الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت سیّدہ اُمّ متین مریم صدیقہ صاحبہ
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر1 میں مکرمہ روبینہ احمد صاحبہ اور مکرمہ درّثمین احمد صاحبہ کے قلم سے حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ (المعروف چھوٹی آپا) کی سیرت پر مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ درج ذیل شعر حضرت مسیح موعودؑ کا ہے جوآپؑ نے بزبان حضرت اماں جانؓ فرمایا تھا۔ ’’اپنے مسیحا‘‘ کی جگہ ’’ابن مسیحا‘‘ لگا کر میں بھی جتنا خداتعالیٰ کاشکر ادا کر سکوں کم ہے۔ ؎
چُن لیا تُو نے مجھے ’’اپنے مسیحا‘‘ کے لیے
سب سے پہلے یہ کرم ہے مرے جاناں تیرا
آپ حضرت اماں جانؓ کے بڑے بھائی حضرت ڈا کٹر میرمحمداسماعیل صاحبؓ کی بڑی صاحبزادی تھیں۔آپ خود بیان فرماتی ہیں کہ میرے والد صاحب کی پہلی بیوی سے ایک لمبا عرصہ تک کو ئی اولاد نہیں ہو ئی۔حضرت (اماں جانؓ )کی خواہش تھی کہ میرے بھائی کے ہا ں اولا د ہو۔بھائی سے محبت بھی بہت زیا دہ تھی۔تو حضرت اماں جانؓ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے زور دینے پرمیرے ابا جان نے مکرم مرزا شفیع محمد صاحبؓ کی بڑی لڑکی امۃاللطیف صاحبہ سے ۱۹۱۷ء میں شا دی کی۔یہ رشتہ بھی حضورؓ کا ہی طے کردہ تھا۔۷؍اکتوبر ۱۹۱۸ء کومیری پیدا ئش ہو ئی۔ چو نکہ اَور کو ئی پہلے اولاد نہ تھی اس لیے میرے ابا جانؓ نے مجھے ہی خداتعالیٰ کے حضور وقف کر دیا۔
جب میری شادی ہوئی تو آپؓ نے مجھے کچھ نصائح نوٹ بک میں لکھ کر دیں۔ ان میں آپؓ نے تحریر فرمایا: مریم صدیقہ! جب تم پیدا ہو ئیں تو میں نے تمہا را نام مریم اس نیت سے رکھا تھا کہ تم کو خدا تعالیٰ اور اس کے سلسلہ کے لیے وقف کردوں اسی وجہ سے تمہارا دوسرا نام نذرِ الٰہی بھی تھا۔ اب اس نکاح سے مجھے یقین ہو گیا کہ میرے بندہ نواز خدا نے میری درخواست اور نذر کو واقعی قبول کر لیا تھا اور تم کو ایسے خاوند کی زوجیت کا شرف بخشا جس کی زندگی اور اس کا ہر شعبہ اور ہر لحظہ خدا تعالیٰ کی خدمت اور عبادت کے لیے وقف ہے پس اس بات پر بھی شکر کرو کہ تم کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالیا اور میری نذر کو پوراکردیا۔ فا لحمد للہ۔ خدا تعالیٰ کا شکر کرو کہ اس نے اپنے فضل سے تم کو وہ خاوند دیا ہے جو اس رُوئے زمین پرمعتبر ترین شخص ہے اور جو دنیا میں اس کا خلیفہ ہے۔دنیااور دین دونوں کے علوم کے لحاظ سے کو ئی اس کا مقا بلہ نہیں کرسکتا۔خاندانی عزت اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیٹا ہے۔پس اس مبارک وجود کو اگر تم کچھ بھی خوشی دے سکو اور کچھ بھی ان کی تھکان اور تفکرات کو اپنی بات چیت، خدمت گزاری اور اطاعت سے ہلکا کر سکو تو سمجھ لو کہ تمہاری شادی اور تمہاری زندگی بڑی کامیاب ہے اور تمہارے نا مۂ اعمال میں وہ ثواب لکھا جائے گا جو بڑے سے بڑے مجاہدین کو ملتا ہے۔
۳۰؍ستمبر۱۹۳۵ء کو حضرت چھوٹی آپا صاحبہ کی شادی حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ سے ہوئی۔ اس شادی کا پس منظر آپ یوں بیان فرماتی ہیں کہ حضرت اماں جانؓ نے میری شادی کے بعد کئی دفعہ مجھ سے یہ ذکر فرما یا کہ جب میاں محمود چھوٹے تھے تو میرے دل سے بار بار یہ دعا نکلتی تھی کہ الٰہی! میرے بھائی کے ہاں بیٹی ہو تو میں اس کی شادی میاں محمود سے کر وں۔
آپ فرماتی ہیں کہ میری عمر شادی کے وقت سترہ سال تھی اور یہ سترہ سالہ زمانہ جو میں نے میکے میں بسر کیا، اس کا ایک ایک دن شا ہد ہے کہ میری تر بیت کرتے ہو ئے حضرت ابا جانؓ نے ہر وقت یہی کان میں ڈالا کہ ہر صورت میں دین کو دنیا پر مقدّم رکھنا ہے۔ میں جب چھوٹی تھی تو میرے لیے اباجان نے ایک دعا ئیہ نظم بھی کہی تھی جس کا آ خری شعر یہ تھا ؎
میرا نام ابّا نے رکھا ہے مریم
خدایا تُو صدیقہ مجھ کو بنا دے
ابا جانؓ کی یہ دعا ظاہری رنگ میں بھی اس طرح پوری ہوئی کہ جب میری شادی ہوئی تو حضرت اُمِّ طاہرؓ زندہ تھیں اور چونکہ حضورؓ ان کو مریم کے نام سے بلاتے تھے اور ایک ہی نام سے دونوں بیویوں کو بلانا مشکل تھا۔آپؓ نے شروع شادی سے ہی میرے نام کے دوسرے حصہ سے مجھے بلایا اور ہمیشہ ’صدیقہ ‘ کہہ کر ہی بلایا۔ مَیں بجا طور پر کہہ سکتی ہوں کہ میں نے جو بھی حا صل کیا اور جو کام بھی کیا وہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی تربیت، صحبت، فیض اور تو جہ سے حاصل کیا۔
حضرت سیّدہ کی خوبیوں کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ یوں بیان فرماتے ہیں: مریم بیگم (اُمّ طاہرؓ) کی وفات کے بعد پہلے کچھ دن تو اس قسم کی با ت کا احساس ہو ہی نہ سکتا تھا مگر کچھ دنوں کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ گھر اس لحاظ سے و یران ہے کہ اس میں ما ں ہے اور نہ باپ۔ایک شادی شدہ انسان کی را توں پر اس کی زندہ بیو یوں کا حق ہو تا ہے۔ اور پہلے میر ی راتیں جوچا ر حصوں میں تقسیم ہوتی تھیں اب تین حصوں میں تقسیم ہونے لگیں۔دن کے و قت تو مَیں کام کی وجہ سے گھر جا سکتا ہی نہیں اور اب رات کو بھی اس گھر میں نہ جاسکتا تھا اور اس طرح مریم بیگم مر حو مہ کے بچے نہ دن کو میرے پا س رہ سکتے تھے اور نہ را ت کو۔اس احسا س کے بعد مجھے خیا ل ہو ا کہ ان بچوں کو کسی دوسر ی بیوی کے سپرد کردو ں تا جب مَیں اس کی باری میں اس کے گھر جا ؤں تو ان کی نگرانی بھی کرسکو ں اور ان کے حا لا ت سے با خبر رہ سکو ں۔ یہ خیا ل آنے پر مَیں نے غور کیا کہ کس بیو ی کے پا س ان کو رکھ سکتا ہوں تو میں نے سمجھا کہ میری چھو ٹی بیو ی مر یم صدیقہ ہی ہیں جو مریم بیگم مرحومہ کے گھر میں جا کر رہ سکتی ہیں اور ان کے بچوں کا محبت کے سا تھ خیا ل رکھ سکتی ہیں مگر سا تھ ہی مجھے یہ بھی خیال آیا کہ وہ حضرت (اماں جا نؓ ) کے سا تھ رہتی ہیں اور ان کی خدمت کا ان کو مو قع ملتا ہے۔دوسر ے میں نے دیکھا کہ ان کے متعلق بھی ڈاکٹروں کی یہی را ئے ہے کہ وہ بھی اس مرض میں مبتلا ہیں جو اُمّ طا ہر مرحومہ کو تھا۔ ایک لڑ کی کی پیدائش کے بعد سا ت سال سے ان کے ہاں اَور اولا د نہیں ہو ئی اور پھر ان کی طبیعت ایسی ہے کہ میری رضاجوئی کے لیے جب بچے آپس میں لڑ پڑ یں تو چاہے ان کی لڑ کی کا قصو ر ہو اور چا ہے کسی دوسرے بچے کا وہ اپنی لڑ کی کو ہی سزا د یتی ہیں تا دوسرے بچوں کے دل میں یا میرے دل میں احسا س پیدا نہ ہو کہ وہ اپنی لڑ کی کی طرفدا ری کرتی ہیں اور بو جہ بنت العم ہو نے کے مجھ سے دوہرا تعلق ر کھتی ہیں اور اس لیے دو ہر ی محبت۔…پس میں نے خیال کیا کہ یہ بہت ظلم ہوگا کہ جس کے ہاں ایک ہی بچہ ہے اور بظاہر اَور ہو نے کا احتمال کم ہے (گو ہم اللہ تعا لیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں) اس کے ایک ہی بچے کو دکھ میں ڈال کر ما ں کو دکھ میں ڈال د یا جا ئے۔ (خطبا تِ نکا ح صفحہ ۵۸۵،۵۸۴)
حضرت مریم صدیقہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ حضرت ابا جانؓ کی وقتِ رخصت نصیحت اور شادی کے معاً بعد حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی آرزو دونوں نے مل کر سونے پر سہاگہ کا کام کیا اور زندگی کا نصب العین صرف اسلام کی خدمت اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت اور اطاعت بن کر رہ گیا۔شروع شروع میں غلطیاں بھی ہو ئیں، کوتاہیاں بھی ہوئیں لیکن آپؓ کی تربیت اور سکھانے کا بھی عجیب رنگ تھاآہستہ آہستہ اپنی مرضی کے مطابق ڈھالتے چلے گئے۔ شادی کے بعد آپؓ نے میری تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور خود اس میں راہ نمائی فرماتے اور دلچسپی لیتے ر ہے۔ بی اے پاس کرنے کے بعد آپؓ نے دینی تعلیم کا سلسلہ شر و ع کروا دیا۔ قرآن مجید خود پڑھانا شروع کیا لیکن سبقاً سارا نہیں پڑھا۔سورت مریم سے سورت سبا تک حضورؓ سے سبقاً قرآن مجید پڑھا اور چند ابتدائی پارے اور آخری دو پارے۔ شروع میں ہمیں گھر پر پڑھانا شروع کیا تھا۔مجھے،عزیزہ امۃالقیوم سلّمہا، عزیزم مبارک احمد اور عزیزم منور احمدکو پڑھاتے تھے۔آہستہ آہستہ دوسرے لوگوں کی خواہش پر پھر وہ باقاعدہ درس کی صورت اختیار کر گیا اور تفسیر کبیر کی صورت میں شائع بھی ہوچکا ہے۔ اتنا پڑھا کر پھر کبھی سبقاً نہیںپڑھایا، ہاں عورتوں میں بھی اور مردوں میں بھی درس ہوتا تھاوہ سنتی تھی اور باقاعدہ نوٹ لیتی تھی جو بعد میں حضورؓ ملاحظہ فرمایا کرتے۔نوٹ لینے کی عادت بھی آپؓ نے ہی ڈالی۔ جب درس ہوتا تو آپؓ فرماتے ’’ایک ایک لفظ لکھنا ہے بعد میں مَیں دیکھوں گا۔‘‘ آہستہ آہستہ اتنا تیز لکھنے کی عادت پڑگئی کہ حضورؓ کی جلسہ سالانہ کی تقریر بھی نوٹ کرلیتی تھی اور حضورؓ بھی وقتاًفوقتاًکوئی مضمون لکھوانا ہوتا تو عموماً مجھ سے ہی املاء کرواتے۔۱۹۴۷ء کے بعد سے تو قریباً ہر خط، ہر مضمون ہر تقریر کے نوٹ مجھ سے ہی املاء کروائی۔ اِلَّامَاشَاءَاللّٰہ۔تفسیر صغیر کے مسوّدہ کا اکثر حصہ حضورؓ نے مجھ سے ہی املاءکروایا۔ٹہلتے جاتے تھے قرآن مجید ہاتھ میں ہوتا تھا اور لکھواتے جاتے تھے۔جب خاصامواد لکھا جاچکا ہوتا تو پھر محکمہ زودنویسی کو صاف کرنے کے لیے دے دیتے۔قرآن مجید پڑھاتے ہوئے بھی اس بات پر زور دیتے تھے کہ خود غور کرنے کی عادت ڈالو۔اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تب پوچھو۔عربی کی صرف ونحومکمل مجھے آپؓ نے خود پڑھائی اور ایسے عجیب سادہ طریق سے پڑھائی کہ یہ مضمون کبھی مشکل ہی نہ لگا۔عام طور پر عربی کے طالب علم صرف ونحو سے ہی گھبراتے ہیں مگر آپؓ کے پڑھانے کا طریق اتنا سادہ اور عام فہم ہوتا تھا کہ یوں لگتا تھا کہ یہ کوئی مشکل چیز ہی نہیں ہمیں پہلے سے آتی تھی۔
آپ کو قرآن مجید سے شدید عشق اور تعلق تھا اور بلا شبہ آپ کی زندگی اس عظیم کتاب کے علوم سیکھنے اور سکھانے میں ہی گزری۔ ۱۹۵۴ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے قرآن شریف پڑھانے کا کا م آپ کے سپرد کیا جس کو آپ تمام زندگی باَحسن انجام دیتی رہیں۔ربوہ میںحضرت چھوٹی آپا بہت صبح سویرے مختلف محلوں سے آ ئی ہو ئی لڑکیوں کو قرآن مجیدکا ترجمہ پڑھانا شروع کر دیتیں اور یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ جو لڑکی آپ سے ترجمہ پڑھ لیتی اس کی شادی (غیر متوقع طورپرجلد)ہوجاتی۔
ضیاءالحق کے آرڈیننس کے بعد جب مساجد میں لاؤڈسپیکر پر پا بندی لگ گئی اور رمضان المبارک کے ایام میں درس القرآن کا سلسلہ ممکن نہ رہا تو خواتین کی طرف سے آپ کی خدمت میں درخواست پر فرمایا کہ ’’میں ضرور درس دوں گی لیکن شعبہ اصلاح و ارشاد کی اجازت سے۔‘‘ چنانچہ بعدازاں بہت تیاری کر کے عمدہ درس دیا کرتیں۔ بعد میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرا بعؒ نے ایم ٹی اے پر درس القرآن کا آ غاز فرمایا تو آپ نے خلافت سے محبت اور اطاعت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے یہ درس بند کردیے۔
خلافت احمدیہ کی اطاعت اور ادب و احترا م میں حددرجہ بلند مقام حا صل تھا۔آپ دربارِ خلافت کے ہر حکم کو شرح صدر کے ساتھ ما ننا اپنی سعادت سمجھتی تھیںاور ایسا ماحول قائم کرتیں جس سے یہ روح زندہ رہے۔ مکرمہ امۃاللطیف خورشید صاحبہ لکھتی ہیں کہ آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے لائحہ عمل اور ضروری کا موں کی منظوری کے لیے باقاعدگی سے تحریری اجازت لیتی تھیں۔ حضورؓکی وفات کے بعد آپؓ کے دو بیٹے یکے بعد دیگرے خلیفہ ہوئے۔آپ نے ان دونوں کا بےحد احترام کیا۔لجنہ کے اور دیگر سب دینی اور دنیاوی کاموں میں ان کا مشورہ اور اجازت حاصل کرتی تھیں۔
خداتعالیٰ نے آپ کو ایک صاحبزادی امۃالمتین صاحبہ (اہلیہ محترم سیّد میر محمود احمد نا صر صاحب) سے نوازا۔
محترم سید میر محمود احمد ناصر صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت چھوٹی آپا کو ایک سعادت جو سالہا سال تک حاصل رہی وہ حضرت اماں جانؓ کی خدمت اور معیت تھی۔حضرت چھوٹی آپاکے پاس قادیان میں حضرت اماں جانؓ کے گھر کے جملہ انتظامات کی ذمہ داری تھی اور یہ خدمت ربوہ میں بھی جاری رہی۔ حضرت مصلح موعودؓ حضرت چھو ٹی آپا کو حضرت اماں جانؓ کی خدمت کی خا ص تا کید فرماتے۔ اس کا علم مجھے اس طرح بھی ہوا کہ حضرت مصلح موعودؓ کی وفات کے بعدجب حضرت چھوٹی آپاپہلی دفعہ حضورؓ کے مزار پر دعا کے لیے گئیںتو ہاتھ اٹھاکر دعا شروع کی مگردو ایک منٹ کے بعد وہاں سے ہٹ کر حضرت اماں جانؓ کے مزار کے سامنے کھڑی ہوئیںاور لمبی دعا کی پھر حضرت مصلح موعودؓ کے مزار پر واپس جا کر دعا کی۔بعد میں بتا یاکہ جب مَیں نے حضورؓ کے مزار پر دعا شروع کی تو ایسا محسوس ہوا کہ حضرت مصلح موعودؓ سا منے آ کر کھڑے ہو گئے اور گھور کر مجھے دیکھا کہ ساری عمر تو میں یہ سبق دیتارہا ہوں کہ پہلے اماں جانؓ کا خیال رکھنا ہے اور پھر اس کے بعد میرا مگر تم ان کے مزار پر دعا سے پہلے میرے مزار پر دعا کر رہی ہو۔
احمدی خواتین اور بچیوں کے لیے مادرانہ شفقت کا انداز تھا۔ ہر ایک سے یکساں انداز میں ملتیں۔ہر ایک کی شادی میں شرکت کرتیں۔ ہر مر یض کی عیادت کرتیں۔ ولادت پر گھر جاکر مبارکباد دیتیں۔ خوشی کے مواقع پر گھروالوں کو تحفہ دیتیں۔غمی کے مواقع پر گھروں میں جا کر دلجوئی کرتیں۔
آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا رات کو خاصی دیر سے سوتی تھیں اور رات گئے تک مطالعہ کرتی تھیں مگر نمازوں میں ناغہ کا کو ئی تصور نہ تھا۔ا لحا ح کے ساتھ اوّل نماز ادا کرتی تھیں۔ گھٹنوں میںشدید درد کی تکلیف تھی لیکن نماز میں تسا ہل کا کوئی سوال نہ تھا اور روزہ کی پا بندی تو اس حد تک پہنچ گئی کہ ڈاکٹر کو کہہ کر آپ کو طبّی ہدایت دلوانی پڑی کہ روزہ رکھنا مناسب نہیں ورنہ آپ اس پر بھی راضی نہیں ہوتی تھیں۔
آپ نے لجنہ کے کئی اہم کام شروع کیے۔آپ جامعہ نصرت کی ڈائریکٹر تھیں اور اس میں سائنس بلاک کے اجرا کے لیے آپ نے بہت کوشش کی۔ آپ کی یادگار نصرت انڈسٹریل سکول، فضلِ عمر سکول، مریم میڈیکل سکول گھٹیالیاں،چک منگلا سکول،دفتر لجنہ اماءِاللہ مر کزیہ، مسجد مبارک ہیگ ہالینڈ اور مسجد نصرت جہاں ڈنمارک احمدی خواتین کے چندہ سے تعمیر ہوئیں۔ آپ کی ہدایت اور نگرانی میں جو لٹریچر شائع ہوا اس میںتاریخِ لجنہ (پانچ جلدیں)، ’الازھارُلِذواتِ الخمار‘ (حضرت مصلح موعودؓ کی عورتوں کے متعلق تقاریر کا مجموعہ)، المصابیح (حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خواتین سے تقاریر کا مجموعہ)، تربیتی نصاب (دو حصے)، یادِمحمودؓ، رسومات کے متعلق اسلامی تعلیم، مقاماتُ النساء، ہمارا دستور، راہ ِا یما ن، مختصر تاریخ احمدیت اور قواعدوضوابط وغیرہ شامل ہیں۔
آپ نے ۱۹۴۲ء میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ میں جنرل سیکرٹری کے طور پر خدمات شروع کی تھیں۔۱۹۵۸ء میںآپ صدر لجنہ مرکزیہ منتخب ہوئیں اور یہ شاندار دَور ۱۹۹۷ء تک جاری رہا۔ پا کستان بننے کے بعد یہاں آپ نے لجنہ کی از سرنو ترتیب و تنظیم کا کٹھن فریضہ انجام دیا۔پاکستان کے طول و عر ض میںلجنہ کی بیداری اور تربیت کے لیے بلامبالغہ ہزاروں دورے کیے۔آپ کی تقا ریر نہایت دلکش اور مؤثر ہوا کرتی تھیں۔غیر از جماعت خواتین کے سوالات کا جواب بڑی وضاحت اور تسلّی بخش انداز میں دیتیں۔آپ نے بیسیوں پیغامات لجنہ اماءاللہ کی مجالس کی تقریبات کے مواقع پر بھجوائے جو نہایت فکرانگیز، قا بل عمل اور اثر انگیز ہیں۔آپ کا دَور بلا شبہ لجنہ اماءاللہ کا ایک زرّیں دَور تھا۔
۳؍نومبر۱۹۹۹ء کو آپ نے وفات پائی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒنے 5؍نومبر1999ء کے خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکرِخیرفرمایا اور غائبانہ نمازجنازہ پڑھائی۔
………٭………٭………٭………
میں نے بھی فیض اس کا پایا
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر1 میں مکرمہ فرح دیبا صاحبہ نے حضرت امّاں جانؓ کی سیرت کے حوالے سے اپنی نانی جان محترمہ غلام فاطمہ صاحبہ کی روایات بیان کی۔ وہ درو یشان قا دیان (۳۱۳)میں سے سب سے معمر درویش حضرت بھاگ دین صاحبؓ کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ ابھی قریباً بارہ سال کی تھیں کہ والدہ کے سایہ سے محروم ہوگئیں۔ والد اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ اس زمانہ میں امرتسر کے حالات بہت خراب ہو رہے تھے۔مخالفت کا بہت زور تھا۔ ارد گرد کے راجپوت مخالفت میں بہت بڑھے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ راجپوتوں کی لڑکیاں یہاں سے بیاہ کرکہیں نہیں جائیں گی ہم ان کو اپنے پاس رکھیں گے۔ ان حالات کے پیش نظر ان کے والد ان کو لے کر قادیان آئے اورحضرت اماں جانؓ کے سپرد کر گئے۔ اس طرح اُن کوقریباً ایک سال حضرت اماں جانؓ کے ساتھ کچھ عرصہ رہ کر ان کی صحبت سے فیض یاب ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ بتایا کرتی تھیںکہ میں حضرت اماں جانؓ کے پاس ایک مہمان کی طرح رہتی تھی۔ پھر ان کے والد کی درخواست پر حضرت اماں جانؓ نے ان کے لیے رشتہ ڈھونڈا۔ اور اس طرح ان کی شادی حضرت عبداللہ صاحبؓ کے ساتھ طے فرما دی۔ انہوں نے بھی حضرت اماں جانؓ کے زیر سایہ پرورش پائی تھی اور اس وقت وہ حضرت اماں جانؓ کے باغ کے نگران تھے اور وصیت کے دفتر میں بھی خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ اُن کا ذاتی باغ بھی حضرت اماں جانؓ کے باغ سے ملا ہوا تھا۔
حضرت اماں جانؓ نے فاطمہ صاحبہ کو اپنے ہاتھوں سے سجایا، سنوارا اورپیدل ہی ان کوبہ نفس نفیس حضرت عبداللہ صاحبؓ کے گھر لے کرگئیں جو قریب ہی تھا۔ وہ ابھی نہا کر تیار ہو رہے تھے کہ دلہن حضرت اماں جانؓ کے ہمراہ ان کے گھر پہنچ گئی۔حضرت اماں جانؓ نے خود چارپائی بچھائی اور پھر بستر لگوایا اور دلہن کو بٹھادیا۔ اس کے بعد مسلسل پندرہ روز تک نائین بھجواتی رہیں۔ (دلہن کی چٹیا بنانے اور سجانے والی کو نائین کہتے تھے)۔ یہ ایک بِن ماں اور بےگھر بچی سے حضرت امّاں جانؓ کا حُسنِ سلوک تھا۔
………٭………٭………٭………