بنیادی مسائل کے جوابات (قسط۷۶)
٭… کیا بابی اور بہائی لوگ مسلمان ہیں؟
٭… سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر۸کی وضاحت
٭… تدفین کے معاملے میں عورتوں کے لیے اسلامی ہدایت کیا ہے، کیا وہ تدفین میں شامل نہیں ہو سکتیں؟
٭… نیت نماز کا طریق کیا ہے؟
سوال:مراکش سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ کیا بابی اور بہائی لوگ مسلمان ہیں۔ نیز یہ کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ باب اور بہاؤاللہ دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوئے تھے اور ان دونوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک تیسرے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ تقویت بخشی (فَعَزَّزۡنَا بِثَالِثٍ۔ سورۃ یٰسین: ۱٥)۔ کیا یہ بات درست ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ ۱٦؍جنوری ۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب:بابی اور بہائی اگر خود کو مسلمان کہتے ہیں تو ہم ان کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ نہیں کرسکتے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ان کے عقائد اسلامی تعلیمات سے متضاد ضرور ہیں۔پس ان کے دعویٰ اسلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ ہی بہتر فیصلہ کرے گا۔ باقی اس فرقہ کا جماعت احمدیہ کے ساتھ دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ یہ ایک بالکل الگ فرقہ ہےجس کے عقائد اسلامی تعلیمات کے کھلے کھلے منافی ہیں۔ اس فرقہ کے پیروکار عام طورپر اپنی تعلیمات لوگوں سے چُھپاتے اور لوگوں کو صرف وہ باتیں بتاتے ہیں جو لوگوں کو اچھی لگیں۔ نیز اپنے فرقہ کو پھیلانے کے لیے یہ لو گ غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔
بابی اور بہائی فرقہ کی ابتداعلی محمد باب سے ہوئی تھی، جس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور چونکہ وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا تھا اس لیے سورۃ الحاقہ آیت ٤٥ تا ٤۸ میں بیان قرآنی وعید ’’اور اگر یہ شخص ہماری طرف جھوٹا الہام منسوب کر دیتا، خواہ ایک ہی ہوتا۔تو ہم یقیناً اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے۔اور اس کی رگ جان کاٹ دیتے۔اور اس صورت میں تم میں سے کوئی نہ ہوتا جو اسے درمیان میں حائل ہو کر (خدا کی پکڑ سے) بچا سکتا۔‘‘کے تحت قتل کیا گیا۔ باب کے قتل ہونے کے بعد اس فرقہ میں اختلاف پیدا ہو گیا اور باب ہی کے دو مریدوں مرزا یحیٰ صبح ازل اور مرزا حسین علی نوری المعروف بہاء اللہ (جو آپس میں سوتیلے بھائی بھی تھے)میں اختلاف ہو گیا۔ بہاء اللہ نے صبح ازل کوشیطان اور دجال قرار دیا اور خود خدائی کا دعویٰ کر دیا۔ اور اس طرح بہاء اللہ کے ذریعہ بہائیت کی بنیاد پڑی۔لیکن بہائیت کو بھی اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہوئی اور بہاء اللہ کی موت کے بعد ان میں مزید اختلافات پیدا ہوتے چلے گئے۔
پس علی محمد باب اور مرزا حسین علی نوری المعروف بہاء اللہ ہر گز اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث نہیں ہوئے تھے۔ کیونکہ اگر یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتے تو یقیناً انہیں ترقیات نصیب ہوتیں۔ لیکن جیسا کہ میں نے بتایا کہ علی محمد باب نبوت کے جھوٹے دعویٰ کی پاداش میں قتل کیا گیا اور بہاءاللہ نے خود خدائی کا دعویٰ کر دیا۔ اور دونوں کی تعلیمات سراسر اسلام کے خلاف تھیں۔
پھر بہائیوں کا یہ بھی ایک طریق کارہے کہ وہ اپنے عقائد کی کتب عام طور پر لوگوں سے چُھپاتے ہیں نیز لوگوں سے اپنے عقائد، اپنی تعداد اور اپنی ترقی کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ اور لوگوں کو دھوکا سے اپنے فرقہ میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بابی اور بہائی فرقہ کو کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ۱٦؍اگست ۱۹۲۹ءکو بہائیت کے بارے میں ایک تفصیلی خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا تھا، اس کا بھی آپ کو مطالعہ کرنا چاہیے۔ میں عربی ڈیسک کو ہدایت کر رہا ہوں کہ وہ اس خطبہ کا عربی ترجمہ کر کے آپ کو بھجوائیں۔
باقی آپ کا سوال کہ فَعَزَّزۡنَا بِثَالِثٍ سے مراد باب اور بہاء اللہ کو اللہ تعالیٰ نے ایک تیسرے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ تقویت بخشی؟ اس سوال پر تو اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ہی پڑھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ جیسا کہ میں نے اوپر باب اور بہاء اللہ کی اصلیت بیان کر دی ہے، اس کی روشنی میں یہ تصور بھی ناقابل سوچ ہے۔
اور جہاں تک قرآن کریم کی اس آیت کی تفسیر کا تعلق ہے تو اس بارے میں مفسرین نے سابقہ انبیاء میں سے مختلف نام لکھے ہیں۔ بعض نے اس آیت کا مصداق حضرت موسیٰ کے بعد حضرت ہارون اور پھر حضرت عیسیٰ علیہم السلام کو قرار دیا ہے اور بعض نے شمعون، یوحنا اور پولوس کے نام لکھے ہیں۔ بعض نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون یا حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے بعد آنحضورﷺ کی ذات والا صفات مراد لی ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:فَعَزَّزۡنَا بِثَالِثٍ: تیسرا (محمد مصطفیٰؐ) ایسا زبردست آیا کہ اس قوم سے کوئی لات و عزّیٰ کا پرستار نہ رہا۔ بلکہ تمام عرب مسلمان ہو گیا۔ بلکہ تمام دنیا کے مذاہب کے معابد اس کے نام پر فتح ہوئے۔۱۔یوروشلم ۲۔ آتش کدہ آذر ۳۔ خانہ کعبہ۔ (حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ ٤٥۸)
سوال:یوکے سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے قرآن کریم کی آیت وَاِذۡ اَخَذۡنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیۡثَاقَہُمۡ وَمِنۡکَ وَمِنۡ نُّوۡحٍ وَّاِبۡرٰھِیۡمَ وَمُوۡسٰی وَعِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ وَاَخَذۡنَا مِنۡہُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا۔ (الاحزاب:۸) یعنی (یاد کرو) جب کہ ہم نے نبیوں سے ان پر عائد کردہ ایک خاص بات کا وعدہ لیا تھا اور تجھ سے بھی (وعدہ لیا تھا) اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم سے بھی اور ہم نے ان سب سے پختہ عہد لیا تھا۔کے حوالے سے دریافت کیا ہے کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم الکلام کی روشنی میں اس سے مراد ہے کہ یہ حکم نبی کی امت کے لیے ہے؟ کیونکہ بعض اوقات مخاطب آنحضرتﷺ ہوتے ہیں لیکن مرجع کلام امت کی طرف ہوتا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۹؍جنوری ۲۰۲۳ء میں اس بارے میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:
جواب:آپ اس آیت کے معانی بالکل درست سمجھے ہیں۔ اس آیت میں حضورﷺ سے عہد لینے کا یہی مطلب ہے کہ آپ کی امت کو اس امر کا پابند کیا گیا ہے کہ اگر حضورﷺ کی اتباع میں کوئی نبی آئے تو امت ضرور اسے قبول کرے۔ یہی وہ عہد ہے جس کے تحت ہمارا ایمان ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی بیان فرمودہ پیش خبریوں کے عین مطابق اسلام کی تجدید کے لیے جب آپ کے غلام صادق اور روحانی فرزندحضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت ہوئی اور زمینی اور آسمانی نشانوں نے اس مسیح محمدی کی صداقت کو روز روشن کی طرح ثابت کر دیاتو تمام امت مسلمہ کا فرض تھا کہ وہ اپنے اس عہد کے مطابق جو انہوں نے آنحضورﷺ کی وساطت سے اپنے رب سے کیا تھا، آنحضرتﷺ کے اس ظلی،بروزی اور امتی نبی پر ایمان لاتے اور اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی روحانیت کے سامان کرتے۔ مگر افسوس کہ بہت تھوڑے ہیں جنہوں نے اپنے اس عہد کا پاس کیا۔ اللہ تعالیٰ امت محمدیہ کو عقل اور سمجھ دے اور ان کی آنکھیں کھولے تا کہ وہ اس فرستادہ کو پہچان کر اس پر ایمان لانے والے بنیں۔ آمین
سورۃ الاحزاب کی اس آیت کے علاوہ سورت آل عمران کی آیت نمبر ۸۲ میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے اور آنحضورﷺ سے پہلےوالے انبیاء سے بھی اسی قسم کا عہدلیے جانے کا ذکر ہے۔ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:اور یاد کر جب خدا نے تمام رسولوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت دوں گا۔ اور پھر تمہارے پاس آخری زمانہ میں میرا رسول آئے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے گا۔ تمہیں اس پر ایمان لانا ہو گا اور اس کی مدد کرنی ہوگی اور کہا کیا تم نے اقرار کر لیا اور اس عہد پر استوار ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اقرار کر لیا۔ تب خدا نے فرمایا کہ اب اپنے اقرار کے گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ اس بات کا گواہ ہوں۔
اب ظاہر ہے کہ انبیاء تو اپنے اپنے وقت پر فوت ہو گئے تھے۔ یہ حکم ہر نبی کی امت کے لیے ہے کہ جب وہ رسول ظاہر ہو تو اس پر ایمان لاؤ ورنہ مؤاخذہ ہو گا۔(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۳۴،۱۳۳)
سورت آل عمران کی اس آیت کےالفاظ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ یعنی سب نبیوںوالا پختہ عہدکے ترجمہ کے فٹ نوٹ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں:سب نبیوں والا سے مرادیہ ہے کہ جو عہد سب نبی اپنی امتوں سے لیتے چلے آئے ہیں۔(تفسیر صغیر صفحہ ۹۰ حاشیہ، زیر آیت سورت آل عمران نمبر۸۲)
اسی طرح سورۃ الاحزاب کی مذکورہ بالا آیت کے ترجمہ کے فٹ نوٹ میں حضورؓ فرماتے ہیں:اس میں سورۃ آل عمران کی آیت۸۲ کی طرف اشارہ ہے کہ ہر نبی کو اس کے بعد آنے والے نبی کی بشارت دی گئی تھی۔ اور اس کی قوم پر واجب کیا گیا تھا کہ اس پر ایمان لائے۔(تفسیر صغیر صفحہ ٥٤٥ حاشیہ، زیر آیت سورۃ الاحزاب نمبر۸)
سوال:کینیڈا سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سےاستفسار کیا کہ تدفین کے معاملہ میں عورتوں کے لیے اسلامی ہدایت کیا ہے، کیا وہ تدفین میں شامل نہیں ہو سکتیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۱؍ جنوری ۲۰۲۳ء میں اس مسئلہ کے بارے میں درج ذیل ارشاد فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب:عام حالات میں عورتوں کا جنازہ کے ساتھ جانا پسند نہیں کیا گیا، لیکن اسے حرام بھی قرار نہیں دیا گیا۔ چنانچہ حضرت ام عطیہ ؓکہتی ہیں کہ ہم عورتوں کو جنازہ کے ساتھ جانے سے منع کیا جاتا تھا لیکن اس معاملہ میں ہم پر سختی نہیں کی جاتی تھی۔(صحیح بخاری کتاب الجنائز بَاب اتِّبَاعِ النِّسَاءِ الْجَنَائِزَ)
پس اس ہدایت کے تابع عام حالات میں تو عورتیں جنازہ کے ساتھ نہیں جاتیں۔ لیکن بعض اوقات کچھ لوگ جو سیدھے قبرستان آ رہے ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ عورتیں بھی ہوتی ہیں اور وہ ایسے قریبی عزیز ہوتے ہیں کہ انہیں میت کا چہرہ دیکھنے کی بھی خواہش ہوتی ہے۔ اسی طرح مغربی ممالک جہاں جنازہ اور تدفین کی صورتحال اکثر اوقات ایسی ہوتی ہے کہ مردوں کے ساتھ عورتیں بھی مساجد میں نمازوغیرہ کے لیے آئی ہوتی ہیں، اور مردوں کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ عورتوں کو گھر چھوڑ کر پھر تدفین میں شامل ہوں۔ ایسی مجبوری کی صورت میں اگر عورتیں بھی قبرستان آ جائیں تو اس میں کوئی ہرج کی بات نہیں۔ لیکن ایسی صورت میں وہ تدفین کے وقت الگ رہیں گی اور تدفین میں وہ شامل نہیں ہوں گی، البتہ تدفین مکمل ہونے پر دعا میں شامل ہو سکتی ہیں۔
سوال:انڈیا سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرالعزیز کی خدمت اقدس میں اس سوال پر مشتمل عریضہ تحریر کیا کہYouTube پر جماعت کی Salat Series دیکھی جس میں نیت نماز کو تکبیر کے بعد دکھایا گیا ہے جبکہalislam.org میں نیت تکبیر سے پہلےہے۔ اس بارے میں وضاحت کی درخواست ہے کہ کیا نیت تکبیر سے پہلے ہے یا بعد میں ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۱؍جنوری ۲۰۲۳ء میں اس کے بارے میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:
جواب:نیت کا تعلق انسان کے دل کے ساتھ ہے اس کے لیے کوئی معین الفاظ بیان نہیں ہوئے، نماز کی نیت سے صرف اس قدر مراد ہے کہ انسان کے دل میں یہ ہونا چاہیے کہ وہ کونسی نماز پڑھ رہاہے۔ زبان سے الفاظ کا ادا کرنا یا نماز شروع کرنے سے پہلے اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ االسَّمٰوَاتِ وَاْلاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن۔(الانعام:۸۰)کے کلمات دہراناکسی نصّ سے ثابت نہیں۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’نماز کی نیت کرنا مگر صرف دل میں زبان سے نہیں۔‘‘(دینیات کا پہلا رسالہ صفحہ ۲۰)
نماز میں توجہ قائم رکھنے کے طریق بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ساتواں طریق نماز پڑھنے کی نیت ہے۔ کیونکہ جب انسان اپنے نفس کو بتا دیتا ہے کہ اس کام کے لیے میں کھڑا ہونے لگا ہوں تو توجہ اس کی طرف ہی رہتی ہے۔نیت سے یہ مراد نہیں کہ کہا جائے کہ پیچھے اس امام کے اتنی رکعت نماز منہ طرف کعبہ شریف وغیرہ وغیرہ۔بلکہ ذہن میں ہی نماز پڑھنے کی نیت کرنی چاہیے…نیت دراصل قلب کی ہوتی ہے۔ مگر بعض لوگوں کو کھڑے ہوتے وقت پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کیا کرنے لگے ہیں۔پس جب تم نماز پڑھنے لگو تو نماز پڑھنے کا خیال بھی کرلو او ر سمجھو کہ کیا کرنے لگے ہو۔جب یہ بات سمجھ لو گے تواسی وقت سے تمہارے اندر خشیت پیداہونی شروع ہوجائے گی اور جب خشیت پیدا ہوجائے گی تو توجہ بھی قائم رہ سکے گی۔‘‘ (ذکر الٰہی، انوار العلوم جلد ۳ صفحہ ٥۲۰،٥۲۱)
جماعت کی طرف سے شائع شدہ فقہ کی کتاب میں بھی یہ وضاحت موجود ہے کہ نیت کے معنے ارادہ کے ہیں:نیت کا تعلق دل سے ہے اس لیے دل میں یہ طے ہونا چاہیے کہ وہ کس وقت کی اور کتنی رکعت نماز شروع کرنے لگا ہے۔ منہ سے نیت کے الفاظ ادا کرنے ضروری نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں تو منہ سے اظہار نیت کے الفاظ نکالنے کو مستحسن بھی نہیں سمجھا گیا۔ (فقہ احمدیہ عبادات صفحہ ۷۱)
جماعتی لٹریچر میں غالباً سب سے پہلے حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ کی مرتب کردہ کتاب فقہ احمدیہ مطبوعہ ۱۹۲۳ء میں نیت نماز کے لیے قرآنی آیت اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن کے الفاظ کو سہواً درج کر دیا گیا تھا، جس کا کوئی حوالہ اس کتاب میں موجود نہیں ہے۔ (فقہ احمدیہ از حضرت حافظ روشن علی صاحب صفحہ ۳۲ مطبوعہ ۱۲؍مارچ ۱۹۲۳ء )
باقی جہاں تک نماز کے آغاز میں تکبیر تحریمہ کے بعد وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن کے کلمات یا ثناء اور دیگر مسنون کلمات کے پڑھنے کا تعلق ہے تو احادیث سے پتا چلتاہے کہ آنحضرتﷺ تکبیر تحریمہ (اللہ اکبر) کہہ کر نماز شروع کرنے کے بعد مختلف کلمات پڑھا کرتے تھے۔ان میں سے بعض کلمات دعا پرمشتمل ہیں اور بعض کلمات اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء پر مشتمل ہیں۔ اس بارے میں کئی روایات آتی ہیں۔ ان روایات میں سے بعض میں حضورﷺ کے ایک لمبی دعا پڑھنے کا بھی ذکر آیا ہے جس کا آغاز آپ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن کے کلمات سے فرماتے تھے۔(صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا بَاب الدُّعَاءِ فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ وَقِيَامِهِ)
صحاح ستہ میں سے ترمذی، نسائی، ابوداؤد اورابن ماجہ میں متعدد روایات بیان ہوئی ہیں جن میں اس موقع پر حضورﷺ کا درج ذیل الفاظ میں ثناء پڑھنے کا بھی ذکر ہے۔چنانچہ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں۔ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ قَالَ سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلٰهَ غَيْرُكَ۔(سنن ترمذی ابواب الصلاۃ بَاب مَا يَقُولُ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ)یعنی نبی کریمﷺ جب نماز شروع کرتے تو سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلٰهَ غَيْرُكَ کے کلمات پڑھتے۔
اسی طرح حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمﷺ تکبیر تحریمہ اور سورت فاتحہ کی تلاوت کے درمیان کچھ دیر خاموش رہتے تھے۔میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! آپ اس دوران کیا پڑھتے ہیں؟ تو حضورﷺنے فرمایامیں یہ دعا پڑھتا ہوں۔اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللّٰهُمَّ نَقِّنِي مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ اللّٰهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ۔(صحیح بخاری کتاب الاذان بَاب مَا يَقُولُ بَعْدَ التَّكْبِيرِ)یعنی اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اس طرح دوری ڈال دے جس طرح تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان دوری ڈال رکھی ہے۔ اے اللہ ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک و صاف کر دے جس طرح سفید کپڑے کودھو کر میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ !میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولوں سے دھو کر صاف کر دے۔
پس یہ دعا ہے نیت نماز نہیں، نیت نماز کے لیے کسی قسم کے الفاظ دہرانے یا قرآن کریم کی کسی آیت کو پڑھنے کی کوئی سند موجود نہیں۔ لہٰذا ان چیزوں کو نیت نماز کے طور پر نہ تکبیر تحریمہ سے پہلے اور نہ ہی تکبیر تحریمہ کے بعد پڑھا جائے گا۔ بلکہ نیت کا تعلق چونکہ دل سے ہوتا ہے، اس لیے نماز شروع کرنے سے پہلے دل میں یہ ارادہ ہونا چاہیے کہ انسان کس وقت کی اور کونسی نماز پڑھنے لگا ہے۔ اس کے لیے کسی قسم کے الفاظ دہرانے کی ہر گز ضرورت نہیں۔ اسی طرح تکبیر تحریمہ کے بعد جو ہم وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن کی مسنون دعا پڑھتے ہیں، وہ نیت نماز کے طور پر نہیں پڑھتے بلکہ جس طرح حضورﷺ نے یہ کلمات یہاں پڑھے ہیں یا دیگر دعائیں پڑھی ہیں، اسی طرح آپ کی سنت کے تابع ہم یہ دعا یا یہ کلمات پڑھتے ہیں۔