خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶؍جون ۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)
سوال نمبر۱:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے امیہ بن خلف کےجنگ سےگریزکرنے کی بابت کیاتفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا:روایت کے مطابق ابوجہل امیہ کے پاس آیا اور اس کو کہا کہ تم مکہ کے سردار اور معزز لوگوں میں سے ایک ہو۔ اگر لوگوں نے تمہیں جنگ سے پیچھے ہٹتا ہوا دیکھ لیا تو وہ بھی رک جائیں گے۔ اس لیے ہمارے ساتھ ضرور نکلو چاہے ایک دو دن کی مسافت تک چلو اور اس کے بعد واپس آجانا۔ دراصل امیہ جنگ پر جانے سے اس لیے خائف تھا کہ اس کے قتل کے متعلق رسول کریمﷺ نے پیشگوئی فرما رکھی تھی اور اس کا اس کو علم تھا۔چنانچہ بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن معاذؓ عمرے کی نیت سے گئے اور وہ امیہ بن خَلَف کے پاس اترے۔ ان کی پرانی واقفیت تھی۔ امیہ کی عادت تھی کہ جب شام کی طرف جاتا تھا اور مدینے سے گزرتا تو حضرت سعدؓ کے پاس ٹھہرتا۔ امیہ نے حضرت سعدؓ سے جو عمرہ کرنا چاہتے تھے، کہا کہ ابھی انتظار کرو۔ جب دوپہر ہو اور لوگ غافل ہوجائیں تو جا کر طواف کرلینا۔مسلمانوں کی مخالفت کی وجہ سے یہ احتیاط کی گئی تھی۔ دوپہر ہوئی تو حضرت سعدؓ نے طواف شروع کیا۔ اسی اثنا میں کہ طواف کررہے تھے ۔کیا دیکھتے ہیں کہ ابو جہل ہے۔ وہ کہنے لگا یہ کون ہے جو کعبہ کا طواف کررہا ہے؟حضرت سعدؓ نے کہا مَیں سعد ہوں۔ ابوجہل بولا کیا تم خانہ کعبہ کا طواف امن سے کرو گے حالانکہ تم نے محمدﷺ اور اس کے ساتھیوں کو پناہ دی ہے۔حضرت سعدؓ نے کہا ہاں۔ تب ان دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا یعنی ابوجہل نے ان کو چیلنج دیا کہ تم کس طرح طواف کرسکتے ہو، تم تو آنحضرتﷺ کو پناہ دینے والوں میں سے ہو۔ بہرحال انہوں نے کہا ہاں۔ میں نے پناہ بھی دی ہے اور میں طواف بھی کروں گا۔ آپس میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا شروع کیا۔ امیہ نے حضرت سعدؓ سے کہا کہ اے سعد! ابوالحکم، یہ ابوجہل کی کنیت تھی، اس پر اپنی آواز اونچی نہ کرو کیونکہ وہ اہلِ وادی کا سردار ہے۔ حضرت سعدؓ نے کہا بخدا! اگر تم نے بیت اللہ کا طواف کرنے سے مجھے روکا تو مَیں اس سے زیادہ سخت روک پیدا کروں گا وہ یہ کہ تم لوگوں کا تجارتی راستہ جو مدینے سے گزرتا ہے یعنی شام کی تجارت کا راستہ، وہ بند کردوں گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے تھے کہ امیہ حضرت سعدؓ سے یہی کہتا رہا کہ اپنی آواز کو بلند نہ کرو اور ان کو روکتا رہا۔ حضرت سعدؓ غصے میں آئے اور امیہ کو کہنے لگے مجھے تم رہنے دو اور اس کی تائید و حمایت مت کرو یعنی ابوجہل کی تائید نہ کرو۔ مَيں نے محمدﷺ سے سُنا ہے، آپﷺ فرماتے تھے کہ وہ تمہيں قتل کرنے والے ہيں۔ يعني تمہارے قتل ہونے کي پيشگوئي کي ہے۔ ايک دوسري روايت ميں ہے کہ وہ لوگ يعني محمدﷺکے ساتھي تمہيں قتل کرنے والے ہيں۔ اميہ نے کہا کيا مجھے؟ حضرت سعدؓ نے کہا ہاں تجھے۔ پھر اميہ نے کہا کہ کيا مکے ميں؟ تو سعد نے کہا يہ مَيں نہيں جانتا۔ يہ سن کر اميہ بولا خدا کي قسم! محمد جب بات کہتے ہيں (صلي اللہ عليہ وسلم ) تو جھوٹي بات نہيں کہتے۔ پھر وہ اپني بيوي کے پاس واپس آيا اور کہنے لگا کہ کيا تمہيں علم ہے کہ ميرے يثربي بھائي نے مجھ سے کيا کہاہے؟ اس نے پوچھا کيا کہا ہے۔ اميہ نے کہا کہتا ہے کہ اس نے محمدﷺ سے سنا ہے کہ وہ کہتے ہيں کہ وہ مجھے قتل کرنے والے ہيں۔ اس کي بيوي نے کہا اللہ کي قسم! محمدﷺ تو جھوٹي بات نہيں کياکرتے۔ يہ وہ پيشگوئي تھي جس سے اميہ خوفزدہ تھا اور مسلمانوں سے جنگ کے ليے نہيں جانا چاہتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے تھے کہ وہ جب بدر کي طرف نکلے اور مدد طلب کرنے کے ليے فريادي آيا تو اميہ کي بيوي نے اسے کہاکہ کيا وہ بات تمہيں ياد نہيں جو تمہارے يثربي بھائي نے تم سے کہي تھي تو اس نے چاہا کہ نہ نکلے مگر ابوجہل نے اسے کہا کہ تم اس وادي کے رؤسا ميں سے ہو تو ايک دو دن کے ليے ہي ساتھ چلو۔ چنانچہ وہ ان کے ساتھ دو دن کے ليے چلا گيا اور اللہ تعاليٰ نے اس کو قتل کرا ديا۔
سوال نمبر۲: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ابولہب کےجنگ سےگریزاورمکہ کی حفاظت کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کی تفصیل یوں لکھی ہے کہ’’صرف دو شخص تھے جنہوں نے ’’اس مہم میں‘‘ شمولیت سے تأمل کیا اور وہ ابولہب اور امیہ بن خَلَف تھے مگر ان کے تأمل کی وجہ بھی مسلمانوں کی ہمدردی نہیں تھی بلکہ ابولہب تو اپنی بہن عاتکہ بنت عبدالمطلب کے خواب سے ڈرتا تھا جو اس نے ضمضم کے آنے سے صرف تین دن پہلے قریش کی تباہی کے متعلق دیکھا تھا اور امیہ بن خَلَف اس پیشگوئی کی وجہ سے خائف تھا جو آنحضرتﷺ نے اس کے قتل ہونے کے متعلق فرمائی تھی اور جس کا علم اسے سعد بن معاذ کے ذریعہ مکہ میں ہوچکا تھا لیکن چونکہ ان دو نامی رؤساء کے پیچھے رہنے سے عامة الکفار پر بُرا اثر پڑنے کا اندیشہ تھا اس لئے دوسرے رؤسائے قریش نے جوش اور غیرت دلا دلا کر آخر ان دونوں کو رضا مند کرلیا۔ یعنی امیہ تو خود تیار ہوگیا اور ابولہب نے ایک دوسرے شخص کو کافی روپیہ دینا کرکے اپنی جگہ کھڑا کردیا۔ اور اس طرح تین دن کی تیاری کے بعد ایک ہزار سے زائد جانباز سپاہیوں کا لشکر مکہ سے نکلنے کوتیار ہوگیا۔ابھی یہ لشکرمکہ میں ہی تھا کہ بعض رؤسائے قریش کویہ خیال آیا کہ چونکہ بنوکنانہ کی شاخ بنو بکر کے ساتھ اہل مکہ کے تعلقات خراب ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی غیر حاضری سے فائدہ اٹھا کر وہ ان کے پیچھے مکہ پرحملہ کردیں اور اس خیال کی وجہ سے بعض قریش کچھ متزلزل ہونے لگے مگر بنوکنانہ کے ایک رئیس سراقہ بن مالک بن جعشم نے جو اس وقت مکہ میں تھا ان کو اطمینان دلایا اور کہا کہ میں اس بات کا ضامن ہوتا ہوں کہ مکہ پر کوئی حملہ نہیں ہوگا بلکہ سراقہ کو مسلمانوں کی مخالفت کاایسا جوش تھا کہ قریش کی اعانت میں وہ خود بھی بدر تک گیا لیکن وہاں مسلمانوں کودیکھ کر اس پر کچھ ایسا رعب طاری ہوا کہ جنگ سے پہلے ہی اپنے ساتھیوں کوچھوڑ کر بھاگ آیا۔
سوال نمبر۳: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے آنحضرتﷺکی غزوہ بدر کے لیے مدینہ سےروانگی اور مسلمان لشکرکی تعدادکےحوالہ سےکیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:رسول کریمﷺ بارہ رمضان دو ہجری بروز ہفتہ مدینہ سے روانہ ہوئے۔ آپﷺ کے ہمراہ تین سو سے کچھ اوپر افراد تھے جن میں چوہتر۷۴ مہاجرین اور باقی انصار میں سے تھے۔ یہ پہلا غزوہ تھا جس میں انصار بھی شامل ہوئے تھے۔ حضرت عثمان بن عفانؓ کو رسول کریمﷺنے مدینہ میں ہی رکنے کا حکم دیا کیونکہ ان کی زوجہ حضرت رقیہ بنت رسولﷺ بیمار تھیں۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عثمانؓ خود بیمار تھے لیکن زیادہ معروف روایت یہی ہے کہ ان کی اہلیہ محترمہ بیمار تھیں۔ بعض اور زیادہ تر روایات میں مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ بیان ہوئی ہے۔ایک روایت میں ذکر ہے کہ رسول کریمﷺ نے صحابہ کو گنتی کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے گنتی کے بعد رسول کریمﷺ کو خبر دی کہ تین سو تیرہ ہیں تو آپؐ بہت خوش ہوئے اور فرمایا: طالوت کے ساتھیوں جتنے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد کے بارے میں فرماتے ہیں:’’ہم دیکھتے ہیں کہ بدر کے موقع پر صحابہ ۳۱۳کی تعداد میں نکلے تھے اگر وہ بجائے ۳۱۳ کے چھ یا سات سو کی تعداد میں نکلتے اور وہ صحابہ بھی شامل ہوجاتے جو مدینہ میں ٹھہر گئے تھے تو لڑائی ان کے لئے زیادہ آسان ہوجاتی مگرخدا تعالیٰ نے محمدرسول اللہﷺ کو تو اس جنگ کے متعلق بتا دیا لیکن ساتھ ہی منع بھی فرما دیا کہ جنگ کے متعلق کسی کو بتانا نہیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ بعض گزشتہ پیشگوئیوں کو پورا کرنا چاہتا تھا۔مثلاً صحابہؓ کی تعداد تین سو تیرہ تھی اور بائبل میں یہ پیشگوئی موجود تھی کہ جو واقعہ جدعون کے ساتھ ہوا تھا وہی واقعہ محمد رسول اللہﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کو پیش آئے گا اور جب جدعون نبی اپنے دشمن سے لڑے تھے تو ان کی جماعت کی تعداد ۳۱۳تھی۔ اب اگر صحابہؓ کو معلوم ہوجاتا کہ ہم جنگ کے لئے مدینہ سے نکل رہے ہیں تو وہ سارے کے سارے نکل آتے اور ان کی تعداد ۳۱۳سے زیادہ ہوجاتی۔ اِسی حکمت کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے اس امر کو مخفی رکھا تاکہ صحابہؓ کی تعداد ۳۱۳سے زیادہ نہ ہونے پائے کیونکہ ۳۱۳ صحابہؓ کا جانا ہی پیشگوئی کو پورا کرسکتا تھا۔ اس لئے ضروری تھا کہ جنگ کی خبر کو مخفی رکھا جاتا اور میدانِ جنگ میں پہنچ کر صحابہؓ کوبتایا گیا کہ تمہارا مقابلہ لشکرِ قریش سے ہوگا۔‘‘
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جنگ بدرمیں اسلامی لشکرکے پاس جنگی سازوسامان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:ایک روایت کے مطابق اس جنگ میں مسلمانوں کے پاس پانچ گھوڑے تھے۔ بعض کے نزدیک صرف دو گھوڑے تھے ایک حضرت مقدادؓ کا گھوڑا اور ایک حضرت زبیر ؓ کا۔ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ بدر کے دن حضرت مقدادؓ کے علاوہ کوئی اَور گھڑسوار نہیں تھا۔ تو بہرحال روایات میں گھوڑوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد جو ملتی ہے وہ پانچ کی ملتی ہے۔ مسلمانوں کے پاس ساٹھ زرہیں تھیں اور اونٹوں کی تعداد ستر یا اسّی تھی جن پر سب باری باری سوار ہوتے تھے۔ رسول اللہﷺ حضرت علیؓ اور حضرت مرثد بن ابو مرثدؓ ایک اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ جب رسول اللہﷺ کے پیدل چلنے کی باری آئی تو آپﷺ کے دونوں ساتھیوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! ہم آپؐ کی باری میں پیدل چلتے ہیں اور آپؐ سوار ہی رہیں۔ اس پر رسول کریمﷺنے فرمایا تم مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں ہو اور نہ ہی مَیں تم دونوں کی نسبت اجر و ثواب سے بے نیاز ہوں۔
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے آنحضرتﷺکی صحابہ کے لیے دعااورکم عمرمجاہدین کی مدینہ واپسی کی کیاتفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا: لکھا ہے کہ راستے میں ایک مقام سے کوچ کرتے وقت رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہؓ کے لیے یہ دعا کی کہ اے اللہ! یہ ننگے پاؤں ہیں ان کو سواریاں عطا فرما اور یہ ننگے بدن ہیں انہیں لباس عطا فرما۔ یہ بھوکے ہیں انہیں سیر کردے۔ یہ تنگدست ہیں انہیں اپنے فضل سے غنی کردے۔ چنانچہ یہ دعا قبول ہوئی اور غزوۂ بدر سے واپس آنے والوں میں سے کوئی ایسا شخص نہیں تھا کہ اگر اس نے سواری پر جانا چاہا تو اس کو ایک دو ایسے اونٹ نہ مل گئے ہوں جنہیں وہ استعمال کرسکے۔ اسی طرح جن کے پاس کپڑے نہیں تھے انہیں کپڑے مل گئے اور سامانِ رسد اتنا ملا کہ کھانے پینے کی کوئی تنگی نہ رہی۔ اسی طرح جنگی قیدیوں کی رہائی کا اس قدر معاوضہ ملا کہ ہر خاندان دولتمند ہوگیا۔ بعض لوگ مدینہ میں رہے اور بعض کم عمر مجاہدین تھے جن کو آنحضرتﷺ نے واپس جانے کا حکم دیا ۔ اس کے بارے میں لکھا ہے کہ بدر کی طرف نکلنے کا ارشاد ہرچند کہ عام تھا لیکن اس میں زیادہ تیاری کا موقع نہیں دیا گیا۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ بعض لوگوں نے عرض کیا کہ مدینہ سے کچھ دُور ہماری سواریاں ہیں ہم وہ لے آئیں تو ارشاد ہوا کہ نہیں۔ چنانچہ ان لوگوں کو رہنے دیا یا وہ بغیر سواری کے ساتھ روانہ ہوئے۔ یہاں جو لکھا ہے یہ عام تھا۔یہ عام تو تھا لیکن پھر بھی پابندیاں تھیں اور آنحضرتﷺ نے موقع بھی نہیں دیا کسی کو تیاری کا کہ لوگ زیادہ تیار بھی نہ ہوجائیں۔بہرحال لکھا ہے کہ اسی طرح کچھ مخلص ایسے تھے کہ جنہیں کسی نہ کسی عذر کی بنا پر پیچھے رہنے کی اجازت ملی جیسے حضرت عثمانؓ کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ اسی طرح ابو امامہ بن ثعلبہ کی والدہ بیمار تھیں لیکن انہوں نے ساتھ جانے کا ارادہ کرلیا تھا تو آنحضرتﷺ نے حکم دیا کہ وہ اپنی بیمار والدہ کے پاس ٹھہریں۔ جب آپﷺ بدر سے واپس تشریف لائے تو ان کی والدہ انتقال کرچکی تھیں تو آپﷺنے ان کی قبر پر جا کردعا کی۔ حضرت سعد بن عبادہؓ جو بڑے جوش و خروش سے لوگوں کو سفر کے لیے تیار کررہے تھے ان کو سانپ نے ڈس لیا تو وہ مدینہ میں ہی رہے۔اسی طرح رسول کریمﷺ نے راستے میں ایک مقام پر رُک کر جو کم عمر مجاہدین تھے انہیں واپس جانے کا ارشاد فرمایا۔ ان میں ایک عُمیر بن ابی وقاص بھی تھے۔انہوں نے جب بچوں کی واپسی کا حکم سنا تو رونا شروع کردیا جس پر رسول کریمﷺ نے انہیں جنگ پر جانے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ وہ جنگ میں شریک ہوئے اور جامِ شہادت نوش کیا۔ جن کم عمر مجاہدین کو واپس بھیجا گیا ان میں اسامہ بن زید، رافع بن خدیج، براء بن عازب، اُسید بن ظُھیر، زید بن ارقم اور زید بن ثابت شامل تھے۔