت سے نہ ہو۔ لہٰذا اس رات کو مدینے میں پہرے کا انتظام کیا گیا۔ آنحضرتﷺ کے مکان کا بھی صحابہؓ نے خصوصیت سے پہرہ دیا۔صبح ہوئی تو پتا چلا کہ یہ اندیشہ محض خیالی نہ تھا کیونکہ فجر سے پیشتر آپؐ کو یہ اطلاع ملی کہ قریش کا لشکر مدینے سے چند مِیل جاکر ٹھہر گیا ہے اور رؤسائے قریش میں بحث جاری ہے کہ نہ تم نے محمد(ﷺ) کو قتل کیا، نہ مسلمان عورتوں کو لونڈیاں بنایا ہے نہ ان کے مال پر قابض ہوئے ہو بلکہ
جب تم ان پر غالب آئے تو تم ان کو ایسے ہی چھوڑ کر چلے آئے تاکہ وہ دوبارہ طاقت پکڑ لیں۔ پس اب بھی موقع ہے کہ واپس چلو اور مدینے پر حملہ کرکے مسلمانوں کی جڑھ کاٹ دو۔ اس کے بالمقابل دوسرے کہتے تھے کہ تمہیں ایک فتح حاصل ہوئی ہے اسے غنیمت جانو اور واپس چلو۔ ایسا نہ ہو کہ یہ فتح بھی شکست میں بدل جائے۔
آنحضرتﷺکو جب یہ اطلاع ملی تو فوراً روانگی کا اعلان کروایا اور ساتھ ہی یہ ہدایت فرمائی کہ احد پر جانے والوں کے علاوہ کوئی دوسرا ہمارے ساتھ نہ نکلے۔ احد کے مجاہدین اپنے زخموں کو باندھ کر اپنے آقا کے ساتھ چل پڑے۔ آٹھ میل کا فاصلہ طے کرکے آپؐ حمراء الاسد پہنچے یہاں آپ نے آگ روشن کرنے کا حکم دیا چنانچہ پانچ سو آگیں فی الفور روشن ہوگئیں۔ یہاں مشرک سردار معبد حضورﷺ سے ملا اور آگے جاکر اس نے ابو سفیان اور قریش کے دیگر سرداروں کو بتایا کہ مسلمان بڑے جوش و جذبے کے ساتھ تم سے مقابلے کے لیے تیار ہیں اور اگر تمہارا ان سے مقابلہ ہوا تو تم ان سے بچ نہ سکو گے۔
ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں پر معبد کی باتوں کا ایسا رعب پڑ اکہ انہوں نے مدینے کی طرف چڑھائی کا ارادہ ترک کردیا اور مکّے کی طرف لوٹ گئے۔
آنحضرتﷺ نے حمراء الاسد میں دو تین دن قیام فرمایا اور پانچ دن کی غیر حاضری کے بعد مدینے واپس تشریف لے آئے۔ جنگِ احد کے انجام کے متعلق بڑی طویل بحثیں کی گئی ہیں۔ بعض سیرت نگار اسے شکست سے تعبیر کرتے ہیں، بعض اسے شکست کہنے سے کتراتے ہیں اور بین بین اپنی رائے رکھنا چاہتے ہیں۔البتہ کچھ ایسے بھی ہیں جو اسے ایک شکست کے بعد فتح سے تعبیر کرتے ہیں۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت کے جنگی اُصول و رواج کے مطابق اسے شکست نہیں کہا جاسکتا کیونکہ مسلمان تو اس وقت بھی میدان میں موجود تھے جب ابو سفیان محض نعرے لگاتا ہوا میدان سے روانہ ہوگیا تھا۔ابوسفیان نے یہ کھوکھلا نعرہ بھی لگایا تھا کہ آج کا دن بدر کا بدلہ ہے۔ حالانکہ یہ بدر کا بدلہ کیسے ہوگیا۔
بدر میں تو مسلمانوں نے کفار کے بڑے بڑے سردار قتل کیے تھے، انہیں مالِ غنیمت حاصل ہوا تھا، کفار کےستّر لوگ اسیر ہوئے تھے، اسی طرح بدر میں مسلمان بطور فاتح حسبِ روایت تین دن تک مقیم رہے تھے۔ جبکہ اُحد کے دن کفار کو ان میں سے کوئی ایک بات بھی حاصل نہ ہوسکی تو بھلا یہ بدر کا بدلہ کیسے ہوا۔ ہاں احدمیں پہلے مرحلے میں فتح کے بعد دوسرے مرحلے میں مسلمانوں کو سخت جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ مستقل نتائج کے لحاظ سے تو غزوۂ احد کو کوئی خاص حیثیت حاصل نہیں اور بدر کے مقابل پر یہ جنگ کوئی حیثیت نہیں رکھتی لیکن وقتی طور پر اس جنگ نے ضرور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا۔ اوّل مسلمانوں کے ستّر آدمی شہید ہوئے جن میں بعض اکابر صحابہ ؓبھی شامل ہیں اور زخمیوں کی تعداد تو بہت زیادہ تھی۔ دوسرے مدینے کے یہود اور منافقین جو جنگِ بدر کے نتیجے میں مرعوب ہوگئے تھے اب کچھ دلیر ہوگئے۔ تیسرا یہ کہ کفارِ مکّہ کو بہت جرأت ہوگئی اور انہوں نے اپنے دل میں یہ سمجھ لیا کہ ہم نے نہ صرف بدر کا بدلہ اتار لیا ہے بلکہ آئندہ بھی جب کبھی جتھہ بنا کر حملہ کریں گے تو مسلمانوں کو زیر کر سکیں گے۔ چوتھے عام قبائل نے بھی احد کے بعد زیادہ جرأت سے سر اٹھانا شروع کردیا۔ مگر ان نقصانات کے باوجود
یہ ایک بیّن حقیقت ہے کہ جو نقصان قریش کو جنگِ بدر نے پہنچایا تھا احد کی فتح اس کی تلافی نہیں کرسکتی تھی۔
احد کا نقصان ایک لحاظ سے مسلمانوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوا کیونکہ ان پر یہ بات روزِ روشن کی طرح ظاہر ہوگئی کہ رسول اللہﷺْ کی منشا اور ہدایت کے خلاف قدم زن ہونا کبھی بھی موجبِ فلاح اور بہبودی نہیں ہوسکتا۔ آنحضرتﷺ نے مدینے میں ٹھہرنے کے حق میں اپنی رائے دی اور اس سلسلے میں اپنا ایک خواب بھی سنایا مگر لوگوں نے باہر نکل کر لڑنے پر اصرار کیا۔ آنحضرتﷺ نے انہیں احد کے ایک درّے پر متعین فرمایا اور انتہائی تاکید فرمائی کہ اس جگہ کو نہ چھوڑنا مگر انہوں نے غنیمت کے خیال سے اس درّے کو خالی چھوڑ دیا۔ پس
احد کی ہزیمت اگر ایک لحاظ سے موجبِ تکلیف تھی تو دوسری جہت سے وہ مسلمانوں کے لیے ایک مفید سبق بھی بن گئی۔
حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ ہر چند غزواتِ نبوی پر نگاہ ڈالنے سے آنحضورﷺ کی احسن، بےمثل استعدادوں پر بھی حیران کُن روشنی پڑتی ہے لیکن
آنحضرتﷺ کی اوّل و آخر حیثیت ایک جنگی ماہر کی نہیں بلکہ ایک اخلاقی اور روحانی سردار کی تھی جس کے ہاتھ میں مکارمِ اخلاق کا جھنڈا تھمایا گیا تھا۔
اعلیٰ اخلاق کا جھنڈا بلند رکھنے اور بلند تر کرتے چلے جانے کے جس عظیم جہاد میں آپؐ مصروف تھے وہ کبھی نہ ختم ہونے والا ایسا مجاہدہ تھا جو امن کی حالت میں بھی اُسی طرح جاری رہا جیسے جنگ کے حالات میں۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ جنگِ احد محمد رسول اللہﷺ کی صداقت کا ایک بہت بڑا نشان تھا۔ اس جنگ میں آنحضرتﷺ کی پیش گوئی کے مطابق پہلے مسلمانوں کو کامیابی حاصل ہوئی۔ پھر رسول اللہﷺ کی پیش گوئی کے مطابق آپؐ کے عزیز چچا لڑائی میں مارے گئے۔ پھر پیش گوئی کے مطابق شروع حملے میں کفار کا عَلم بردار مارا گیا۔ پھر آپؐ کی پیش گوئی کے مطابق آپؐ خود بھی زخمی ہوئے اور بہت سے صحابہ شہید ہوئے۔ اس کے علاوہ
مسلمانوں کو ایسے اخلاص اور ایمان کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا جس کی مثال تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتی۔
حضورِانور نے فرمایا کہ غزوۂ احد کے فوری بعد اور غزوۂ حمراء الاسد کا بیان یہاں ختم ہوتا ہے۔
دعاؤں کی تحریک فرماتے ہوئے حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ
دنیا کے حالات، مسلمانوں کی حالت اور فلسطین کے بارے میں دعاؤں کی طرف مَیں توجہ دلاتا رہتا ہوں۔
گو بعض حلقوں کی طرف سے یہ تاثر ہے کہ جنگ بندی کچھ عرصے کے لیے ہوجائے لیکن جو حالات نظر آرہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ اگر سیز فائر ہو بھی جائے تو تب بھی فلسطینیوں پر ظلم بند نہیں ہوگا۔ اس لیے بہت دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ فلسطینیوں کو بھی توفیق دے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکیں۔ بہرحال ان حالات نے متکبروں کے منہ توڑنے کے بھی سامان پیدا کردیے ہیں اور اب لگ رہا ہے کہ ان کے غرور توڑنے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے کارروائی شروع کردی ہے۔ان کا تکبر اب ٹوٹنا شروع ہوگیا ہے ان کے اندر سے ان کے مخالفین پیدا ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ امریکہ میں بھی احتجاج ہورہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا کی بڑی طاقتوں کو عقل دے اور یہ انصاف سے کام لیں۔
خطبے کے آخر میں سیدنا امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے
اپنی صحت سے متعلق احبابِ جماعت کوازراہِ شفقت آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دوسری دعا جس کے لیے میں آج کہنا چاہتا ہوں وہ اپنے لیے ہے۔
ایک عرصہ سے مجھے دل کے valve کی تکلیف تھی۔ ڈاکٹرز پروسیجر کا کہا کرتے تھے لیکن مَیں ٹالتا رہتا تھا۔ اب ڈاکٹروں نے کہا کہ ایسی سٹیج آگئی ہے کہ مزید انتظار مناسب نہیں۔چنانچہ ان کے کہنے پر گذشتہ دنوں valve کی تبدیلی کا پروسیجر ہوا ہے۔ الحمد للہ ٹھیک ہوگیا اور اس لیے مَیں چند دن ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق مسجد بھی نہیں آسکا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ میڈیکلی اب جو پروسیجر ہونا تھا وہ اللہ کے فضل سے کامیاب ہے۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی زندگی دینی ہے فعال زندگی عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭