بحیرہ احمر(Red Sea)
بحیرہ احمر Red Seaیا بحیرہ قلزم بحر ہند کی ایک خلیج ہے جو کہ افریقہ اور ایشیا کے درمیان واقع ہے۔ یہ آبنائے باب المندب اور خلیج عدن کے ذریعے بحر ہند سے منسلک ہے۔جبکہ اس کے شمال میں جزیرہ نمائے سینا، خلیج عقبہ اور خلیج سویز واقع ہیں جو نہر سویز سے ملی ہوئی ہے۔نیز ۱۹ ویں صدی تک یورپی لوگ اسے خلیج عرب بھی کہتے تھے۔
بحیرہ احمر کا عربی نام البحر الاحمر جبکہ انگریزی میں Red Sea کہتے ہیں اور اردو ميں معنی سرخ سمندر کےہیں۔جبکہ اس کا پانی سرخ رنگ کا نہیں ہے،بلکہ پانی کی سطح پر مختلف موسموں میں سرخ رنگ کے سائنو بیکٹیریا وغیرہ کے باعث اس کا نام بحیرہ احمر پڑگیا۔جہاں تک بحیرہ قلزم نام کی بات ہے توایک شہر كا نام جو مصر وعرب كے درمیان سمندر (بحیرہ احمر)كے كنارے پر بسا ہوا ہے، جس كی وجہ سے اس سمندر كا نام بھی قلزم پڑ گیا۔اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ کے مطابق حضرت موسیؑ نے اپنی قوم کے ساتھ جس سمندر کو پار کیا تھا وہ بحیرہ احمر ہی تھا۔
رقبہ کے لحاظ سےبحیرہ احمر ایک لاکھ ۷۴؍ہزار مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔ جبکہ خلیج ایک ہزار ۲۰۰؍میل طویل اور زیادہ سے زیادہ ۱۹۰؍میل چوڑی ہے۔اسی طرح بحیرہ احمر کی زیادہ سے زیادہ گہرائی ۸؍ہزار ۲۰۰؍فٹ جبکہ اوسط گہرائی ایک ہزار ۶۴۰؍فٹ ہے۔اور اگر اس سمندرکی خاصیت کو دیکھا جائے توبحیرہ احمر کا پانی دنیا کے نمکین ترین پانیوں میں سے ایک ہے۔ شدید گرم موسم کے باعث آبی بخارات بننے کے عمل میں تیزی اور ہوا کے دباؤ کی وجہ سے بحیرہ احمر میں نمکیات ۳۶؍سے ۳۸؍فیصد تک ہیں۔ اس لیے بحیرہ احمر دنیا کے تمام سمندروں میں گرم ترین سمندر ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے حسین ترین پانیوں میں سے ایک بحیرہ احمر کا پانی ہے۔ اس کے علاوہ بحیرہ احمر میں ایک ہزار سے زائد بے مہرہ حیاتیاتی انواع اور ۲۰۰؍اقسام کے نرم اور سخت مونگے پائے جاتے ہیں۔
بحیرہ احمر کا ساحل جن ممالک سے ملتا ہے وہ درج ذیل ہیں : مصر، فلسطین، اردن شمالی ساحل سوڈان، مصر۔ مغربی ساحل۔ سعودی عرب، یمن مشرقی ساحل جبکہ جنوبی ساحلی پٹی صومالیہ ، جبوتی اور اریٹیریا سے ملتی ہے۔
تاریخی اعتبار سےسب سے پہلے قدیم مصریوں نے تجارتی راستے تلاش کرنے کے لیےسفر شروع کیے۔ پھر ایک مہم ۲۵۰۰ قبل مسیح میں ہوئی۔ جبکہ سکند را عظم نے بھی اسی بحیرہ میں ایک مہم چلائی۔ پہلی صدی عیسوی کے ایک نامعلوم یونانی مصنف کی تحریر میں بحیرہ احمر کی بندر گاہوں اور راستوں کی تفصیل کا خاکہ درج ہے۔ اسی طرح رومی قدیم انڈیا سے تجارت کے لیے اسی پر سے گزر کر جاتے تھے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ قدیم سے ہی بحیرہ احمر تجارتی اغراض کی بنا پر ہر ایک کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یورپینزنے پندرھویں صدی میں بحیرہ احمر میں پہلی بار خاصی دلچسپی کا اظہار کیا۔جبکہ اٹھارھویں صدی کے اواخر میں فرانسیسیوں نے اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔عثمانیوں نے بحیرہ احمر اور بحیرہ روم کو ملانے کے لیے ایک نہرکامنصوبہ بنایا تھا لیکن اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکے۔لیکن انجینئر جے پی لیپیر نے منصوبہ کے تحت نہر کی تعمیر کی اور اس نہر یعنی نہر سویز کو نومبر ۱۸۶۹ء میں کھولا گیا اوراس وقت برطانیہ، فرانس اور اٹلی نے مشترکہ طور پر شہر میں تجارتی مقامات سنبھالے۔لیکن جنگ عظیم اول کے بعد یہ مقامات ختم ہو گئے۔ پھردوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ اور سوویت یونین نے اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کی کوشش کی۔اسی طرح عربوں اور اسرائیل کے درمیان۶ روزہ جنگ کے باعث نہر سویز ۱۹۶۷ ء سے ۱۹۷۵ ء تک بند رہی۔
بحیرہ احمر براعظم ایشیا اور افریقہ کے درمیان شمال میں نہر سویز کے ذریعے بحیرہ روم اور جنوب میں بحر ہند کے سا تھ ملنے والا سمندر ہے۔ اسی طرح بحر ہند سے ملنے کی وجہ سے بحیرہ احمر بھی دنیا کے ان چند سمندروں میں شامل ہے جن کا ذکر قدیم ترین کتابوں میں موجود ہے۔
پوری دنیا کے لیے بحیرہ احمر کی اہمیت اس لیے بھی نمایاں ہے کہ نہر سویز کی تعمیر کے بعد یورپ اور ایشیا کے درمیان کم فاصلے کی مصروف ترین تجارتی گزر گاہ ہے۔ اس وجہ سے یورپ اور ایشیا کے درمیان تجارتی مال کی بہم رسانی میں مصروف بڑی بڑی تجارتی کمپنیاں بحیرہ احمر کا آبی راستہ استعمال کرنے پر مجبور ہیں، نیز بحیرہ احمر بحر ہند اوراس کے پار جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کے ساتھ اسرائیلی تجارتی تعلقات کا واحد ذریعہ ہے۔
بحیرہ احمر آبنائے باب المندب کو نہر سویز سے جوڑتا ہے، دنیا کی کل تجارت کا تقریباً ۱۰فیصد اور دنیا کی کل سمندری کنٹینر ٹریفک کا ۳۰فیصد اسی راستے سے گزرتا ہے۔ جبکہ عالمی تیل کی کھپت کا تقریباً پانچواں حصہ اس سے گذرتا ہےنیز باب المندب سے روزانہ تقریباً ۵.۳ملین بیرل تیل آئل ٹینکروں میں گذرتا ہے۔ یہ محل وقوع کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل ہےاور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس آبنائے کے بند ہونے کی صورت میں آئل ٹینکرز نہر سویز سے گذرنے کی بجائے کیپ آف گڈ ہوپ کے ذریعے افریقی براعظم کے گرد گھومنے پر مجبور ہو جائیں گے اور اس سے تیل کی نقل و حمل کی لاگت میں کافی نمایاں اضافہ ہوگا۔ لہذا یہ راستہ بہت سا تجارتی مال کم وقت میں منزل مقصود پر پہنچانے میں کافی مددگار ثابت ہوتاہے۔(وکی پیڈیا،العربیہ اردو،دنیا نیوز)
(مرسلہ: الف فضل)