دعائیہ غزل
مِرے خدا مِرے چارہ گر اُسے کچھ نہ ہو
مجھے جاں سے ہے وہ عزیز تر اُسے کچھ نہ ہو
تِرے پاؤں پڑ کے دعا کروں سرِِدشت میں
مِرے سر پہ ہے وہی اک شجر اُسے کچھ نہ ہو
تِرے ایک کُن پہ ہیں موسموں کی یہ گردشیں
سو یہ حکم دے اِنہیں خاص کر اُسے کچھ نہ ہو
جسے دیکھتے ہی بجھے دیے بھی دمک اٹھیں
جسے چُھو کے سنگ، بنے گہر اُسے کچھ نہ ہو
کسی برگزیدہ سے شخص نے مِرے خواب میں
کہا پیار سے مجھے دیکھ کر ، اُسے کچھ نہ ہو
کبھی جِن ملے الہ دین کا تو اُسے کہوں
مِرے گھر کبھی اُسے لا مگر اُسے کچھ نہ ہو
وہ شگفتہ گُل جسے دیکھ لے وہ گلاب ہو
سو گلاب سے کہو دیکھ کر اُسے کچھ نہ ہو
جو نِگہ پڑی تھی مِری حرم کی حُدود پر
تو کہا تھا خالقِ بحر و بر اُسے کچھ نہ ہو
اے غنیمِ جاں چلو آج تجھ سے یہ طے ہوا
مجھے زخم دے بھلے عمر بھر اُسے کچھ نہ ہو
کسی مہرباں کی نوازشیں مجھے یاد ہیں
سو دعا دعا ہوں میں چشمِ تر اُسے کچھ نہ ہو
(مبارک صدیقی ۔۲۰۱۰ء)