اسلام تو ہر قسم کی اِفراط اور تفریط سے روکتا ہے (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۲؍جنوری۲۰۱۶ء)
اسلام تو ہر قسم کی اِفراط اور تفریط سے روکتا ہے اور سزا کے لئے اگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو پھر اس میں ہر امیر غریب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہے۔ اور فرمایا اتنی ہی سزا دو جتنا اس نے کیا اور سزا کے کچھ اصول و قواعد بناؤ۔ اور اس پر ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ میں حکومت قائم کی اور اس کے بعد خلفاء نے اس پر عمل کر کے دکھایا کہ کس طرح سزا ملنی چاہئے اور سزا کا مقصد کیا ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا کہ صرف یہی نہیں دیکھنا کہ مجرم کے حق میں کیا بہتر ہے۔ صرف مجرم کا ہی خیال نہیں رکھا جاتا بلکہ بعض دفعہ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ عام معاشرے میں کیا بہتر ہے۔ چھوٹی چیز کو بڑی کے لئے قربان کرنا یا معاشرے کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھنا یہ بعض دفعہ ضروری ہو جاتا ہے۔ اس لئے کسی بھی سزا کے فیصلے کے وقت یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ معاشرے پر مجموعی طور پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔ بعض دفعہ معاف کرنا معاشرے میں غلط تاثر پیدا کرتا ہے کہ دیکھو اتنا بڑا مجرم ایک غلط کام کر کے پھر بچ گیا۔ تو شرارتی طبع لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم بھی غلط کام کر کے معافی مانگ کر بچ جائیں گے۔ یہ صورتحال پھر مجرموں کو اپنے برے افعال کرنے کے لئے جرأت پیدا کرتی ہے اور تقویت دیتی ہے۔ اسی طرح شرفاء خوفزدہ ہونا شروع ہوتے ہیں یا عمومی طور پر لوگ بے چینی محسوس کرتے ہیں اور اس بے چینی کو دُور کرنے کے لئے پھر اپنی ترکیبیں سوچتے ہیں۔ اکثریت بے شک خود حفاظتی کا انتظام کرتی ہے اگر ایسی لاقانونیت کا دور ہو لیکن کچھ عدم تحفظ کی وجہ سے اگر لاقانونیت نہ بھی ہو اور عدم تحفظ ہو تو پھر خود ہی قانون بھی اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے باوجود ایسی خوبصورت تعلیم کے ہمیں ایسی صورتحال مسلمان ممالک میں اکثر نظر آتی ہے۔ سزا اور معافی کے غیر منصفانہ عمل نے مجرموں کو پیدا کرنے میں ایک کردار ادا کیا ہوا ہے اور جس کی وجہ سے پھر دوسرے بھی وہی حرکتیں کرنی شروع کر دیتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ سزا دینے اور معاف کرنے میں یہ ایک بہت بڑی بات پیش نظر ہونی چاہئے کہ سزا یا معافی سے معاشرہ کیا اثر لیتا ہے۔ اگر معافیاں مجرموں کو دلیر کر رہی ہیں تو پھر سزاؤں کی ضرورت ہے نہ کہ معافیوں کی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر اسلام کی خوبصورت تعلیم کا توریت اور انجیل سے مقابلہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’انجیل میں لکھا ہے کہ تو بدی کا مقابلہ نہ کر‘‘۔ فرمایا کہ’’انجیل میں لکھا ہے کہ تُو بدی کا مقابلہ نہ کر۔ غرض انجیل کی تعلیم تفریط کی طرف جھکی ہوئی ہے اور بجز خاص حالات کے ماتحت ہونے کے انسان اس پر عمل کر ہی نہیں سکتا۔ دوسری طرف توریت کی تعلیم کو دیکھا جاوے تو وہ اِفراط کی طرف جھکی ہوئی ہے اور اس میں بھی صرف ایک ہی پہلو پر زور دیا گیا ہے کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت توڑ دیا جاوے۔ اس میں عفو اور درگذر کا نام تک بھی نہیں لیا گیا۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ کتابیں مختص الزمان اور مختص القوم ہی تھیں‘‘۔ (یعنی ایک خاص زمانے کے لئے اور ایک خاص قوم کے لئے تھیں) ’’مگر قرآن شریف نے ہمیں کیا پاک راہ بتائی ہے جو اِفراط اور تفریط سے پاک اور عین فطرت انسانی کے مطابق ہے۔ مثلاً مثال کے طور پر قرآن شریف میں فرمایا ہے: جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِثْلُھَا۔ فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ (الشوریٰ: 41) یعنی جتنی بدی کی گئی ہو اسی قدر بدی کرنی جائز ہے۔(یعنی اتنی سزا دینی جائز ہے) لیکن اگر کوئی معاف کر دے اور اس معافی میں اصلاح مدنظر ہو۔ بے محل اور بے موقع عفو نہ ہو بلکہ برمحل ہو تو ایسے معاف کرنے والے کے واسطے اس کا اجر ہے جو اسے خدا سے ملے گا۔ دیکھو کیسی پاک تعلیم ہے۔ نہ اِفراط، نہ تفریط۔ انتقام کی اجازت ہے مگر معافی کی تحریص بھی موجود ہے۔(بدلہ لینے کا حکم ہے لیکن ساتھ ہی معافی کے لئے توجہ دلائی گئی ہے بلکہ حرص دلائی گئی ہے کہ اس سے تمہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں انعام ملے گا) فرمایا کہ ’’بشرط اصلاح یہ ایک تیسرا مسلک ہے جو قرآن شریف نے دنیا کے سامنے رکھا ہے۔ اب ایک سلیم الفطرت انسان کا فرض ہے کہ ان میں خود موازنہ اور مقابلہ کر کے دیکھ لے کہ کون سی تعلیم فطرت انسانی کے مطابق ہے اور کون سی تعلیم ایسی ہے کہ فطرت صحیح اور کانشنس اسے دھکّے دیتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 10صفحہ 401-402۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان) پس اسلام کی تعلیم ہی ہے جو ہر زمانے میں دنیا کے مسائل کا حل ہے چاہے وہ سزا کے لئے ہوں یا دوسرے مسائل ہوں۔ اسلام کہتا ہے کہ جب تم ایک دفعہ معاف کر دو تو پھر کینوں اور بغضوں کو بھی دل سے نکال دو۔ آپ نے فرمایا بعض لوگوں کے دلوں میں اتنے کینے ہوتے ہیں کہ دادوں پڑدادوں کے زمانے کی باتیں بھی یاد رکھتے ہیں اور معاف نہیں کرتے۔ آپ نے فرمایا ’’یہ مومن کی شان نہیں ہے کہ کینے دلوں میں رکھے جائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا اُسوہ اس بارہ میں ہمارے سامنے ہے۔ جنگ اُحد میں ابو سفیان کی بیوی ہندنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لاش کا مثلہ کیا۔ ناک کان اور دوسرے اعضاء کاٹ کر لاش کا حلیہ بگاڑ دیا۔ ان کا کلیجہ نکال کر چبا لیا۔ ظلم اور بربریت کی انتہا کی۔ دوسری طرف اس سب کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ کیا ہے کہ فتح مکہ پر ہندنقاب اوڑھ کر آپؐ کی مجلس میں آ گئی۔ کھلے طور پر آ نہیں سکتی تھی کیونکہ اس جرم کی وجہ سے اس کے لئے بھی قتل کی سزا مقرر ہوئی ہوئی تھی۔ آپ کی مجلس میں آ کر اس نے بیعت کی۔ مسلمان ہو گئی اور اس دوران بعض استفسارات کئے۔ بعض سوالات پوچھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی آواز پہچان گئے۔ آپ نے پوچھا کیا تم ابوسفیان کی بیوی ہند ہو؟ اس نے کہا ہاں یا رسول اللہؐ۔ لیکن یا رسول اللہؐ! اب تو مَیں دل سے مسلمان ہو چکی ہوں۔ جو پہلے ہو چکا اس سے درگذر فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف فرما دیا۔ اس کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ مزید اس کی کایا پلٹ گئی۔ گھر جا کر اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ضیافت کے لئے کھانا تیار کیا اور دو بکرے بھون کر آپ کی خدمت میں بھیجے اور کہا کہ آج جانور کم ہیں اس لئے یہ معمولی تحفہ بھیج رہی ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دعا دی کہ اے اللہ! ہند کی بکریوں میں برکت ڈال دے۔ چنانچہ کہتے ہیں اس کے نتیجہ میں اس کا اتنا بڑا ریوڑ ہو گیا تھا کہ سنبھالا نہیں جاتا تھا۔