قربانیوں کی عید (رقم فرمودہ سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) (قسط دوم۔ آخری)
(گذشتہ سے پیوستہ )اسحٰقؑ کی پیدائش کا یہ اثر ہوا کہ سارہؓ، ہاجرہؓ اور اسمٰعیلؑ سے اور زیادہ رنجیدہ رہنے لگیں۔ اور آخر وہ وقت بھی آگیا کہ خدا تعالیٰ اس غرض کو پورا کرے جس کے لئے ابراہیمؑ کو کسد نامی قوم [کسدی Kasdim]کے اُوْر سے نکال کر فلسطین میں لایا گیا تھا۔ اور اس قربانی کا مطالبہ کرے جس کی خبر ابراہیمؑ کو پہلے رؤیا میں دی گئی تھی۔ پس
اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ کو حکم دیا کہ اپنی بیوی ہاجرہؓ اور اس کے معصوم اور چھوٹے بچے اسمٰعیلؑ کو دور جنگل میں فلاں مقام پر جا کر چھوڑ آؤ۔
اب ابراہیمؑ کو معلوم ہوا کہ اس رؤیا کی تعبیر کیا تھی جو انہوں نے اسمٰعیلؑ کو ذبح کرنے کے متعلق دیکھی تھی۔ اور وہ اپنی بیوی اور بچہ کو ایک بے آب و گیاہ بیابان میں چھوڑ آنے کے لئے تیار ہوگئے۔ جہاں انہیں چھوڑ کر آنا ظاہری حالات میں قتل کرنےکے مترادف تھا۔ جب اس جگہ پہنچے تو حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی نہ کوئی عمارت تھی۔ نہ کوئی آبادی اور نہ پانی تھا نہ کھانے کا کوئی سامان۔اور پھر لطف یہ کہ سو سو میل تک بھی آبادی کا نام و نشان نہ تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ کا حکم تھا۔ پس انہیں یقین تھا کہ اسی میں سب بہتری ہے۔ اور سمجھتے تھے کہ وہ جوخواب میں دیکھا تھا کہ بیٹے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کر رہا ہوں وہ درحقیقت یہی قربانی تھی۔ اس طرح ایسے غیر آباد میدان میں جس میں کھانے کو سبزہ تک اورپینے کو کھاری پانی تک نہ تھا۔ بچہ کو چھوڑ کرجانا اسے اپنے ہاتھوں قتل کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟ مگر اب وہ حکمت بھی ان پر ظاہر ہوگئی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا بچہ یہاں چھوڑ کر جانے کا حکم دیا تھا۔ اور وہ حکمت اس قدیم معبد کی آبادی تھی۔ جسے خدا تعالیٰ اسمٰعیلؑ اور ان کی اولاد کے ذریعہ دنیا کے فائدہ کے لئے دوبارہ آباد کرنا چاہتا تھا۔
آخر جدائی کا وقت آگیا۔ ایک مشکیزہ پانی کا اورایک تھیلا کھجوروں کا پاس رکھ کر حضرت ابراہیمؑ اپنی بیوی اوربچہ کو یقینی موت کے سپرد کر کے واپس چلے مگر بشریت کے تقاضے کے ماتحت کچھ ایسے آثار ظاہر ہوئے کہ گو ہاجرہؓ اس تجویز سےبالکل غافل تھیں ان کے دل میں شک پیدا ہوگیا اور اپنے خاوند کے پیچھے روانہ ہوئیں۔ اور پاس پہنچ کر پوچھا۔ ابراہیمؑ! ہمیں اس وادی میں چھوڑ کر جس میں نہ آدمی ہے۔ نہ کوئی اور چیز ۔کہاں جارہے ہو؟ جذبات غم کی شدت کی وجہ سے حضرت براہیمؑ نے کوئی جواب نہ دیا۔ اور ہاجرہؓ بار بار اس فقرہ کو دُہراتی رہیں۔آخر تنگ آکر ہاجرہؓ نے کہا۔ کیا اللہ نے تم کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہے؟ اس پر ابراہیمؑ نے جواب دیا کہ ہاں۔ حضرت ہاجرہؓ آخر ابراہیمؑ کی بیوی اور حضرت اسمٰعیلؑ کی والدہ تھیں۔ اس جواب کے بعد کب شکایت کر سکتی تھیں۔ جرأت اور دلیری سے جواب دیا۔ تب بیشک آپؑ چلے جائیں۔ جب خدا نے حکم دیا ہے تو وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ یہ کہہ کر واپس لوٹ آئیں اوربچہ کو بہلانے میں مشغول ہوئیں۔ ابراہیمؑ جب نظروں سے اوجھل ہوئے توبیوی اور بچہ کی محبت اور اس بیابان میں چھوڑ کر جانے کے خیال نے دلی جذبات کو اُبھار دیا۔ دل بھر آیا۔ بیوی بچہ چونکہ دیکھ نہیں رہے تھے اب دلی جذبات کے اظہار میں کچھ ہرج نہ تھا۔ قدیم معبد کے گرے ہوئے آثار کی طرف منہ کیا اور جذبات سےمعمور دل کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی :’’اے ہمارے ربّ! میں نے تیرے حکم کے ماتحت اپنی اولاد میں سے ایک کو ایسی وادی میں جس میں کھانا ملنا تو الگ رہا سبزہ تک پیدا ہونا ناممکن ہے۔ تیرے مقدس معبد کے پاس چھوڑا ہے۔ اے میرے رب تاکہ وہ نماز کو قائم کریں۔ پس اے خدا لوگوں کے دلوں میں تحریک کر کہ وہ ان کی طرف مائل ہوں۔ اور تازہ بتازہ پھل اُن کے لئے مہیا کر دے تاکہ (یہ تیری قدرت کا مشاہدہ کرکے) تیرے فضل پر شکر کریں۔ اے میرے رب تو اسے بھی جانتا ہے۔ جسے ہم چھپاتے ہیں۔ اور اسے بھی جسے ہم ظاہر کرتے ہیں۔ اور اللہ سے آسمان اور زمین کی کونسی بات پوشیدہ ہوسکتی ہے۔ ‘‘
یہ دعا کر کے متیقن دل کے ساتھ ابراہیمؑ تو گھر کی طرف روانہ ہوئے اور ہاجرہؓ اور اسمٰعیلؑ اس بیابان میں اکیلے رہ گئے۔
مشکیزہ بھر پانی اور ایک تھیلی کھجوروں کی کب تک ساتھ دیتے۔ آخر یہ چیزیں ختم ہوگئیں۔ اور بھوک پیاس نے ان غریب الوطنوں کو ستانا شروع کیا۔
ماں میں قوّت برداشت زیادہ تھی۔ مگر بچہ جلد نڈھال ہوگیا اور اس کی تکلیف دیکھنے کی برداشت نہ پاکر ماں ادھر ادھردوڑنے لگیں کہ شاید کہیں سے غذا ملے یا پانی دستیاب ہو۔ پاس کوئی آبادی تو تھی نہیں ساری امید اسی پر تھی کہ کوئی بھولا بھٹکا قافلہ نظر آجائے تواس سے مدد ملے۔ پاس ہی دو خشک پہاڑیاں تھیں۔دوڑ کر پہلے ایک پرچڑھ کر چاروں طرف دیکھا۔ پھر دوسری پر چڑھ کر دیکھا۔ مگر کچھ نظر نہ آیا۔ پھر پہلی پہاڑی پر چڑھ گئیں اور اس کے بعد دوسری پر اسی طرح سات مرتبہ عمل کیا تھا کہ الہام ہوا۔ اور فرشتے کی آواز نے کہا کہ جا تیری قربانی قبول ہوئی۔ خداتعالیٰ نے تیری فریاد سُن لی۔
زمزم کا چشمہ جس کادہانہ بند تھا تیرے لئے اور تیرے بیٹے کے لئے رواں کر دیا۔
واپس آئیں تو دیکھا کہ واقعی چشمہ رواں ہے۔ بچہ کو پانی پلایا اور خود پیا۔ اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر ایمان اور بھی تازہ ہوگیا۔
پانی کا تو یوں انتظام ہوا۔ کھانے کا خدا تعالیٰ نے یہ انتظام کر دیا کہ قبیلہ جرھم کا ایک قافلہ راستہ بھول کر وہاں پہنچا۔ چونکہ پانی اُن کے پاس ختم ہوچکا تھا۔ اور ہمیشہ اس راستہ پر پانی کی تکلیف ہوتی تھی اُن سے اجازت لے کر ایک مستقل پڑاؤ اپنا اس جگہ پر انہوں نے بنا لیا اور اپنے آپ کو اسمٰعیلؑ کی رعایا قرار دیا۔ اور اس طرح اس شہر کی بنیاد پڑی جو مکہ کے نام سے مشہور ہے۔ (زاد اللہ شرفہا)
جب اسمٰعیلؑ نوجوان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ کو حکم دیا کہ اب جا اور اس مقصد کو پورا کر جس کے لئے اسمٰعیلؑ کو اس بے آب و گیاہ وادی میں رکھا گیا تھا۔ یعنی ہمارے قدیم معبد کو پھر نئے سرے سے بنا۔ چنانچہ حضرت ابراہیمؑ پھر اس جگہ آئے اور اسمٰعیلؑ کے ساتھ مل کر اس گھر کو پھر سے تعمیر کیا۔ جو بیت اللہ کہلاتا ہے اور اس طرح اسمٰعیل ؑکی قربانی سے دنیا کی زندگی کی بنیاد پڑی۔
عید الاضحی اس واقعہ کی یادگار ہے یعنی اُس بکرے کی قربانی کے بدلہ میں نہیں جو اسمٰعیلؑ کے بدلہ میں حضرت ابراہیمؑ نے ذبح کیا۔
بلکہ خود اسمٰعیلؑ کی قربانی کی یاد میں جو بیت اللہ کو آباد رکھنے کے لئے کی گئی۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ ابراہیمؑ کا اسمٰعیلؑ کو ایک بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑآنا اپنے ہاتھوں قتل کرنے کے مترادف تھا۔ بلکہ حقیقتاً اس سے بھی زیادہ کیونکہ قتل کرنے سے ایک منٹ میں جان نکل جاتی ہے۔ اور اس طرح اگر خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو انہوں نے سسک سسک کر جان دی ہوتی۔
بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اسمٰعیلؑ کے قتل کرنے کی رؤیا محض امتحان کے لئے تھی۔ کوئی حقیقت اس کے پیچھےپوشیدہ نہ تھی۔ جب ابراہیمؑ اس کے لئے تیار ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کر دیا۔ حالانکہ یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ کوئی ایسا حکم دے گا جو اپنی ذات میں بُرا تھا اور جسے یعنی انسانی قربانی کو وہ روکنا چاہتا تھا۔ عقل اور اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس رؤیا کی تعبیر یہی تھی کہ ایک دن ابراہیمؑ اسمٰعیل ؑکو خدا تعالیٰ کے حکم سے ایسی جگہ اور ایسے حالات میں چھوڑ کر آئیں گے کہ جہاں ظاہری حالات کے مطابق اُن کی موت یقینی ہوگی۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان کی اس قربانی کو قبول کر کے ان کی زندگی کے سامان پیدا کر دے گا۔ اور ان کے ذریعہ سے اس قدیم معبد کو جسے اللہ تعالیٰ دنیا کا آخری معبد بنانا چاہتا تھا۔ آباد کرائے گا۔
اس رؤیا اور اس کی تعبیر سے اللہ تعالیٰ دنیا کو یہ سبق بھی دینا چاہتا تھا کہ قربانی وہ نہیں جس میں انسان خود ہلاک ہوجائے جیسا کہ دوسری قوموں میں رواج تھا کہ خود مر جاتے یا اپنے عزیزوں کو ذبح کر دیتے تھے۔ بلکہ
قربانی یہ ہے کہ انسان اس غرض سے اور اس طرح تکلیف اٹھائے کہ اس کا فائدہ دنیا کو پہنچے۔
خدا تعالیٰ کو یہ پسند نہیں کہ لوگ مریں۔ بلکہ اسے یہ پسند ہے کہ لوگ زندہ ہوں۔ وہی قربانی اس کی نظرمیں مقبول ہوسکتی ہے۔ جو بنی نوع انسان کی زندگی کا موجب ہو۔ اسی اصل کو ہم بکرا ذبح کر کے عید الاضحی میں تازہ کرتے ہیں۔ حج ابراہیمؑ کی اس دعا کو پورا کرنے کا نشان ہے کہ ’’اے ہمارے رب لوگوں کے دلوں میں تحریک کر کہ وہ ان کی طرف مائل ہوں اور ان کے لئے تازہ بتازہ پھل مہیا کر۔‘‘
حج کے دنوں میں اس وادیٔ بے آب و گیاہ میں دنیا بھر کے لوگ جاتے ہیں۔ اور دنیا بھر کی نعمتیں جمع ہوتی ہیں۔
دوسرے سب دنیا کو اس خوشی میں کہ ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کی قربانی کو اللہ تعالیٰ نے کامل طور پر قبول کیا کہ آج تک اس کا بدلہ ان کی اولاد کو مل رہا ہے۔ اور آج تک اس قربانی کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کا گھر آباد ہے۔ قربانی کرتی ہے۔ اور اس طرح گویا اسمٰعیلؑ کے مقصد کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کرتی اور اس سے اپنے اتفاق کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ سب کچھ ہے۔ لیکن کیا آج کل بھی مسلمان عید الاضحی اسی قسم کے جذبات کے ساتھ مناتے ہیں۔ کیا یہ دن ہمارے دلوں میں عظیم الشان قربانیوں کی یاد تازہ کر کے جاتا ہے۔ یا عیاشی کے سمندر میں ایک اور غوطہ دینے کا موجب ہوتا ہے؟(روزنامہ الفضل قادیان دارالامان مورخہ ۱۵؍نومبر ۱۹۴۵ء صفحہ ۳تا۵)