معاشرے کے امن، چین اور سکون کا انحصار امانت داری پر ہے
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَخُوۡنُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ وَ تَخُوۡنُوۡۤا اَمٰنٰتِکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (الانفال :28)اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتاہے : اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور (اس کے) رسول سے خیانت نہ کرو ورنہ تم اس کے نتیجہ میں خود اپنی امانتوں سے خیانت کرنے لگو گے جبکہ تم(اس خیانت کو)جانتے ہوگے۔
خیانت ایک ایسی برائی ہے جس کا کرنے والا اللہ تعالیٰ اور بندوں دونوں کے حقوق ادا نہ کرنے والا ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف پیرایوں میں، مختلف سیاق وسباق کے ساتھ قرآ ن کریم میں مختلف جگہوں پراس کے بارہ میں فرمایاہے اور خیانت کرنے والا خائن کہلاتاہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص جس پر اعتماد کیا جائے اور وہ اعتماد کو ٹھیس پہنچائے۔
پھر قرآن کریم میں خَآئِنَۃُ الْاَعْیُنِ کا لفظ بھی استعمال ہواہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی چیز پر گہری نظر ڈالنا جس کو دیکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ یاجان بوجھ کر ایسی چیزکو دیکھنا جس کو دیکھنے کی اجازت نہ ہو۔ اور یہ آنکھ کی خیانت کہلاتی ہے…اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ نے تمہیں جو تعلیم دی ہے، جو احکامات دئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے جو حقوق معین کئے ہیں، ان کی ادائیگی میں اگر خیانت کرو گے تو پھر تم آپس میں بھی اپنی امانتوں کو ادا کرنے کے معاملہ میں خیانت سے کام لو گے۔ لوگوں کی امانتوں کو لوٹانے اور ان کے حقوق ادا کرنے کے بارہ میں بھی خیانت کرنے والے بن جاؤ گے، حقوق ادا نہیں کروگے۔ اس لئے ہر دو قسم کے حقوق یعنی خداتعالیٰ کے اور بندوں کے حقو ق ادا کرنے کے لئے تمہیں صاف ستھرا اور کھرا ہونا ہوگا۔ پھر اس میں یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی تم پر فرض ہے۔ جب تم نے یہ عہد کرلیا کہ مَیں مسلمان ہوتاہوں، ایمان لاتا ہوں، تمام حکموں پر جو اللہ تعالیٰ نے ادا کرنے کا حکم دیاہے ان کو پورا کرنے کی کوشش کرتاہوں تو وہ توکرنے ہیں اور یاد رکھیں کہ اگر یہ احکامات سچے دل سے بجا نہیں لائیں گے تو معاشرے کے جو حقوق وفرائض ہیں وہ بھی صحیح طرح ادا نہیں ہوں گے۔ اور پھر معاشرے میں ایک دوسرے کا اعتماد بھی حاصل نہیں ہوگا کیونکہ جب تم خیانت کرو گے تو دوسرے بھی خیانت کریں گے اور معاشرے کا امن، چین اور سکون کبھی قائم نہیں ہو سکے گا۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۶؍فروری۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍اپریل۲۰۰۴ء)