خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۳۰؍ جون ۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یوکے
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان میں سواد بن غزيّہؓ کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب:فرمایا: سواد بن غزيّہؓ کے رسول اللہﷺ سے عشق کے عجيب اظہار کا واقعہ گذشتہ خطبہ ميں بيان ہوا تھا۔ ان کے بارے ميں مزيد تفصيل اس طرح ہے کہ سواد بن غزيّہؓ اس جنگ ميں فاتحانہ شان کے ساتھ لَوٹے اور مشرکين ميں سے ايک شخص خالد بن ہشام کو قيدي بھي بنايا اور آنحضرتﷺ نے بعد ميں ان کو جنگِ خيبر کے اموال جمع کرنے کے ليے عامل مقرر فرمايا تھا۔
سوال نمبر۲: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سوادبن غزيّہؓ کے واقعہ کی نسبت حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا کیاموقف بیان فرمایا ؟
جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشير احمد صاحبؓ نے سيرت خاتم النبيينؐ ميں اس واقعہ کے بارے ميں جو تفصيل بيان فرمائي ہے وہ اس طرح ہے۔ لکھا ہے کہ ’’اب رمضان سنہ ۲ھ کي سترہ تاريخ اور جمعہ کا دن تھا اورعيسوي حساب سے ۱۴؍مارچ ۶۲۴ءتھي۔ صبح اٹھ کر سب سے پہلے نماز ادا کي گئي اور پرستارانِ احديت کھلے ميدان ميں خدائے واحد کے حضور سربسجود ہوئے۔ اس کے بعد آنحضرتﷺ نے جہاد پرايک خطبہ فرمايا اور پھر جب ذرا روشني ہوئي تو آپؐ نے ايک تير کے اشارہ سے مسلمانوں کي صفوں کودرست کرنا شروع کيا۔ ايک صحابي سوادؓ نامي صف سے کچھ آگے نکلا کھڑا تھا۔ آپؐ نے اسے تير کے اشارہ سے پيچھے ہٹنے کو کہا مگر اتفاق سے آپؐ کے تير کي لکڑي اس کے سينہ پر جا لگي۔ اس نے جرأت کے انداز سے عرض کيا۔ ’’يارسول اللہؐ! آپؐ کوخدا نے حق وانصاف کے ساتھ مبعوث فرمايا ہے مگر آپؐ نے مجھے ناحق تير مارا ہے۔ واللہ! مَيں تو اس کا بدلہ لوں گا۔‘‘ صحابہؓ انگشت بدنداں تھے’’ حيران پريشان تھے ‘‘کہ سواد ؓکوکيا ہوگيا ہے مگر آنحضرتﷺ نے نہايت شفقت سے فرمايا کہ ’’اچھا سواد تم بھي مجھے تير مار لو۔‘‘ اور آپؐ نے اپنے سينہ سے کپڑا اٹھا ديا۔ سوادؓ نے فرطِ محبت سے آگے بڑھ کر آپؐ کاسينہ چوم ليا۔ آنحضرتﷺ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ’’سواد! يہ تمہيں کيا سوجھي۔‘‘ اس نے رِقّت بھري آواز ميں عرض کيا۔ ’’يارسول اللہؐ! دشمن سامنے ہے کچھ خبر نہيں کہ يہاں سے بچ کر جانا ملتا ہے يا نہيں۔ مَيں نے چاہا کہ شہادت سے پہلے آپؐ کے جسم مبارک سے اپنا جسم چھوجاؤں۔
سوال نمبر۳: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سوادبن غزيّہؓ کے واقعہ کی نسبت حضرت مصلح موعودؓ کا کیا موقف بیان فرمایا ؟
جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعود ؓنے نبي کريمﷺ کي وفات کے قريب اسي طرح کے واقعہ کا تذکرہ فرمايا ہے۔ جنگِ بدر ميں نہيں بلکہ وفات کے وقت کا واقعہ بيان فرمايا ہے جو اس سے ملتا جلتا ہے۔ فرمايا کہ ’’جب رسول کريمﷺ کي وفات کا وقت قريب آيا تو آپؐ نے اپنے صحابہؓ کو جمع کيا اور فرمايا: ديکھو! مَيں بھي انسان ہوں جيسے تم انسان ہو ممکن ہے مجھ سے تمہارے حقوق کے متعلق کبھي کوئي غلطي ہو گئي ہو اور ميں نے تم ميں سے کسي کو نقصان پہنچايا ہو اب بجائے اِس کے کہ ميں خدا تعاليٰ کے سامنے ايسے رنگ ميں پيش ہوں کہ تم مدعي بنو، مَيں تم سے يہ کہتا ہوں کہ اگر تم ميں سے کسي کو مجھ سے کوئي نقصان پہنچا ہو تو وہ اِسي دنيا ميں مجھ سے اپنے نقصان کي تلافي کرا لے۔ صحابہؓ کو رسول کريمﷺ سے جوعشق تھا اس کوديکھتےہوئےاندازہ لگايا جا سکتا ہے کہ رسول کريمﷺ کے اِن الفاظ سے ان کے دل پر کتني چھرياں چلي ہوں گي اور کس طرح ان کے دل ميں رقت طاري ہوئي ہو گي۔ چنانچہ ايسا ہي ہوا۔ صحابہؓ پر رقت طاري ہو گئي۔ ان کي آنکھوں سے آنسو بہ نکلے اور ان کے لیے بات کرنا مشکل ہو گيا۔ مگر ايک صحابيؓ اٹھے اور انہوں نے کہا۔ يارسول اللہؐ! جب آپؐ نے کہا ہے کہ اگر کسي کو مَيں نے کوئي نقصان پہنچايا ہو تو وہ مجھ سے اِس کا بدلہ لے لے تو مَيں آپؐ سے ايک بدلہ لينا چاہتا ہوں۔ رسول کريمﷺنے فرمايا ہاں۔ جلدي بتاؤ تمہيں مجھ سے کيا نقصان پہنچا ہے۔ وہ صحابيؓ کہنے لگے يار سول اللہؐ! فلاں جنگ کے موقع پر آپؐ صفيں درست کروا رہے تھے کہ ايک صف سے گزر کر آپؐ کو آگے جانے کي ضرورت پيش آئي۔ آپؐ جس وقت صف کو چير کر آگے گئے تو آپؐ کي کہني ميري پيٹھ پر لگ گئي آج مَيں اس کا بدلہ لينا چاہتا ہوں۔ صحابہؓ بيان کرتے ہيں اس وقت غصہ ميں ہماري تلواريں ميانوں سے باہر نکل رہي تھيں اور ہماري آنکھوں سے خون ٹپکنے لگا۔ اگر رسول کريمﷺ اس وقت ہمارے سامنے موجود نہ ہوتے تو يقيناً ہم اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ديتے۔مگر رسول کريمﷺ نے اپني پيٹھ اس کي طرف موڑ دي اور فرماياکہ لو! اپنا بدلہ لے لو اور مجھے بھي اسي طرح کہني مار لو۔ اس آدمي نے کہا۔ يار سول اللہؐ! ابھي نہيں۔ جب آپؐ کي کہني مجھے لگي تھي اس وقت ميري پيٹھ ننگي تھي اور آپؐ کي پيٹھ پر کپڑا ہے۔ رسول کريمﷺ نے صحابہؓ سے فرمايا۔ ميري پيٹھ پر سے کپڑا اٹھا دو کہ يہ شخص اپنا بدلہ مجھ سے لے لے۔ جب صحابہؓ نے رسول کريمﷺ کي پيٹھ پر سے کپڑا اٹھا ديا تو وہ صحابي ؓکانپتے ہونٹوں اور بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ آگے بڑھا اور اس نے رسول کريم کي ننگي پيٹھ پر محبت سے ايک بوسہ ديا اورکہا۔ يا رسول اللہؐ! کجا بدلہ اور کجا يہ ناچيز غلام! جس وقت حضورﷺ سےمجھےيہ معلوم ہوا کہ شايدوہ وقت قريب آ پہنچاہےجس کےتصورسےبھي ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتےہيں تومَيں نےچاہاکہ ميرےہونٹ ايک دفعہ اس بابرکت جسم کومَس کر ليں جسےخدانےتمام برکتوں کامجموعہ بناياہے۔ پس مَيں نےاِس کہني لگنےکواپنےاس مقصدکوپورا کرنےکاايک بہانہ بنايااورمَيں نےچاہاکہ آخري دفعہ آپؐ کابوسہ تولےلوں۔ يارسول اللہؐ! کہني لگناکياچيزہے۔ ہماري توہرچيزآپؐ کےلئےقربان ہے۔ميرےنفس نےتويہ ايک بہانہ بنايا تھا تاکہ آپؐ کا بوسہ لينےکا موقع مل جائے۔ وہ صحابہؓ جواس شخص کوقتل کرنےپرآمادہ ہورہےتھے۔‘‘ اس کي يہ بات سن کےاس وقت بڑےغصہ ميں تھے۔ ’’جب انہوں نےيہ نظارہ ديکھا‘‘ کہ يہاں تواس کےدل ميں کچھ اَور ہي بات ہے’’تووہ کہتے ہيں پھرہم ميں سےہرشخص کواپنےآپ پرغصہ آنےلگاکہ ہميں کيوں نہ يہ موقع ملاکہ ہم اپنےپيارےکابوسہ لےليتے۔‘‘
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےجنگ بدر میں آنحضرتﷺکے خطبہ کی کیا تفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا: ايک جگہ آنحضورﷺ کا يہ جو خطبہ ہے اس کي تفصيل اس طرح بيان ہوئي ہے کہ آپﷺ نے اللہ تعاليٰ کي حمد و ثنا بيان کي اور فرمايا مَيں تمہيں اس بات پر اُبھارتا ہوں جس پر اللہ نے اُبھارا ہے اور اس چيز سے تمہيں منع کرتا ہوں جس سے اس نے تمہيں منع کيا ہے۔ اللہ تعاليٰ جو بزرگ و برتر ہے وہ تمہيں حق کا حکم ديتا ہے وہ سچائي کو پسند کرتا ہے وہ نيکوکاروں کو بلند مقامات عطا فرماتا ہے جو اس کے ہاں موجود ہيں۔ اس کے ساتھ ان کا تذکرہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ وہ ايک دوسرے سے سبقت لے جانے کي کوشش کرتے ہيں اور آج تم حق کي منازل ميں سے ايک منزل پر ہو۔ اس ميں اللہ تعاليٰ وہي قبول کرتا ہے جو اس کي رضا کے ليے کيا جاتا ہے۔ سختي کے مقامات ميں صبر ايسي چيز ہے جس سے اللہ غم کو دُور کر ديتا ہے دکھ سے نجات ديتا ہے۔ آخرت ميں اس کے ساتھ نجات پاؤ گے، اس کے ساتھ يعني صبر دکھانے کے ذريعہ نجات پاؤ گے۔ تم ميں اللہ کا نبيﷺ موجود ہے۔ وہ تمہيں ڈراتا ہے اور حکم ديتا ہے کہ آج اللہ سے حيا کرو کہ وہ تمہارے معاملے ميں کسي ايسي چيز سے آگاہ ہو جو اس کي ناراضگي کا سبب بنے۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے لَمَقْتُ اللّٰهِ اَكْبَرُ مِنْ مَقْتِكُمْ أَنْفُسَكُمْ۔ (المؤمن:۱۱) اللہ کي ناراضگي تمہاري آپس کي ناراضگيوں کے مقابلے پر زيادہ بڑي تھي۔ اس چيز کي طرف ديکھو جس کا اس نے تمہيں کتاب ميں حکم ديا ہے اور اس نے تمہيں اپنے نشانات دکھائے اور ذلت کے بعد تمہيں عزت بخشي ہے۔ اللہ کا دامن مضبوطي سے تھام لو کہ وہ تم سے راضي ہو جائے۔ اس جگہ تم اپنے رب کي آزمائش پر پورا اترو۔ تم اس کي رحمت اور مغفرت کے مستحق ہو جاؤ گے جس کا اس نے تم سے وعدہ کيا ہے۔ اس کا وعدہ حق ہے اس کي بات سچ ہے اس کي سزا شديد ہے۔ مَيں اور تم لوگ اللہ کے ساتھ ہيں جو حيّ و قيوم ہے۔ ہم اس سے اپني فتح کے ليے دعا کرتے ہيں، اس کا دامن تھامتے ہيں، اسي پر توکّل کرتے ہيں، اسي کي طرف لَوٹ کر جانا ہے۔ اللہ تعاليٰ ہميں اور مسلمانوں کو بخش دے۔
سوال نمبر۵: آنحضرتﷺنے بدر کے دن صحابہ کرام ؓکوکن لوگوں کے قتل سے منع فرمایا؟
جواب: فرمایا: جنگ کے دوران بعض لوگوں کو قتل کرنے سے آنحضرتﷺنے روکا بھي تھا ۔اس بارے ميں آتا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ بيان کرتے ہيں کہ نبي کريمﷺ نے جنگِ بدر کے دن اپنے اصحابؓ سے فرمايا تھا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ بنو ہاشم اور کچھ دوسرے لوگ قريش کے ساتھ مجبوراً آئے ہيں۔ خوشي سے نہيں آئے۔ وہ ہم سے لڑنا نہيں چاہتے۔ پس تم ميں سے جو کوئي بنو ہاشم کے کسي آدمي سے ملے تو وہ اس کو قتل نہ کرے اور جو ابوالبختري سے ملے وہ اس کو قتل نہ کرے اور جو عباس بن عبدالمطلب جو رسول اللہﷺ کے چچا ہيں ان سے ملے تو وہ ان کو بھي قتل نہ کرے کيونکہ يہ لوگ مجبوراً قريش کے ساتھ آئے ہيں۔ حضرت ابن عباسؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت ابوحذيفہ بن عتبہؓ نے کہا کہ ہم اپنے باپوں، بيٹوں، بھائيوں اور رشتہ داروں کو تو قتل کريں اور عباس کو چھوڑ ديں۔ اللہ کي قسم! اگر مَيں اسے يعني عباس کو ملا تو مَيں تلوار سے ضرور اسے قتل کر دوں گا۔ راوي کہتے ہيں کہ يہ خبر رسول اللہﷺ کو پہنچي تو آپؐ نے حضرت عمر بن خطابؓ سے فرمايا۔ اے ابوحفص۔ حضرت عمرؓ کہتے ہيں کہ اللہ کي قسم! يہ پہلا دن تھا کہ جب رسول اللہﷺنے مجھے ابوحفص کي کنيت سے مخاطب فرمايا تھا۔ آپؐ نے فرمايا کہ کيا رسول اللہؓ کے چچا پر تلوار ماري جائے گي؟ حضرت عمرؓ نے عرض کيا يا رسول اللہؐ! مجھے اجازت ديں کہ مَيں تلوار سے اس کي يعني ابوحذيفہ کي گردن اڑا دوں جنہوں نے منافقت دکھائي ہے۔ عرض کيا کہ اللہ کي قسم! اس نے يعني ابوحذيفہ نے منافقت دکھائي ہے۔ حضرت ابوحذيفہ بعد ميں کہا کرتے تھے کہ ميں اس کلمے کي وجہ سے جو مَيں نے اس دن کہا تھا چين ميں نہيں رہا اور ہميشہ اس سے ڈرتا رہا سوائے اس کے کہ شہادت ميري اس بات کا کفارہ کر دے۔ چنانچہ حضرت ابوحذيفہؓ جنگِ يمامہ کے دن شہيد ہو گئے۔
سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگ بدر میں نصرت الٰہی کے حصول کے لیے آنحضرتﷺ کے کس طرز عمل کا ذکر فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہيں کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے مجھ سے بدر والے دن بيان کيا کہ رسول اللہﷺ نے مشرکوں کو ديکھا وہ ايک ہزار تھے اور آپؐ کے صحابہؓ تين سو انيس تھے۔ اللہ کے نبيﷺ نے قبلے کي طرف منہ کيا پھر اپنے دونوں ہاتھ پھيلائے اور اپنے رب کو بلند آواز سے پکارتے رہے۔اَللّٰھُمَّ اَنْجِزْ لِيْ مَا وَعَدْتَّنِيْ۔ اَللّٰھُمَّ اٰتِ مَا وَعَدْتَّنِيْ۔ اَللّٰھُمَّ اِنْ تُھْلِکْ ھٰذِہِ الْعِصَابَةَ مِنْ اَھْلِ الْاِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِي الْاَرْضِ۔يعني اے اللہ! جو تُو نے ميرے ساتھ وعدہ کيا ہے اسے پورا فرما۔ اے اللہ! جو تُو نے مجھ سے وعدہ کيا ہے وہ مجھے عطا فرما۔ اے اللہ! اگر تُو نے مسلمانوں کا يہ گروہ ہلاک کر ديا تو زمين پر تيري عبادت نہيں کي جائے گي۔ قبلہ کي طرف منہ کيے دونوں ہاتھ پھيلائے آپ مسلسل اپنے رب کو بلند آواز سے پکارتے رہے يہاں تک کہ آپؐ کي چادر آپ کے کندھوں سے گر گئي۔ حضرت ابوبکرؓ آپؐ کے پاس آئے اور آپ کي چادر اٹھائي اور آپؐ کے کندھوں پر ڈال دي۔ پھر آپؓ رسول اللہﷺ کو پيچھے سے چمٹ گئے اور عرض کيا اے اللہ کے نبي ؐ!آپ کي اپنے رب کے حضور الحاح سے بھري ہوئي دعا آپؐ کے ليے کافي ہے۔ وہ آپؐ سے کيے گئے وعدے ضرور پورے فرمائے گا۔ اس پر اللہ تعاليٰ نے يہ آيت نازل فرمائي۔ اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّيْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ مُرْدِفِيْنَ ۔(الانفال: 10) جب تم اپنے رب سے فرياد کر رہے تھے اس نے تمہاري التجا کو قبول کر ليا اس وعدے کے ساتھ کہ مَيں ضرور ايک ہزار قطار در قطار فرشتوں سے تمہاري مدد کروں گا۔ پس اللہ نے ملائکہ کے ذريعےآپؐ کي مدد فرمائي۔