قوّتِ موازنہ بھی علم کے ذریعہ آتی ہے (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۰؍جنوری ۲۰۱۴ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک بات یہ بھی بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک انسان میں ایک قوتِ موازنہ رکھی ہے جس سے وہ دو چیزوں کے درمیان موازنہ کر سکتا ہے۔ جو یہ فیصلہ کرتی ہے کہ فلاں کام کرنے کے لئے اتنی طاقت درکار ہے۔ اور کیونکہ ساری طاقت انسان کے ہاتھ میں نہیں ہوتی بلکہ دماغ میں محفوظ ہوتی ہے۔ اس لئے پہلی دفعہ جب ایک کام نہ ہو، جیسے وزن اُٹھانے کی مثال دی گئی ہے، وزن نہ اُٹھایا جا سکے تو پھر انسان دماغ کو مزید طاقت بھیجنے کے لئے کہتا ہے اور اس طاقت کے آنے پر چیز اُٹھانے میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور یہ قوتِ موازنہ بھی علم کے ذریعہ آتی ہے۔ خواہ اندرونی علم ہو یا بیرونی علم ہو۔ اندرونی علم سے مراد مشاہدہ اور تجربہ ہے اور بیرونی علم سے مراد باہر کی آوازیں ہیں جو کان میں پڑتی ہیں۔ جیسے باہر کے کسی حملے کی مثال دی گئی تھی۔ باہر کے حملے سے ہوشیار کرنے کے لئے باہر کی آوازیں انسان کو ہوشیار کرتی ہیں۔ لیکن یہ جو وزن اُٹھانے کی مثال دی گئی تھی، اس کے لئے قوتِ موازنہ نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ پہلے یہ وزن نہیں اُٹھایا گیا تو اس لئے کہ تم اسے کم وزن سمجھتے تھے، اگر مثلاً دس کلو تھا تو پانچ کلو سمجھتے تھے اور تھوڑی طاقت لگائی تھی۔ اب اسے اُٹھانے کے لئے دس کلو کی طاقت لگاؤ تو اُٹھا لو گے۔ اس اصول کو اگر سامنے رکھا جائے تو جب انسان اس لائحہ عمل کے لئے کھڑا ہو تا ہے تو قوتِ موازنہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ مجھے اپنی جدو جہد کے لئے کس قدر طاقت کی ضرورت ہے۔
بعض دفعہ صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے انسان اعمال کی اصلاح نہیں کر سکتا۔ اور قوتِ موازنہ عدمِ علم کی وجہ سے اُسے صحیح خبر نہیں دیتی کہ اس کی عملی اصلاح کے لئے کس قدر طاقت کی ضرورت ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 438,437 خطبہ فرمودہ 10؍جولائی 1936ء)
پس قوتِ موازنہ انسان کو ہوشیار کرتی ہے اور یہی ہے جو عدمِ علم کی وجہ سے اُسے غافل بھی کرتی ہے۔
قوتِ موازنہ بھی تبھی ہو گی جب کسی چیز کا علم ہو جائے۔ اگر علم ہو گا تو ہوشیار کرے گی کہ اس کو اس طرح استعمال کرو۔ علم نہیں ہو گا تو انسان وہ کام نہیں کر سکتا۔ اور پھر اسی عدمِ علم کی وجہ سے یا صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے انسان سے گناہ سرزد ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک بچہ جب ایسے لوگوں میں پرورش پاتا ہے جو گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں یا مستقل ہی مرتکب رہتے ہیں، ہر وقت اُن کی مجلسوں میں یہ ذکر رہتا ہے کہ جھوٹ کے بغیر تو دنیا میں گزارہ نہیں ہو سکتا تو بچے کے ذہن میں یہ خیال آ جاتا ہے کہ اس زمانے میں جھوٹ کے بغیر کامیابی حاصل ہو ہی نہیں سکتی۔
یہاں مَیں اس بات کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں جو اسائلم لینے والے آتے ہیں، پتا نہیں کیوں، اکثریت کے ذہنوں میں یہ بات راسخ ہو گئی ہے کہ لمبی کہانی بنائے بغیر اور جھوٹی کہانی بنائے بغیر ہمارے کیس پاس نہیں ہوں گے۔ حالانکہ کئی مرتبہ مَیں کہہ چکا ہوں کہ اگر مختصر اور صحیح بات کی جائے تو کیس جلدی پاس ہو جاتے ہیں۔ ایسی کئی مثالیں میرے سامنے ہیں۔ کئی لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ انہوں نے سچی اور مختصر سی بات کی ہے اور چند دنوں میں کیس پاس ہو گیا۔ اس کے لئے تو یہی کافی ہے کہ دماغی ٹارچر اب اُن سے برداشت نہیں ہوتا۔ جہاں ہر وقت اپنا بھی دھڑکا ہے اور اپنے بچوں کا بھی دھڑکا ہے۔ بہت ساری پریشانیاں ہیں۔ سکول نہیں جا سکتے، سکولوں میں تنگ کئے جاتے ہیں تو اس طرح کی بہت ساری چیزیں ہیں۔ اسی بات پر اکثریت جو کیس ہیں وہ پاس ہو جاتے ہیں۔ پس سچائی پر قائم رہنا چاہئے اور پھر خدا تعالیٰ پر توکّل بھی کرنا چاہئے۔ یہ جھوٹی کہانیاں جب بچوں کے سامنے ذکر ہوں کہ ہم نے جج کو یہ کہانی سنائی اور وہ سنائی تو پھر بچے بھی یہی سمجھتے ہیں کہ جھوٹ بولنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ اگر جھوٹ نہ بولتے تو شاید ہمارا کیس پاس نہ ہوتا یا ہمیں فائدہ نہ پہنچ سکتا۔ یہ تصور پیدا ہو جاتا ہے کہ جھوٹ ہی ہے جو تمام ترقیات کی چابی ہے۔ یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ آجکل بھلا کون ہے جو سچ بولتا ہے۔ تو یہ سب باتیں بچوں کے ذہنوں میں اپنے بڑوں کی باتیں سن کر پیدا ہوتی ہیں۔ اور پھر اُن کا علم یہیں محدود ہو جاتا ہے کہ جھوٹ بولنا ایسی بُری بات نہیں ہے۔ اور نتیجہ کیا ہو گا پھر؟ نتیجہ ظاہر ہے کہ بڑے ہو کر جہاں جہاں بھی ایسے بچے کو جھوٹ بولنے کا موقع ملے گا وہ اپنی قوتِ موازنہ سے فیصلہ چاہے گا تو قوتِ موازنہ اُسے فوراً یہ فیصلہ دے دے گی کہ خطرہ زیادہ ہے، جھوٹ بول لو، اس میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح غیبت ہے۔ اگر بچہ اپنے ارد گرد غیبت کرتے دیکھتا ہے کہ تمام لوگ ہی غیبت کر رہے ہیں تو بڑا ہو کر اُس کے سامنے جب غیبت کا موقع آتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے غیبت کی تو مجھے فائدہ پہنچے گا تو قوتِ موازنہ اُسے کہتی ہے، تمہارے ارد گرد تمام غیبت کرتے ہیں اگر تم غیبت کر لو تو کیا حرج ہے۔ گویا گناہ تو ہے لیکن اتنا بڑا گناہ نہیں۔
اس بارے میں گزشتہ ایک خطبہ میں بات ہو چکی ہے کہ اصلاحِ اعمال میں ایک بہت بڑی روک یہ ہے کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ بعض گناہ بڑے ہیں اور بعض چھوٹے گناہ ہیں اور ان کو کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور پھر ان گناہوں کو جب ایک دفعہ انسان کر لے تو چھوڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہاں انسان میں قوتِ موازنہ تو موجود ہوتی ہے مگر اس غلط علم کی وجہ سے جو اُسے ماحول نے دیا ہے، وہ انسان کو اتنی طاقت نہیں دیتی جس طاقت کے ذریعہ سے وہ گناہوں پر غالب آسکے۔ جیسے کہ وزن اُٹھانے کی مثال بیان کی گئی تھی۔ کمزور طاقت ایک وزن کو اُٹھا نہ سکی لیکن جب دماغ نے زیادہ وزن اُٹھانے کی طاقت بھیجی تو وہی ہاتھ اُس زیادہ وزن کو اُٹھانے کے قابل ہو گیا۔ لیکن اگر انسان کی قوتِ موازنہ یہ حکم دماغ کو نہ بھیجتی تو وہ وزن نہ اُٹھا سکتا۔ اسی طرح گناہوں کو مٹانے میں بھی یہی اصول ہے۔ گناہوں کو مٹانے کی طاقت انسان میں ہوتی ہے لیکن جب گناہ سامنے آتا ہے اور قوتِ موازنہ یہ کہہ دیتی ہے کہ اس گناہ میں حرج کیا ہے کہ چھوٹا سا، معمولی سا تو گناہ ہے جب کہ اس کے کرنے سے فائدہ زیادہ حاصل ہو گا تو دماغ پھر گناہ کو مٹانے کی طاقت نہیں بھیجتا۔ وہ حِس مر جاتی ہے یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ قوتِ ارادی ختم ہو جاتی ہے اور گناہ سرزد ہو جاتا ہے۔ گویا اصلاحِ اعمال کے لئے تین چیزوں کی مضبوطی کی ضرورت ہے۔ ایک قوتِ ارادی کی مضبوطی کی ضرورت ہے، ایک علم کی زیادتی کی ضرورت ہے اور ایک قوتِ عملیہ میں طاقت کا پیدا کرنا، یہ بھی ضروری ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ علم کی زیادتی درحقیقت قوتِ ارادی کا حصہ ہوتی ہے کیونکہ علم کی زیادتی کے ساتھ قوتِ ارادی بڑھتی ہے۔ یا کہہ سکتے ہیں کہ وہ عمل کرنے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ ان سب باتوں کا خلاصہ یہ بنے گا کہ عملی اصلاح کے لئے ہمیں تین چیزوں کی ضرورت ہے، پہلے قوتِ ارادی کی طاقت کہ وہ بڑے بڑے کام کرنے کی اہل ہو۔ علم کی زیادتی کہ ہماری قوتِ ارادی اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتی رہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے اور صحیح کی تائید کرنی ہے اور اُس پر عمل کرنے کے لئے پورا زور لگانا ہے۔ غفلت میں رہ کر انسان مواقع نہ گنوا دے۔