قرآن کریم کی موجودہ ترتیب میں پہلا قرآنی حکم
قرآن کریم کی موجودہ ترتیب پراگرغور کیا جائے تو سب سے پہلے سورۃ الفاتحہ ہے جو کہ ایک مکمل دُعا ہے جس میں خدا تعالیٰ کو اس کے مختلف ناموں کا واسطہ دے کر اس سے مدد طلب کی گئی ہے۔ یہو د ونصاریٰ کی راہ سے بچنے کی دعا اور صراطِ مستقیم پر چلنے کی بھی اس میں دُعا ہے۔
پھر سورۃ البقرہ کے تقریباً دو رکوع میں تین قسم کے گروہوں کا ذکر ہے یعنی مومن، کافر اور منافق۔ ان کے اعمال اور انجام کا ذکر ہے۔ تیسرے رکوع کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے پہلا قرآنی حکم ارشاد فرمایا ہے:یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَالَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ۔ ( البقرہ: ۲۲ )ترجمہ: اے لوگو! تم عبادت کرو اپنے رب کی جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان کو بھی جو تم سے پہلے تھے۔ تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ (ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ )
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے’’تقویٰ اختیار کرو‘‘کی بجائے یہ ترجمہ بیان فرمایا ہے کہ’’تم ( ہر قسم کی آفات سے) بچو۔‘‘
اس آیت کی تفسیرمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:’’یعنی اے لوگو! اس خدا کی پرستش کرو جس نے تم کو پیدا کیا…عبادت کے لائق وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا یعنی زندہ رہنے والا وہی ہے۔ اُسی سے دل لگاؤ۔ پس ایمانداری تو یہی ہے کہ خدا سے خاص تعلق رکھا جائے اور دوسری سب چیزوں کو اُس کے مقابلے میں ہیچ سمجھا جائے اور جو شخص اولاد یا والدین کو یا کسی اور چیز کو ایسا عزیز رکھے کہ ہر وقت انہی کا فکر رہے تو وہ بھی ایک بت پرستی ہے۔ بت پرستی کے یہی تو معنے نہیں کہ ہندوؤں کی طرح بُت لے کر بیٹھا جائے اور اس کے آگے سجدہ کرے۔ حد سے زیادہ پیار و محبت بھی عبادت ہی ہوتی ہے۔‘‘ (الحکم جلد۱۲نمبر ۴۸مورخہ ۲۷؍اگست۱۹۰۸ء صفحہ۱)
حضرت خلیفۃالمسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ کی تشریح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’فرمانبردار ہو گے تو اس سے کوئی خدا کی خدائی بڑھ نہ جائے گی بلکہ اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے وہ یہ کہ تم دکھوں سے بچو گے۔مَیں دیکھتا ہوں آتشک اُنہی کو ہوتی ہے جو نافرمانی کرتے ہیں۔ مَیں نے کبھی نہیں دیکھا کسی کو نماز پڑھنے سے سوزاک ہو گیا ہو یا زکوٰۃ دینے سے کوڑھ ہو گیا ہو۔ لوگ کہتے ہیں نیکی مشکل ہے یہ غلط ہے نیکی تو سُکھوں کی ماں ہے۔ ‘‘(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ءبحوالہ حقائق الفرقان جلد اول صفحہ ۱۱۴)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں :’’اس آیت میں عبادت کے بارہ میں ایک لطیف اورمکمل تعلیم دی گئی ہے اورعبادت کی تکمیل کے لیے جن امور کی ضرورت ہے وہ سب بیان کیے گئے ہیں اور یہ بھی بتایا ہے کہ عبادت میں فائدہ کیا ہے ؟ ظاہر ہے کہ کامل عبادت کامل تعلق کو چاہتی ہے اور کامل تعلق کامل احسان سے پیدا ہوتا ہے اور کامل احسان وہ ہوتا ہے جو اُس انسان پر بھی ہو جو عبادت کرتا ہے اور اُس کے بزرگوں پر بھی ہو کیونکہ دنیا میں لوگ مخلصانہ تعلق دو ہی وجہ سے رکھتے ہیں یا تو اس لیے کہ ان پر احسان کیا جائے یا اس لیے کہ ان کے بزرگوں پر احسان کیا گیا ہو چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں قربانیاں اس لیے پیش کی گئی ہیں کہ قربانی کرنے والوں کے ماں باپ پر کسی شخص کا احسان تھا …اس آیت میں عبادت کی تحریک بھی نہایت عجیب اسلوب سے کی گئی ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ضرورت خوب واضح ہو جاتی ہے۔ اس جگہ عبادت کی تحریک اِن الفاظ میں کی گئی ہے کہ اے لوگو! اس ربّ کی عبادت کرو جس نے تم کو بھی اور تمہارے بڑوں کو بھی پیدا کیا ہے۔ اس میں اِس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو کسی وجود کو پیدا کرنے والا ہو وہی اس کی صحیح طاقتوں کو سمجھتا ہے۔ ایک مکان بنانے والا انجینئر جانتا ہے کہ اس کی تعمیر کردہ عمارت کس حد تک بوجھ برداشت کر سکتی ہے۔ اسی طرح حقیقی اصلاح خدا تعالیٰ ہی کر سکتا ہے جس نے انسان کو اور اُس کے آباء کو پیدا کیا ہے۔ …
ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی انسان نے اپنی باگ ڈور غیراللہ کے سپرد کی ہے نقصان اٹھایا ہے۔ کسی راہنما نے کھلی آزادی دے کر روحانی تکمیل کی راہوں سے بالکل دُور پھینک دیا اور کسی راہنما نے انسانی قوتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسا بوجھ لاد دیا کہ انسان اس بوجھ تلے دب کر رہ گیا۔ کسی نے رہبانیت کے اختیار اور طیبات سے اجتناب کرنے کی تعلیم دی۔ تو کسی نے مضر اور مفید میں فرق نہ کرتے ہوئے شریعت کو لعنت قرار دے کر انسان کو تباہی کے گڑھے میں گرا دیا۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے ایسی تعلیم دی کہ جس کی مدد سے نہ تو وہ اپنی ذمہ واریوں کو بھلا دے اور نہ ایسے بوجھوں تلے دب جائے جو اس کی فطرت کو کچل کر رکھ دیں۔ غرض لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ کہہ کر اس طرف توجہ دلائی کہ عبادت کی غرض یہ ہوتی ہے کہ انسان فطرتِ صحیحہ کی راہنمائی میں ترقی کر سکے۔‘‘( تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ۲۹۸۔۳۰۰)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس آیت کی تشریح میں فرمایا کہ یہاں مومنوں کو مخاطب نہیں فرمایا، الناس کو مخاطب فرمایا ہے۔ یعنی عبادت ہر ایک کے لیے ہے۔ ساری دنیا میں عبادت کا کوئی نہ کوئی طریق پایا جاتا ہے۔ حضورؒ نے فرمایا کہ ہمارے ملک میں لوگ پٹواریوں کی بھی عبادت کرتے ہیں۔ تھانیدار کی عبادت، مولوی کی عبادت اور مولوی کو غصہ خدا کی عبادت نہ کرنے پر نہیں بلکہ اپنی عبادت نہ کرنے پر آتا ہے۔ ان کی انا جب مجروح ہوتی ہے پھر ان کو جوش آتا ہے۔(ماخوذ از ترجمۃ القرآن کلاس ۳)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ۱۸؍ستمبر۲۰۱۸ء کو مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئےفرمایا:’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے امام الزماں کو مبعوث فرما یا جس نے اسلام کی شان دنیا پر ظاہر کرنی تھی اور اصل اسلامی تعلیمات کو پھر سے زندہ کرنا تھا۔ وہ تعلیمات جو عرصۂ دراز سے بھلا دی گئی تھیں۔ ہم احمدی مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ ہم نے اس امام الزمان کو مانا ہے ۔ پس اگر ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے انہیں مانا ہے تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ نماز ایک بنیادی فریضہ ہے جسے ادا کرنے کی ذمہ داری ہمارے دین نے ہم پر عائد کی ہے اور یہ کہ ہمیں اپنی نمازوں میں کبھی بھی سُستی نہیں کرنی چاہیے بلکہ لازماً ہر وقت اسے مکمل فوقیت دینی چاہیے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل۲۶؍اپریل۲۰۱۹ءصفحہ۲۴)
عبادت ہر ایک کے لئے ہے ساری دنیا میں عبادت کا کوئی نہ کوئی طریق پایا جاتاہے۔
الغرض خدا تعالیٰ نے اپنی عبادت کا یہ جو حکم دیا ہے یہ بنی نوع انسان کے اپنے فائدے کے لیے ہے ورنہ خدا تعالیٰ کو کسی انسان کی عبادت کی کوڑی کی بھی پرواہ نہیں اور نہ انسان کی عبادت اس کی شان میں اضافہ یا کمی کر سکتی ہے۔ جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی پر نظر ڈالتے ہیں جو کہ اس شریعت کے حامل تھے جس کا پہلا حکم خدا کی عبادت ہے، تو ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم بلکہ اس شریعت کے نزول سے بھی پہلے خدا تعالیٰ کی عبادت اپنے رنگ میں کیا کرتے تھے۔ اسی غرض سے غارِ حرا میں تشریف لے جاتے اور پھر شریعت کے نزول کے بعد قرآن کریم کے ہر حکم پر اسی طرح عمل کر کے اپنی قوم کے لیے نمونہ قائم فرمایا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپؐ کے بارے میں كان خُلُقُه القُرآنَ۔ آپؐ اپنی محبوب بیوی سے اجازت لے کر ساری ساری رات اپنے رب کی عبادت میں گزار دیتے ہں یہاں تک کہ آپؐ کے پاؤں متورم ہوجاتے۔
پیاری بہنو ! آئیے ہم بھی اپنے محبوب آقا کی تقلید میں اپنے اس اولین فرض کی ادائیگی میں دل وجان سے نہ صرف خود مصروف ہوجائیں بلکہ اپنے اہل خانہ کی سستیوں کو پیار اور نرمی سے دور کرنے کی کوشش کرتی چلی جائیں اور اس میں کبھی بھی تھکن محسوس نہ کریں جب تک ہمارے گھر کا ہر فرداس فرض کی ادائیگی میں باقاعدہ نہ ہوجائے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے اعلیٰ نمونے پیش کرنے ہوں گے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اورہمارامددگارہو۔آمین اللھم آمین