ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی سے دُور بھاگنا چاہئے
ادائے قرضہ اور امانت کی واپسی میں بہت کم لوگ صادق نکلتے ہیں اور لوگ اس کی پروا نہیں کرتے حالانکہ یہ نہایت ضروری امر ہے۔ حضرت رسول کریمﷺ اس شخص کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے جس پر قرضہ ہوتا تھا۔ دیکھا جاتا ہے کہ جس التجا اور خلوص کے ساتھ لوگ قرض لیتے ہیں اسی طرح خندہ پیشانی کے ساتھ واپس نہیں کرتے بلکہ واپسی کے وقت ضرور کچھ نہ کچھ تنگی ترشی واقع ہو جاتی ہے۔ ایمان کی سچائی اسی سے پہچانی جاتی ہے۔
(ملفوظات جلد۹ صفحہ۲۱۹ ایڈیشن ۲۰۲۲ء)
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ ان امور کی پروا نہیں کرتے اور ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو بہت کم توجہ کرتے ہیں اپنے قرضوں کے ادا کرنے میں۔ یہ عدل کے خلاف ہے۔ آنحضرتﷺ تو ایسے لوگوں کی نماز نہ پڑھتے تھے۔ پس تم میں سے ہر ایک اس بات کو خوب یاد رکھے کہ قرضوں کے ادا کرنے میں سُستی نہیں کرنی چاہیے اور ہر قسم کی خیانت اور بےایمانی سے دُور بھاگنا چاہئے۔ کیونکہ یہ امرِ الٰہی کے خلاف ہے جو اس نے اس آیت میں یعنی اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَائِ ذِی الْقُرْبٰی (النحل:۹۱) دیا ہے۔
(ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۶۰۷، ایڈیشن۱۹۸۸ء)
انسان کی پیدائش میں دو قسم کے حُسن ہیں۔ ایک حُسن معاملہ اور وہ یہ کہ انسان خداتعالیٰ کی تمام امانتوں اور عہد کے ادا کرنے میں یہ رعایت رکھے کہ کوئی امرحتّی الوسع ان کے متعلق فوت نہ ہو۔ جیساکہ خداتعالیٰ کے کلام میں رَاعُوْنکا لفظ اسی طرف اشارہ کرتاہے۔ ایسا ہی لازم ہے کہ انسان مخلوق کی امانتوں اور عہد کی نسبت بھی یہی لحاظ رکھے یعنی حقوق اللہ اور حقوقِ عباد میں تقویٰ سے کام لے۔ یہ حُسن معاملہ ہے یا یوں کہو کہ روحانی خوبصورتی ہے۔
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ۲۱۸)
خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے چنانچہ لِبَاسُ التَّقْوٰی قرآن شریف کا لفظ ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی اُن کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تابمقدور کاربند ہو جائے۔
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۱۰)