احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
براہین احمدیہ کے چارحصوں کی تاریخ اشاعت
براہین احمدیہ کا سنہ اشاعت ۱۸۸۰ء ہے جیسا کہ براہین احمدیہ کے ٹائٹل پیج پر درج شعرہے جو کہ اس کی تاریخ اشاعت کو بھی معین کرتاہے۔وہ شعر یہ ہے :
کیا خوب ہے یہ کتاب سسبحان اللہ
اک دم میں کرے ہے دینِ حق سے آگاہ
از بس کہ یہ مغفرت کی بتلاتی ہے راہ
تاریخ بھی یاغفور نکلی واہ واہ
اوریا غفور کے اعداد ابجدکے حساب سے ۱۲۹۷ بنتے ہیں :
[ی:۱۰ +الف:۱ +غ:۱۰۰۰ +ف:۸۰ +و:۶ +ر:۲۰۰= ۱۲۹۷]
اور۱۲۹۷ سنہ ہجری ہے جو کہ ۱۸۸۰ء بنتاہے۔بہرحال براہین احمدیہ کاپہلا اوردوسرا حصہ ۱۸۸۰ء میں شائع ہوا۔ پہلا حصہ اندازاً جولائی ۱۸۸۰ء اور دوسرا حصہ اندازاً دسمبر ۱۸۸۰ء تک،تیسراحصہ ۱۸۸۲ء اورچوتھا حصہ ۱۸۸۴ء۔
اس ضمن میں یہاں دو باتیں قابل ذکرہیں ایک تو یہ کہ پہلاحصہ جو کہ ۱۸۸۰ء میں شائع ہوا وہ اس اندازہ شدہ مدت سے بہرحال تاخیر سے شائع ہواجس کی کہ حضرت اقدسؑ کو امیدتھی یا آپؑ نے خیال فرمایا تھا۔جیسا کہ آپؑ نے اپنے ایک اشتہار میں جو کہ آپؑ نے ۳؍دسمبر ۱۸۷۹ء میں شائع فرمایاتھا کہ جنوری یا حد فروری میں شائع ہوگی۔ملاحظہ ہو اس اشتہار کا یہ فقرہ جس میں آپؑ فرماتے ہیں : ’’…یہ کتاب جنوری ۱۸۸۰ء میں زیر طبع ہو کر اس کی اجراء اسی مہینہ یا فروری میں شائع اورتقسیم ہونی شروع ہوجائے گی ‘‘(اشتہار۲۰؍دسمبر ۱۸۷۹ء منقول از اخبار سفیر ہند،بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ ۱۹ )
لیکن جب پہلا حصہ شائع ہوا تو وہ اس اندازہ شدہ مدت سے سات آٹھ ماہ دیر سے شائع ہوا۔جیسا کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے اس پہلے حصہ کی اشاعت پر ایک اعلان بعنوان ’’عذر‘‘ میں یہ وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:’’یہ کتاب اب تک قریب نصف کے چھپ چکتی مگر بباعث علالتِ طبع مہتمم صاحب سفیرہند امرتسر پنجاب کہ جن کے مطبع میں یہ کتاب چھپ رہی ہے اورنیز کئی اورطرح کی مجبوریوں سے جو اتفاقاً اُن کو پیش آگئیں سات آٹھ مہینے کی دیر ہوگئی۔اب انشاء اللہ آئندہ کبھی ایسی توقف نہیں ہوگی۔‘‘(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد اول صفحہ ۴)
گویا قیاس کیا جاسکتاہے کہ جولائی ۱۸۸۰ءکے قریب پہلا حصہ شائع ہوگا۔
جہاں تک دوسرے حصہ کی اشاعت کا تعلق ہے تو وہ پہلے حصہ کے ساتھ ہی بہرحال شائع نہیں ہواہوگا۔ہرچندکہ کوئی معین تاریخ توابھی تک خاکسار کو معلوم نہیں ہوسکی البتہ براہین احمدیہ کی ایک اندرونی شہادت اس قیاس کی تائید کرتی ہے کہ پہلے حصہ اوردوسرے کے درمیان اتنا وقفہ ہواہوگا کہ پہلا حصہ شائع ہونے کے بعد حضرت اقدس علیہ السلام نے بعض مخیر اورصاحب ثروت احباب کو بذریعہ ڈاک بھیجا لیکن ان میں سے اکثرلوگوں کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا اور ان کی اس سردمہری کا ذکر مجبوراً اس دوسرے حصہ میں کرناپڑا،اسی طرح پہلا حصہ شائع ہوتے ہی بعض لوگوں کی طرف سے اس کا جواب لکھنے کا عندیہ دیا گیا جس کا ذکر آپؑ نے اس دوسرے حصہ میں فرمایاہے۔مثلاً براہین احمدیہ کے دوسرے حصہ کے پہلے صفحہ پر ہی آپؑ فرماتے ہیں :’’کئی ایک پادری صاحبوں اور ہندو صاحبوں نے جوش میں آکر اخبار سفیر ہند اور نور افشاں اور رسالہ وِدیا پرکاشک میں ہمارے نام طرح طرح کے اعلان چھپوائے ہیں جن میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ضرور ہم ردّاس کتاب کی لکھیں گے…بہرحال ہم ان کی خدمت میں التماس کرتے ہیں کہ ذرا صبر کریں اور جب کوئی حصہ کتاب کی فصلوں میں سے چھپ چکتا ہے تب جتنا چاہیں زور لگالیں…ایسی باتوں سے خود پادریوں اور پنڈتوں کی دیانتداری کھلتی جاتی ہے کیونکہ جس کتاب کو ابھی نہ دیکھا اور نہ بھالا نہ اس کی براہین سے کچھ اطلاع نہ اس کے پایہ ٔتحقیقات سے کچھ خبر اس کی نسبت جھٹ پٹ مونہہ کھول کر ردّ نویسی کا دعویٰ کردینا کیا یہی ان لوگوں کی ایمانداری اور راستبازی ہے؟ اے حضرات! جب آپ لوگوں نے ابھی میری دلائل کو ہی نہیں دیکھا تو پھر آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ آپ ان تمام دلائل کا جواب لکھ سکیں گے؟ جب تک کسی کی کوئی حجت نکالی ہوئی یا کوئی برہان قائم کی ہوئی یا کوئی دلیل لکھی ہوئی معلوم نہ ہو اور پھر اس کو جانچا نہ جائے کہ یقینی ہے یا ظنی اور مقدمات صحیحہ پر مبنی ہے یا مغالطات پر تب تک اس کی نسبت کوئی مخالفانہ رائے ظاہر کرنا اور خواہ نخواہ اس کے رد لکھنے کے لیے دم زنی کرنا اگر تعصب نہیں تو اور کیا ہے؟ اور جب آپ لوگوں نے قبل از دریافت اصل حقیقت رد لکھنے کی پہلے ہی ٹھہرالی تو پھر کب نفسِ امّارہ آپ کا اس بات سے باز آنے کا ہے جو بات بات میں فریب اور تدلیس اور خیانت اور بددیانتی کو کام میں لایا جائے تا کسی طرح یہ فخر حاصل کریں کہ ہم نے جواب لکھ دیا…اگر آپ لوگوں کی نیت میں کچھ خلوص اور دل میں کچھ انصاف ہوتا تو آپ لوگ یوں اعلان دیتے کہ اگر دلائل کتاب کی واقع میں صحیح اور سچی ہوں گی تو ہم بسروچشم ان کو قبول کریں گے ورنہ اظہار حق کی غرض سے ان کی رد لکھیں گے۔ اگر آپ ایسا کرتے تو بے شک منصفوں کے نزدیک منصف ٹھہرتے اور صاف باطن کہلاتے۔ ‘‘(براہین احمدیہ حصہ دوم،روحانی خزائن جلداول صفحہ ۵۵-۵۶)
اسی طرح پہلا حصہ جب شائع ہوا توآپؑ نےا س کی ایک سوپچاس جلدیں بڑے بڑے امیروں اور دولت مندوں اور رئیسوں کوبھیجی تھیں کہ کم ازکم اس کتاب کی قیمت ہی پیشگی بھیج دیں تاکہ باقی حصہ کتاب کا شائع ہوسکے لیکن نہ کتابیں واپس آئیں اور کتابیں تو کیا جواب تک نہیں دیاگیا۔تب کے نوابوں کی اس سردمہری کا ذکر آپؑ نے اسی دوسرے حصہ میں فرمایا ہے:’’ہم نے صدہا طرح کا فتور اور فساد دیکھ کر کتاب براھین احمدیہ کو تالیف کیا تھا اور کتاب موصوف میں تین سو مضبوط اور محکم عقلی دلیل سے صداقت اسلام کو فی الحقیقت آفتاب سے بھی زیادہ تر روشن دکھلایا گیا چونکہ یہ مخالفین پر فتح عظیم اور مومنین کے دل و جان کی مراد تھی اس لیے اُمراء اسلام کی عالی ہمتی پر بڑا بھروسا تھا جو وہ ایسی کتاب لاجواب کی بڑی قدر کریں گے اور جو مشکلات اس کی طبع میں پیش آرہی ہیں۔ ان کے دور کرنے میں بدل و جان متوجہ ہوجائیں گے مگر کیا کہیں اور کیا لکھیں اور کیا تحریر میں لاویں اللّٰہ المستعان واللّٰہ خیر و ابقی!!
بعض صاحبوں نے قطع نظر اعانت سے ہم کو سخت تفکر اور تردد میں ڈال دیا ہے ہم نے پہلا حصہ جو چھپ چکا تھا اس میں سے قریب ایک سو پچاس جلد کے بڑے بڑے امیروں اور دولت مندوں اور رئیسوں کی خدمت میں بھیجی تھیں اور یہ امید کی گئی تھی جو امراء عالی قدر خریداری کتاب کی منظور فرما کر قیمت کتاب جو ایک ادنیٰ رقم ہے بطور پیشگی بھیج دیں گے اور ان کی اس طور کی اعانت سے دینی کام بآسانی پورا ہوجائے گااور ہزارہا بندگانِ خدا کو فائدہ پہنچے گا۔ اسی امید پر ہم نے قریب ڈیڑھ سو کے خطوط اور عرائض بھی لکھے اور بہ انکسار تمام حقیقت حال سے مطلع کیا مگر باستثناء دو تین عالی ہمتوں کے سب کی طرف سے خاموشی رہی نہ خطوط کا جواب آیا نہ کتابیں واپس آئیں مصارف ڈاک تو سب ضائع ہوئے لیکن اگر خدانخواستہ کتابیں بھی واپس نہ ملیں تو سخت دقت پیش آئے گی اور بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا افسوس جو ہم کو اپنے معزز بھائیوں سے بجائے اعانت کے تکلیف پہنچ گئی اگر یہی حمایت اسلام ہے تو کار دین تمام ہے ہم بکمال غربت عرض کرتے ہیں کہ اگر قیمت پیشگی کتابوں کا بھیجنا منظور نہیں تو کتابوں کو بذریعہ ڈاک واپس بھیج دیں ہم اسی کو عطیہ عظمیٰ سمجھیں گے اور احسان عظیم خیال کریں گے ورنہ ہمارا بڑا حرج ہوگا اور گم شدہ حصوں کو دوبارہ چھپوانا پڑے گا کیونکہ یہ پرچہ اخبار نہیں کہ جس کے ضائع ہونے میں کچھ مضائقہ نہ ہو ہریک حصہ کتاب کا ایک ایسا ضروری ہے کہ جس کے تلف ہونے سے ساری کتاب ناقص رہ جاتی ہے برائے خدا ہمارے معزز اخوان سرد مہری اور لاپروائی کو کام میں نہ لائیں اور دنیوی استغناء کو دین میں استعمال نہ کریں۔ اور ہماری اس مشکل کو سوچ لیں کہ اگر ہمارے پاس اجزا کتاب کے ہی نہیں ہوں گے تو ہم خریداروں کو کیا دیں گے اور ان سے پیشگی روپیہ کہ جس پر چھپنا کتاب کا موقوف ہے کیونکر لیں گے۔ کام ابتر پڑ جائے گا اور دین کے امر میں جو سب کا مشترک ہے ناحق کی دقت پیش آجائے گی۔‘‘(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلداول صفحہ ۶۲، ۶۳)
تو ان دونوں اقتباسات کی روشنی میں بہت آسانی سے یہ قیاس کیاجاسکتاہے کہ براہین احمدیہ کے دونوں حصے بیک وقت شائع نہیں ہوئے تھے بلکہ ان دونوں کے درمیان کچھ نہ کچھ وقفہ ہونا تو یقینی سی بات ہے۔اب یہ وقفہ دوماہ کا ہویا چارچھ ماہ کا، بہرحال پہلے حصہ شائع ہونے کے کچھ عرصہ بعد ہی دوسرا حصہ شائع ہواہوگا۔اب چونکہ حصہ دوم کے ٹائٹل پیج پر بھی سنہ اشاعت ۱۸۸۰ء ہی درج ہے اس لیے چھ ماہ سے زیادہ کا وقفہ توہونہیں سکتا۔جو کہ زیادہ سے زیادہ دسمبر۱۸۸۰ء ہی ہوسکتاہے۔واللہ اعلم بالصواب
براہین احمدیہ کی ترسیل
براہین احمدیہ کی طباعت واشاعت کے بارے میں ایک اصولی اور بنیادی امرہمارے ذہنوں میں ہمیشہ رہے کہ اس کی اشاعت تجارتی اصولوں پرہرگزہرگزنہ تھی۔اس کی تفصیل تواس کتاب کے ایک اورباب میں آئے گی،انشاء اللہ۔ یہاں یہ بیان کرنامقصودہے کہ براہین احمدیہ جس زہرکے تریاق کے طورپرتیارکی گئی تھی مقصوداس کی عام اشاعت تھی آپ کے پاس کوئی سرمایہ تھا نہ کوئی معاون ومددگار۔براہین احمدیہ کی طباعت کے سلسلہ میں کچھ تفصیل ہم ابھی بیان کرچکے ہیں۔اس کی روشنی میں اور بعض دیگرواقعات وروایات کی روشنی میں دیکھاجائے تو آپؑ اتنا ہی کام نہ کرتے تھےکہ خود کاپیاں لے جاتے اور پروف پڑھتے بلکہ جب کتاب کا کوئی حصہ طبع ہو کر آتا تو اس کے متعلق تحریک کرنے کے لیے امراء ورؤسا وغیرہ کوخط بھی آپؑ خود تحریرفرماتے۔ اور ایسے لوگوں کی فہرستیں بھی خود تیار کرتے۔ان کے ایڈریس کیسے لیے ہوں گے۔ان سب کاریکارڈ کیسے رکھاہوگا ایک حیرت انگیزکام ہے۔جس کاآج ہم اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔یہ آج سے تقریباً ایک سوپینتالیس سال پہلے کی بات ہے۔ تب نہ کوئی کمپیوٹرزتھے نہ انٹرنیٹ کی سہولت، نہ کوئی ڈائریکٹریاں تھیں اورنہ کوئی اور وسائل تھے کہ جس کی بدولت کوئی سہولت میسرہوتی اورتواورگرمی و سردی سے بچاؤ کے کوئی جدیدطرزکے ذرائع بھی نہ تھے۔ رات کے اندھیرے میں بیٹھ کرکام کرنے کے لیے آج جیسی کوئی روشنی کے وسائل بھی نہ تھے۔ اور اس پرمستزادیہ کہ جہاں بیٹھ کریہ کام ہورہاہے وہ ایک دورافتادہ بستی ہے کہ جوایسی اوجھل اور پوشیدہ اور نہاں تھی کہ جیسے زیرِ غار…!
اورجوخط آپؑ کولکھنے ہیں وہ ایک دویادس بیس نہیں ہیں۔وہ سینکڑوں کی تعدادمیں ہیں اور مکتوب الیہ بھی مختلف مزاج ومذہب کے ہیں۔کوئی مسلم ہے تو کوئی غیرمسلم،کوئی شیعہ ہے تو کوئی سنی،اوران سب میں سے کوئی کنجوس وممسک ہے توکوئی عیش وعشرت وعیاشی کی حدوں سے تجاوزکرتاہوانواب ہے۔ان میں سے ہرایک کواس کے مزاج کے مطابق لکھ کراس کارِ خیرکے لیے اعانت کرنااپنی ذات میں سخت ذہنی کدوکاوش کامتقاضی ہے۔چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے حصے کی اشاعت پر آپؑ نے بعض امرائے اسلام کو قریباً ڈیڑھ سو خطوط لکھے۔اور یہ تمام کے تمام طویل اورتفصیلی خط تھےکیونکہ ان میں کتاب کی ضرورت اور اس کی طبع کے اخراجات اور اشاعت کے لیے تحریک جیسے امور کی وضاحت لازمی تھی۔پھر بعض کو یاددہانی بھی کرانی پڑی۔ان خطوط کے علاوہ روانگی کتاب کا اہتمام بھی خود آپؑ ہی فرماتے تھے۔گویا کتاب کے مصنف سے لے کر اس کے پروف ریڈر،محرر اور دفتری امورتک کا سب کام آپؑ ہی کر رہے تھے۔اور یہ سب کام ایک جگہ نہیں ہو رہے تھے۔اس لیے کہ کتاب امرتسر میں چھپتی تھی اور قادیان سے اسے روانہ کرنا پڑتا تھا۔
براہین احمدیہ کی روانگی کے لیے ایک رجسٹر خریداران مرتب کیا گیاتھا۔اور اس میں تمام احباب کے نام درج تھےجن کو کتاب بھیجی جاتی تھی۔آپؑ اس کام کو کسی دوسرے کے سپرد نہیں کرتے تھے۔ آپؑ خود اپنے ہاتھ سے پیکٹ تیار کرتے تھے اور اپنے ہاتھ سے مکتوب الیہ کا پتہ اس پر تحریر فرماتے تھے۔اکثر صورتوں میں آپؑ کتاب کی رجسٹری کرا کر بھیجتے تھے۔یہ آپؑ کا طریق احتیاط تھا۔بیرنگ کبھی بھیجنے کے عادی نہ تھے کسی شاذ صورت میں بیرنگ بھیجا ہوتو اس کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ مکتوب الیہ نے خود ایسی ہدایت کی ہو جن لوگوں نے پیشگی قیمت دی تھی ان کو عموماً آپؑ نے رجسٹری کرا کر کتاب بھیجی۔بعض امراء و روٴساء کو تحریک کے لیے بھی کتاب پیشگی بھیج دی تھی۔یعنی ان سے کوئی قیمت وصول نہیں ہوئی۔مگر آپؑ نے تحریک کے طور پر کتاب بھیج دی۔اور بذریعہ مکتوب اس کی خریداری پر توجہ دلائی۔اور بصورت عدم خریداری کتاب کو بیرنگ بھیج دینے کی خواہش ظاہر کی مگر بہت سی کتابیں اس طرح پر ضائع ہو گئیں اور اس کا نتیجہ یہی نہیں ہو ا کہ صرف وہ حصہ ضائع ہوابلکہ پورا سیٹ کتاب کا ناقص ہو گیا۔(ان تفصیلات کے لیے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ کی تصنیف ’’حیات ِ احمد‘‘ جلد دوم صفحہ ۵۷تا ۶۰ سےاستفادہ کیا گیا ہے۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء)