خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 26؍ اپریل 2024ء
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ سے فرمایا: اے ابنِ خطاب! آئندہ کبھی قریش ہمارے ساتھ ایسا معاملہ نہیں کر پائیں گے یہاں تک کہ ہم حجر اسود کو بوسہ دیں گے
غزوۂ حمراء الاسد کے حوالے سے آنحضورﷺ کی پاکیزہ سیرتِ مبارکہ اورصحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عشق و وفا اور قربانیوں کا ایمان افروز تذکرہ
دنیا کے حالات کے لیے دعاؤں کی تحریک
اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھے
آسٹریلیا میں اپنے فرائضِ منصبی سرانجام دیتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرنے والے فراز احمد طاہر شہید کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
ان کی یہ قربانی ظاہر کرتی ہے کہ وہ پاکستان سے موت کے ڈر سے نہیں آئے تھے بلکہ جو مذہبی پابندیاں احمدیوں پر لگائی جاتی ہیں ان سے تنگ آ کر ملک چھوڑا تھا، جہاں انہیں اللہ اور اس کے رسولؐ کا نام لینے سے روکا جاتا ہے
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 26؍ اپریل2024ء بمطابق 26؍ شہادت 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
غزوۂ حمراء الاسد
کا سبب اور اس کا پس منظر گذشتہ خطبہ میں بیان ہوا تھا۔ بہرحال جب دشمن کے اُحد کی جنگ کے بعد راستہ سے پلٹ کر مدینہ پر حملہ کرنے کی سازش کا علم ہوا تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو بلایا اور ان کو اس مُزَنِیصحابی کی بات بتائی جنہوں نے یہ اطلاع دی تھی۔ تو ان دونوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! دشمن کی طرف چلیں تاکہ وہ ہمارے بچوں پر حملہ آور نہ ہوں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بلوایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ سے فرمایا کہ وہ اعلان کریں کہ رسول اللہ تمہیں حکم دے رہے ہیں کہ دشمن کے لیے نکلو اور ہمارے ساتھ وہی نکلے جو گذشتہ روز لڑائی میں شامل تھا یعنی اُحد کی لڑائی میں جو لوگ شامل تھے صرف وہی ساتھ جائیں گے۔
اسلامی پرچم اور پھر مدینہ کی قائمقامی کے بارے میں
لکھا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا جھنڈا منگوایا جو کہ گذشتہ روز سے ہی بندھا ہوا تھا، اس کو ابھی تک کھولا نہیں گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جھنڈا حضرت علیؓ کو دے دیا اور ایک جگہ یہ بھی بیان ہوا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کو دیا تھا۔ اس موقع پر
حضرت ابن ام مکتومؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا تھا۔
(سبل الہدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ308، 309 دارالکتب العلمیة بیروت)
سیرت نگار لکھتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن کے تعاقب میں نکلنے کا فیصلہ انتہائی دانشمندانہ تھا۔ تفصیل میں بیان ہوا ہے کہ منافقین کے نزدیک جنگِ اُحد میں ستّر افراد کے جانی نقصان کے بعد اگلے ہی روز دشمن کے تعاقب میں بِنا زائد افرادی قوت کے جانا انتہائی خطرناک تھا مگر بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ انتہائی دانشمندانہ تھا جس سے مسلمانوں کو بےشمار فوائد حاصل ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری رات جنگ سے پیدا شدہ صورتحال پر غور کرتے گزاری۔ آپؐ کو اندیشہ تھا کہ اگر اُحد سے واپس مکہ جانے والے مشرکین نے سوچا کہ میدانِ جنگ میں اپنا پلہ بھاری ہوتے ہوئے بھی ہم نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تو یقیناً انہیں ندامت محسوس ہو گی اور وہ راستے سے پلٹ کر مدینہ پر دوبارہ حملہ کریں گے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین جنگی حکمتِ عملی اپناتے ہوئے دشمن کے تعاقب کا فیصلہ فرمایا۔ اس فیصلے نے مجاہدین کے حوصلوں کو مزید بلندیوں تک پہنچا دیا اور منافقین کے دل پر حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی قوتِ ارادی اور قوتِ یقین کی ہیبت طاری کر دی۔ تیسری طرف جب دشمن کو خبر ملی کہ اسلامی لشکر ان کے تعاقب میں ہے تو ان کے حوصلوں کے ٹمٹماتے چراغ بجھنے لگے۔ (غزوات و سرایا از علامہ محمد اظہر فرید صفحہ 215 فریدیہ پبلشرز ساہیوال)یہ ایک سیرت کی کتاب کا نوٹ ہے۔
رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبَیّنے بھی ساتھ جانے کی اجازت مانگی اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اس غزوہ میں شامل ہونے کی درخواست کرنے لگا حالانکہ غزوۂ اُحد میں نہ صرف یہ خود واپس گیا تھابلکہ اپنے ہمراہ تین سو ساتھی بھی لے کر پلٹ گیا تھا۔ ایسی حرکت پر یقیناً وہ شرمندہ بھی ہو گا اور شاید اس ندامت کا داغ مٹانے کے لیے، یا خدا معلوم کسی اَور سازش کے تحت کیونکہ منافقین کا تو پتہ کچھ نہیں ہوتا، یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے کی اجازت طلب کی تو آپؐ نے اسے ساتھ جانے سے منع فرما دیا۔ (دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺجلد7 صفحہ121 مطبوعہ بزم اقبال لاہور)انہوں نے کہا نہیں۔
اُحد کے زخمی صحابہؓ میں سے بعضوں کو جنگ میں کاری زخم لگے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی بجا آوری کا کیا نمونہ دکھایا اس بارے میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اعلان تھا کہ سنتے ہی عشق و وفا کے یہ مخلص جاںنثار اپنے زخموں کو سنبھالتے ہوئے، اپنے اسلحوں کو لیے ہوئے ایک بار پھر نکل پڑے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان فرمایا تو فوری طور پر وہ نکل پڑے۔ حضرت اُسَید بن حُضَیرؓ کو نو زخم لگے ہوئے تھے انہوں نے ابھی دوا لگانے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ ان کے کانوں میں یہ آواز پڑی تو اپنے زخموں پر دوائی لگانے کے لیے بھی نہیں رکے اور چل پڑے۔ بنو سلمہ سے چالیس زخمی نکلے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایسی حالت میں بھی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے دیکھ کر ان کے لیے دعائے مغفرت کی اور فرمایا
اَللّٰھُمَّ ارْحَمْ بَنِی سَلَمَہ۔ اے اللہ! بنو سلمہ پر رحم فرما۔
طُفَیل بن نُعمانؓ کو تیرہ زخم لگے تھے۔ خِرَاش بن صِمَّہؓ کو دس زخم لگے تھے۔ کعب بن مالکؓ کو دس سے زائد زخم اور قُطْبَہبن عَامِرؓ کو نو زخم لگے تھے لیکن اس کے باوجود مسلمان اپنے ہتھیاروں کی طرف دوڑے اور اپنے زخموں پر مرہم لگانے کے لیے نہیں ٹھہرے۔ خدا تعالیٰ نے اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی جذبۂ بے مثل کو اپنے کلام میں مرقوم فرما دیا تا کہ رہتی دنیا تک کے لیے ان پر عقیدتوں کے پھول نچھاور ہوتے رہیں۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اَلَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَصَابَہُمُ الۡقَرۡحُ لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا مِنۡہُمۡ وَاتَّقَوۡا اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ (آل عمران : 173)
(سبل الہدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ308 دارالکتب العلمیة بیروت)
(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد7صفحہ122مطبوعہ بزم اقبال لاہور)
وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور رسول کو لبیک کہا بعد اس کے کہ انہیں زخم پہنچ چکے تھے ان میں سے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے احسان کیا اور تقویٰ اختیار کیا بہت بڑا اجر ہے۔
حضرت عائشہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ اس کے ایک مصداق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہیں۔
(السیرة الحلبیہ جلد دوم صفحہ350 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت جابر بن عبداللہؓ کو ساتھ جانے کی اجازت کے بارے میں
ذکر ملتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ اس مہم میں صرف وہی ساتھ جائیں گے جو جنگِ اُحد میں شامل ہوئے تھے اور اسی پر سختی سے عمل بھی ہوا۔ لیکن ایک خوش بخت مخلص صحابی ایسے تھے کہ جو جنگِ اُحد میں شامل نہیں ہوئے لیکن اب ان کو ساتھ جانے کی اجازت مرحمت ہوئی تھی اور وہ حضرت جابر بن عبداللہؓ تھے۔ ابنِ اسحاقؒ اور ابنِ عمرؓ نے بیان کیا ہے کہ جابر بن عبداللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپؐ کے منادی نے یہ اعلان کیا ہے کہ ہمارے ساتھ وہی نکلے جو گذشتہ روز لڑائی یعنی جنگِ اُحد میں موجود تھا اور مَیں لڑائی میں حاضر ہونے کا خواہش مند تھا لیکن میرے والد نے مجھے میری سات بہنوں کے لیے پیچھے چھوڑ دیا اور ایک قول کے مطابق ان کی بہنوں کی تعداد نو تھی۔ بہرحال کہتے ہیں میرے والد نے کہا کہ اے میرے بیٹے! میرے اور تیرے لیے مناسب نہیں ہے کہ ہم ان عورتوں کو بغیر کسی مرد کے چھوڑ دیں۔ مجھے ان کا ڈر ہے یہ کمزور عورتیں ہیں۔ اور مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں تجھے خود پر ترجیح نہیں دے سکتا۔ یہ بھی ہے کہ ہم عورتوں کو بھی پیچھے اکیلا نہیں چھوڑ سکتے اور جہاد میں مَیں خود بھی جانا چاہتا ہوں اور میری خواہش یہی ہے کہ مَیں جاؤں اور تم نہ جاؤ تو تُو اپنی بہنوں کے پاس پیچھے رہ جا اور مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد پہ جاتا ہوں۔کہتے ہیں کہ اس لیے مَیں اپنے باپ کے اس حکم کی تعمیل میں کل جہاد میں شامل نہیں ہو سکا وگرنہ میرا بھی پورا ارادہ تھا۔ چنانچہ
حضرت جابرؓ کی عشق و محبت میں ڈوبی ہوئی یہ بات سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ساتھ جانے کی اجازت مرحمت فرمائی
اور اس پر حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فخریہ طور پر بیان کیا کرتے تھے کہ میرے علاوہ آپؐ کے ساتھ کوئی ایسا آدمی نہیں گیا جو گذشتہ روز کے جہاد میں شریک نہ ہوا ہو اور آپؐ سے کئی لوگوں نے ساتھ جانے کی اجازت طلب کی تھی جو گذشتہ روز جہاد میں شریک نہیں ہوئے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حالت میں روانہ ہوئے کہ چہرۂ مبارک مجروح تھا۔ پیشانی مبارک زخمی تھی۔ دندان مبارک ٹوٹا ہوا تھا۔ نیچے کا ہونٹ اور بعض روایات کے مطابق دونوں ہونٹ اندر کی جانب سے زخمی تھے۔ داہنا کندھا ابن قمئہ کی تلوار کی ضرب سے زخمی تھا اور دونوں گھٹنے بھی زخمی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے مسجد میں تشریف لے گئے۔ وہاں دو رکعتیں ادا کیں۔ لوگ جمع ہو چکے تھے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا گھوڑا سکب مسجد کے دروازے پر منگوایا۔ اس غزوہ میں صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی گھوڑا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زرہ اور خَود پہن رکھا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف آنکھیں ہی نظر آ رہی تھیں۔ اسی دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا۔ طلحہ !تمہارے ہتھیار کہاں ہیں؟ حضرت طلحہؓ نے عرض کیا کہ قریب ہی ہیں۔ یہ کہہ کر وہ جلدی سے گئے اور اپنے ہتھیار اٹھا لائے حالانکہ اس وقت طلحہ کے صرف سینے پر ہی اُحد کی جنگ کے نو زخم تھے۔ ان کے جسم پر کل ملا کر ستّر سے اوپر زخم تھے۔
حضرت طلحہؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں اپنے زخموں کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں کے متعلق زیادہ فکرمند تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور پوچھنے لگے کہ تم دشمن کو کہاں دیکھتے ہو؟ یعنی تمہارا کیا اندازہ ہے کہ ابوسفیان اور اس کا لشکر کس جگہ پر ہو گا۔ مَیں نے عرض کیا کہ نشیبی علاقے میں۔ آپؐ نے فرمایا یہی میرا خیال بھی ہے۔ پھر
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہاں تک ان کا یعنی قریش کا تعلق ہے ان کو ہمارے ساتھ آئندہ کبھی اس طرح کا معاملہ کرنے کا موقع نہیں مل سکتا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ مکہ کو ہمارے ہاتھوں سے فتح کر دے گا۔
ایک روایت کے مطابق
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ سے فرمایا: اے ابنِ خطاب! آئندہ کبھی قریش ہمارے ساتھ ایسا معاملہ نہیں کر پائیں گے یہاں تک کہ ہم حجر اسود کو بوسہ دیں گے۔
ثابت بن ثَعْلَبَہ خَزْرَجِی حَمراءُ الاسد تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو راستے کی راہنمائی کرنے والے تھے۔ ایک روایت کے مطابق ثابت بن ضَحَّاک راہنمائی کرنے والے تھے۔( سبل الہدیٰ والرشاد جلد4صفحہ 308-309 دارالکتب العلمیۃ بیروت)(السیرۃ الحلبیۃ جلد 2صفحہ 350-351 دارالکتب العلمیۃ بیروت) یہ دو روایتیں ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر دو اصحاب کو آگے روانہ فرمایا تا کہ خبر لیں۔
یہ تفصیل اس طرح ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ اسلَم کی ایک شاخ بنوسَھْممیںسے سفیان کے دو بیٹوں سَلِیط اور نعمان کو لوگوں کی اطلاع لینے کے لیے آگے بھیجا اور تیسرا شخص قبیلہ اسلم کی ایک شاخ بنو عُوَیْرمیں سے ان کے ساتھ بھیجا۔ اس کا نام نہیں بیان ہوا۔ ان میں سے دو حمراء الاسدکے مقام پر قریش کو جا ملے۔ قریش باتیں کر رہے تھے۔ قریش نے ان دونوں افراد کو دیکھ لیا تو انہیں قتل کر دیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ روانہ ہوئے اور حمراء الاسدمیں پہنچ کر لشکر کا پڑاؤ کیا تو ان کی لاشیں وہیں پڑی ہوئی تھیں، ان دونوں اصحاب کو ایک قبر میں دفن کیا۔ وہ دونوں ساتھی تھے۔
اس غزوہ میں
دو انصاری بھائیوں کی اطاعت کا نمونہ
بھی نظر آتا ہے کہ کس طرح انہوں نے زخمی حالت میں پیدل سفر کیا۔ تفصیل میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن سَہْلؓ اور حضرت رافع بن سَہْلؓ دونوں بھائی جو قبیلہ بنو عَبْدُالْاَشْھَلْمیں سے تھے جب وہ دونوں غزوۂ اُحد سے واپس آئے تو وہ شدید زخمی تھے۔ جنگ میں زخمی ہو گئے اور حضرت عبداللہؓ زیادہ زخمی تھے۔ جب ان دونوں بھائیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حمراء الاسدکی طرف جانے اور اس میں شمولیت کی بابت آپؐ کے حکم کے بارے میں سنا تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا، بخدا! اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ میں شرکت نہ کر سکے تو یہ ایک بڑی محرومی ہو گی۔ یہ تھا ان کا ایمان۔ پھر کہنے لگے بخدا! ہمارے پاس کوئی سواری بھی نہیں ہے جس پر ہم سوار ہوں اور نہ ہی ہم جانتے ہیں کہ کس طرح یہ کام کریں۔ حضرت عبداللہؓ نے کہا کہ آؤ میرے ساتھ ہم پیدل چلتے ہیں۔ حضرت رافعؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! مجھے تو زخموں کی وجہ سے چلنے کی سکت بھی نہیں ہے۔ یہ حالت تھی۔ آپؓ کے بھائی نے کہا کہ آؤ ہم آہستہ آہستہ چلتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلتے ہیں۔ چنانچہ وہ دونوں گرتے پڑتے چلنے لگے۔ حضرت رافعؓ نے کبھی کمزوری محسوس کی تو حضرت عبداللہؓ نے حضرت رافعؓ کو اپنی پیٹھ پر اٹھا لیا، کبھی وہ پیدل چلنے لگے۔ ایسی حالت تھی کہ دونوں ہی زخمی تھے لیکن جو بہتر تھے وہ زیادہ زخمی کو اپنی پیٹھ پر اٹھا لیتے تھے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلتے رہے۔ کمزوری کی وجہ سے بعض دفعہ ایسی حالت ہوتی تھی کہ وہ حرکت بھی نہیں کر سکتے تھے یہاں تک کہ عشاء کے وقت وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ صحابہ کرامؓ اس وقت آگ جلا رہے تھے۔ یعنی انہوں نے اس وقت ڈیرہ لگا لیا تھا۔ آپ دونوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اس رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہرے پر حضرت عَبَّادْ بن بِشْرؓ متعین تھے۔ جب یہ پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے پوچھا کہ کس چیز نے تمہیں روکے رکھا تھا۔ ان دونوں نے اس کا سبب بتایا کہ کیا وجہ ہو گئی۔ اپنی تفصیل بتا دی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو دعائے خیر دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم دونوں کو لمبی عمر نصیب ہوئی تو تم دیکھو گے کہ تم لوگوں کو گھوڑے اور خچر اور اونٹ بطور سواریوں کے نصیب ہوں گے۔ ابھی تو تم گرتے پڑتے پیدل آئے ہو لیکن لمبی زندگی پاؤ گے تو یہ سب کچھ دیکھو گے۔ یہ سب سواریاں تمہیں میسر آجائیں گی لیکن ساتھ یہ بھی فرمایا لیکن وہ تمہارے لیے تم دونوں کے اس سفر سے بہتر نہیں ہوں گی جو اس وقت تم کر کے آئے ہو، جو تم نے پیدل گرتے پڑتے کیا ہے۔ یعنی تمہارے اس سفر کا ثواب تو اتنا ہے کہ اس زمانے کی جو بہترین نعمتیں ہیں ان سے بھی زیادہ ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت انسؓ اور مُونِسؓ، فَضَالَہ کے بیٹوں کے ساتھ پیش آیا تھا۔ اس لیے ممکن ہے کہ یہ واقعہ دونوں کے ساتھ ہی پیش آیا ہو۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ310، غزوہ حمراء الاسد، دارالکتب العلمیۃ بیروت1993ء)
پھر ذکر آتا ہے
مسلمانوں کا زادِ راہ اور حضرت سعد بن عُبَادہؓ کی سخاوت
کا۔ اس کی تفصیل یوں بیان ہوتی ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ حمراء الاسد میں ہمارا عام زاد راہ کھجوریں تھیں، کھجوریں ہی کھایا کرتے تھے۔ حضرت سعد بن عبادہؓ تیس اونٹ کھجوریں لائے جو حمراء الاسد مقام تک ہمارے لیے وافر رہیں۔ راوی نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ اونٹ لے کر آئے تھے جو کسی دن دو یا کسی دن تین کر کے ذبح کیے جاتے تھے۔ بعض دفعہ کھجوروں کے ساتھ اونٹ کا گوشت، اونٹ بھی کھائے جاتے تھے ۔
کیا حکمت تھی؟ کیا strategyتھی آپؐ کی جنگ کی اور کس طرح آپؐ دشمن کو مرعوب کرنا چاہتے تھے۔
اس بارے میں تفصیل میں لکھا ہے کہ دشمن کے دل میں رعب ڈالنے اور اسے خوفزدہ کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ رات کے وقت کثرت سے آگ کے اَلاؤ روشن کیے جاتے تا کہ اس سے لشکر کی کثرت ظاہر ہو اور دشمن خائف ہو۔ اس لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جہاں بھی رات کو پڑاؤ فرماتے تو صحابہؓ کو ارشاد فرماتے کہ پھیل کر الگ الگ آگ جلائیں۔ چنانچہ ہر شخص ایک ایک آگ جلاتا۔ پانچ سو جگہوں پر آگ جلائی گئی یہاں تک کہ وہ دُور سے نظر آتی تھی۔ مسلمانوں کے لشکر اور اس آگ کا ذکر دُور تک پھیل گیا۔ اس کی وجہ سے اللہ نے دشمن کو مرعوب کیا۔
ایک ذکر یہ بھی آتا ہے کہ
معبد خزاعی کی اس دوران میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات
ہوئی اور پھر وہ ابوسفیان کے پاس بھی گیا اور پھرقریش کو لشکر اسلام سے اس نے ڈرایا۔ اس کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے کہ مَعْبَدبن ابو مَعْبَد خُزَاعِی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا۔ یہ ابھی تک مشرک تھا۔ بعض سیرت نگاروں نے اس موقع پر اس کے اسلام قبول کرنے کا بھی ذکر کیا ہے لیکن اکثر نے یہ کہا ہے کہ اس وقت اسلام قبول نہیں کیا تھا البتہ بعد میں یہ اسلام لے آئے تھے۔
بَنُو خُزَاعہ کے اہلِ ایمان اور مشرک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اخلاص کا اظہار کرتے تھے۔ اس کے جو دوسرے قبیلے کے لوگ تھے ان میں سے بہت سے ایمان لائے ہوئے تھے۔ اخلاص کا اظہار بھی تھا ان میں۔ ان لوگوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وعدہ تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ نہیں چھپائیں گے۔ معبد نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کو اور آپ کے صحابہ کرام کو جو تکالیف پہنچی ہیں یہ ہم پر گراں گزرا ہے۔ ہماری تو یہی خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کا مرتبہ بلند کرے اور آپ کو ہر تکلیف سے محفوظ رکھے۔ اس اظہارِہمدردی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معبد سے فرمایا کہ ابوسفیان کی حوصلہ شکنی کرو۔ تم جا رہے ہو، آگے سفر میں اس کو ملوتو اس کو ذرا ڈراؤ۔ لیکن کس طرح؟ اپنی یہ حکمت عملی انہوں نے خود بنانی تھی۔ پھر معبد وہاں سے مکہ کی طرف روانہ ہو گیا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم حمراء الاسد میں ہی تشریف فرما تھے۔ وہ رَوحاءکے مقام پر ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں سے ملا۔رَوحاءمدینہ سے تقریباً چالیس میل کی مسافت پر ایک مقام ہے۔ اس وقت لشکر قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپسی حملہ کرنے پر اتفاق کر لیا تھا اور انہوں نے کہا ہم نے ان کے بہترین اور سردار و قائد لوگوں کو قتل کیا ہے حالانکہ ایسی بھی بات نہیں تھی۔ حضرت حمزہؓ سمیت چند ایک نام ہو سکتے ہیں ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمیت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ درجنوں نامور سردار اور قائد خدا کے فضل سے جنگِ اُحد میں محفوظ اور مامون رہے تھے۔ پھر کہنے لگے کہ پھر ہم ان کی بیخ کنی سے پہلے واپس چل پڑے۔ اب ہم ان کے باقی لوگوں پر پلٹ کر انہیں ہلاک کریں گے اور ان سے فارغ ہو جائیں گے۔ جب ابوسفیان نے معبد کو دیکھا تو کہا یہ معبد ہے اس کے پاس کوئی خبر ہو گی۔ اس نے کہا معبد! پیچھے کے حالات کیسے ہیں؟ اس نے ابوسفیان کو ڈرانے کے لیے کہا کہ مَیں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھیوں کو اس حالت میں چھوڑا ہے کہ وہ اتنا لشکر جرار لے کر تمہارے تعاقب میں نکل آئے ہیں کہ مَیں نے آج تک اتنا بڑا لشکر نہیں دیکھا۔ اوس اور خزرج کے جو لوگ کل پیچھے رہ گئے تھے وہ بھی ان کے ساتھ آ ملے ہیں۔ اپنے پاس سے اس نے کہانی بھی کچھ بنا دی۔ اور انہوں نے عہد کیا ہے کہ وہ واپس نہیں جائیں گے یہاں تک کہ تمہیں پا لیں اور تم سے بدلہ لے لیں۔ وہ اپنی قوم کی وجہ سے سخت غصہ میں ہیں۔ اپنے اس فعل پر سخت نادم ہیں کہ پہلے یہ شامل نہیں ہوئے۔ ان میں تمہارے خلاف ایسا غصہ ہے کہ مَیں نے اتنا شدید غصہ کبھی نہیں دیکھا۔ ابوسفیان نے کہا تیرے لیے ہلاکت ہو، تُو کیا کہہ رہا ہے! اُس نے کہا لگتا ہے کہ تُو یہاں سے نہیں چلے گا یہاں تک کہ تُو گھوڑوں کی پیشانیاں نہ دیکھ لے۔ یہ بھی ان کا محاورہ ہے کہ ہلاکت نہ ہو جائے۔ ابوسفیان کہنے لگا بخدا ! ہم نے تو ان پر غلبہ پا کر ان کو جڑوں سے اکھیڑ دینے پر اتفاق کر لیا ہے۔ معبد نے کہا کہ مَیں پھر تجھے اس فعل سے روکتا ہوں۔ جو ہیبت ناک منظر مَیں نے دیکھا ہے اس نے مجھے اشعار کہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ابوسفیان نے کہا وہ کون سے اشعار ہیں۔ معبد نے یہ اشعار کہے۔
کَادَتْ تُھَدَّ مِنَ الْاَصْوَاتِ رَاحِلَتِی
اِذْ سَالَتِ الْاَرْضُ بِالْجُرْدِ الْاَبَابِیْلِ
تَرْدِی بِاُسْدٍ کِرامٍ لَا تَنَابِلَۃٍ
عِنْدَ اللِّقَاءِ وَلَا مِیلٍ مَعَازِیلِ
فَظَلْتُ عَدْوًا اَظُنُّ الْاَرْضَ مَائِلَۃً
لَمّا سَمَوْا بِرَئِیْسٍ غَیْرِ مَخْذُوْلِ
فَقُلْتُ وَیْلَ ابْنِ حَرْبٍ مِنْ لِقَائِکُمْ
اِذَا تَغَطْمَطَتِ الْبَطْحَاءُ بِالْجِیْلِ
اِنِّی نَذِیْرٌ لِاَھْلِ الْبَسْلِ ضَاحِیَۃً
لِکُلِّ ذِیْ اِرْبَۃٍ مِنْھُمْ وَ مَعْقُوْلِ
مِنْ جَیْشِ اَحْمَدَ لَا وَخَشٍ تَنَابِلَۃٍ
وَلَیْسَ یُوْصَفُ مَا اَنْذَرْتُ بِالْقِیْلِ
کہ جب زمین پر اعلیٰ نسل گھوڑوں کے جھنڈ در جھنڈ چلنے لگے تو ان کے سُموں کی آواز سے قریب تھا کہ میری اونٹنی گھبراہٹ سے ڈگمگانے لگے اور گر جائے۔ اب وہاں صرف ایک گھوڑا تھا لیکن اس نے بھی اپنے شعروں میں ایسا مبالغہ سے نقشہ کھینچا کہ جس نے ان لوگوں کو ڈرا دیا۔ پھر کہتے ہیں کہ وہ گھوڑے ایسے عمدہ شیر جیسے بہادر جنگجوؤں کو اٹھائے ہوئے تھے جو نہ تو کوتاہ قامت ہیں اور نہ ہی لڑائی میں نہتے اور نہ شہ سواری میں اناڑی ہیں۔ یعنی جنگ میں خوب ماہر اور تیر و تلوار سے مسلح اور میدان شہ سواری میں یکتائے زمانہ ہیں۔ اس پر مَیں خبر دینے کے لیے تیزی سے بھاگا اور مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے زمین جھکتی جا رہی ہے ان گھوڑوں کے آگے جن پر وہ عظیم الشان جرنیل بلند تھا جو تنہا نہیں یعنی لاؤ لشکر سمیت بڑھتا چلا آ رہا ہے اور مَیں نے اپنے جی میں کہا۔ اے لشکر والو! تم سے جنگ کرنے میں ابن حرب یعنی ابوسفیان کی ہلاکت ہے۔ جب میدانِ جنگ لشکر کی آواز سے گونج اٹھے گا۔ مَیں اہل قریش میں سے ہر دانا اور معقول شخص کو احمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم لشکر سے متنبہ کرتا ہوںجس کی فوج نکمے اور پست لوگوں پر مشتمل نہیں ہے۔ اس لشکر کی دہشت کو جس سے مَیں تمہیں آگاہ کر رہا ہوں الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
معبد کی اس اعصاب شکن گفتگو اور اس کے ان اشعار کے ساتھ ساتھ صفوان بن امیہ کی گفتگو سے ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کے حوصلے پست ہو گئے اور ان پر گھبراہٹ اور رعب طاری ہو گیا اور ابوسفیان کو عافیت اسی میں نظر آئی کہ وہ جس قدر جلدی ہو سکے اپنے لشکر کو لے کر مکہ واپس پہنچ جائے۔
اس بارے میں ریسرچ سیل کی طرف سے ایک نوٹ بھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معبد سے یہ فرماناکہ ابوسفیان کی حوصلہ شکنی کرو۔ سیرت کی بعض کتب نے یہ بیان کیا ہے اور بعض نے نہیں بیان کیا۔ کہتے ہیں کہ ایک امکان ہے کہ جنگی حکمت عملی کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معبد سے ایسی بات کی ہو اور یہ بھی ممکن ہے اور زیادہ قرین قیاس ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اسے کچھ نہ فرمایا لیکن وہ چونکہ مسلمانوں سے ہمدردی رکھتا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں یہ ڈالا ہو اور اس نے خود سے ابوسفیان سے یہ ساری بات کی ہو۔
بہرحال یہ تو ان کا نوٹ ہے لیکن
معبد نے جو کچھ بھی کہا یہ ان کی اپنی سوچ تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے واضح طور پر کسی قسم کی کوئی غلط بیانی کانہیں کہا تھا
لیکن جس طرح انہوں نے ڈرایا، جو نقشہ کھینچا اس سے بہرحال کافر ڈر گئے۔ اسی دوران کہ مشرکین کا لشکر مکہ واپسی کی تیاری کر رہا تھا کہ ابوسفیان کے پاس سے عبدالقیس کا ایک کارواں گزرا جس نے دراصل اسی جگہ پڑاؤ کیا ہوا تھا۔ اس نے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم مدینہ جا رہے ہیں۔ اس پر ابوسفیان نے محض پروپیگنڈے کی خاطر اپنی طرف سے ایک نفسیاتی حملہ لیکن ناکام حملہ تھا یہ کرنا چاہا اور وہ اس طرح کہ اس نے کہا کہ کیا تم میری طرف سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام دو گے۔ مَیں تمہیں عُکَّاظْکے میلے میں کشمش سے بھرے ہوئے اونٹ دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ ابوسفیان نے کہا کہ جب تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملو تو انہیں کہنا کہ ہم نے اتفاق کر لیا ہے کہ ہم ان کی طرف اور ان کے اصحاب کی طرف آ رہے ہیں تا کہ ان کے بقیہ لوگوں کو جڑ سے اکھیڑ پھینکیں۔ ہم آپؐ لوگوں کے تعاقب میں ہیں اور یہ کہہ کر ابوسفیان مکہ کی جانب چل پڑا۔ یہ کارواں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حمراء الاسد کے مقام پر ملا۔ ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں نے جو آپ کے متعلق کہا تھا عبدالقیس نے وہ آپؐ کو بتایا۔ آپؐ نے یہ سن کر فرمایا۔ حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل۔یعنی ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ کیا ہی اچھا کارساز ہے۔
(سبل الہدیٰ والرشاد، جلد 4 صفحہ 310-311 دارالکتب العلمیة بیروت)
(الرحیق المختوم صفحہ 253 مطبوعہ دار الوفاء مصر 2010ء)
(شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 264 دارالکتب العلمیة بیروت)
بہرحال حمراء الاسد میں کچھ قیام ہوا اور اس کے بعداسلامی لشکر کی واپسی بھی ہو گئی کیونکہ وہ کافر تو وہاں سے روانہ ہو گئے تھے۔ اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ
معبد خُزَاعی کی بات سن کر ابوسفیان نے مدینہ کی طرف پیش قدمی کرنے کا ارادہ ترک کردیا اور مکہ کی طرف روانہ ہو گیا
تو مَعْبَد نے ایک شخص کے ذریعہ ابوسفیان کی روانگی کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج دی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سوموار، منگل اور بدھ کے روز وہاں قیام فرمایا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لے گئے اور بلاذری نے بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سفر کے لیے مدینہ سے پانچ دن باہر رہے۔
(امتاع الاسماع،جزء 1صفحہ180-181 خبر معبد الخزاعي وانصراف المشركين۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1999ء)
(سبل الہدیٰ والرشاد، جلد 4 صفحہ 312 دارالکتب العلمیة بیروت)
ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن مدینہ واپس تشریف لائے اور پانچ دن مدینہ سے باہر رہے۔
(کتاب المغازی جلد1 صفحہ334 عالم الکتب بیروت 1984ء)
حضرت ابوعبیدہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف واپس آنے سے پہلے مُعَاوِیہ بن مُغِیرہ کو گرفتار کر رکھا تھا۔ مُعَاوِیہ بن مُغِیرہ، عَبْدُالمَلِک بن مَرْوَان کا نانا تھا۔ معاویہ کے علاوہ اَبُوعَزَّہ جُمَحِیّ کو بھی گرفتار کر رکھا تھا۔ مُعَاوِیہ بن مُغِیرہ کے بارے میں روایت ہے کہ حضرت زَید بن حَارِثہؓ اور حضرت عَمَّار بن یاسِرؓ نے معاویہ کو حمراء الاسد سے واپسی پر قتل کیا جس کی وجہ یہ تھی کہ معاویہ چھپ کر مدینہ میں رہ رہا تھا اور مدینہ کے حالات کی خبر مخالفین کو دیا کرتا تھا۔ جب پکڑا گیا تو حضرت عثمانؓ کی پناہ میں چلا گیا۔ حضرت عثمانؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے لیے امان مانگی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امان دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ تین روز کے اندر یہاں سے چلا جائے۔ اگر تین روز کے بعد دیکھا گیا تو قتل کر دیا جائے گا۔ لیکن یہ تین روز کے بعد بھی وہیں ٹھہرا رہا اور چھپا رہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں یعنی حضرت زید بن حارثہؓ اور حضرت عمار بن یاسرؓ کو فرمایا کہ تم فلاں جگہ اسے چھپا ہوا پاؤ گے۔ چنانچہ ان دونوں نے اسے وہیں پایا اور اسے قتل کر دیا۔
(السیرة النبویۃ لابن ہشام، صفحہ 548۔دار الکتب العلمیۃ2001ء)
پھر لکھا ہے کہ یہیں حَمْرَاءُالْاَسَدکے مقام پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کے شاعر ابو عَزَّہ کو گرفتار کیا تھا۔ یہ وہ ابو عَزَّہ ہے جو غزوۂ بدر کے وقت مسلمانوں کے ہاتھ گرفتار ہوا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نے اپنی غربت اور اپنی بیٹیوں کا واسطہ دیا کہ مَیں عیال دار ہوں۔ میری بیٹیوں کا کوئی سرپرست نہیں۔ مجھ پر رحم فرمائیں۔ جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بیٹیوں کی وجہ سے اس کو بغیر فدیہ لیے احسان کے طورپر چھوڑ دیا تھا اور اس سے یہ عہد لیا تھا کہ آئندہ وہ نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کو آئے گا نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لشکر اکٹھا کرے گا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کسی کو اکسائے گا مگر اس نے اپنا عہد توڑ دیا اور جنگِ اُحد میں قریش کے ساتھ واپس آیا۔ یہ لوگوں کو جوش دلاتا تھا اور اپنے شعروں کے ذریعہ انہیں بھڑکاتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ یہ شخص اس دفعہ بچ کر نہ جانے پائے۔ چنانچہ یہ پھر گرفتار ہوا۔ ایک قول کے مطابق جنگِ اُحد کے بعد جب مشرکین واپسی میں حمراء الاسد کے مقام پر ٹھہرے تو یہ ابو عَزَّہ کو سوتا ہوا چھوڑ گئے۔ یہ دن چڑھے تک غافل پڑا سوتا رہا۔ اس کو گرفتار کرنے والے شخص حضرت عاصِم بن ثابتؓ تھے۔ اس غزوہ میں یہی تنہا مشرک تھا جو گرفتار ہوا۔ ایک قول ہے کہ اس کو گرفتار کرنے والے حضرت عُمَیر بن عبداللہؓ تھے۔ گرفتاری کے بعد اَبُوعَزَّہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر اس نے کہا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )! مجھے چھوڑ دیجیے، مجھ پر احسان فرمایئے اور میری بیٹیوں کی خاطر مجھے رہا کر دیجیے۔ مَیں آپؐ کے سامنے عہد کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی اس قسم کی حرکت نہیں کروں گا۔ آپؐ نے فرمایا: نہیں۔ خدا کی قسم! اب تیرے چہرے کو مکہ دیکھنا نصیب نہ ہو گا۔ ایک روایت میں ہے کہ اب تُو اپنی اس داڑھی کے ساتھ حجرِاسود کے پاس بیٹھ کے یہ نہیں کہہ سکے گا کہ مَیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکا دے آیا۔ پھر آپؐ نے حضرت زیدؓ کی طرف متوجہ ہو کر حکم دیا کہ اس کی گردن مار دو۔ ایک روایت ہے کہ یہ حکم آپؐ نے حضرت عاصم بن ثابتؓ کو دیا تھا اور پھر آپؐ نے فرمایا۔
مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جا سکتا۔
(السیرة الحلبیة جلد 2 صفحہ 352دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(سیرۃ حلبیہ اردو جلد2 نصف آخر صفحہ236-237 دار الاشاعت کراچی 2009ء)
باقی ان شاء اللہ آئندہ بیان ہو گا۔
دنیا کے حالات کے لیے دعائیں جاری رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھے۔
اس وقت مَیں
ایک جنازہ
بھی پڑھاؤں گا جو
مکرم فراز احمد طاہر صاحب کا ہے جو آسٹریلیا میں گذشتہ دنوں شہید ہوئے۔
ان کے واقعہ کے بارے میں لکھا ہے کہ آسٹریلیا کے شہر سڈنی کے ایک مشہورعلاقہ بنڈائی (Bondi)کے ایک شاپنگ سنٹر میں ایک آسٹریلین شخص نے ا نہیںچاقو سے وار کر کے شہید کر دیا۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
مرحوم شاپنگ سینٹر میں بطور سیکیورٹی گارڈ کام کر رہے تھے۔ مرحوم کی عمر تیس برس کی تھی اور غیرشادی شدہ تھے۔ اس حملے میں بارہ افراد زخمی ہوئے اور چھ افراد کی وفات ہوئی۔ وفات پانے والے چھ افراد میں سے پانچ خواتین تھیں۔
فراز احمد طاہر صاحب مرحوم کا تعلق ربوہ سے تھا۔ 2018ء میں پاکستان سے سری لنکا چلے گئے۔ چار سال وہاں رہے۔ پھر گذشتہ سال یو این ایچ سی آر (UNHCR)کی وساطت سے آسٹریلیا آئے۔ گذشتہ ماہ مرحوم نے اپنا سیکیورٹی لائسنس بنوایا تھا اور جس دن مرحوم کی وفات ہوئی اس روز لکھا ہوا ہے کہ شاپنگ سینٹر میں مرحوم کی دن کے وقت پہلی جاب تھی۔ رات کو ڈیوٹی دیتے تھے لیکن دن کے وقت یہ پہلی ڈیوٹی تھی۔
تفصیلات کے مطابق جب مکرم فراز احمد صاحب طاہر مرحوم نے لوگوں کو سراسیمگی کی حالت میں اِدھر اُدھر بھاگتے دیکھا تو حملہ آور کو روکنے کے لیے آگے بڑھے جس پر حملہ آور نے مرحوم پر وار کیا جس سے وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس حملہ میں وفات پانے والے آپ پہلے فرد تھے۔ مرحوم کے خاندان میں احمدیت ان کے پڑدادا مکرم میاں احمد صاحب کی وساطت سے آئی جو ضلع شاہ پور کے رہنے والے تھے۔ مرحوم کے دادا مکرم صوفی احمد یار صاحب کو ایک لمبے عرصہ سے جماعتی خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔ ان کے والد بشیر احمد صاحب 2005ء میں جبکہ والدہ رضیہ بیگم 2014ء میں وفات پا گئی تھیں۔ مرحوم کے پسماندگان میں تین بھائی، دو بہنیں اور دادا صوفی احمد یار صاحب شامل ہیں۔
ان کے بارے میں مزید تفصیلات میں یہ بھی آیا ہے کہ آسٹریلیا کے وزیراعظم اور نیو ساؤتھ ویلز کے پریمیئر نے فراز احمد طاہر صاحب مرحوم کی بہادری اور قربانی کو خراج تحسین پیش کیا۔ اسی طرح آسٹریلیا میں مقیم پاکستان کے ہائی کمشنر صاحب نے بھی فراز احمد طاہر مرحوم کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا اور ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا۔ مرحوم اور اس واقعہ کے بارے میں میڈیا میں ایک سو بیس سے زائد نیوز شائع ہوئیں اور مزید ہو رہی ہیں۔ آج ان کا وہاں جنازہ تھا اس پہ بھی وہاں کے پریمیئر، پرائم منسٹر وغیرہ آئے ہوئے تھے انہوں نے دوبارہ ان کو خراج تحسین پیش کیا۔ سوشل میڈیا میں فراز طاہر صاحب مرحوم کی بہادری اور قربانی کو نہایت خوبصورت الفاظ میں بیان کیا جا رہا ہے اور اکثر لوگ انہیں ’’نیشنل ہیرو‘‘ کہہ کر پکار رہے ہیں۔
ان کی یہ قربانی ظاہر کرتی ہے کہ وہ پاکستان سے موت کے ڈر سے نہیں آئے تھے بلکہ جو مذہبی پابندیاں احمدیوں پر لگائی جاتی ہیں ان سے تنگ آ کر ملک چھوڑا تھا جہاں انہیں اللہ اور اس کے رسولؐ کا نام لینے سے روکا جاتا ہے۔
صدر خدام الاحمدیہ عدنان قادر کہتے ہیں کہ 21؍اپریل بروز اتوار آسٹریلین گورنمنٹ کی طرف سے ایک شاپنگ مال کے قریب ایک پروگرام منعقد کیا گیا جس کا مقصد ان تمام افراد کو خراج عقیدت پیش کرنا تھا جو اس واقعہ میں وفات پا گئے ہیں۔ اس پروگرام میں وزیر اعظم آسٹریلیا، پریمیئر نیو ساؤتھ ویلز، اپوزیشن لیڈر، ممبر آف پارلیمنٹس، لوکل اور دوسری کونسل کے میئرز اور پولیس اور آرمی اور نیوی کے اعلیٰ افسران، میڈیا اور زندگی کے دوسرے شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ افسران نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر جماعت کے ممبران کو بھی اس پروگرام میں مدعو کیا گیاتھا۔
ان کے بڑے بھائی مدثر بشیر کہتے ہیں: مرحوم بچپن سے ہی بہت محنتی، ہنس مکھ اور نڈر طفل تھا۔ مرحوم کی عمر گیارہ سال تھی جب ہمارے والد صاحب کا انتقال ہو گیا تو کہتے ہیں کہ ہمارے بڑے بھائی مظفر احمد صاحب نے ہمیں ایک باپ کی طرح پالا۔ مرحوم اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ بھائی کے کاروبار میں مدد دیتا تھا۔ مرحوم بہت محنتی اور اپنے بہن بھائیوں سے بہت پیار کرنے والا تھا۔ نرم مزاج اور طبیعت میں مزاح تھا۔ کبھی بہن بھائیوں کی کسی بات پر ناراض نہیں ہوا۔ مرحوم جماعتی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ جتنا عرصہ پاکستان میں رہا اور پھر سری لنکا اور بعد ازاں آسٹریلیا جہاں بھی رہا جماعتی کاموں میں، ڈیوٹیوں میں سرگرم رہا۔ خلافت کے ساتھ بہت اخلاص اور وفا اور پیار کا تعلق تھا۔ یہی اس کو تھا، یہ ان کی ایک خواہش تھی کہ نیشنیلٹی ملے گی تو پہلے جاکر مَیں لندن خلیفة المسیح سے ملوں گا۔ ان کے چھوٹے بھائی شیراز احمد کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی نہایت خوش الحانی سے تلاوت کیا کرتا تھا اور نمازوں کی بڑی پابندی تھی۔
مربی کامران مبشر صاحب کہتے ہیں کہ مَیں نے مرحوم میں ایک خوبی دیکھی کہ جماعتی بزرگوں اور مربیان کی بہت عزت کرتے تھے اور ان کی طرف سے کوئی بھی ہدایت دی جاتی تو انکار نہیں کرتے تھے۔ اگر ان کو ان کی کسی غلطی وغیرہ کی طرف توجہ دلائی جاتی تو اس کا ہرگز برا نہیں مناتے تھے بلکہ عاجزی سے خاموشی اختیار کرتے ہوئے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے اور اپنی اصلاح کرتے تھے۔
ان کے ایک دوست احمد ابراہیم کہتے ہیں کہ مرحوم دین اور خلافت کے ساتھ بےمثال محبت کرنے والے وجود تھے۔ جماعت کے عہدیداروں کی عزت کرنے والے، نمازوں کے پابند تھے۔ میرا ان کے ساتھ ایک بھائی اور دوست کا رشتہ بن گیا تھا۔ کبھی کسی بات پر مَیں ڈانٹ بھی دیتا تو آنکھیں جھکا کر سن لیتے اور کہتے کہ آئندہ شکایت کاموقع نہیں دوں گا۔ بہت ہنس مکھ، بہت محبت کرنے والا انسان تھا۔
برزبن (Brisbane)کے صدر جماعت کہتے ہیں کہ گذشتہ ماہ مارچ میں ہفتے کے لیے برزبن آئے اور آنے کی وجہ اپنے دوستوں اور عزیزوں سے ملاقات بتائی اور ساتھ یہ کہا کہ اگر کسی کے دل میں کوئی ناراضگی ہے یا شکوہ ہے تو میں معافی مانگ کر صلح کرنے آیا ہوں۔ بار بار سب سے معافی مانگتے رہے۔ ایسا لگتا تھا کہ غالباً سب کو خدا حافظ کہنے آئے ہیں۔
ان کے ایک دوست شجر احمد کہتے ہیں ایک محنتی، نڈر اور فرض شناس انسان تھے۔ مرحوم کے ساتھ زخمی ہونے والے دوسرے سیکیورٹی گارڈ نے بتایا کہ جیسے ہی حملہ آور شاپنگ سینٹر میں داخل ہوا اور اسے دیکھ کر لوگ بھاگنے لگے تو مرحوم نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو روکنے کی کوشش کی اور اس کے سامنے جا کھڑے ہوئے اور دوسروں کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔
سوشل میڈیا پر بھی لوگ فراز طاہر صاحب کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ ایک صاحب کرس مرفی (Chris Murphy) نے اپنے کمنٹ میں لکھا کہ حملہ ہونے سے قبل مَیں نے ایک خوش لباس سیکیورٹی گارڈ فراز طاہر کو دیکھا جو شاپنگ سینٹر میں اپنی ڈیوٹی پر تھا۔ وہ ایک ہیرو تھا جس نے عوام کی جان بچانے کے لیے اپنی جان دی۔
ایک خاتون ربیکا آئیورس (Rebecca Ivers) لکھتی ہیں کہ فراز طاہر جو اپنے ملک میں ظلم سے بچنے کے لیے امن اور ایک بہتر مستقبل کے لیے آسٹریلیا آئے وہ اپنی کمیونٹی میں نہایت مقبول تھے انہوں نے عوام کو بچاتے ہوئے جان دی۔ مَیں ان کی فیملی اور کمیونٹی سے افسوس کا اظہار کرتی ہوں۔ یہ ایک نہایت تکلیف دہ حادثہ ہے۔ اس طرح کے بہت سے اَور کمنٹ لوگوں نے جنہوں نے وہاں دیکھا شاپنگ مال میں بھی اور جنہوں نے خبر پڑھی انہوں نے بھی ڈالے ہوئے ہیں۔
عزیزم حصور احمد متعلم جامعہ احمدیہ ربوہ ہیں کہتے ہیں کہ فراز طاہر میرا تایا زاد بھائی تھا۔ اچھی شخصیت کا مالک تھا۔ پنجوقتہ نمازوں کا اہتمام کرنے والا، دوسروں کو اس کی تلقین کرنے والا، جب بھی ملتا ہنس کر ملتا۔ مجھے اپنا چھوٹا بھائی سمجھتا تھا۔ کوئی بات سمجھانی ہوتی تو بڑے پیار سے سمجھاتا تھا۔ ہمیشہ دعا کے لیے کہتا کہ مَیں آپ لوگوں کے لیے دعا کروں گا آپ میرے لیے دعا کریں۔ کہتے ہیں آخری دفعہ جس دن اس کی شہادت ہوئی ہے اس کی کال آئی اور اس وقت آسٹریلیا میں صبح کےچار بجے تھے۔ اس کے بڑے بھائی نے اس سے کہا کہ صبح چار بجے کا وقت ہے اب تم نے کام پہ جانا ہے تم سو جاؤ۔ اس نے کہا کہ مَیں نے ابھی تہجد ادا کی ہے اور آپ سب کے لیے دعا بھی کی ہے۔ پھر فجر کی نماز پڑھ کر کام پہ نکل جاؤں گا۔ سونے کا وقت نہیں ہے۔ اس کا صبح کی شفٹ کا یہ پہلا دن تھا۔ پہلے شام کی شفٹ کیا کرتا تھا۔ پھر یہ لکھتے ہیں کہ ہمارے خاندان کی یہ تیسری شہادت ہے۔ پہلے میرے خالو محمد نواز صاحب اورنگی ٹاؤن کراچی میں 11؍ستمبر 2012ء کو شہید ہوئے۔ پھر ان کے ماموں اعجاز احمد صاحب اورنگی ٹاؤن کراچی میں 4؍ستمبر2013ء کو شہید ہوئے اور اب فراز احمد صاحب کی شہادت ہوئی۔
پس جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا کہ انہوں نے بتا دیا کہ مَیں موت کے ڈر سے ملک سے نہیں نکلا بلکہ مذہبی آزادی کے لیے آیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور سب لواحقین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔
٭…٭…٭
الفضل انٹرنیشنل ۱۷؍ مئی ۲۰۲۴ء