اسلام نے سادگی کو پسند کیا ہے اور تکلفات سے نفرت کی ہے
یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں۔ یہی عورتوں کی آزادی فسق وفجور کی جڑ ہے۔ جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روا رکھا ہے ذرا ان کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو۔ اگر اس کی آزادی اور بےپردگی سے ان کی عفت اور پاک دامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں۔ لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو ان کے تعلقات کس قدر خطر ناک ہوں گے۔ بد نظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کاخاصہ ہے۔ پھر جس حالت میں کہ پردہ میں بے اعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق وفجور کے مرتکب ہو جاتے ہیں تو آزادی میں کیا کچھ نہ ہو گا۔
(ملفوظات جلد۴صفحہ۱۰۴، ایڈیشن۱۹۸۸ء)
انسان کو جیسے باطن میں اسلام دکھانا چاہیے۔ویسے ہی ظاہر میں بھی دکھلانا چاہیے۔ان لوگوں کی طرح نہ ہونا چاہیےجنہوں نے آج علیگڑھ میں تعلیم پا کر کوٹ پتلون وغیرہ سب کچھ ہی انگریزی لباس اختیار کر لیا ہے حتیٰ کہ وہ پسند کرتے ہیں کہ ان کی عورتیں بھی انگریزی عورتوں کی طرح ہوں اور ویسے ہی لباس وغیرہ وہ پہنیں۔جو شخص ایک قوم کے لباس کو بھی پسند کرتا ہے تو پھر وہ آہستہ آہستہ اس قوم کو اور پھر ان کے دوسرے اوضاع و اطوار حتیٰ کہ مذہب کوند کرنے لگتا ہے۔اسلام نے سادگی کو پسند کیا ہے اور تکلفات سے نفرت کی ہے۔
(ملفوظات جلد۴ صفحہ۳۸۷، ایڈیشن۱۹۸۴ء)
خدا تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے۔ چنانچہ لِبَاسُ التَّقْویٰ قرآنِ شریف کا لفظ ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی اُن کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تابمقدور کاربند ہو جائے۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱صفحہ۲۱۰)