اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز (جلسہ سالانہ کینیڈا ۲۰۱۶ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ چهاردهم)
ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب
خلافت کے لیے حضور انور کی تکریم
میں نے حضور انور کی خدمت میں ایک تبصرہ پیش کیا جو میں نے چند دن قبل سنا تھا، جو میرے لیے کچھ حیران کن تھا۔کسی نے ایک دوست کو کہا کہ وہ ایسے مصروف لگتے ہیں جیسے حضور انور مصروف ہوتے ہیں۔ اس پرحضور انور نے فرمایا کہ جب میں ربوہ میں ناظر اعلیٰ تھا تو ایک دوست نے مجھے کہا کہ دنیا میں دو لوگ ہی مصروف ہیں ، ایک حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اور دوسرا میں۔ میری آواز کم ہی بلند ہوتی تھی لیکن اس موقع پر میں نے جان بوجھ کر اپنی آواز بلند کی تاکہ میرے اردگرد کے لوگ بھی سن لیں۔میں نے انہیں کہا کہ تمہاری مجال کیسے ہوئی کہ میرے ساتھ موازنہ کر کے میرے خلیفہ کی تذلیل کرو!
جب حضور انور نے یہ الفاظ ادا فرمائے تو میرا وجود کانپ گیا اور مجھے خیال آیا کہ حضور انور خلیفۃ المسیح بننے سے قبل منصب خلافت کی کس قدر تعظیم و تکریم کرتے تھے۔
ایک جذباتی واقعہ
۲؍نومبر ۲۰۱۶ء کو حضور انور نے Saskatoon میں فیملی ملاقاتیں فرمائیں۔ اس دوران میری ملاقات کئی احمدی احباب سے ہوئی جنہوں نے مجھے بتایا کہ حضور انور سے زندگی میں پہلی یا دوسری مرتبہ ملاقات کے بعد کیسا محسوس ہوتا ہے۔
میری ملاقات ایک نوجوان خاتون سے ہوئی جن کی اپنے شوہر کے ہمراہ حضور انور سے ملاقات ہوئی تھی۔ انہوں نے مجھے پاکستان میں بچپن میں پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں بتایا۔ دوران ملاقات وہ جذبات سے مغلوب تھیں اور ان کے لیے اپنے آنسو روکنا مشکل لگ رہا تھا۔ اس خاتون نے بتایا کہ جب میں بچی تھی اور میری عمر چار سے پانچ سال تھی تو میرے والدین کی علیحدگی ہو گئی تھی اور اس وجہ سے ہماری والدہ نے ہمیں چھوڑ دیا اور میں نے انہیں دوبارہ دس سال تک نہیں دیکھا۔ بعد ازاں ہم نہایت مشکل حالات میں رہےجہاں میرے والد، دو بہنیں اور میں ، ہم سب ایک ہی کمرے میں رہتے تھے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اگرچہ مجھے اس بات کی شدید تکلیف تھی کہ ہماری والدہ نے ہمیں چھوڑ دیا ہے اور بچپن کی عمر میں بھی مجھے یقین تھا کہ خلافت کی وجہ سے ہم ٹھیک رہیں گے۔ میں بچپن میں حضور انور کو دعائیہ خطوط لکھتی تھی لیکن خط پوسٹ کرنا مشکل ہوتا تھا کیونکہ پیسے نہیں ہوتے تھے اس لیے میں اس خط کو اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیتی تھی، جب تک میں اسے بھجوا نہ دیتی اور بچپن میں بھی حضور انور کو (دعائیہ خط)لکھنے کی وجہ سے مجھے سکون ملتا تھا۔
اپنی ملاقات کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ آج میں نے دوسری مرتبہ حضور انور سے ملاقات کی ہے اورحضور انور کی محبت اور رحم دلی کا کوئی ثانی نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ میں آج کینیڈا میں پُرسکون زندگی گزار رہی ہوں جو محض آپ کی دعاؤں کی وجہ سے ہے، جو مجھے آپ سے ملیں جبکہ میں پاکستان میں بچپن میں پرورش پا رہی تھی۔ صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ میں نے پہلے کن حالات میں گزارہ کیا اور جو غم سہے اور پھر آج میں ایک خوش کن شادی شدہ اور آرام دہ زندگی گزار رہی ہوں۔
حضور انور کی شفقت کی ایک مثال
اس شام ڈاکٹر احسن خان صاحب بھی موجود تھے اور اس تقریب کے بعد وہ ان خوش نصیب لوگوں میں سے تھے جن پر حضو ر انور کی نظر پڑی ۔ آپ ہوٹل کی لابی میں کھڑےتھے جہاں تقریب منعقد ہوئی تھی۔ بعد ازاں انہوں نے مجھے بتایا کہ حضور انور کے ساتھ ان چند لمحات کے بعد ان کے کیا جذبات تھے۔ احسن صاحب نے بتایا کہ اس تقریب کے بعد مجھے حضور انور کے ساتھ چند منٹ گزارنے کی سعادت ملی اور آپ نے میری آنٹی ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ کی وفات پر تعزیت فرمائی اور خاکسار سے ربوہ میںان کی تدفین میں شامل ہونے کے بارے استفسار بھی فرمایا۔ میرے لیے اور میرے ساتھ کھڑے ہوئے احباب کے لیے یہ ایک نہایت غیر معمولی لمحہ تھا ،جسے ہم ہمیشہ ایک قیمتی خزانہ کے طور پر یاد رکھیں گے۔
آپ نے بتایا کہ گفتگو ختم ہونے پر حضور انور تشریف لے گئے اور وہ اس قدر خوش تھے کہ انہوں نے اپنے بہنوئی اور ان کے ساتھ ایک دوست کو بے اختیار گلے لگا لیا۔ تاہم وہ ان خوشی کے جذبات میں ایسے کھوئے کہ مسجد نہ جا سکے جہاں حضورانور نے مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھانی تھیں۔اس کی بجائے وہ اپنے ہوٹل میں واپس آ گئے جو وہی ہوٹل تھا جہاں حضور انور بھی قیام پذیر تھے ۔ اس کے بعد کیا ہوا، اس کے متعلق احسن صاحب نے بتایا کہ جب حضور انور ہوٹل میں واپس تشریف لائے اور اپنی کار سے اترے تو آپ نے مجھے دیکھا اور حیرانگی سے استفسار فرمایا کہ کیا میں نے نماز ادا کی ہے؟مجھے بے حد شرمندگی محسوس ہوئی کیونکہ میں حضور انور کی اقتدا میں نماز باجماعت ادا نہ کر سکا تھا۔ بہرحال اس واقعہ کا مجھ پر بہت اثر ہوا کیونکہ اس نے میرے پر خلافت کی خوبصورتی ظاہر کردی۔ حضور انور سے میری پہلی ملاقات نے ذہن کو مکمل طور پر حضور کے خیالات میں محو کر دیا تھا جبکہ درحقیقت اس کو عبادت پر مرکوز ہونا چاہیے تھا۔یوں حضور انور نے بنفسِ نفیس خاکسار کو اس بات کی اہمیت اجاگر کروائی کہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کو مقدم رکھو۔
حضور انور کی محبت اور خیال رکھنے کی ایک مثال
اس صبح حضور انور نے صفوان چودھری صاحب (انچارج کینیڈا میڈیا ٹیم )کو اپنے دفتر میں طلب فرمایا۔ بعدازاں صفوان صاحب نے مجھے بتایا کہ وہ حیران رہ گئے جب انہیں پتا چلا کہ حضور انور نے انہیں کیوں طلب فرمایا۔ صفوان صاحب نے بتایا کہ Regina میں کچھ دن قبل ان کی والدہ کی حضور انور کے ساتھ ملاقات تھی جس میں وہ بھی شامل تھے۔ لیکن کیونکہ وہ حضور انور سے اس دورے کے دوران دیگر کئی مواقع پر ملاقات کی سعادت پا چکے تھے، اس لیے دوران ملاقات وہ خاموش رہے۔ تاہم حضور انور نے صفوان صاحب کی خاموشی کو محسوس کیا، جس کے ازالے کے لیے آپ نے انہیں بلایا تھا۔ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے موصوف نےبتایا کہ دورے کے مختلف حصوں کی تفصیل اور میڈیا کی بڑے پیمانے پر توجہ کا ذکر کرنے کے بعد حضور انور نے مجھے بتایا کہ آپ نے مجھے کیوں بلایا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ جب میں آپ سے Regina میں ملا تھا تو میں نے اپنی اہلیہ کے لیے تحفہ حاصل کرنے کی درخواست نہ کی تھی اور یہ کہ آپ نے میری اس بے توجہگی کو محسوس فرمایا تھا۔ حضور انور نے استفسار فرمایا کہ کیا میں اپنی بیوی کے لیے تحفہ لینا چاہتا ہوں تو میں نے فوراً اثبات میں جواب دیا۔مجھے اپنی بیوی کے لیے تحفہ ملنے پر بہت خوشی ہوئی۔ حضور انور نے اپنا دراز کھولا اور ایک خوبصورت انگوٹھی نکالی جس کو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انگوٹھی سے مَس کر کے متبرک کرنے بعد مجھے عطا فرمائی۔
صفوان صاحب نے مزید بتایا کہ حضور انور نے فکر مندی سے فرمایا کہ تمہاری نئی نئی شادی ہوئی ہے اور تم اپنی بیوی کو ٹورانٹو چھوڑکر آئے ہو۔ کیا تم مستقل اس کو فون کرتے ہو؟ اس سبکی سے کہ مجھے جتنی مرتبہ فون کرنا چاہیے میں نہیں کرتا، میں نے عرض کی کہ حضور وہ بہت تعاون کرنے والی ہے اور میں ابھی اس کو کال کر لوں گا۔حضور انور کے دورے سے صرف دو ماہ قبل شادی ہونے کی وجہ سے میں بار بار اپنی اہلیہ کی خبر گیری کی عادت نہیں بنا سکا اور یوں حضور انور نے نہایت شفقت سے اس حوالے سے میری راہنمائی فرمائی۔
اس دورے کے حوالے سے صفوان صاحب نے اپنے تاثرات کا اظہار یوں کیا کہ حضور انور کا دورہ کینیڈا ذاتی طور پر میرے لیے ایک نمایاں تبدیلی کا حامل اور ایمان افروز تھا۔ حضور انور کے دورہ کینیڈا کے دوران اس قدر خدمت کا موقع میسر آنا میری زندگی کی سب سے بڑی سعادت ہے اور ایک ایسا تجربہ ہے جس پر میں ہمیشہ خوشیاں مناؤں گا۔اس دورے کے دوران ہم نے اس قدر معجزات، الٰہی تائید کے نظارےاور حضور انور کی دعاؤں سے عظیم الشان کامیابیاں مشاہدہ کیں۔اس دورے پر نظر دوڑاؤں تو میں یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جو ذمہ داری حضور انور نے اسلام احمدیت کا جھنڈا بلند کرنے کے حوالے سے لاکھوں کینیڈین افراد کے دماغوں میں اجاگر فرمائی ہے، وہ کس قدر عظیم الشان کارنامہ ہے۔
(مترجم:’ابو سلطان‘ معاونت:مظفرہ ثروت)