ہمسائےکی خبرگیری اور اس کے ساتھ ہمدردی کا حکم ہے
تم حقیقی نیکی کو ہرگز نہیں پا سکتے جب تک کہ بنی نوع کی ہمدردی میں وہ مال خرچ نہ کرو جو تمہارا پیارا مال ہے۔ غریبوں کا حق ادا کرو۔ مسکینوں کو دو۔ مسافروں کی خدمت کرو اور فضولیوں سے اپنے تئیں بچاؤ یعنی بیاہوں شادیوں میں اور طرح طرح کی عیاشی کی جگہوں میں اور لڑکا پیدا ہونے کی رسوم میں جو اسراف سے مال خرچ کیا جاتا ہے اس سے اپنے تئیں بچاؤ۔ تم ما ں باپ سے نیکی کرو اور قریبیوں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور ہمسایہ سے جو تمہارا قریبی ہے اور ہمسایہ سے جو بیگانہ ہے اور مسافر سے اور نوکر اور غلام اور گھوڑے اور بکری اور بیل اور گائے سے اور حیوانات سے جو تمہارے قبضہ میں ہوںکیونکہ خدا کو جو تمہارا خدا ہے یہی عادتیں پسند ہیں۔ وہ لاپرواہوں اور خود غرضوں سے محبت نہیں کرتا اور ایسے لوگوں کو نہیں چاہتا جو بخیل ہیں اور لوگوں کو بخل کی تعلیم دیتے ہیں اور اپنے مال کو چھپاتے ہیں یعنی محتاجوں کو کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ نہیں۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزا ئن جلد ۱۰ صفحہ ۳۵۸)
میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے ہیں جن میں اپنے بھائیوں کے لیے کچھ بھی ہمدردی نہیں۔اگر ایک بھائی بھوکا مرتا ہو تو دوسرا توجہ نہیں کرتا اور اس کی خبر گیری کے لیے تیار نہیں ہوتا۔یا اگر وہ کسی اور قسم کی مشکلات میں ہے تو اتنا نہیں کرتے کہ اس کے لیے اپنے مال کا کوئی حصہ خرچ کریں۔حدیث شریف میں ہمسایہ کی خبرگیری اور اس کے ساتھ ہمدردی کا حکم آیا ہے بلکہ یہانتک بھی ہے کہ اگر تم گوشت پکائو تو شوربا زیادہ کر لو تا کہ اسے بھی دے سکو۔اب کیا ہوتا ہے اپنا ہی پیٹ پالتے ہیں،لیکن اس کی کچھ پروا نہیں۔یہ مت سمجھو کہ ہمسایہ سے اتنا ہی مطلب ہے جو گھر کے پاس رہتا ہو۔بلکہ جو تمہارے بھائی ہیں وہ بھی ہمسایہ ہی ہیں خواہ وہ سو کوس کے فاصلے پر بھی ہوں۔ ہر شخص کو ہر روز اپنا مطالعہ کرنا چاہیے کہ وہ کہاں تک ان امور کی پروا کرتا ہے اور کہانتک وہ اپنے بھائیوں سے ہمدردی اور سلوک کرتا ہے … اخلاق ہی ساری ترقیات کا زینہ ہے۔
(ملفوظات جلد ۴صفحہ ۲۱۵-۲۱۶، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)