ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل (جلدکے متعلق نمبر ا ) (قسط ۶۹)
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)
ایسیٹک ایسڈ
Acetic acidum
(سرکہ- ایک تیزابی محلول)
اس کی خاص علامت یہ ہے کہ بخار کی حالت میں بہت پسینہ آتا ہے، بائیں گال پر سرخ داغ پڑ جاتے ہیں اور پیاس نہیں لگتی۔(صفحہ۷)
ایکٹیا ریسی موسا
Actea racemosa
(Black Snake – Root)
بازوؤں اور ٹانگوں میں بے چینی اور بے آرامی کا احساس ہوتا ہے، خارش ہوتی ہے۔ (صفحہ۱۸)
ایڈرینالین
Adrenalin
(Epinephrin)
اگر پاؤں کی انگلیوں پر گٹے پڑ گئے ہوں جنہیں Corn کہتے ہیں تو ان کے لیے بھی یہ دوا مفید ہے۔ (صفحہ۲۰)
ایسکولس ہیپوکاسٹینم
Aesculus hippocastanum
(Horse Chestnut)
کندھوں کے درمیان درد، گردن کی پشت میں تھکاوٹ کا احساس، دائیں کندھے اور سینہ میں درد، جس میں سانس اندر کھینچنے سے اضافہ ہو، ہاتھ پاؤں میں سوزش، دھونے سے ہاتھ سرخ ہو جائیں، جوڑوں میں اکڑن اور درد، جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوں، بجلی کے جھٹکے کی طرح چیرنے والے درد، درد کو ٹکور سے آرام۔ یہ سب ایسکولس کے دائرہ عمل میں ہیں۔ (صفحہ۲۲)
ایسکولس ویری کوزوینز (Varicose Veins) یعنی وریدوں کے گچھے پھول جانے کی بھی بہترین دوا ہے۔ عموماً عورتوں میں حمل کے دوران ٹانگوں پر جالا سا بن جاتا ہے، ہر طرف نیلے رنگ کی وریدیں پھیلنے لگتی ہیں جو بہت تکلیف دہ ہوتی ہیں، اس بیماری میں ایسکولس بہت مفید دوا ثابت ہوئی ہے۔ (صفحہ۲۳)
ایتھوزا سائی نپیم
Aethusa cynapium
(Fools Parsely)
چہرے پر سرخ نشان ظاہر ہو جاتے ہیں، جبڑے کی ہڈیوں میں درد اور کھچاؤ محسوس ہوتا ہے۔ (صفحہ۲۷)
ایگیریکس مسکیریس
Agaricus muscarius
(Fly Fungus)
ٹھنڈی ہوالگنے سے کانوں میں درد، سرخی اور جلن کا احساس ہوتا ہے، سردی کی وجہ سے پاؤں میں بھی سوزش اور خارش ہو جاتی ہے اور وہ سرخ ہو جاتے ہیں۔بعض اوقات سخت سردی کے موسم میں باہر سے گرم کمرے میں داخل ہونے سے ہاتھ پاؤں میں گہری کھجلی ہونے لگتی ہے اور سرخی اور ورم نمایاں ہوتے ہیں اس تکلیف کو Chillblain کہتے ہیں۔ ہر وہ بیماری جس میں خون کا اجتماع کسی خاص عضو کی طرف ہو جائے اور اس کے نتیجہ میں تناؤ،بے چینی،سرخی اور درد پیدا کرنے کر والی خارش ہو اس میں ایگیریکس بہت مفید ہے۔ بعض قسم کی الرجیوں میں بھی ایسی علامتیں پیدا ہو جاتی ہیں مثلاً ملیریا کے علاج کے نتیجہ میں ہاتھ پاؤں میں سوزش، سرخی بے چینی اور سخت تکلیف دہ خارش ہو اور مریض میں ایگیریکس کی دوسری علامتیں بھی موجود ہوں تو یہ دوا تیر بہد ف ثابت ہوتی ہے اور الرجی کو دور کرنے والی کسی اور دوا کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ایک دو خوراکوں سے ہی اللہ کے فضل سے تکلیف دور ہو جاتی ہے۔ کبھی اس کی بجائے فاسفورس بھی مفید ثابت ہوتی ہے۔(صفحہ۳۰)
ایگیریکس میں ایگزیما بھی ملتا ہے۔ اس ایگزیما کی پہچان زرد رنگ کے مواد والے چھالے ہیں جو اعصابی ریشوں کے ساتھ ساتھ جلد پر نکلتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اعصابی کمزوریاں ایگزیما میں بدل جاتی ہیں۔ بعض اور بیماریوں میں بھی اعصاب کی رگوں کے ساتھ ساتھ چھالے نکلتے ہیں جو عموماً ہرپیز(Herpes) کی پہچان ہے جس کی مختلف اقسام ہوتی ہیں لیکن ایگیریکس ہر پیز کی دوا نہیں ہے اور اس کے ایگزیما اور چھالوں کا تعلق ہر پیز سے نہیں ہے۔(ص:۳۲)
ہرپیز(Herpes) بہت تکلیف دہ بیماری ہے۔ اس کو اعصاب کی دوسری بیماریوں سے امتیازی طور پر سمجھنا چاہئے اور اس کا بروقت صحیح علاج کرنا چاہئے ورنہ بعض دوسری خطر ناک پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ میں پہلے سلیشیا، کالی فاس اور کالی میور دیا کرتا تھا جن سے کسی حد تک فائدہ بھی پہنچتا تھا لیکن بعد میں تجربہ سے ثابت ہوا کہ ہرپیز کا بہترین علاج وہ نسخہ ہے جو میں عموماً سانپ بچھو کے کاٹے کے علاج میں دیتا ہوں۔ مکرم آفتاب احمد خان صاحب مرحوم کو ایک بار ہر پیز کا بہت شدید حملہ ہوا تھا۔ میں نے انہیں آرنیکا ۲۰۰،لیڈم ۲۰۰ اور آرسنک ۲۰۰ میں دیں۔ غیر معمولی تیزی سے شفا ہوئی۔ لیکن کوئی ایسا معین نسخہ میرے علم میں نہیں ہے جو ہر دفعہ کام آئے کیونکہ یہ بیماری اپنی طرز بدلتی رہتی ہے اور بھیس بدل بدل کر سامنے آتی ہے۔ (صفحہ۳۳)
ایگیریکس میں کھانا کھانے کے بعد،کھلی ٹھنڈی ہوا اور سرد موسم میں تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں۔ نیند سے طبیعت بحال نہیں ہوتی۔ دن بھر غنودگی چھائی رہتی ہے۔ خارش ہوتی ہےجس میں جلن نمایاں ہے۔(صفحہ۳۳)
ایگنس کاسٹس
Agnus castus
(The Chaste Tree)
بعض قسم کی خوشبوؤں سے زود حسی ہوتی ہے، رخساروں پر خارش اور چیونٹیا ں رینگنے کا احساس بھی ایگنس کاسٹس کی خاص علامت ہے۔(صفحہ۳٦)
ایلیم سیپا
Allium cepa
(Red Onion)
ایلیم سیپا کالی کھانسی میں بھی مفید ہے اور خسرہ میں بھی۔ اگر بچے کو الٹیاں بھی آئیں، بد ہضمی ہو، بدبودار ہوائیں خارج ہوں اور خسرہ کی علامات ظاہر ہونی شروع ہو جائیں تو ایلیم سیپا بہت مفید ثابت ہوتی ہے۔ نیز بچوں کے پیٹ درد کے لیے بھی یہ اچھی دوا ہے۔(صفحہ۳۸)
بعض دفعہ نزلہ زکام کے ساتھ جلد پر سرخ چھوٹے چھوٹے دانے نمودار ہو جاتے ہیں۔ سوئیاں چبھنے کا احساس ہوتا ہے اور جسم کے بعض حصوں میں حدت اور جلن محسوس ہوتی ہیں۔(صفحہ۳۹)
ایلیو من (پھٹکری)
Alumen
(Common Potash Alum)
پھٹکری کے زہر کے بداثرات کے نتیجہ میں عموماً گہرے السر بنتے ہیں اور اگر پھوڑے بنیں تو ان پھوڑوں کے رفتہ رفتہ بگڑ کر کینسر بننے کا رحجان بھی پایا جاتا ہے۔ اسی طرح گلے اور زبان میں خصوصیت کے ساتھ یہ زہر حملہ کرتا ہے اور وہاں بھی السر یا کینسر پیدا کر دیتا ہے نیز اس کے نتیجہ میں گلینڈز سوج کر سخت ہونے لگتے ہیں۔ ٹانسلز سوج کر رفتہ رفتہ بڑے اور سخت ہو نے لگتے ہیں۔ عورتوں میں رحم اور سینے کے غدود اسی طرح موٹی موٹی سخت گٹھلیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔(صفحہ٤٦)
الیومینا
Alumina
(Oxide of Aluminum – Argilla)
الیومینا کی ایک علامت یہ ہے کہ اس کی خارش میں جلد پر کوئی ابھار نہیں بنتے۔ بالکل صاف شفاف جلد پر پہلے خارش ہوتی ہے۔ پھر خارش سے جلد میں سوزش پیدا ہو جائے تو سختی سے کھجلی کرنے سے دانے یا آبلے بن جاتے ہیں۔ بعض اوقات چھیلنے سے خون بھی رسنے لگتا ہے۔ متاثرہ حصہ بالکل ماؤف ہو جاتا ہےاور انفیکشن کی وجہ سے کئی اور پیچید گیاں پیدا ہوتی ہیں۔ خارش کی عام دواؤں میں عموماً جلد پر ابھار پہلے پیدا ہوتے ہیں اور خارش بعد میں شروع ہوتی ہے۔ الیومینا اس کے برعکس ہے۔ (صفحہ٥۰) نزلاتی اور جلدی علامات بکثرت ملتی ہیں۔(صفحہ٥۳)
نزلاتی جھلیوں کی طرح جلد بھی ہر قسم کی بیماریوں کا شکار رہتی ہے۔ کھجلا کر جگہ جگہ سے موٹی کھال کی طرح ہو جاتی ہے۔ زخم بھی بنتے ہیں اور ناسور بھی۔ سلفر کی طرح بستر کی گرمی سے خارش بہت بڑھ جاتی ہے۔ چہرے پر یوں لگتا ہے جیسے جالا سا تنا گیا ہو یا انڈے کی سفیدی لگانے کے بعد خشک ہو گئی ہو۔ ناک کی چونچ میں کٹاؤ پڑ جاتا ہے۔ آنکھوں پر سوزش اور بعض دفعہ ککرے بن جاتے ہیں۔(صفحہ٥۳)
بستر کی گرمی شروع میں تو بہت پسند آتی ہے مگر گرم ہونے پر خارش کا دورہ شروع ہو جاتا ہے۔ ہاتھ بہت ٹھنڈے رہتے ہیں اور سوتے وقت بہت آہستہ گرم ہوتے ہیں۔ جلد عموماً خشک رہتی ہے اور پسینہ بہت کم آتا ہے یا بالکل نہیں آتا۔ (صفحہ٥٤)
امونیم کارب
Ammonium carb
(Carbonate of Ammonia)
سانپوں کےکاٹے میں یہ عجیب بات پائی جاتی ہے کہ اس میں خون جمنے اور بہنے دونوں باتوں کا رحجان ہوتا ہے۔Orifices سے خون بہتا ہے یعنی ہر اس جگہ سے جہاں جلد اور اندرونی جھلیوں کا جوڑ ہے مثلاً ناخن اور جلد کا جوڑ، ہونٹوں کے باہر کی جلد کے ساتھ اندر کی جلد کا جوڑ وغیرہ۔ جلد اور جھلیوں کے جوڑ ایک طرح سے سلائی والی لکیر کے مشابہ ہوتے ہیں جہاں دو کنارے آپس میں ملتے ہیں۔ پس جہاں کہیں بھی جلد اور جھلیوں کا جوڑ ہو وہاں سے خون رسنے کارجحان سانپوں کے زہروں میں نمایاں طور پر ملتا ہے اور یہی رجحان امونیم کا رب میں بھی ہے۔ (صفحہ٥۸)
امونیم کارب غدودوں اور سلی امراض میں بھی بہت مفید ہے۔ بعض اوقات گردن کے غدود سوج کر سخت ہو جاتے ہیں اور گلٹیاں بن جاتی ہیں۔ دائمی سوزش امونیم کارب کی خاص علامت ہے۔ اس لیے یہ کینسر کی گلٹیوں میں بھی مفید ہے۔ اگر جلدی بیماریاں علاج سے دبا دی جائیں اور وہ غدودوں میں پناہ لے لیں اور لمبے عرصہ تک ان کی طرف توجہ نہ دی جائے تو اس کے نتیجہ میں غدودوں میں کینسر پیدا ہونے کا خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ امونیم کارب بھی گٹھلیوں کے کینسر میں کام آنے والی دوا ہے۔ اس میں گلینڈز اس وقت پھولتے ہیں جب بیماریاں بیرونی سطحوں سے اندر کی طرف منتقل ہو کر غدودوں کی جھلیوں میں گھر بنا لیں۔(صفحہ٥۹،٦۰)