ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط 20)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

حالتِ زمانہ اور غرض بعثت حضرت مسیح موعود ؑ

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

‘‘بے شک اگر آپ کے دل میں اہل دل لوگوں کے ساتھ محبت نہ ہوتی،تو آپ ہمارے پاس کیوں آتے اور ایک دنیا دار کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ ایک دنیا سے الگ گوشہ نشین کے پاس جاوے۔مُناسبت ایک ضروری شے ہے اور اصل تو یہ ہے کہ جبکہ انسان ایک فنا ہونے والی ہستی ہے اور موت کا کچھ بھی پتہ نہیں کہ کب آجاوے اور عمر ایک ناپائیدار شے ہے پھر کس قدر ضروری ہے کہ اپنی اصلاح اور فلاح کی فکر میں لگ جاوے۔مگر میں دیکھتا ہوں کہ دنیا اپنی دھن میں ایسی لگی ہے کہ اس کو آخرت کا کچھ فکر اور خیال ہی نہیں۔ خدا تعالیٰ سے ایسے لا پروا ہو رہے ہیں گویا وہ کوئی ہستی ہی نہیں۔ ایسی حالت میں جبکہ دنیا کی ایمانی حالت اس حد تک کمزور ہو چکی ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے تاکہ میں زندہ ایمان زند ہ خدا پر پیدا کرنے کی راہ بتلاؤں۔جیسا کہ خداتعالیٰ کا عام قانون ہے۔بہت لوگوں نے جو سعادت اور رُشد سے حصہ نہ رکھتے تھے۔خدا ترسی اور انصاف سے بے بہرہ تھے۔مجھے جھوٹا اور مفتری کہا اور ہر پہلو سے مجھے دکھ دینے اورتکلیف پہنچانے کی کوشش کی ۔کفر کے فتوے دے کر مُسلمانوںکو بدظن کرنا چاہا اور خلاف واقعہ امور کو گورنمنٹ کے سامنے پیش کر کے اس کو بھڑکانے کی کوشش کی۔ جھوٹے مقدمات بنائے۔گالیاں دیں۔قتل کرنے کے منصوبے کیے۔غرض کونساامرتھاجو اُنھوں نے نہیں کیا۔ مگر میرا خدا ہر وقت میرے ساتھ ہے ۔اُس نے مجھے اُن کی ہر شرارت سے پہلے اُن کے فتنہ اور اس کے انجام کی خبر دی اور آخر وہی ہوا جو اُس نے ایک عرصہ پہلے مجھے بتلایا تھا۔ اور کچھ وہ لوگ بھی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے سعادت،خداترسی اور نورایمان سے حصہّ دیا ہے۔جنھوں نے مجھے پہچانا اور اُس نُورکے لینے کے واسطے میرے گرد جمع ہوگئے جو مجھے خداتعالیٰ نے اپنی بصیرت اور معرفت بخشی ہے۔ان لوگوںمیں بڑے بڑے عالم ہیں۔ گریجویٹ ہیں، وکیل اور ڈاکٹرہیں،معززعہدہ داران گورنمنٹ ہیں ۔تاجر اور زمیندارہیں اور عام لوگ بھی ہیں۔

افسوس تو یہ ہے کہ نااہل مخالف اتنا بھی تو نہیں کرتے کہ ایک حق بات جو ہم پیش کرتے ہیں۔ اس کو آرام سے سن ہی لیں۔اُن میں ایسے اخلاق فاضلہ کہاں؟ورنہ حق پرستی کا تقاضا تو یہ ہے ؎

مرد باید کہ گیر داندر گوش

گر نو شت است پند بر دیوار‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 329-328)

*۔اس حصہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے شیخ سعدی کا شعر استعمال کیا ہے ۔جو کہ گلستان سعدی کے دوسرے باب کے اندر ایک حکایت میں موجود ہے ۔

مکمل شعر اور حکایت :

ایک فقیہ نے اپنے والد سے کہا واعظوں کی ان رنگین باتوں کا میرے دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کیونکہ میں ان کا عمل قول کےمطابق نہیں دیکھتاہوں ۔دنیا کو ترکِ دنیا کا سبق پڑھاتے ہیں۔ خود چاندی اور غلہ جمع کرتے ہیں ۔ جس عالم کا صرف کہنا ہی کہنا ہو وہ جو کچھ کہے گا اس کا اثر کسی پر نہ ہوگا ۔عالم تو وہ ہے جو برے کام نہ کرے ۔نہ یہ کہ مخلوق کو کہتا رہےاور خود عمل نہ کرے۔ اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّوَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ ۔کیا تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنی ذاتوں کو بھولتے ہو۔وہ عالم جو عیش وتن پروری کرے ۔ وہ تو خود ہی گمراہ ہے کسی کی کیا رہنمائی کرے گا۔

باپ نے کہا اے بیٹے!محض اس باطل خیا ل کی وجہ سے نصیحت کرنے والوں کی تربیت سے روگردانی نہ کرنی چاہیے۔اور علماء کو گمراہی کی طرف منسوب کرنا اور معصوم عالم کی تلاش میں علم کے فوائد سے محروم رہنا اس اندھے کی طرح ہے کہ جو ایک رات کیچڑ میں پھنس گیا تھا۔اور کہہ رہا تھا۔ اے مسلمانو !میرے راستہ میں ایک چراغ رکھ دو ۔ایک خوش مزاح عورت نےسنا اور کہا ۔جب تجھے چراغ ہی نظر نہیں آتا تو چراغ سے کیا دیکھے گا ؟اسی طرح وعظ کی مجلس بزّاز کی دکان کی طرح ہے۔وہاں جب تک نقد نہ دوگے سامان نہیں لے سکتے ہو ۔اور اس مجلسِ وعظ میں جب تک عقیدت سے نہ آؤگے کوئی نیک بختی نہ حاصل کرسکو گے ۔عالم کی بات دل سے سنو اگرچہ اس کا عمل قول کی مانند نہ ہو ۔

مَرْدبَایَدْ کِہْ گِیْرَدْاَنْدَرْگُوْش

گَرْنَوِشْت اَسْت پَنْدبَرْدِیْوَار

ترجمہ : انسان کو چاہیے کہ کان میں ڈال لے اگرچہ نصیحت دیوار پر لکھی ہو۔

ایک صاحب دل درویشوں کی صحبت کے عہد کو توڑ کر خانقاہ سے مدرسہ میں آگیا ۔میں نے دریافت کیا عالم اور عابد میں کیا فرق ہے کہ تم نے اس فریق کو چھوڑ کر اس فریق کو پسند کیا۔اس نے کہا وہ اپنی گدڑی موج سے بچا کر لے جاتاہے اور یہ کوشش کرتاہے کہ ڈوبنے والے کی دستگیری کرے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button