خلیفۂ وقت کی مجلس میں بیٹھنے والوں کے لیے چند ضروری آداب (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۱؍ اپریل۱۹۳۳ء) (قسط اوّل)
۱۹۳۳ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ میں حضورؓ نے خلیفہ وقت کی مجلس کے آداب کا ذکر فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)
تشہد،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
چونکہ ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے روز بروز بڑھ رہی ہے اور نئے اور پرانے ہر قسم کے دوست قادیان میں آتے رہتے ہیں، یہاں کے باشندوں کی تعداد بھی اب اتنی ہو چکی ہے کہ وہ اس بات کے محتاج ہیں کہ وقتاً فوقتاً ان کی تربیت کا خیال رکھا جائے۔ کیونکہ انہیں دینی کتب کے پڑھنے، دینی باتیں سننے اور دینی تربیت حاصل کرنے کا بوجہ کثرت آبادی اتنا موقع نہیں ملتا جتنا پہلے ملا کرتا تھا، اس لیے آج کا خطبہ مَیں اس امر کے متعلق پڑھنا چاہتا ہوں کہ جو دوست اُس مجلس میں شامل ہوتے ہیں جس میں مَیں موجود ہوتا ہوں، ان کو کیا طریق عمل اختیار کرنا چاہیے۔ پہلی بات جو ہمارے دوستوں کو مد نظر رکھنی چاہیے یہ ہے کہ مجھ سے ملنے والے نہ صرف احمدی ہوتے ہیں بلکہ غیر احمدی، ہندو، سکھ اور عیسائی ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ پھر احمدیوں میں سے نئے بھی ہوتے ہیں اور پرانے بھی۔ سمجھدار طبقہ کے بھی ہوتے ہیں اور کم سمجھ کے بھی۔ واقف بھی ہوتے ہیں اور ناواقف بھی۔ ایسے لوگوں کی گفتگوئیں کبھی علمی رنگ کی ہوتی ہیں اور کبھی کج بحثی والی، کبھی ان میں تحقیقِ حق مد نظر ہوتی ہے اور کبھی محض چھیڑ خوانی مقصد ہوتا ہے۔ مگر خواہ کوئی بھی مقصد و مدعا ہو، دو باتیں ہیں جو ہماری جماعت کے ان لوگوں کو جو اس مجلس میں موجود ہوں مد نظر رکھنی چاہئیں۔ اور جو مجھے افسوس ہے کہ بعض اوقات دوستوں کے مد نظر نہیں رہتیں۔
اول تو یہ کہ جب کوئی کلام امام کی موجودگی میں کرتا ہے اور امام کو مخاطب کر کے کرتا ہے تو دوسروں کا حق نہیں ہوتا کہ وہ خود اس میں دخل دیں اور مخاطب کو خود اپنی طرف مخاطب کر کے اس سے گفتگو شروع کردیں۔
علاوہ اس کے کہ یہ عام آداب کے خلاف ہے، دشمن کو یہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ امام خود جواب نہیں دے سکتا اور اس کے معتقدین کو ضرورت پیش آتی ہے کہ اس کے حملہ کو اپنے اوپر لے لیں۔ چنانچہ ایک دوست کی ایسی ہی سادگی کی وجہ سے ایک دفعہ مجھے یہ بات بھی سننی پڑی۔ کوئی صاحب اعتراض کر رہے تھے کہ ایک جوشیلے احمدی بول اُٹھے یہ بات تو بالکل صاف ہے، اس کا تو یہ مطلب ہے۔ آخر سوال کرنے والے نے چڑ کر کہا میں تو آپ کے امام سے مخاطب ہوں۔ اگر وہ جواب نہیں دے سکتے تو میں آپ سے گفتگو شروع کر دیتا ہوں۔ یہ فقرہ اُس دوست نے اپنی سادگی یا بیوقوفی کی وجہ کہلوایا۔ کیونکہ عام آداب کے یہ خلاف ہے کہ کسی کی گفتگو میں دخل دیا جائے۔ یہ محض اعصابی کمزوری کی علامت ہوتی ہے۔ اور اس کے اتنے ہی معنے ہوتے ہیں کہ ایسا شخص اپنے جذبات کو دبا نہیں سکتا۔ ایسی دخل اندازی اس کے علم پر دلالت نہیں کرتی بلکہ اس کی کمزوری اور کم فہمی پر دلالت کرتی ہے۔ پس ہمیشہ اس امر کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ جب امام کی مجلس میں امام سے گفتگو ہو رہی ہو تو سب کو خاموش ہو کر سامع کی حیثیت اختیار کرنی چاہیے۔ اور کبھی اس میں دخل اندازی کر کے خود حصہ نہیں لینا چاہیے سوائے اس صورت کے کہ خود امام کی طرف سے کسی کو کلام کرنے کی ہدایت کی جائے۔ مثلاً بعض دفعہ کوئی ضروری کام آپڑتا ہے، اس کے لیے مخاطب کرنا پڑتا ہے یا بعض دفعہ قرآن کی کسی آیت کی تلاش کے لیے اگر کوئی حافظِ قرآن ہوں تو ان سے آیت کا حوالہ پوچھنا پڑتا ہے۔ یا ہو سکتا ہے کہ کسی کو عیسائیت کی کتب کے حوالہ جات بہت سے یاد ہوں اور ضرورت پر اس سے کلام کرنی پڑے۔ ایسی حالتوں میں سامعین میں سے بھی بعض شخص بول سکتے ہیں مگر عام حالات میں دخل اندازی بالکل ناواجب ہوتی ہے۔ ہماری شریعت نے ان تمام باتوں کا لحاظ رکھا ہے چنانچہ خطبوں کے متعلق بھی رسول کریم صلى الله عليہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے کہ اس دوران کلام نہیں کرنی چاہیے۔(بخاری کتاب الجمعۃ باب الانصات یوم الجمعۃ و الامام یخطب۔ ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوٰۃ باب ماجاء فی الاستماع للخطبۃ و الانصات)
غرض جب امام سے گفتگو ہو رہی ہو تو اس میں دخل نہیں دینا چاہیے کیونکہ اس طرح یا تو بات ناقص اور ادھوری رہ جائے گی اور یا دشمن پر یہ اثر پڑے گا کہ شاید امام اس کا جواب نہیں دے سکتا اور معتقدین نے گھبرا کر اس حملہ کو اپنی طرف منتقل کر لیا ہے پس ایک تو اس امر کا لحاظ رکھنا چاہیے۔
دوسرے اس امر کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ مخاطِب اور مخاطَب کا ایک تعلق ہوتا ہے۔وہ آپس میں بعض دفعہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے ایک رنگ کی شدت کا پہلو بھی اختیار کرلیتے ہیں یا اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایسے موقع پر سامعین کو اپنے جذبات پر قابو رکھنا چاہیے اور دوسرے کی گفتگو پر ہنسنا نہیں چاہیے۔
کیونکہ گفتگو کا اصل مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ اس شخص کو ہدایت حاصل ہو۔ لیکن اگر گفتگو کے ضمن میں ایسا رنگ پیدا ہو جائے جس سے اس کے دل میں تعصب پیدا ہو جانے کا خطرہ ہو تو وہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔
میں نے دیکھا ہے نوجوان اور خصوصاً طالب علم، اگر بعض دفعہ کوئی ایسا جواب دیا جارہا ہو جو دوسرے کے کسی نقص کو نمایاں کرنے والا ہو، تو ہنس پڑتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سائل سمجھتا ہے مجھے لوگوں کی نگاہ میں بیوقوف بنایا گیا۔ اور اُن کے ہنس پڑنے سے وہ خیال کرتا ہے کہ اس گفتگو کا مقصد مجھ پر ہنسی اُڑانا ہے، بات سمجھانا مد نظر نہیں۔ اس وجہ سے اس کے اندر نفسانیت کا جذبہ پیدا ہو جاتا اور حق کے قبول کرنے سے وہ محروم رہ جاتا ہے۔ پس جو لوگ ایسے موقع پر جبکہ امام کسی کو ہدایت دینے کی فکر میں ہوتا ہے، ہنس پڑتے ہیں وہ دراصل اس شخص کو ہدایت سے محروم کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہنسی ایک معمولی چیز ہوتی ہے مگر جس پر ہنسی اُڑائی جاتی ہے، اس کے نزدیک خطرناک حملہ ہوتا ہے۔ پس دوستوں کو چاہیے کہ اگر دورانِ گفتگو میں کوئی ایسا جواب دیا جائے جس سے ہنسی آسکتی ہو یا دوسرےکی کسی کمی کو نمایاں کر کے دکھایا جائے تو وہ اپنے جذبات کو دبائے رکھیں۔ جواب دینے والا تو مجبور ہے کہ وہ ایسے نمایاں طور پر کسی کا نقص بیان کرے کہ اُسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے مگر ہنسنے والا اس مقصد پر پردہ ڈال دیتا اور سائل یہ سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ان کا مقصد مجھے غلطی بتانا نہیں بلکہ بیوقوف بنانا ہے۔ رسول کریم صلى الله علیہ وسلم کے صحابہ کے متعلق ایک حدیث آتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ رسول کریم صلى الله علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھتے تو یوں معلوم ہوتا کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔(بخاری کتاب الجہاد باب فضل النفقۃ فی سبیل اللّٰہ) اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ سوالات نہیں کرتے تھے۔ ان سے زیادہ سوال کرنے والا ہمیں کوئی نظر نہیں آتا۔ حدیثیں ان کے سوالات سے بھری پڑی ہیں۔ بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کلام کر رہے ہوتے تو وہ ہمہ تن گوش ہو جاتے۔ اور یوں معلوم ہوتا کہ گویا ان کے سروں پرپرندے بیٹھے ہیں اگر انہوں نے ذرا حرکت کی تو پرندے اڑ جائیں گے۔
تیسری چیز جس کو مد نظر رکھنا ضروری ہے یہ ہے کہ جو لوگ چند دنوں کے لیے عارضی طور پر باہر سے یہاں آتے ہیں ان کو آگے بیٹھنے کا زیادہ موقع دینا چاہیے۔
میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ قادیان کے لوگ آگے نہ بیٹھا کریں بلکہ ان کے ایک حصہ کا آگے بیٹھنا ضروری ہوتا ہے۔ اور دوسرے حصہ میں سے اگر کوئی شخص کوشش کر کے آگے بیٹھتا اور اس طرح اپنے حق کو مقدم کرلیتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اسے اس حق سے محروم کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں اگر کسی کو متواتر آگے بیٹھنے کا موقع ملتا رہے تو آخر میں وہ سست ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص متواتر آگے بیٹھنے کے باوجود سُست نہیں ہوتا اور وہ ہمیشہ کوشش کر کے آگے جگہ حاصل کرتا ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ محض اس وجہ سے کہ وہ ہمیشہ آگے بیٹھا کرتا ہے، اُس کی محبت کو مسل دیا جائے اور اس کے جذبۂ اخلاص کی قدر نہ کی جائے۔ پس ہم ایسے لوگوں کی محبت کی قدر کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ رسول کریم صلى الله علیہ وسلم کے زمانہ کا واقعہ ہے غرباء آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یارسول اللہؐ ! ہمیں ایک بڑی مشکل نظر آتی ہی ہے۔ جب ہم جہاد کے لیے جاتے ہیں تو امراء بھی جہاد کے لیے چل پڑتے ہیں۔ جب روزوں کا وقت آتا ہے تو ہمارے ساتھ یہ بھی روزوں میں شریک ہو جاتے ہیں۔ جب نمازیں پڑھتے ہیں تو یہ بھی اخلاص سے نمازیں پڑھتے ہیں۔ مگر یارسول اللہؐ! جب چندہ دینے کا وقت آتا ہے تو ہم کچھ نہیں دے سکتے اور یہ ہم سے آگے نکل جاتے ہیں۔ اس وجہ سے ہمیں بڑی تکلیف ہے۔ اور ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ مال کی وجہ سے انہیں جو فوقیت حاصل ہے، اس کا ہم کیا جواب دیں؟ رسول کریم صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا اس کا جواب یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس دفعہ سُبْحَانَ اللّٰهِ،اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اور چونتیس دفعہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ پڑھ لیا کرو۔ یہ سو دفعہ ذکر الٰہی ہو جائے گا اور بڑے ثواب کا موجب ہوگا۔ انہوں نے بڑے شوق سے اس پر عمل شروع کر دیا۔ مگر چونکہ صحابہ میں سے ہر شخص نیکی کے حصول کے لیے کوشاں رہتا تھا۔ امراء کا کوئی ایجنٹ بھی وہاں موجود تھا۔ اس نے انہیں جاکر بتادیا کہ رسول کریم صلى الله علیہ وسلم نے یہ ذکر بتایا ہے اور انہوں نے بھی پڑھنا شروع کر دیا۔ کچھ دنوں بعد پھر غرباء رسول کریم صلى الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہؐ! یہ تو امراء نے بھی پڑھنا شروع کر دیا۔ آپؐ نے فرمایا جب خدا کسی پر اپنا فضل نازل کرنا شروع کر دے تو میں اسے کس طرح روک دوں۔(مسلم کتاب الصلوٰۃ باب استحباب الذکر بعد الصلوٰۃ وبیان صفتہٖ)باوجود اس کے کہ دولت انسان کو اعمال میں سست کردیتی ہے اگر وہ سست نہیں ہوتے، بلکہ تقویٰ اور اخلاص میں بڑھ رہے ہیں تو میں انہیں نیکی سے کس طرح محروم کر سکتا ہوں۔ اسی طرح باوجود اس کے کہ متواتر صحبت انسان کو سست کردیتی ہے اگر کوئی شخص اپنے اخلاص میں ترقی ہی کرتا چلا جاتا ہے تو کون ایسے شخص کو محروم کر سکتا ہے۔
پس میرا یہ منشاء نہیں کہ قادیان کے وہ مخلصین جو اپنے اوقات اور کاموں کا حرج کر کے اس مسجد میں نماز پڑھنے آتے ہیں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے برکات کے وعدے کئے ہیں اور پھر اپنے امام کی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں، انہیں محروم کر دیا جائے۔ بلکہ میرا منشاء صرف یہ ہے کہ باہر سے آنے والوں کے حق کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ اور اگر کبھی قادیان کے مخلصین باری باری اپنا حق بھی چھوڑ کر باہر کے لوگوں کو آگے بیٹھنے کا موقع دے دیا کریں تو میرے نزدیک یہ ان کے لیے ثواب کا موجب ہوگا۔ پھر ایک اور چیز بھی ہے جس سے یہ موقع نکالا جاسکتا ہے۔ بچوں کے متعلق رسول کریم صلى الله علیہ وسلم کا یہ حکم ہے کہ وہ پیچھے رہیں۔(ابو داؤد کتاب الصلوٰۃ باب مقام الصبیان من الصف)
اس لحاظ سے سکولوں کے طالب علم جو چھوٹی عمر کے ہوں۔ اگر بعض دفعہ باہر سے آنے والے دوستوں کے لیے ان کو پیچھے بٹھا کر موقع نکالا جائے تو یہ بھی ایک طریق ہے جس سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔ مگر بچوں کے پیچھے بٹھانے کا بھی مَیں یہ مطلب نہیں سمجھتا کہ ان کے اندر اخلاص کا جو جذبہ پیدا ہو رہا ہے اسے کچل دیا جائے۔ پچھلے دنوں یہ طریق نکالا گیا تھا کہ میرے آنے پر چونکہ ہجوم زیادہ ہو جاتا ہے، اس لیے قطار باندھ کر مصافحہ کیا جائے اور کسی کو آگے بڑھنے نہ دیا جائے۔ میں نے مستقل طور پر اسے کبھی پسند نہیں کیا کیونکہ جب جذبات کو دبادیا جائے تو آہستہ آہستہ مُردنی پیدا ہو جاتی ہے۔ بچوں میں بھی اگر خلوص کے جذبات پیدا ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم انہیں دبادیں۔ مگر یہ ایک ذریعہ ہے جس سے ہم دوسروں کے لیے موقع پیدا کر سکتے ہیں۔ بچے اور رنگ میں بھی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں اور بوجہ قادیان میں مستقل رہنے کے ان کے لیے اور مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ پس اگر باہر سے آنے والے لوگوں کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے ماتحت بچوں کو پیچھے رکھا جائے۔ جبکہ اور موقعوں پر بھی وہ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں تو اِس سے ان کے جذبات کو ٹھیس لگنے کا احتمال نہیں ہو سکتا۔ (باقی آئندہ)