الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح ا لاوّلؓ کا تَوکّل علی اللہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۲؍جون ۲۰۱۴ء میں مکرم محمود احمد اشرف صاحب کے قلم سے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے توکّل علی اللہ کے حوالے سے مضمون شامل اشاعت ہے۔
اس دنیا میں اللہ تعا لیٰ نے ہر کام کی خا طر بے شما ر اسباب پیدا کر رکھے ہیں۔ اسلام نے ان اسباب کو بروئے کار لا نے کی نہ صرف اجا زت دی ہے بلکہ جا ئز اسباب کے استعما ل نہ کر نے کو غلط قرار دیا ہے۔ مگر سا تھ ہی یہ تعلیم بھی دی ہے کہ اصل بھروسہ ان اسباب پر نہیں بلکہ ان اسباب کو پیدا کر نے والی ہستی یعنی اللہ تعالیٰ پر کرنا ہے۔ اس تعلیم کا نام توکّل ہے۔ سیدنا حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’تمہیں دوا اور تدبیر سے ممانعت نہیں ہے مگر ان پر بھروسہ کرنے سے ممانعت ہے اور آخر وہی ہوگا جو خدا کا ارادہ ہو گا۔ اگر کوئی طاقت رکھے توتوکّل کا مقام ہرایک مقام سے بڑھ کر ہے۔‘‘ (کشتی نوح صفحہ۱۳)
سیدناحضرت خلیفۃ المسیح ا لاوّلؓ ایک ایسے نادر وجود تھے جن کی عظیم المرتبت شخصیت میں دوسری متعدد صفا ت کی طرح توکّل علی اللہ کی شان بھی بہت نما یا ں نظر آتی ہے۔ آپؓ کی ذات پر اللہ تعا لیٰ کا یہ بڑا فضل تھا کہ آپ نے نیک والدین کے ہاں جنم لیا۔ دونوں بےحد متوکّل اور عا شق قرآن تھے۔ آپ کا سلسلہ نسب سیدنا حضرت عمر فاروقؓ تک پہنچتا ہے۔ پس سعادت اور ایما ن کا ایک وافر حصہ آپ کی فطرت میں ودیعت کیا گیا تھا۔ اللہ تعا لیٰ نے آپ کو اپنے پیا رے مسیح موعود علیہ السلام کا سلطان نصیر بنا نا تھا۔ چنانچہ زما نہ طالب علمی سے ہی آپ کے اندر دعا کی عا دت اور توکّل جیسی صفت پیدا کرنے کے لیے آپ سے خا ص سلوک فرما یا۔ ایک دفعہ کسی ضرورت کے پیش آنے پر آپؓ نے اپنے استاد سے پو چھا کہ کیا تدبیر کروں؟ جواب ملا کہ افسوس اس مطلب کے حصول کے لیے میر ے پا س کو ئی عمل نہیں ہے۔ اس پر خدا تعا لیٰ نے آپ کی راہ نما ئی کرتے ہوئے آپ سے کہا کہ ’’ہمت سے کا م لو اور دعا کرو۔‘‘چنانچہ آپؓ نے ایسا ہی کیا اور آپؓ کا مطلب حل ہو گیا۔
ا نسان کو خدا کی معرفت کا جس قدر حصہ ملا ہو اسی قدر وہ ما دہ پرستی سے دُور ہوتا ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح ا لاولؓ کو ایک ایسی فطرت عطا ہو ئی تھی جو خدا تعا لیٰ کی طرف جھکی ہوئی اور مادی اسباب پر بھروسہ کر نے سے سخت متنفّر تھی۔ چنانچہ پنڈدادنخا ن کے ایک سکول میں جب آپؓ ہیڈماسٹر تھے تو ایک دن انسپکٹر سکول وہاں آگیا۔ حضورؓ اس وقت کھانا کھارہے تھے۔ آپؓ نے انسپکٹر کو بھی کھانے میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ آپؓ کی دعوت کو قبول کر نے یا اس کا شائستگی سے جواب دینے کی بجائے اس نے کہا کہ آپ نے مجھے پہچانا نہیں، مَیں انسپکٹر مدارس ہوں۔ اس پر آپؓ نے کہا کہ آپ بڑے نیک آدمی ہیں اسا تذہ سے کھانا نہیں کھا تے۔ یہ کہہ کر آپؓ اپنی جگہ پر بیٹھے رہے اور انسپکٹر اپنے گھو ڑے کی باگ تھا مے کھڑا رہا۔ پھر اس نے آپؓ سے کہا کہ کسی لڑکے کو بھیج دیں کہ وہ میرا گھوڑا تھام لے۔ آپؓ نے فرمایا کہ لڑکے تو یہاں پڑھنے کے لیے آتے ہیں گھو ڑے تھامنے کے لیے تو نہیں آتے۔ پھر اس نے کہا کہ میں لڑکوں کا امتحا ن لوں گا۔آپؓ نے لڑکوں کو امتحا ن کے لیے تیار کر دیا اور انسپکٹر نے ان کا امتحان لیا۔ پھر آپؓ سے کہنے لگا کہ مَیں نے سنا ہے کہ آپ بڑے لائق ہیں اور آپ نے بڑی عمدہ اسناد حاصل کر رکھی ہیں اسی لیے آپ کو اس قدر ناز ہے۔ یہ بات سن کر آپؓ نے اس کو کہا کہ ہم اس ایک بالشت کے کاغذ کو خدا نہیں سمجھتے۔ پھر اپنی اسناد منگوائیں اور اس کے سامنے ہی انہیں پھاڑ ڈالا۔ آپؓ فرماتے تھے کہ جب سے مَیں نے اس ڈپلومہ کو پھاڑا تب ہی سے میرے پاس اس قدر روپیہ آتا ہے جس کی کوئی حد نہیں۔
اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس پر حقیقی توکّل کا ایک لازمی نتیجہ استغناہے۔ جب انسان کو یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کی تمام ضرورتیں پوری کرتا ہے تو وہ لوگوں سے ایک رنگ میں بےنیاز ہوگا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی شخصیت میں یہ استغنا اور دنیا اور اس کے اسباب سے بےنیازی ایک عجیب شان کے ساتھ نظر آتی ہے۔ آپ سولہ سال تک مہاراجہ کشمیر کے ہاں ملازم رہے جس کی شان و شوکت اور رعب و دبدبہ کو دیکھ کر بڑے بڑے لوگوں کے لیے اس کی خوشامد اور چاپلوسی کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ مگر مہاراجہ کے دربار میں آپؓ کی حق گوئی، جرأت اور خودداری مشہور تھی۔ مہاراجہ اکثر درباریوں کو مخاطب کرکے کہاکرتے تھے تم سب اپنی اپنی غرض لے کر میرے پاس جمع ہوکر میری خوشامد کرتے ہو لیکن صرف ایک شخص ہے جس کو مَیں نے اپنی غرض کے لیے بلایا ہے اور مجھے اس کی خوشامد کرنی پڑتی ہے۔
حدیث ہے کہ اگر انسان اللہ تعالیٰ پر توکّل کرے جیساکہ توّکل کرنے کا حق ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس طرح رزق دے گا جس طرح وہ پرندوں کو رزق دیتا ہے کہ وہ صبح کو خالی پیٹ گھونسلوں سے نکلتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ واپس آتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی زندگی میں ایسے بیسوں واقعات ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ظاہری اسباب کی عدم موجودگی میں غیب سے آپ کو رزق عطا فرمایا۔ بلکہ بارہا آپؓ نے کسی چیز کی خواہش کی اور خدا تعالیٰ نے وہ بھی پوری فرمادی۔
ایک مرتبہ آپ اپنے ایک بھتیجے کو ساتھ لے کر بھیرہ سے جموں جانے لگے تو آپ کے پاس ایک پیسہ بھی نہ تھا اس لیے ارادہ کیا کہ بیوی سے کچھ روپیہ قرض لے لیں لیکن پھر ایسا کرنے سے طبیعت میں انقباض پیدا ہو گیا اور آپ خالی جیب ہی گھر سے چل دیے۔ پہلا پڑاؤ لاہور میں تھا۔ وہاں سے بذریعہ ریل وزیر آباد ا ور پھر بذریعہ یکّہ جمّوں تشریف لے گئے۔ اس سارے سفر کے دوران خداتعالیٰ نے اس طرح اپنے متوکّل بندے کا خیال رکھا اور ایسے اعجازی نشان دکھائے جو عام انسان کی زندگی میں محال نظر آتے ہیں۔ مثلاً فرماتے ہیں کہ لاہور سٹیشن پر پہنچے تو مجھے یقین تھا کہ میں ابھی کی گاڑی میں جاؤں گا۔ میرے کھڑے کھڑے ٹکٹ تقسیم ہونے شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے بند ہوگئے۔ ٹرین بھی آئی۔ مسافر بھی سوار ہو گئے۔ اندر جانے کا دروازہ بھی بند کیا گیا۔ انجن نے روانگی کی سیٹی دی۔ اس وقت بھی مجھ کو یقین تھا کہ اسی گاڑی پر جاؤں گا۔ جب بالکل گاڑی چلنے ہی کو تھی تو ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ نور دین نوردین پکارتا ہوا دُور تک چلا گیا۔ اور گاڑی میں کوئی ایسا واقعہ ہوا کہ وہ چل کر پھر رک گئی۔ وہ شخص پھر واپس آ یا اور مجھے دیکھ لیا۔ دیکھتے ہی دوڑتا ہوا اسٹیشن کے کمرہ میں گیا وہاں سے تین ٹکٹ لایا۔ ایک اپنا اور دو ہمارے۔ ساتھ ہی ایک سپاہی بھی لایا۔ دروازہ کھلوایا اور ہم تینوں سوار ہوئے۔ ہمارے سوار ہوتے ہی ٹرین چل دی۔ اس نے کہا کہ مجھ کو آپ سے ایک نسخہ لکھوانا ہے۔ مَیں نے نسخہ لکھ دیا اور پھر ٹکٹوں کو دیکھنے لگا کہ یہ کہاں تک کے ہیں اور کیا کرایہ دیا گیا ہے۔ ٹکٹ وہیں تک کے تھے جہاں ہم کو جانا تھا یعنی وزیر آباد۔ وہ تو نسخہ لکھوا کر شاہدرہ اتر گیا۔ ہم وزیرآباد پہنچے۔وہاں سے جموں تک ریل نہ تھی۔ راستہ میں ایک شخص ملا۔ اس نے کہا کہ میری ماں بیمار ہے۔ آپ اس کو دیکھ لیں۔ میں نے کہا کہ مجھ کو جانے کی جلدی ہے۔ اس نے کہا کہ میرا بھائی آگے اڈے پر جاتا ہے اور یکّہ کرایہ کرتا ہے۔ اتنے میں آپ میری ماں کو دیکھ لیں۔ آپ کو اڈے پر پہنچ کر یکّہ تیار ملے گا۔ چنانچہ مَیں نے اس کی ماں کو دیکھا اور نسخہ لکھا۔ جب مَیں وہاں سے چلا تو اس شخص نے میری جیب میں کچھ روپے ڈال دیے جن کو مَیں نے اڈے پر پہنچنے سے پہلے ہی گن لیا، معلوم ہو ا کہ دس روپیہ ہیں۔ اڈے پر پہنچے تو اس کا بھائی اور یکّہ والا آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ یکّہ والا کہتا تھا کہ دس روپیہ لوں گا اور وہ کہتا تھا کہ کم۔ میں نے کہا کہ جھگڑا کرنے کی ضرورت نہیں دس روپیہ کرایہ ٹھیک ہے۔
بظاہر یوں ہی نظر آتا ہے کہ حضورؓ کو اللہ تعالیٰ طب کے ذریعے رزق دیتا تھا لیکن ایک روز آپؓ نے فرمایا کہ بیماری کا ابتلا بھی عجیب ہوتا ہے۔ اخراجات بڑھ جاتے ہیں اور آمدنی کم ہوجاتی ہے اور دوسرے لوگوں کی خوشامد کرنی پڑتی ہے۔ میری آمدنی کا ذریعہ بظاہرطب تھا۔ اب اس رشتہ کو بھی اس بیماری نے کاٹ دیا ہے۔ جو لوگ میرے حالات سے واقف نہیں وہ جانتے تھے کہ اس کو طب ہی کے ذریعہ روپیہ ملتا ہے مگر اب اللہ تعالیٰ نے اس تعلق کو بھی درمیان سے نکال دیا۔ میری بیوی نے آج مجھے کہا کہ ضروریات کے لیے روپیہ نہیں۔ اور مجھے یہ بھی کہا کہ مولوی صاحب! آپ نے کبھی بیماری کے وقت کا خیال نہیں کیاکہ بیماری ہو تو گھر میں دوسرے وقت ہی کھانے کو نہ ہوگا۔ مَیں نے اسے کہا کہ ’میرا خدا ایسا نہیں کرتا۔ مَیں روپیہ تب رکھتا جو خدا تعالیٰ پر ایمان نہ رکھتا۔…‘ حضرت یہ بیان کر ہی رہے تھے کہ شیخ تیمور صاحب نے کہا کہ ڈاک میں خط آیا ہے کہ ایک شخص نے ۱۲۵؍روپے ذات خاص کے لیے ارسال کیے ہیں۔
دراصل اپنی آئندہ کی ضروریات کے لیے کچھ رقم بچا کر رکھنا نہ صرف جائز بلکہ عام انسانوں کے لیے مستحب بھی ہے۔ مگر صوفیاء نے لکھا ہے کہ عام لوگوں کی نیکیاں ابرار کی برائیاں ہوتی ہیں۔ بالعموم رقم کو بچا کر رکھنا انبیاء و اولیاء کی سنت نہیں ہے۔ وہ اسے توکّل کے خلاف سمجھتے ہیں۔ لیکن اس شان کا توکّل کرنا کسی کے لیے تب ہی ممکن ہے جب وہ اللہ تعالیٰ سے بشارتیں حاصل کر چکا ہو۔ چنانچہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کو ایسا ہی تعلق باللہ حاصل تھا۔ آپؓ نے ایک مرتبہ فرمایا: ’’خداتعالیٰ کا میرے ساتھ یہ وعدہ ہے کہ مَیں اگر کہیں جنگل بیابان میں بھی ہوں تب بھی خد اتعالیٰ مجھے رزق پہنچائے گا۔‘‘
محترم حکیم محمد صدیق صاحب کی روایت ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ تین ساتھیوں کے ساتھ ہم راستہ بھول گئے اور کہیں دُور نکل گئے۔ کوئی بستی نظر نہیں آتی تھی۔ میرے ساتھیوں کو بھوک اور پیاس نے سخت ستایا تو ان میں سے ایک نے کہا کہ نورالدین جو کہتا ہے کہ میرا خدا مجھے کھلاتا پلاتا ہے، آج ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح کھلاتا پلاتا ہے۔ فرمایا کرتے تھے مَیں دعا کرنے لگا۔ چنانچہ جب ہم آگے گئے تو پیچھے سے زور کی آواز آئی۔ ٹھہرو ٹھہرو۔ جب دیکھا تو دو شتر سوار تیزی کے ساتھ آ رہے تھے۔ جب پاس آئے تو انہوں نے کہا: ہم شکاری ہیں۔ ہرن کا شکار کیا تھا اور خوب پکایا۔ گھر سے پراٹھے لائے تھے۔ ہم سیر ہوچکے ہیں اور کھانا بھی بہت ہے۔ آپ کھالیں۔ چنانچہ ہم سب نے خوب سیر ہو کر کھایا۔ ساتھیوں کو یقین ہو گیا کہ نورالدین سچ کہتا تھا۔
حضورؓ فرمایا کرتے تھے کہ ’’اللہ تعالیٰ کا نورالدین کے ساتھ وعدہ ہے کہ میں تیری ہر ضرورت کو پورا کروں گا۔‘‘
قریشی امیر احمد صاحب بھیروی کی شہادت ہے کہ ہمارے سامنے حضورؓ کی خدمت میں چٹھی رساں کتابوں کا ایک وی پی لایا جو سولہ روپے کا تھا۔ آپؓ نے فرمایا کہ یہ کتابیں مجھے بہت پیاری ہیں اور مَیں نے بڑے شوق سے منگوائی ہیں۔ لیکن اب ان کی قیمت میرے پاس نہیں ہے لیکن میرے مولیٰ کا میرے ساتھ ایسا معاملہ ہے کہ سولہ روپے آئیں گے اور ابھی آئیں گے۔ چنانچہ ہم بیٹھے ہی تھے کہ ایک ہندو اپنا ایک بیمار لڑکالے کر آیا۔ حضرت نے نسخہ لکھ دیا۔ ہندو ایک اشرفی اور ایک روپیہ رکھ کر چل دیا۔ آپؓ نے اسی وقت سجدۂ شکر کیا اور فرمایا کہ مَیں اپنے مولیٰ پر قربان جاؤں کہ اس نے تمہارے سامنے مجھے شرمندہ نہیں کیا۔ اگر یہ شخص مجھے کچھ بھی نہ دیتا تو میری عادت ہی مانگنے کی نہیں۔ پھر ہوسکتا تھا کہ وہ صرف ایک روپیہ دیتا یا اشرفی ہی دیتا۔ مگر میرے مولیٰ نے اسے مجبور کیا کہ میرے نور الدین کو سولہ روپے کی ضرورت ہے اس لیے اشرفی کے ساتھ روپیہ بھی ضرور رکھو۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ غیرمعمولی سلوک جو ہمیں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کی زندگی میں نظر آتا ہے وہ اتنا شاذ کیوں ہے؟ اس کا جواب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں یوں ہے۔ فرمایا: ’’وہ خارق عادت قدرت اسی جگہ دکھلاتا ہے جہاں خارق عادت تبدیلی ظاہر ہوتی ہے۔ خوارق اور معجزات کی یہی جڑ ہے۔ یہ خدا ہے جو ہمارے سلسلہ کی شرط ہے۔ اس پر ایمان لاؤ اور اپنے نفس پر اور اپنے آراموں پر اور اس کے کُل تعلقات پر اس کو مقدّم رکھو اور عملی طور پر بہادری کے ساتھ اس کی راہ میں صدق و وفا دکھلاؤ۔ دنیا اپنے اسباب اور اپنے عزیزوں پر اس کو مقدّم نہیں رکھتی مگر تم اس کو مقدّم رکھو تاتم آسمان پر اس کی جماعت لکھے جاؤ۔ رحمت کے نشان دکھلانا قدیم سے خدا کی عادت ہے۔ مگر تم اس حالت میں اس عادت سے حصہ لے سکتے ہو کہ تم میں اور اس میں کچھ جدائی نہ رہے اور تمہاری مرضی اس کی مرضی اور تمہاری خواہشیں اس کی خواہشیں ہو جائیں اور تمہارا سر ہر ایک وقت اور ہر ایک حالتِ مرادیابی اور نامرادی میں اس کے آستانہ پر پڑا رہے تا جو چاہے سو کرے۔ اگر تم ایسا کرو گے تو تم میں وہ خدا ظاہر ہوگا جس نے مدّت سے اپنا چہرہ چھپا لیا ہے۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۱۱)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے ساتھ اس قسم کے سلوک کا ایک اَور حیرت انگیز واقعہ یوں ہے کہ ایک دفعہ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ دارالضعفاء یا نور ہسپتال کے چندے کے لیے آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؓ نے فرمایا میرے پاس اس وقت کچھ نہیں مگر حضرت میر صاحبؓ نے کئی بار اصرار کیا۔ اس پر آپؓ نے کپڑا اٹھایا اور وہاں سے ایک پاؤنڈ اٹھاکر دے دیا اور فرمایا اس پر صرف نورالدین نے ہاتھ لگایا ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کو کوئی ضرورت پیش آئی تو آپؓ نے دعا مانگی پھر مصلیٰ اٹھایا تو ایک پاؤنڈ پڑا ہوا تھا۔
پس مومن کے لیے توکّل محض ایک فلسفہ نہیں ہے بلکہ یہ اس کی عملی زندگی کا مکمل لائحہ عمل ہے۔ جب اس کے پاس کوئی اسباب نہیں ہوتے اور وہ بظاہر بےیارومددگار نظر آتا ہے تو کسی غم کا شکار یا مایوس نہیں ہوتا۔ اور جب اسے کامیابی حاصل ہوتی ہے تو وہ شیخی نہیں بگارتا بلکہ سمجھتا ہے کہ وہ کمزور ہے اور خدا کے فضلوں کا پہلے سے بھی بڑھ کر محتاج ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے عظیم الشان توکّل کا ایک نظارہ ہمیں فتنہ انکارِ خلافت کے موقع پر نظر آتا ہے۔ جماعت میں مولوی محمد علی صاحب کی شخصیت بادیٔ النّظر میں بلاشبہ بہت نمایاں تھی۔ آپ صدرانجمن کے ایک سرکردہ ممبر اور دینی و دنیوی طور پر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان تھے۔ خود حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ اُن کے لیے بڑا حسنِ ظن رکھتے تھے۔ چنانچہ جب حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کے بعد آپؓ کی خدمت میں خلافت کا بارگراں اٹھانے کی درخواست کی گئی تو آپؓ نے نہایت عجز و انکسار کا اظہار فرمایا اور چار عمائدینِ سلسلہ کے نام پیش کیے کہ ان میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کرلیا جائے۔ ان میں مکرم مولوی محمدعلی صاحب کا نام بھی شامل تھا۔ پس مولوی صاحب کی شخصیت اپنی قابلیت اور خدمات کی وجہ سے بہت نمایاں اور معتبر تھی۔ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ بھی ان لوگوں میں سے تھے جو اُن پر خاص حسن ظن رکھتے تھے۔ وہ ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی خدمت میں گھبرائے ہوئے حاضر ہو ئے اور عرض کی کہ بڑی خطرناک بات ہو گئی ہے۔ آپ جلدی کوئی فکر کریں۔ مولوی محمدعلی صاحب کہہ رہے ہیں کہ میری یہاں سخت ہتک ہوئی ہے مَیں اب قادیان میں نہیں رہ سکتا۔ آپ کسی طرح ان کو منوا لیں ایسا نہ ہو کہ وہ قادیان سے چلے جائیں۔ اگرچہ حضورؓ نہ صرف مولوی محمدعلی صاحب کی خدمات کے معترف تھے بلکہ آپ کو یہ بھی اندازہ تھا کہ یہ فتنہ ظاہری طور پر جماعت کے لیے کتنا خطرناک ہوسکتا ہے۔ مگر آپؓ نے بڑے اطمینان سے فرمایا: ڈاکٹر صاحب! میری طرف سے مولوی محمدعلی صاحب کو جا کر کہہ دیں کہ اگر انہوں نے کل جانا ہے تو آج ہی قادیان سے تشریف لے جائیں۔
اب ظاہر ہے کہ جو شخص ظاہری اسباب پر بھروسہ رکھتا ہے وہ ایسی بےنیازی نہیں دکھا سکتا جو اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دکھائی۔
٭… سیدناحضرت خلیفۃ المسیح ا لاوّلؓ فرما تے ہیں:
جو کچھ میری عمر ہے وہ آجکل کی عمروں کے مطابق انتہائی زمانہ ہے۔ ستر برس سے تجاوز ہے۔… پھر میری اولاد ایسی نہیں جو میری خدمت کرے اور مجھے بھی اس بات کی فکر نہیں کہ میری اولاد میرے بعد کس طرح گزارہ کرے گی۔ کیونکہ جب میں نے اپنے باپ دادا کے مال سے پرورش نہیں پائی تو میں بڑا مشرک ہوں اگر اپنی اولاد کی نسبت مَیں یہ خیال کروں کہ ان کا گزارہ میرے مال پر موقوف ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے وَلَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ مِّنۡ اِمۡلَاقٍ ؕنَحۡنُ نَرۡزُقُکُمۡ وَاِیَّاہُمۡ ۚ (الانعام:۱۵۲) جب رزق دینے کا خدا وعدہ کرتا ہے تو مجھے کیا فکر ہے۔ پس اگر مجھے فکر ہے تو یہ کہ قبر اور قیامت میں میرے ساتھ جانے والا کوئی نہیں۔ (خطبات نور صفحہ ۴۱۵)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی سیرت کے اس عظیم الشان پہلو کا مطالعہ اللہ تعالیٰ کی وراءالوراء ہستی پر ہمارے ایمان کو بھی مضبوط کرتا ہے۔ خدا کر ے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی وہ دعا ہمارے حق میں بھی قبول ہو جا ئے جو آپؑ نے ایک فا رسی شعر میں کی ہے کہ
’کا ش اُمّت کا ہر فرد نورالدین بن جا ئے۔‘
………٭………٭………٭………