اطلاعات و اعلانات
نوٹ: اعلانات صدر؍ امیر صاحب حلقہ؍جماعت کی تصدیق کے ساتھ آنا ضروری ہیں
کنور ادریس صاحب سابق فیڈرل سیکرٹری اور سابق صوبائی وزیر وفات پا گئے
چودھری خالد باجوہ صاحب تحریر کرتے ہیں : نہایت رنج اور الم کے ساتھ اعلان کیا جاتا ہے کہ جناب کنور ادریس صاحب سابق فیڈرل سیکرٹری اور سابق صوبائی وزیر وفات پا گئے ہیں ۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔
مرحوم کی ولادت چودھری عزیز احمد باجوہ صاحب پسر حضرت چودھری محمد حسین صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ اور عظیمہ بیگم صاحبہ کے ہاں ۵؍نومبر۱۹۳۳ء کو نصف شب ہوئی ۔ آپ نے میٹرک کا امتحان دینے کے بعد اپنی دادی سردار بیگم صاحبہؓ کے ساتھ ۱۹۵۱ء میں حج کی سعادت حاصل کی۔مرحوم نے MAکرنے کے بعد دو سال تعلیم الاسلام کالج میں تدریسی خدمات انجام دیں اور پھر مقابلہ کا امتحان پاس کر کے ۱۹۵۹ء میں سول سروس میں شمولیت اختیار کی ۔ اور اپنی ۳۵؍سالہ طویل ملازمت میں ، مرکزی اور صوبائی حکومت میں مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے ۔
آپ ایک نہایت ایماندار اور فرض شناس افسر کے طور پر جانے جاتے تھے ۔ ان کی ایمانداری کا برملا اور بےساختہ اظہار ایک دفعہ ٹی وی کے ایک پروگرام میں ، جناب تسنیم نورانی صاحب ( سابق سیکرٹری داخلہ ) نے اس طرح کیا کہ میزبان کے اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان کی بیورو کریسی میں کسی ایک ایماندار افسر کا نام بتا دیں ، تو انہوں جواب دیا ’’ کنور ادریس‘‘۔
کرنل یسیر باجوہ ( جناب کنور ادریس کے چچا زاد بھائی ) بیان کرتے ہیں کہ کنور ادریس صاحب نے بتایا کہ جب میں نے سول سروس میں شمولیت اختیار کی تو ابا ( چودھری عزیز احمد ) نے مجھے کہا کہ اگر کوئی مجھے یہ کہے کہ کنور ادریس فوت ہو گیا ہے تو مجھے کوئی افسوس نہیں ہو گا لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ کنور ادریس نے رشوت لی تو مجھے بہت دکھ اور افسوس ہو گا ۔
جب آپ عبوری حکومت میں وزیر بنے تو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے آپ کو ایک خط لکھا جس کے شروع میں’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ‘لکھا ہوا تھا۔کسی اخبار نویس نے آپ کا انٹرویو کیا اور اس خط کا عکس اخبار میں چھاپ دیا ۔ اس پر ایک مولوی نے آپ پر سانگھڑ میں پرچہ درج کروا دیا ، وہ کیس آپ نے سات سال بھگتا ۔
کنور ادریس صاحب قرآن کے معیار ایتاء ذی القربیٰ کی مثال تو تھے ہی، اپنے بہن بھائیوں اور عزیزوں کا آخر وقت تک بہت خیال رکھا ۔ لیکن اس سے بڑھ کر سنت رسول ﷺ پریعنی اپنے مخالفوں کے ساتھ بھی صلہ رحمی کا سلوک کیا کرتے تھے جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ختم نبوت کے کیس کے مدعی مولوی کی جانب سے کیس ختم ہونے کے بعد مالی مدد کی درخواست قبول کر کے ایک خطیر رقم سے اس کی مدد کی ۔
بہت سے ضرورت مند طلبہ، بیواؤںاور مساکین کے وظائف لگا رکھے تھے۔ اکثر اپنے دادا کے قبول اسلام احمدیت کا واقعہ سناتے ہوئے رونے لگتے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد مستقل طور پر کراچی میں رہائش اختیار کر لی تھی ۔ اور نجی سیکٹر میں کئی اہم کاروباری اداروں کی سربراہی کی خدمات انجام دیں ۔ آپ بہت لمبا عرصہ DAWN اخبار میں ہفتہ وار کالم بھی لکھتے رہے ۔ حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی سوانح حیات ’’تحدیث نعمت ‘‘ کا بھی انگریزی زبان میں ترجمہ کیا ۔ جس میں ان کی اہلیہ ڈاکٹر خالدہ ادریس صاحبہ بنت چودھری غلام اللہ باجوہ صاحب نے بھی ان کی مدد کی ۔
مرحوم کے سوگوار وارثان میں اہلیہ ، دو بیٹے ( ڈاکٹر سلمان ادریس اور محمد حسان ) اور دو بیٹیاں (سارہ چودھری اور عادلہ حسن ) ہیں۔ اور ان کے علاوہ ان کے دو بھائی منصور کرشن باجوہ صاحب، راس طارق باجوہ صاحب اور ایک بہن نیل المرام ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین