سریہ رجیع کے حوالے سے آنحضورﷺ کی سیرت اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عشق و وفا اور قربانیوں کا ایمان افروز تذکرہ:خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷؍مئی ۲۰۲۴ء
٭… واقعہ رجيع کي بابت لکھا ہے کہ رسول اللہﷺ نے دس آدمي سريے کے طور پر حالات معلوم کرنے کے ليے بھجوائے اوران پر حضرت عاصم بن ثابت انصاريؓ کو امير مقرر فرمايا
٭…جب حضرت عمر فاروق ؓکو عاصمؓ کي شہادت اور اس سب واقعے کا علم ہوا تو انہوں نے فرمايا کہ اللہ تعاليٰ اپنے بندے کے عہد کا کيسا پاس رکھتا ہے
عاصمؓ نے قسم کھائي تھي کہ کبھي کسي کافر سے مس نہيں کرے گا اور اللہ تعاليٰ نے موت کے بعد بھي اس کي اس قسم کا پاس رکھا اور کافروں کو اسے چھونے نہ ديا
٭… حضرت زيدؓ نے کہا کہ اللہ کي قسم! مجھے اتنا بھي پسند نہيں کہ محمدﷺ اس وقت جس مکان ميں ہيں وہاں ان کو کانٹا بھي چبھےاور وہ انہيں تکليف دے
اور مَيں اپنے اہل و عيال ميں رہوں
٭…جس دن خبیب ؓ اور زیدؓ شہيد کيے گئے اس روز سنا گيا کہ آنحضرتﷺ فرمارہے تھے کہ عليکم السلام يعني تم دونوں پر بھي سلامتي ہو
٭… صحابہؓ اسلام کي خاطر ہروقت جان کي قرباني دينے کے ليے تيار رہنے والے تھے
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۷؍مئی ۲۰۲۴ء بمطابق۱۷؍ہجرت ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۷؍مئی ۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب(مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔
تشہد، تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
سریہ رجیع کا ذکر ہورہا تھا ۔
اس کی مزید تفصیل احادیث اور تاریخ میں جو بیان ہوئی ہےوہ اس طرح ہے۔ صحیح بخاری میں واقعہ رجیع کی بابت لکھا ہے کہ رسول اللہﷺ نے دس آدمی سریے کے طور پر حالات معلوم کرنے کے لیے بھجوائے اوران پر حضرت عاصم بن ثابت انصاریؓ کو امیر مقرر فرمایا۔ ان مسلمانوں کا سامنا مخالف قبیلے بنو لحیان کے دو سَو تیراندازوں سے ہوا۔ مسلمان انہیں دیکھ کر ایک ٹیلے پر پناہ گزین ہوگئے۔ مخالفین نے انہیں پناہ دینے اور قتل نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
سریے کے امیرحضرت عاصم بن ثابت انصاریؓ نے کہا کہ جہاں تک میرا تعلق ہے مَیں کسی کافر کی پناہ میں نہیں اتروں گا۔ پھر ا ن سب نے دعا کی کہ اے خدا! ہمارے حالات اپنے نبیﷺ تک پہنچادے۔ کافروں نے ان پر تیر چلائے اور حضرت عاصمؓ سمیت سات صحابہ ؓشہید ہوگئے۔
تین آدمی ان کی پناہ کی پیشکش پر نیچے اتر آئے۔مخالفین نے ان تینوں کو قابو کرلیا اوررسیوں سے باندھ دیا۔ ان تینوں میں سے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن طارق ؓنے کہا کہ یہ پہلی عہدشکنی ہے جو تم نے کی۔بخدا! مَیں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا۔ اس پر کافروں نے پہلے انہیں مجبور کیا اور جب وہ نہ مانے تو انہیں بھی وہیں شہید کردیا۔ دو صحابی حضرت خبیبؓ اور حضرت زیدبن دثنہؓ باقی بچ گئے، کافروں نے انہیں لے جاکر مکّے میں فروخت کردیا۔ حضرت خبیبؓ کو بنو حارث بن عامر بن نوفل بن عبدِ مناف نے خرید لیا۔
حضرت عاصم کے بہادری سے لڑکر جامِ شہادت نوش کرنے کا بھی تفصیلی ذکر ملتا ہے۔
آپؓ پہلے تیروں سے دشمن کا مقابلہ کرتے رہے۔جب تیر ختم ہوگئے تو نیزے سے دشمن پر وار کرتے رہے۔ جب نیزہ بھی ٹوٹ گیا اور صرف تلوار باقی رہ گئی تو تلوار سے دشمن کا مقابلہ کیا اور جب آپ کو اپنی شہادت کا یقین ہوگیا تو آپؓ کو اپنے ستر کی فکر ہوئی کیونکہ کافر جسے شہید کرتے اس کی لاش کو روندتے اور برہنہ کردیتے۔آپؓ نے خدا سے دعا کی کہ
اے اللہ! مَیں نے دن کے پہلے حصّے میں تیرے دین کی حفاظت کی ہے۔پس دن کے دوسرے حصّے میں تُو میرے ستر کی حفاظت کرنا۔
اس کے بعد آپؓ شہید ہوگئے۔
حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ نے اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آنحضورﷺ نے ماہِ صفر۴؍ہجری میں اپنے دس ساتھیوں کی ایک پارٹی تیار کی اور ان پر عاصم بن ثابتؓ کو امیر مقرر فرمایا اور ان کو یہ حکم دیا کہ خفیہ خفیہ مکّے کے قریب جاکر قریش کے حالات معلوم کریں اور رسول اللہﷺ کو اس کی اطلاع دیں۔
حضرت عاصم ؓنے چونکہ ایک بہت بڑے مشرک سردار کو قتل کیا تھا اس لیے جب قریشِ مکّہ کو یہ اطلاع ملی کہ شہید ہونے والوں میں عاصم بن ثابتؓ بھی شامل ہیں تو انہوں نے حضرت عاصمؓ کا سر یا جسم کا کوئی اور عضو لینے کے لیے چند آدمی روانہ کیے۔ حضرت عاصمؓ نے جس سردار کو قتل کیا تھا اس کی ماں نے یہ عہد کیا تھا کہ مَیں اپنے بیٹے کے قاتل کی کھوپڑی میں شراب ڈال کر پیوں گی۔ مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جب یہ لوگ
حضرت عاصم ؓکی لاش کے قریب پہنچے تو کیا دیکھا کہ ان کی لاش پر زنبوروں اور شہد کی مکھیوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ انہوں نے مکھیوں اور زنبوروں کو ہٹانے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہ ہٹیں بالآخر وہ لوگ خائب و خاسر لوٹ گئے۔
حضرت عاصمؓ جب مسلمان ہوئے تھے تو انہوں نے قسم کھائی تھی کہ آئندہ ہر مشرکانہ رسم سے دُور رہیں گےیہاں تک کہ کبھی کسی کافر سے مس بھی نہیں کریں گے۔ جب حضرت عمر فاروق ؓکو عاصمؓ کی شہادت اور اس سب واقعے کا علم ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ
اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے عہد کا کیسا پاس رکھتا ہے۔عاصمؓ نے قسم کھائی تھی کہ کبھی کسی کافر سے مس نہیں کرے گا اور اللہ تعالیٰ نے موت کے بعد بھی اس کی اس قسم کا پاس رکھا اور کافروں کو اسے چھونے نہ دیا۔
باقی صحابہ بھی بڑی بہادری سے لڑتے لڑتے شہید ہوئے اور آخر میں تین اصحابؓ باقی بچے جن میں حضرت خبیبؓ، حضرت زیدبن دثنہؓ اور حضرت عبداللہ بن طارق ؓشامل تھے۔ دشمنوں نے ان تینوں صحابہ کو پہلے عہدوپیمان دیا کہ وہ انہیں کچھ نہیں کہیں گے اور جب انہوں نے خود کو ان کے حوالے کردیا تو کافروں نے ان سے عہد شکنی کی۔ عبداللہ بن طارق ؓکی شہادت کے بعد ان مخالفین نے روپے کی لالچ میں خبیبؓ اور ابن دثنہؓ کو مکّے میں فروخت کردیا۔ خبیب ؓکو حارث بن عامر بن نوفل کے لڑکوں نے خریدا کیونکہ خبیبؓ نے بدر کی جنگ میں حارث کو قتل کیا تھا جبکہ زید بن دثنہؓ کو صفوان بن امیّہ نے خریدلیا۔
جب حضرت زید بن دثنہؓ کو شہید کرنے کے لیے لایا گیا تو ابوسفیان بن حرب نے ان سے کہا کہ اے زید! مَیں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تُو یہ پسند کرتا ہے کہ تیری جگہ ہمارے پاس محمد(ﷺ) ہوں اور ہم تیری جگہ محمد(ﷺ) کی گردن ماردیں اور تُو اپنے اہل و عیال میں رہے۔ حضرت زید نے کہا کہ
اللہ کی قسم! مجھے اتنا بھی پسند نہیں کہ محمدﷺ اس وقت جس مکان میں ہیں وہاں ان کو کانٹا بھی چبھےاور وہ انہیں تکلیف دے اور مَیں اپنے اہل و عیال میں رہوں۔
اس پر ابوسفیان نے کہا کہ مَیں نے لوگوں میں سے کسی کو نہیں دیکھا کہ وہ کسی سے ایسی محبت کرتا ہو جیسے محمد(ﷺ) کے اصحاب محمد (ﷺ) سے محبت کرتے ہیں۔ پھر حضرت زید ؓکو شہید کردیا گیا۔
ابن اکوع نے ذکر کیا ہے کہ خبیبؓ اور زیدؓ دونوں ایک ہی دن شہید کیے گئے تھے۔
جس دن یہ دونوں شہید کیے گئے اس روز سنا گیا کہ آنحضرتﷺ فرمارہے تھے کہ علیکم السلام یعنی تم دونوں پر بھی سلامتی ہو۔
حضرت خبیبؓ کے ساتھ حارث کے لڑکوں نے بڑا ناروا سلوک کیا۔ حضرت خبیبؓ نے انہیں کہا کہ کوئی معزز قوم کبھی اپنے قیدی کے ساتھ اس طرح کا رویّہ نہیں رکھتی۔ کافروں پر اس بات کا اثر ہوا اور انہوں نے اس کے بعد ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا شروع کردیا۔ جب حضرت خبیبؓ قید میں تھے تو ایک روز ایک بچّہ ان کے پاس آگیا۔ خبیب کے ہاتھ میں اس وقت اُسترا تھا، آپؓ نے اس بچےکو لےلیا۔ یہ دیکھ کر اس کی ماں ڈر گئی کہ کہیں خبیبؓ اس بچے کو نقصان نہ پہنچائیں۔
حضرت خبیبؓ نے اس عورت کے چہرے پر خوف کو محسوس کرلیا اور کہا کہ تم ڈرتی ہو کہ مَیں اس بچے کو نقصان نہ پہنچاؤں؟ بخدا!مَیں تو ایسا نہیں ہوں۔
وہ عورت کہا کرتی تھی کہ مَیں نے کبھی ایسا قیدی نہیں دیکھا جو خبیبؓ سے بہتر ہو۔ مَیں نے ایک دن انہیں دیکھا تھا کہ انگور کا خوشہ ان کے ہاتھ میں تھا اور وہ اسے کھا رہے تھے اور وہ زنجیر میں جکڑے ہوئے تھے اوران دنوں مکّے میں کوئی بھی پھل نہیں تھا۔ یہ اللہ کی طرف سے رزق تھا جو اس نے خبیب کو دیا۔
جب قریش انہیں شہید کرنے کے لیے حرم سے باہر لے گئے تو انہوں نے دو رکعت نماز اداکرنے کی اجازت چاہی۔ انہوں نے انہیں اجازت دے دی۔خبیبؓ نے نماز پڑھی اور کہا کہ مَیں نے اس خیال سے کہ تم کہو گے کہ مَیں گھبراہٹ کی وجہ سے دیر کرتاہوں یہ نماز مختصر پڑھی ہے۔ پھر انہوں نےخدا سے دعا کی کہ اے اللہ! انہیں ایک ایک کرکے ہلاک کردے۔ اس کے بعد کافروں نے آپؓ کو نہایت بےدردی سے شہید کردیا۔
حضورِانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ
ان لوگوں کی یہ موت سے بےخوفی تھی، قربانیاں تھیں۔یہ صحابہؓ اسلام کی خاطر ہروقت جان کی قربانی دینے کے لیے تیار رہنے والے تھے۔
اس سریے کا مزید ذکر ابھی ہے جو آئندہ ان شاء اللہ بیان کردوں گا۔
٭…٭…٭