خلافت کو سلام اوقیانوس کے دوسرے کنارے سے
ماہ مئی کے آغاز میں مجھے ایک جماعتی کام کے سلسلہ میں کینیڈاکا سفر اختیارکرنا پڑاجو قریب ایک ہفتہ پر محیط رہا۔ یہ سفر ایک جماعتی ذمہ داری کے حوالے سے تھا مگر اس ذمہ داری کا ذکر تو قارئین کے لیے کچھ خاص دلچسپی کا باعث نہ ہو گا، مگر میں یہاں اپنے کچھ ایسے احساسات اور جذبات پیش کرنا چاہتا ہوں جو میں نے دوران سفر شدت سے محسوس کیے اور جو عام دلچسپی کا موجب ہو سکتے ہیں۔ ایسے جذبات جو خلافتِ احمدیہ سے محبت سے متعلق ہیں۔
اپریل کے اوائل میں مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سفر کی ہدایت موصول ہوئی۔ جہاں دل فوری تعمیل کے لیے تیار تھا، وہاں ایک عجیب الجھن نے بھی دل کو آلیا۔ اب اس لمحہ کو دوبارہ یاد کرکے میں شرمندہ ہو جاتا ہوں۔لیکن اس سارے معاملہ میں ایک خاص پیغام ہے، اس لیے یہاں بیان کردیتا ہوں۔
ہوائی سفر کے ایک انجانے خوف کی وجہ سے میں کئی سال ہوائی جہازپر سوار نہیں ہوا تھا۔ ہوا یوں کہ آخری دفعہ قریباً چودہ برس پہلے،میں سویڈن جانے والی ایک پرواز میں سوار تھا، اور اس چھوٹے طیارہ کی کھڑکی سے جہاز کے پَروں پر لگے پنکھے تک نظر آرہے تھے۔طیارہ اس قدر چھوٹا تھا کہ ہچکولے کھاتا ہوا پرواز کرتا رہا، اور میرے دل میں پرواز کا خوف ایسا گھر کر گیا کہ مجھے پرواز کا تصور کرنا بھی محال ہو گیا۔
اس عرصہ میں میرے لیے کئی مواقع پرہوائی سفر ضروری ہوا مگر میں کسی نہ کسی طرح اس سے دامن بچا جاتا رہا۔ان مواقع میں کچھ میرے کام سے متعلق تھے، اور کچھ ذاتی نوعیت کے۔
خدا کا شکر ہے کہ میرے اس گریز کے باوجود کام کا حرج کبھی نہ ہوا۔ اللہ بھلا کرے دنیا بھر میں پھیلی جماعت احمدیہ کا کہ کوئی نہ کوئی صورت کام کے ہوجانے کی نکل آتی رہی۔ مثلاً ایک موقع پر مجھے استنبول میں عثمانی آرکائیوز تک رسائی حاصل ہوئی تو میں نے اپنی تحقیق و تلاش کا تمام تر کام اپنی میز سے مکمل کیا،عثمانی آرکائیوز کے عملے سے فون پر گفتگو ہوتی رہی۔جب متعلقہ دستاویزات کا سراغ مل گیا تو ترکی میں تعینات مبلغ سلسلہ مکرم صادق بٹ صاحب سے درخواست کی کہ وہ جاکر ریکارڈ آفس سے نقول حاصل کر کے مجھے ارسال کردیں۔ یوں مطلوبہ دستاویزات مجھے بغیر ہوائی سفر کیے مہیا ہوگئیں۔
اسی طرح میری والدہ مرحومہ کا بڑھاپے اور ڈیمنشیا کا زمانہ ذاتی ضرورت کے لیے ہوائی سفر سے بچاجاتا رہا۔ برسوں پر محیط اس عرصہ میں والدہ صاحبہ ہمارے ساتھ رہتی تھیں اور میری اہلیہ ان کی کل وقتی دیکھ بھال کا فریضہ نبھا رہی تھیں۔ میرے بچے اس ذمہ داری کواچھی طرح سمجھتے رہے اور میرے ساتھ بیرون ملک سفر کرنے کی اپنی خواہش قربان کرلیتے رہے۔
لیکن اب، ۲۰۲۴ء کے موسم بہار کی آمد آمد میں، مجھے ایک ایسے ملک کی طرف پرواز کرنے کی ہدایت ملی جہاں تک رسائی کے لیے کوئی دوسرا طریقہ سفر بھی ممکن نہ تھا۔
میرے آقا کا حکم آچکا تھا اور اس غلام کو مکمل انشراح صدر کے ساتھ اس کی تعمیل کرناتھی۔ الحمدللہ، مجھے اس کی توفیق بھی ملی۔ ایک لحظہ سے بھی کم وقت لگا اور میرا ہوائی سفر کا خوف، آقا کے ارشاد کی تعمیل پر لبیک کہنے میں بدل گیا۔ اور وقفِ زندگی کا دعویٰ کرنے والوں کو زیب بھی کم از کم یہی دیتا ہے۔
میں نے اسی لمحےاپنا فون اٹھایا اور جماعت کے متعلقہ شعبہ سے درخواست کی کہ ٹورانٹو کے لیے میری فلائٹ بک کروادیں۔ اور کچھ ہی دیر میں، میرے سفر کی تاریخ اور تفصیل میری ای میل میں موجود تھی۔میرے مرحوم دوست سید ناصر احمد نے کیا ہی خوب لکھا تھا کہ
قدم بڑھا دیا ہم نے ترے قدم کے ساتھ
ہمیں خبر بھی نہیں کون سے یہ زینے ہیں
اب ہوائی سفر میرے سامنے تھا اور مجھے گھوررہا تھا۔ میری روانگی کے دن تک کئی مواقع آئے کہ جب میں نے چاہا کہ میں حضورانور سے ذکر کروں کہ مجھے ہوائی سفر سے خوف محسوس ہوتا ہے اور اس کے لیے دعا کی درخواست کروں۔مگر یہ میری کمزوری تھی، اور کسی سپاہی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ سپہ سالار کو بتائے کہ اس کے پیچھے صف آرا ایک لشکری کمزور ہے۔ اس لیے میں نے اپنے خوف کو دل میں ہی چھپائے رکھا اور سفر کی تیاری جاری رہی۔
۴؍مئی بروز ہفتہ روانگی تھی۔میں روانگی سے قبل کینیڈا سے متعلق ذمہ داری کے حوالے سے حضور انور سے راہنمائی حاصل کرنے کے لیے حاضر ہونا چاہتا تھا۔ سو میں نے ۲۷/۲۸ اپریل کے لیے ملاقات کی درخواست جمع کروادی۔ لیکن ۲۶؍ اپریل بروز جمعہ مجھے حضورانور کے دفتر سے اطلاع ملی کہ ملاقات نہیں مل سکی۔ یہ بھی کہ اس ہفتے کسی اور کی بھی دفتری ملاقات نہیں ہوگی۔اس تازہ صورت حال میں پریشان تھا کہ اب روانگی سے پہلے راہنمائی کی درخواست کرنے کا کوئی موقع نہیں۔
جمعہ۳؍مئی کی صبح، روانگی سے ایک دن پہلے، میں نے حضور انور کی خدمت میں درخواست لکھی کہ اسی روزدوپہر کو ملاقات کا عطا کرنے کی درخواست ہے کیونکہ اگلی صبح میری روانگی کا وقت طے تھا۔ اس پر حضور کے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے مجھے بتایا کہ پیارے حضور نے آپ کی درخواست ملاحظہ فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ اگر ممکن ہوا تو حضور مجھے دوپہر میں کچھ وقت عنائیت فرمائیں گے۔
لیکن اس دن اپنے خطبہ جمعہ کے آخر پر حضور انور نے اپنی صحت اور حالیہ علاج کا ذکر فرمایا۔قارئین کے لیے یہ تصور کرنا کچھ مشکل نہیں ہوگاکہ مجھے یہ احساس کس قدر تکلیف دہ ہوا ہوگا کہ خطبے سے قبل میں نے ملاقات کی درخواست لکھ کر پیش کی تھی۔ مجھے ذرا بھی اندازہ ہوتا تو میں کبھی بھی حضور کو ایسی درخواست بھیج کر بے آرام کرنا پسند نہ کرتا۔ ان چند لمحوں کے لیے بھی نہیں جو میں نے مانگے تھے۔
میرا جی چاہا کہ دوبارہ لکھوں اور ملاقات کے لیے اپنی درخواست واپس لے لوں۔ لیکن پھر یہ بھی مناسب نہ لگا اور میں نے باقی کا دن ایک شدید احساسِ جرم میں گزارا۔ لیکن پھر یہ سب کچھ انجانے میں ہی تو ہوا تھا۔
میں نے عصر کی نمازمسجد مبارک میں پڑھی اور اسلام آباد ہی میں ٹھہرگیا۔ نماز کے بعد کچھ زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کا فون آیا کہ حضورنے یاد فرما لیا ہے۔
میں حضور کے دفتر میں داخل ہوا اور حضور کو حسب معمول کام کرتے دیکھا۔ ایک فائل آپ کے زیر مطالعہ تھی اور آپ کے ہاتھ میں قلم تحریر کی سطروں کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا، تاحسب ضرورت حضور زیر غور معاملہ پر ہدایت جاری فرماسکیں۔ حضورانور نہایت پر سکون طریق پر پورے انہماک سے اپنے کام میں مصروف تھے، اور قریب سےدیکھنے میں بھی مکمل تندرست نظر آرہے تھے۔ میں اس مردِ خدا کے سامنے بیٹھنے کے لیے کرسی کی طرف چل پڑا۔
حضور انور نےحسب معمول مسکراتے ہوئے نہایت محبت سے فرمایا کہ کیسے آنا ہوا ؟
میں نے عرض کی کہ کل صبح میری کینیڈا کے لیے روانگی ہے اوروہاں میرے سپرد ذمہ داری کے حوالہ سے کچھ راہنمائی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ حضورانور نے نہایت شفقت سے راہنمائی فرمائی جسے میں نے تحریر میں محفوظ کرلیا۔ یہی وہ اثاثہ تھا جو میں نے اپنے ساتھ لےکر سفر پر جانا تھا۔ میرے سفر کا حقیقی مقصد بھی تو یہ اثاثہ بطور امانت لے کر جانا اور منزلِ مقصود تک پہنچانا تھا۔ مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ کسی کو میرے ذاتی خیالات سے بھلا کیا دلچسپی ہوگی۔ وہ تو حضور انور کی ہدایات اور ارشادات کے لیے چشم براہ ہوں گے۔ یہی خزانہ تھا جو میں نے ان قیمتی لمحوں میں جمع کیا اور اپنے ساتھ لے جانے کے لیے محفوظ کیا۔
اس کے بعد نہایت محبت بھرے انداز میں حضور نے اجازت دی کہ مجھے کچھ اور کہنا ہے تو عرض کرلوں۔ میں نے موقع غنیمت جان کر عرض کی کہ ہر کوئی حضور کی صحت کے بارے میں فکرمند ہے اور کس طرح ہر کوئی دعا مانگ رہا ہے اورہر طرف حضور کی صحت یابی ہی گفتگو کا موضوع ہے۔
حضورانور نے بتایا کہ ڈاکٹرز کس طرح ایک طویل عرصے سے یہ طریقہ علاج تجویز کر رہے تھے، اور کس طرح حضور انور اسے ملتوی کرتے آرہے تھے،اور یہ کہ ابتدائی مشورہ اور اب تک کے درمیان برسوں کا وقت گزرچکا تھا۔
ملاقات کے اختتام پر حضور انور نے نہایت شفقت سے پوچھا کہ کینیڈا میں میرا قیام کب تک ہے اور واپسی کب ہوگی۔ جواب عرض کرنے کے بعد اور بالکل جاتے جاتے میں نے سوچا کہ میں اپنے اس خوف کے متعلق دعاکی درخواست کردوں جو مجھے کئی سالوں سے درپیش تھا اور اب تو بالکل ہی سر پرآن پہنچا تھا۔
میں نے عرض کی کہ حضور! مجھے جہاز کے سفر سے کچھ ڈر محسوس ہوتاہے۔ اس کے لیے بھی دعا کی درخواست ہے۔
تب تک میں دفتر کے دروازے کے پاس کھڑا تھا۔ حضور انور نے سر سے پاؤں تک میری طرف دیکھا، اور مسکرائے۔ اس پر میں بھی اپنی جھینپی ہوئی مسکراہٹ کو نہ روک سکا، کیونکہ تب خود مجھے بھی یہ عجیب منظر لگا کہ ایک چھ فٹ لمبا، ادھیڑ عمر آدمی معصوم بچوں کی طرح اپنے خوف کا اظہار کررہا ہے۔
حضور نے فرمایا :’’اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے؟ جب تم ایئر پورٹ جاؤ گے تو اردگرد نظر دوڑانا، تمہیں بہت سے چھوٹے بچے اور بوڑھے لوگ جہاز میں سوار ہوتے نظر آئیں گے۔ یہ منظر تمہیں شرمندہ کرنے اور خوف سے نجات دلانے کے لیے کافی ہوگا۔‘‘
اس بات سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہ حضورانور نے ایک ایسے مسئلے کو کس قدر آسانی سے ہلکے پھلکے انداز میں حل کردیا جو مجھے زندگی اور موت کا مسئلہ لگ رہا تھا، میں دفتر سے باہر نکل آیا۔
جب میں ملاقات کے بعد دفتر سے باہر نکلا اور کار پارک کی طرف آیا تو جس نے بھی مجھے حضورانور کے دفتر سے باہر آتے دیکھا حضور کی طبیعت کے بارے میں پوچھنے لگا۔ میں گھر پہنچا تو میرے اہل خانہ نے بھی اسی طرح مجھ سے حضورانور کی صحت کا ہی پوچھا۔حتی کہ اگلی صبح جن صاحب نے مجھے ایئرپورٹ چھوڑا، انہوں نے بھی مجھ سے یہی سوال کیا۔
میں نے سب کواسی خوشی اور اطمینان میں شریک کرنے کی کوشش کی جو میں نے حضور کو کام میں مصروف دیکھ کر اور صحت مند، خوش اور مطمئن دیکھ کر حاصل ہوا تھا۔ ایئرپورٹ کے اندر میں سیکیورٹی اور امیگریشن سمیت تمام ضروری مراحل سے بغیر کسی خوف اور پریشانی کے گزرتا چلا گیا۔
ہوائی جہاز نے اڑان بھری تو یہ وہی مرحلہ تھا جس کے بارہ میں سب سے زیادہ خوفزدہ تھا۔ لیکن تھوڑے ہی وقت میں جہاز تقریباً 40,000 فٹ کی بلندی پر اڑنے لگا، لیکن اس قدر بلندی بھی مجھے ہمیشہ ایک ڈراؤنے خواب کی طرح لگتی تھی۔ سفر جاری رہا گو جہاز کبھی کبھار turbulence کےباعث لرزتا تھا۔ مجھے یاد آیا کہ جہاز کی اسی ممکنہ تھرتھراہٹ کو سوچ کر مجھے ہول پڑا کرتے تھے۔ لیکن سب خیر ہے اور وسیع و عریض بحراوقیانوس کے شمالی حصے پرمحو پرواز ہوں۔ جبکہ حدِ نظر پھیلے سمندر پر پرواز بھی مجھے ڈراؤنی فلم کے منظر سا لگا کرتاتھا۔
میں یونہی ماضی و حال کے فرق تلاش کررہا تھا کہ آٹھ گھنٹے کا طویل سفر تمام ہوا اور جہاز ٹورانٹو ایئرپورٹ کی جانب اترتا چلا گیا۔ جہاز کی لینڈنگ جو تخیل میں مجھے کئی سالوں سے پریشان کیا کرتی تھی ایک خوشگوار تجربے میں بدل گئی۔ میں منزل پر پہنچ چکا تھا، جہاں آگے کچھ ذمہ داریاں میری منتظر تھیں اور میں ان کے لیے تیار تھا۔
مگر میں اندر ہی اندر خود سے الجھ کر بار بار یہ بھی پوچھ رہا تھاکہ آخر وہ کیا چیز تھی جس نے میرے ذہن سے ایک گہرے خوف اور اندیشے کو اتنی آسانی سے اکھاڑ پھینکا؟ کیایہ حضور کے چہرے کی وہ بے اختیار مسکراہٹ تھی جو میں نے اپنے خوف کا اظہار کرتے ہوئے دیکھی تھی؟ کیا یہ آپ کے سادہ مگر نہایت مؤثر مشورہ کا اثر تھا؟ لیکن مجھے اچانک یاد آیا کہ اپنا خوف دور کرنے کے لیے آس پاس کے بوڑھوں اور بچوں کو سفر کرتے دیکھنامجھے بالکل ہی بھول گیا تھا۔ یا پھر یہ حضورانور کی صحت کی فکر تھی جس نے ہر احمدی کے دل میں کسی اور معمولی فکر کی گنجائش تک نہیں چھوڑی تھی؟
میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ سبھی کچھ مل کر ایک مکمل علاج بن گیا۔ ایک اور احساس جو میں نے اس تجربے سے حاصل کیا وہ یہ ہے کہ جہاں حضورانور کی کسی امر کی طرف توجہ کرشمہ انگیز ہوتی ہے، وہاں حضور کا کسی اندیشے کو مسترد کردینا بھی وسوسوں کو محو کر سکتا ہے۔کیونکہ میں نےآج خود تجربہ کیا کہ میرے آقا کی دلآویز مسکراہٹ، جس نے گویا میرے اندیشوں کو مسترد کیا، میرے خوف کو دور کرگئی تھی، الحمدللہ۔
ٹورانٹو کے Pearson ایئرپورٹ پرمکرم عبدالرشید انور صاحب (مشنری انچارج کینیڈا) اور مکرم فضل ملک صاحب تشریف لائے ہوئے تھے۔ سلام دعاکے تبادلہ کے بعد ان دونوں نے جو پہلا سوال مجھ سے کیا وہ حضور انور کی صحت کے بارے میں تھا۔
یوں ایئرپورٹ سے گیسٹ ہاؤس تک کے مختصر سفر میں جہاں میری رہائش کا انتظام تھا، ہماری گفتگو کا موضوع بھی یہی رہا۔
گیسٹ ہاؤس پہنچنے پر جو احباب ملے ان سب نے بھی یہی پوچھا کہ حضور کی طبیعت اب کیسی ہے؟
میں ٹورانٹو پہنچنے کے دو گھنٹے بعد مسجد بیت الاسلام میں ہونے والی ایک تقریب میں شریک تھا۔ پہلا سوال جو مجھ سے ہر کسی نے پوچھا وہ حضور کی صحت اور تندرستی کے بارے میں تھا۔ اس کے بعد کے پورے ہفتے میں مجھے سینکڑوں عاشقانِ خلافت سے گفتگو کرنے اور ملنے کا موقع ملا۔ سب سے پہلے وہ یہی جاننا چاہتے تھے کہ حضور کیسے ہیں؟ ’’کیا آپ حضور سے ملے؟کیا آپ نے حضور سے بات کی؟حضور کی طبیعت اب کیسی ہے؟ کیا وہ خیریت سے ہیں؟‘‘
اللہ کے فضل سے میں انہیں یہ بتانے کے قابل تھا کہ مجھے حضورانور سے ملاقات کی سعادت میسر آئی، اور متفکر ہوکر پوچھنے والے سب احمدیوں کو اپنی اس ملاقات کا منظر بتاتا رہا جو خطبہ کے چند گھنٹے بعد اورکینیڈا روانگی سے چند گھنٹے قبل نصیب ہوئی تھی،اور اس موقع پر خود حضور انور نے اپنی صحت کا احوال بیان فرمایا تھا۔ میں بہت خوش اور مطمئن تھا کہ میں حضرت خلیفۃ المسیح کے ان تمام چاہنے والوں کویہی خوشخبری سنارہا تھا کہ الحمدللہ، حضور بالکل خیریت سے ہیں۔ میں حضور انور کو اپنے کام میں مصروف دیکھ کر آرہا ہوں۔ آپ اپنے دفتر میں اپنی میز پر مصروفِ کار تھے۔آپ خوش تھے۔ ہمیشہ کی طرح مطمئن تھے۔ سارا ماحول آپ کی مسکراہٹ سے منور تھا۔
میں نے کینیڈا میں قیام کے دوران جن تقریبات میں شرکت کی، ایک بھی ایساموقع نہیں تھا جہاں مجھ سے دو سوال نہ پوچھے گئے ہوں۔ ایک تو حضرت صاحب کی صحت کے بارے میں۔ دوسرا یہ کہ خلیفۃالمسیح سے بہت دوردراز واقع ملک میں رہتے ہوئے، ہم حضور سے زندہ تعلق کیسے قائم کر سکتے ہیں؟
پہلے سوال کے جواب میں، جیسا کہ میں نے ذکر کیا، میرے پاس خوش خبری تھی اور بالکل تازہ معلومات تھیں۔لیکن دوسرے سوال نے ہر دفعہ مجھے اندر تک جھنجھوڑ کررکھ دیا۔ کیونکہ یہ سب احباب مجھ سے یہ سوال اس لیے کررہے تھے کہ وہ مجھے حضور کے قریب سے آنے والے شخص کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ میں ان کی آنکھوں میں اس رشک کو محسوس کر سکتا تھا، اور یہ احساس میری ساری ہستی اور وجود کو ہلا کر رکھ دیتاتھا۔
میں اسلام آباد/ٹلفورڈ سے صرف ڈیڑھ میل کے فاصلے پر رہتا ہوں اورمجھے ہمیشہ یہ خوف دامنگیر رہتا ہے کہ کیا میں حضرت خلیفۃ المسیح کی اس جغرافیائی قربت کی اس نعمت کا حق بھی ادا کررہا ہوں یا نہیں ؟ جبکہ مجھ سے سوال پوچھنے والے ان لوگوں اور اسلام آباد کے درمیان ہزاروں میل پھیلا ایک گہرا سمندر حائل ہے لیکن زمینی مسافتوں سے ماورا ہوکر یہ مخلصین حضور انور کی قربت کے خواہشمند ہیں۔ میں نے خود کو اس خوش گمانی میں مبتلا رکھنے کی کوشش کی کہ میں نے اپنے احساسِ جرم کو چھپالیا ہے لیکن اب جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں،یہی احساس، یہی فکراوریہی سوال میرے دل پر چرکے لگا رہا ہے۔
میں نے ایسے تمام سوالوں کے جواب میں یہ کہا کہ حضرت خلیفۃ المسیح کا قرب تو دراصل دلوں کا معاملہ ہے، جسمانی نہیں۔ تب میں نے اس کی ایک مثال بھی دی کہ جس طرح ایک بڑے اور وسیع ہال میں قریب ترین بھی اور سب سے زیادہ دور لگے روشنی کے قمقموں میں بیک وقت صرف ایک سوئچ کےآن کرنے سے روشنی آجاتی ہے۔ بالکل اسی طرح خلافت احمدیہ ہم سب کو اللہ تعالیٰ کے نور سے منور کررہی ہے۔ میں نے ان احباب کے سامنے یہ بھی عرض کی تھی کہ بعض اوقات برقی رَو کے بالکل قریب ترین لگے بلب تو روشنی کھو دیتے ہیں جبکہ باقی تمام روشن رہتے ہیں۔
یہ تشبیہ بیان کرتے ہوئے ہر دفعہ میں نے خود کو وہ محسوس کیا جو روشنی کے منبع کےقریب تو ہے لیکن روشن نہیں۔اور دور دراز کی آبادیوں میں مکین ان لوگوں کی آنکھوں میں وہ قرب نظر آیا جو دور بیٹھے بھی انہیں حدت بھی پہنچا رہا ہے اور منور بھی کررہا ہے۔ اس عرصہ قیام کے دوران میں لوگوں کی تڑپ کو دیکھ کر حیرت زدہ ہو جاتا کہ کیسے ہزاروں میل دور بسنے والے لوگوں کو اپنے محبوب امام کی محبت ایک خاص توانائی بخش رہی ہے۔
ہر تقریب کے بعد وہاں موجود حاضرین ضرور پوچھتے کہ میں کب برطانیہ واپس جارہا ہوں۔ میں انہیں بتاتا، تو بلا مبالغہ اُن میں سے ہر ایک یہی کہتا:’’کیا آپ حضور کو میرا سلام کہہ سکتے ہیں؟‘‘
یقیناً، میرے لیے انکار ممکن نہیں تھا کیونکہ مجھے وہ ڈھیروں ڈھیر پیار اور وفا کے سندیسے واپس لانے تھے جو آقا ومولا کے لیے ان کے احباب نے بطور امانت میرے سپرد کیے تھے۔ اگر محبت کوئی مادی شے ہوتی تو واپسی کے سفر میں میرا اسباب ہوائی جہاز کی مقررہ حد سے کئی گُنا متجاوز ہوچکا ہوتا۔
ایک ہفتے پر مشتمل میرے اس سفر میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں نے یہ معجزہ بچشم خود دیکھاکہ خلافت کے لیے احمدیوں کے دلوں میں محبت ہر حد سے سوا ہے اور ایک ایسامضبوط ربط ہے جس کے سامنے وسیع و عریض براعظموں کی وسعتیں اور بڑے بڑے سمندروں کی گہرائیاں کچھ بھی نہیں۔
میں نے ہوائی سفر اور پرواز کے خوف سے یہ مختصر مضمون شروع کیا تھا، اور اس کا اختتام بھی اسی پر ہورہا ہے۔یہ سطور لکھتے وقت مجھے ایک اورہوائی سفر درپیش ہے اور اس ماہ کے آخر پر ایک دفعہ پھر اڑان بھرنے کے لیے خود کو تیار رہا ہوں۔ اور حال یہ ہے کہ نیوز چینلز مسلسل سنگاپور ایئر لائنز کی اس پرواز کی کہانی بتا رہے ہیں جو turbulence کا شکار ہوکر سخت غیر متوازن ہوئی اور ناخوشگوار نتائج کا شکار ہو گئی۔
یہ سفر کچھ روز تک میرے آقا کے ارشاد کی تعمیل میں درپیش ہے۔ دل میں یقین ہے کہ انشا ءاللہ سب خیر ہوگی۔ اگر خدانخواستہ کچھ ہوا بھی تو اپنےآقا و مطاع کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس کا سامنا کرنے سے بہتر کچھ بھی نہیں۔ ہماری اپنی بھلا اوقات ہی کیا ہے؟ ہماری ہستی تو ہوئی ہوئی، نہ ہوئی نہ ہوئی۔سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح کے ہر حکم اور فیصلہ کی تعمیل ہو۔اللّٰھم اید امامنا بروح القدس!