ہنسنا منع ہے!
٭… سلیم بال کٹواکر آیا تو کلیم نے اسے دیکھ کر کہا: بال اتنے چھوٹے کیوں کٹوا لیے؟
سلیم : اس کے پاس بقایا نہیں تھا تو میں نے کہا 20روپے کے اور کاٹ دو۔ (اطہر احمد ناصر ۔ مالی)
٭…عورت ( دُکاندار سے ): آپ نے اس گھڑی کی پورے ایک سال کی گارنٹی دی تھی لیکن یہ تو صرف چار ماہ بعد ہی خراب ہو گئی ۔
دُکاندار : بیگم صاحبہ! یہ پورے ایک سال چلی ہے۔ چار ماہ آپ کے پاس اور آٹھ ماہ میری دکان پر۔
٭…ایک شخص کو اپنی فضول خرچی کا احساس ہوا تو اُس نے بچت کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ اُس روز وہ دفتر سے گھر جانے کے لیے بس میں سوار ہونے کی بجائے بس کے پیچھے بھاگتا ہوا گھر پہنچا اور ہانپتا ہوا اپنی بیوی سے بولا : دیکھو! آج میں گھر تک بس کے پیچھے دوڑتا ہوا آیا ہوں،اس طرح ایک روپے کی بچت ہو گئی ۔
بیوی نے منہ بنا کر کہا: ایک روپے کی بچت بھی کوئی بچت ہے، اگر کسی ٹیکسی کے پیچھے بھاگتے تو پورے دس روپوں کی بچت ہوتی ۔
٭…ڈاکٹر صاحب نے بیوقوف مریض سے پوچھا: اب تمہاری طبیعت کیسی ہے؟
جیسی کل تھی ۔ مریض نے جواب دیا۔
میں پوچھ رہا ہوں کہ تمہاری طبیعت اب کیسی ہے؟ ڈاکٹر نے دوبارہ سوال کیا۔
مریض نے کراہتے ہوئے کہا: یقین کریں ڈاکٹر صاحب، میں درست کہہ رہا ہوں جیسی کل تھی۔
ڈاکٹر نے غصے میں پوچھا: اچھا اور کل کیسی تھی تمہاری طبیعت ؟
مریض نے اونچے لہجے میں جواب دیا: جناب جیسی آج ہے۔ (محمد طلحہ منگلا۔گھانا)
٭…٭…٭