امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ جرمنی کے ایک وفد کی ملاقات
مورخہ۲؍جون ۲۰۲۴ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ جرمنی کے شہروں کولون اور بریمن سے تعلق رکھنے والی ممبراتِ لجنہ اماء الله، ناصرات الاحمدیہ اور چھوٹی بچیوں پر مشتمل اُنچاس رکنی وفدکو اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں قائم ايم ٹی اے سٹوڈيوز میں بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی، اس وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےجرمنی سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا ۔
ملاقات کے آغاز میں حضور انور نے سب کوالسلام علیکم کہتے ہوئے خوش آمدید کہا اور بیٹھنے کی ہدایت فرماتے ہوئے باقاعدہ رسمی پروگرام کی بجائے غیر رسمی گفتگو کرنے کا ارشاد فرمایا۔
بعد ازاں شرکائےمجلس کو حضور انور کی خدمتِ اقدس میں مذہب اور عصرحاضرپر مبنی مختلف نوعیت کے متفرق سوالات پیش کرنے اور ان کی روشنی میں جامع راہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا۔
پہلا کیا جانے والا سوال ایک ممبر ناصرات الاحمدیہ کی جانب سے تھا کہ مختلف مذاہب کیوں ہیں اور صرف ایک مذہب کیوں نہیں؟
حضور انور نے جواب دینے سے قبل سوال کرنے والی بچی سے دریافت فرمایا کہ وہ کس کلاس میں پڑھتی ہے، جواب میں موصوفہ کے عرض کرنے پر کہ وہ پانچویں کلاس میں پڑھتی ہے، حضور انور نے مزید دریافت فرمایا کہ تم نے evolution پڑھا ہے کہ کس طرح انسان بنا؟
اثبات میں جواب ملنے پر حضور انور نے evolution کے حوالے سے اس طرح سمجھایا کہ انسان پہلے غاروں میں رہتا تھا، جنگلوں میں رہتا تھا، جانوروں کی طرح رہتا تھا، پھر انسان بنا اور آہستہ آہستہ اُس کو عقل آئی۔ جب تم بڑی ہو گی تو اگلی کلاسوں میں یہ سب پڑھو گی۔ اس کو انسان کا evolutionکہتے ہیں۔
اسی طرح مذہب کا بھی evolution ہوا ہے۔ الله تعالیٰ نے پہلے دیکھا کہ انسان میں تھوڑی عقل ہے، تھوڑے وسائل ہیں تو ان کو اس کے مطابق تھوڑی حکمت کی باتیں بتائیں۔ ان کے مقابلے میں نبی آئے ، پھر آہستہ آہستہ انسان پھیلتے گئے اور انسان میں عقل آتی گئی اور ان کے ہر علاقے میں ان کو بتانے کے لیے نبی آتے گئے۔
اتنی بڑی دنیا ہے، الله تعالیٰ نے مختلف جگہوں پر نبی بھیجے لیکن ہر ایک کو تعلیم ایک دی ہے کہ الله تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کی باتیں مانو اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ، تو ہر جگہ ایک ہی تعلیم ہوئی۔
اس وقت communication اس طرح تو نہیں تھی کہ جس طرح آج تمہارے پاس سیل فون ہوتا ہے۔سوشل میڈیا ، واٹس ایپ اور فون پر رابطہ کر لیتے ہو۔ اس وقت تو کوئی ایسی بات نہیں تھی۔ اس لیے ہر علاقے میں نبی آتے تھے لیکن کیونکہ وہ الله تعالیٰ کی طرف سے تھے لہٰذا ان کی تعلیم ایک ہوتی تھی۔ پھر جب الله تعالیٰ نے مزید انسانوں کو عقل دی، مزید socialiseکرنے کا ان کو موقع ملا تو پھر وہ شہروں میں ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے ملنے جلنے لگے۔ پھر نبی بھی وہاں ان علاقوں میں آنے لگے۔
اس طرح الله تعالیٰ کہتا ہے کہ میں نے ہر قوم میں نبی بھیجے تاکہ ان کو بتاؤں کہ ان کی پیدائش کا مقصد کیا ہے کہ وہ الله تعالیٰ کی عبادت کریں ، نیک کام کریں، ایک دوسرے سے اچھے اخلاق سے پیش آئیں، لڑائی جھگڑے نہ کریں، اچھی اچھی باتیں کریں۔ اس طرح پھر آہستہ آہستہ جب دنیا اور پھیلتی چلی گئی توالله تعالیٰ نے نبیوں کی تعلیم بھی وسیع کر دی۔ ہر علاقے کے لیے نبی بھیجا۔ اسی لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کے لیے بھیجا، اس کے بعد بھی بیچ میں نبی آئے، پھر جب تعلیم بگڑ گئی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھیجا تاکہ لوگوں کو اکٹھا کریں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیم پر واپس لے کر آئیں۔
پھر جب الله تعالیٰ نے دیکھا کہ انسان میں اتنی عقل آ گئی ہے کہ اب ہر چیز سمجھ سکتا ہے اور ایک دوسرے سے رابطے بھی آرام سے ہو سکتے ہیں تو پھر الله تعالیٰ نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو بھیجا اور یہ جو سارے پہلے نبی آئے تھے، انہوں نےیہ خبر دی تھی کہ آخری زمانے میں ایک نبی آئے گا، جو ساری دنیا کے لیے آئے گا۔ اس لیے کسی اَور کتاب نے نہ تورات نے، نہ انجیل نے، نہ کسی اور صحیفے نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کے نبی ساری دنیا کے لیے آئے ہیں۔ انہوں نے صرف یہ لکھا کہ ہم اپنی قوم کے لیے آئے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی کہا کہ میں بنی اسرائیلیوں کے لیے آیا ہوں،حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی کہا کہ میں بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو صحیح راستے پر ڈالنے کے لیے آیا ہوں، لیکن قرآنِ شریف میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے الله تعالیٰ نے ساری دنیا کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے، خبریں دینے والا، خوشخبریاں دینے والا، ڈرانے والا نبی بنا کر بھیجا ہے اور اس کی پیشگوئی پہلے نبیوں نے بھی کی تھی۔ تو الله تعالیٰ نے آخری شریعت بھیج دی اور اس آخری شریعت کے بارے میں پہلے نبیوں نے بھی خبر دے دی اور یہ کہا کہ جب وہ نبی آئے گا تو اس کو مان لینا، وہ سب دنیا کے لیے ہو گا۔تورات کی پیشگوئیاں بھی ہیں، انجیل میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا۔اس لیے یہ صرف اسلام کا دعویٰ ہے کہ وہ ساری دنیا کے لیے ہے اور کسی نبی کا دعویٰ نہیں ہے کہ وہ ساری دنیا کے لیے ہے۔
جتنے جتنے لوگوں کے اس وقت وسائل تھے، جس حد تک ایک دوسرے سے رابطہ کر سکتے تھے، مل سکتے تھے، محدود علاقے میں ان کے نبی اپنی تعلیم دیتے رہے اور بتاتے رہے کہ آخری زمانے میں ایک اَور نبی بھی آئے گا جو پوری دنیا کے لیے ہوگا۔اس لیے الله میاں نے پہلے لوگوں کو آہستہ آہستہ ذہنی طور پر تیار کیا کہ تم لوگ جو آئندہ زمانے میں ایک آخری نبی آئے گا اس کو ماننے کے لیے تیار ہو جاؤ ۔اور ہر نبی نے اس کی تعلیم دی۔ لیکن ہر نبی نے ایک ہی تعلیم دی کہ الله تعالیٰ کو مانو اور ایک دوسرے سے اچھا سلوک کرو۔ تو اس لیے مختلف نبی مختلف علاقوں میں آئے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ رابطے وسیع ہو گئے تو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم کو دنیا میں الله تعالیٰ نے پھیلا دیا اور آپؐ نے اس کا دعویٰ بھی کیااور پھر آپؐ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ آخری زمانے میں جب مزید ایک دوسرے سے رابطے شروع ہو جائیں گے اور ایک دوسرے سے ملنا جلنا شروع ہو جائے گا تو مسیحِ موعود آئے گا، پھر وہ تبلیغ کرے گا اور دنیا کو اسلام کی تعلیم پہنچائے گا اور تم اس کو مان لینا۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے مسلمانوں کو بھی فرمایا تھا کہ جب وہ آئے اور دعویٰ کرے تو اس کو میرا سلام کہنا۔اس کا مطلب تھا کہ تم لوگ آسانی سے وہاں سلام کہنے کے لیے جا سکتے ہو یا ایک دوسرے سے رابطہ کر سکتے ہو۔
تو بہرحال اس لیے مختلف مذہب ہیں کہ پہلے الله تعالیٰ نے ان کی عقل کے مطابق ان کو تھوڑی تھوڑی تعلیم دی، پھر جب موجودہ ترقی ہو گئی، انسان میں زیادہ عقل ہو گئی، نئے ذرائع آ گئے اور ہر چیز کے تمہارے پاس وسائل پیدا ہو گئے تو الله تعالیٰ نے اسلام کو بھیجا تاکہ سب دنیا کو بتا دو کہ الله تعالیٰ کی تعلیم کیا ہے؟ جھگڑے کے لیے نہیں بھیجا تھا۔ہم تو اس لیے سارے نبیوں کو مانتے ہیں بلکہ احمدی تو باقی مسلمانوں سے بھی آگے ہیں کیونکہ ہم تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی مانتے ہیں۔ اس لیے آپؑ آئے تھے کہ دنیا میں امن قائم ہو جائے، آپس میں محبت و پیار سے رہیں۔ اس لیے مسیح موعود علیہ السلام نے یہی تعلیم دی ہے کہ مجھے الله تعالیٰ نے کہا ہے کہ تمام مسلمانوں کو دینِ واحد پر اکٹھا کرو اور باقی دنیا کے لوگوں کو بھی اکٹھا کرو تاکہ ہم ایک ہوکر ایک خدا کی عبادت کریں اور ایک دوسرے کا حق ادا کریں، لڑائیاں اور جنگیں چھوڑ دیں ، اب ایک مذہب ہو گا تو تبھی ہم چھوڑ سکتے ہیں، بہن بھائی بن کر رہیں گے، آپس میں رشتے دار بن کر رہیں گے، ایک دوسرے کا خیال رکھ کر رہیں گے، ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھیں گے تبھی ایک ہو سکتے ہیں۔ یہ اسلام کی تعلیم ہے، باقی تعلیمات اپنے اپنے حالات کے مطابق مختلف تھیں لیکن بنیادی تعلیم یہی تھی کہ الله ایک ہے اور ایک دوسرے کا خیال رکھو۔
دوسرا سوال پیش کرنے کی سعادت بھی ایک ممبر ناصرات الاحمدیہ کو حاصل ہوئی ، جس نے راہنمائی طلب کی کہ میں اپنی سہیلیوں کو کیسے سمجھا سکتی ہوں کہ وقفِ نَو کیا ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر وہ عیسائی ہیں تو تم ان سے کہو کہ دیکھو! تمہاری عورتیں بھی وقف کرتی ہیں، جو nunsبنتی ہیں اور چرچ میں جاتی ہیں۔پرانے زمانے میں وقف کیا کرتی تھیں اور اب بھی کرتی ہیں تاکہ وہ دین کی خدمت کریں۔ اسی لیے ہم نے بھی اپنے آپ کو وقف کیا کہ دین کی خدمت کریں۔ اور جس طرح حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ نے اپنی بیٹی کو دین کے لیے وقف کیا تھا اور چرچ کو دے دیا تھا، اسی طرح ہمارے والدین نے بھی کہا ہے کہ اس نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ہم بھی اپنے بچوں کو چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی ہو دین کے لیے پیش کرتے ہیں۔
اس لیے وقف نَو یہ ہے کہ ہمارے ماں باپ نے حضرت مریم ؑکی والدہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمیں وقف کر دیا تاکہ ہم دین کی خدمت کریں۔
اور جن کو مذہب سے تعلق نہیں ہے، ان کو کہو کہ ہم ایک خدا کو مانتے ہیں اور ایک خدا کی تعلیم یہ ہے کہ اس کی عبادت کرو اور ایک دوسرے سے اچھا سلوک کرو، اچھی باتیں کرو۔ اس لیے ہمارے ماں باپ نے ہمیں وقف کیا ہے کہ تم اس تعلیم کو دنیا میں پھیلاؤ اور یہ وقف نَو ہے، جو انہوں نے پیدائش سے پہلے ہمیں وقف کر دیا تھا، لیکن یہ زبردستی کوئی نہیں ہے، ہمیں جماعت کی طرف سے آزادی ہے کہ پندرہ سال کی عمر میں ہم اپنے عہدِ وقف کی تجدید کریں یا چھوڑ دیں۔ یہ ہمیں آزادی دی ہوئی ہے، اس لیے یہ کہنا کہ ہمارے سے زبردستی ہو رہی ہےغلط ہے۔زبردستی نہیں ہو رہی بلکہ ہمیں مکمل آزادی حاصل ہے۔
ماں باپ کی خواہش تھی انہوں نے وقف کر دیا، ایک عمر کے بعد جب ہمیں پندرہ سال کی عمر میں عقل آ گئی ، اب ہماری مرضی کہ ہم وقف کو جاری رکھیں یا نہ رکھیں۔
آخر پر حضور انور نے موصوفہ کو تلقین فرمائی کہ وہ اس بات کو اپنی سہیلیوں کو بخوبی سمجھائے۔
ایک ممبر لجنہ نے دریافت کیا کہ غیر احمدی رابطوں کو خلافت کی اہمیت کیسے واضح کی جائے تاکہ وہ بھی دیکھ سکیں کہ خلافت خوف کو امن میں بدل دیتی ہے اور انسانیت کے تمام مسائل کا حل ہے؟
اس پرحضور انورنے فرمایا کہ غیر احمدی مسلمانوں کو کہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامِ خلافت کی پیشگوئی فرمائی تھی۔اس لیے آپؐ کے بعد خلافت جاری ہوئی اور تم دیکھ لو کہ وہ جو پہلی خلافت تھی، انہوں نے اسلام کی تعلیم پر عمل کیا اور کروایا اور اس کو قائم کرنے کے لیے کوشش کی۔ان کے خلاف دشمنیاں بھی ہوئیں تو الله تعالیٰ نے ان کی مدد کی۔
الله تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں کہا ہے کہ جو میرے مومن بندوں سے لڑیں گے، میں ان کے خلاف کارروائی کروں گا اور مومنوں کو فتح دوں گا اور دشمنوں کو شکست دوں گا۔ تو ان سے کہو کہ الله تعالیٰ نے یہ نظارہ دکھایا۔خلافت قائم رہی، اس کے بعد کچھ حد تک خلافت پھر قائم رہی ، جس طرح آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا اور ساتھ ساتھ اسلام کی تبلیغ بھی ہوتی رہی، نیک لوگ پیدا ہوتے رہے اور ساتھ خلفاء بھی کچھ نہ کچھ دین پر قائم رہے۔ گو وہ نام نہاد خلفاء تھے، خلفائے راشدین نہیں تھے۔پھر بادشاہت آئی۔ لیکن وہ بادشاہ انصاف پسند تھے، اس لیے الله تعالیٰ نے ان کو بھی کسی حد تک کامیابیاں دیں مگر جب وہ ظلم پر پہنچ گئے تو الله تعالیٰ نے ان کی بادشاہت بھی ختم کر دی۔ پھر دیکھو مسلمانوں کا تنزل شروع ہو گیا۔
اب ہر مسلمان کہتا ہے کہ ہمارا ایک لیڈر ہونا چاہیے تاکہ ہم اس کے بینر کے نیچے کام کریں، لیکن اسلام میں بہتّر مختلف فرقے ہیں، ہر کوئی کہتا ہے کہ جو میرے فرقے کا لیڈر ہے وہ سب کا لیڈر ہو۔تاہم اس کو کوئی ماننے والا نہیں۔
اس لیے پھر ہمیں دیکھنا چاہیے کہ الله تعالیٰ اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے؟انہوں نے تو پہلے ہی پیشگوئی کر دی تھی کہ ایک زمانہ آئے گا جب اسلام کے اتنے فرقے ہو جائیں گے، جس طرح یہودیوں کے بہت سارے فرقے ہیں، اس وقت مسیحِ موعود آئے گا اور جب مسیح موعود آئے گا تو وہ تمام فرقوں کو اکٹھا کرے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی الله تعالیٰ نے یہی کہا کہ تمام مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرو۔جب ایک ہاتھ پر اکٹھے ہو جاؤ گے تو پھر آپس کے اختلاف ختم ہو جائیں گے، جھگڑے ختم ہو جائیں گے، فرقے بازیاں ختم ہو جائیں گی، کوئی یہ نہیں کہے گا کہ مَیں سُنّی ہوں، میں وہابی ہوں، میں شیعہ ہوں ، میں دیوبندی ہوں، اس طرح بہت سارے فرقے ہیں،سب ایک ہاتھ پر اکٹھے ہو جائیں گے۔
اوربہت سارے لوگ پھر یہ مانتے بھی ہیں کہ ہمیں ایک لیڈرشپ چاہیے۔جب یہ مانتے ہیں کہ ایک لیڈرشپ چاہیے تو اس کے بینر کے نیچے آئیں گے تو پھر ایک طاقت بن جائیں گے۔
اب اسرائیل کو دیکھو! جو پوری دنیا کے لیے مصیبت کا باعث ہے۔ چوّن مسلمان ملک ہیں اور بعض ملک بڑے بڑے پیسے والے بھی ہیں۔ان کے پاس تیل کی دولت ہے، لیکن کوئی ان کی بات نہیں سنتا۔ اس لیے کہ مسلمان ایک نہیں ہیں، ایک طاقت نہیں ہیں، اگر وہ خلافت کےزیرِ سایہ ہوتے تو ایک طاقت ہوتے اور پھر دشمن کو جرأت نہ ہوتی کہ ان کے خلاف لڑے۔
اس لیے ان کو بتاؤ کہ خلافت میں ایک اکائی ہے، اس کی پیشگوئی آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمائی تھی اور الله تعالیٰ نے بھی یہ وعدہ فرمایا تھا کہ اس طرح آخری زمانے میں مسیح موعود کے بعد خلافت جاری ہو گی۔ تو اس لیے ہم مانتے ہیں اور ہم امن میں رہتے ہیں، ہمیں راہنمائی بھی ملتی رہتی ہے، تم لوگوں کو guidance دینے والا کوئی نہیں ہے۔ یہ مختصر سی بات ہے جو تم انہیں بتا سکتی ہو۔
بایں ہمہ حضور انور نے موصوفہ کو ہدایت فرمائی کہ خطبے سنا کرو، میں خطبوں میں بڑی تفصیل سے بیان کر چکا ہوں۔
اگلا سوال سوشل میڈیا سے متعلق تھا کہ ایک ماں اپنے بچوں کو سوشل میڈیا کےبُرے اثرات سے کیسے بچا سکتی ہے؟
اس پرحضور انور نے فرمایا کہ کوشش ہی کر سکتی ہے کہ آہستہ آہستہ بچائے۔ مائیں آپ ٹی وی پر پروگرام دیکھ رہی ہوتی ہیں اور اپنی جان چھڑوانے کے لیےآئی پیڈ، ٹیبلٹ اور پھرآئی فون وغیرہ بھی بچوں کوپکڑا دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ چلو تم یہ دیکھو، تو جان نہ چھڑائیںبلکہ ان کو سمجھائیں۔لیکن یہ نظر رکھیں کہ بچے ایسے پروگرام نہ دیکھیں جن سے اخلاق خراب ہوتے ہوں یا کوئی گندی فضول باتیں آتی ہوں، اس پر نظر رکھیں۔جو بھی پروگرام بچہ دیکھ رہا ہے اسےدیکھیں اور اس کو کہیں کہ تم نے ایک گھنٹے سے زیادہ نہیں دیکھنا۔ تو آہستہ آہستہ کنٹرول اور ڈسپلن میں رکھیں تو ٹھیک ہے۔باقی پیار سے سمجھاتی رہیں کہ اس کے کیا نقصان ہیں، تم مستقل دیکھو گے تو تمہاری نظر بھی خراب ہو جائے گی، تمہاری concentration کا level بھی خراب ہو جائے گا، تم پڑھائی میں اچھے نہیں رہ سکتے۔ تو اس طرح پیار سے بچوں کو سمجھائیں، اس کے دوست بنیں تو سمجھ آئے گی، اس کےساتھ ان کے لیے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ دعا کریں کہ الله تعالیٰ ان کو زمانے کی ان بُری چیزوں سے بچا کے رکھے۔
تو اس طرح جب کریں گی تو ٹھیک ہے۔ بکلی تو آپ ان کو روک نہیں سکتیں، کچھ وقت دینا پڑے گا۔کہہ دیں کہ اچھا ٹھیک ہے میں تمہیں وقت دیتی ہوں کہ تم نے بس ایک گھنٹہ دیکھنا ہے، ایک گھنٹہ دیکھ لو۔ نہیں تو اس سے نقصان زیادہ ہیں۔ بچے سمجھ جاتے ہیں۔ بہت ساری مائیں مجھے لکھتی ہیں کہ بچوں کو اس طرح سمجھاتے ہیں تو سمجھ جاتے ہیں۔
ایک ممبر لجنہ نے راہنمائی طلب کی کہ حقوق اور صبر میں کیا فرق ہے ؟ اگر کوئی ہمارے حقوق کی حق تلفی کرے تو ہمیں بولنا چاہیے یا ہمیں صبر کرنا چاہیے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہ تو نوعیت پر منحصر ہے کہ آپ کے حقوق کس قسم کے ہیں۔ کہ ساس ، بہو کے حق مار رہی ہے ، خاوند، بیوی کا حق مار رہا ہے، نند ، بھابی کے حق مار رہی ہے، بھابی، نند کے حق مار رہی ہے، بہو، ساس کا حق مار رہی ہے، بیوی ، خاوند کا حق مار رہی ہے ۔حضور انور نے فرمایا کہ یہ تو ہر جگہ مختلف صورتیں ایسےہو سکتی ہیں۔ جو بھی کوئی مضبوط ہو گا وہ دوسرے کا حق مار دے گا۔ اس لیے پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنے حق کی ایک limit بنائیں کہ ہمارے حقوق کیا ہیں؟ الله تعالیٰ نے حقوق بیان کر دیے۔ خاوند کو کہہ دیا کہ بیوی اور خاوند کے ایک ہی حقوق ہیں اور بیویوں سے اچھا، نیک سلوک کرو۔ عَاشِرُوۡھُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ کہ بیویوں سے اچھا اورنیک سلوک کرو۔اور بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے گھر کا خیال رکھو، اپنے بچوں اور خاوند کا خیال رکھو اور گھر کے ماحول کو اچھا بناؤ۔ تو یہ اگر ہر ایک کو اپنی اپنی limits کا پتا ہو تو حق کی تلفی ہو ہی نہیں سکتی۔ حق کی تلفی اس وقت ہوتی ہے ، جب ہم خدا کو بھول جاتے ہیں، جب ہم سمجھتے ہیں کہ صرف ہماری انا ہے۔
حضورانور نے اپنے خاندان کو وقت دینے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئےتاکید فرمائی کہ اب خاوند جوweekend پر دین کے کام کے لیے چلا جاتا ہے، اوّل تو اس کو چاہیے کہ کم از کم مہینے میں ایک دو weekend بیوی بچوں کو دے، ان کو ساتھ سیر کے لیے بھی لے کے جائے، ان کا حق دے اور اس کے علاوہ اگر وہ دین کا کام کر رہا ہے تو ٹھیک ہے اسے کرے۔ اب عورتیں، لجنہ بھی بہت ساری ایسی ہیں جو دین کا کام کر رہی ہوتی ہیں، شام کو خاوند گھر آتا ہے تو بعض دفعہ آپ کے اجلاس ہو رہے ہوتے ہیں تو آپ اجلاس پر گئی ہوتی ہیں یا weekendپر لجنہ میٹنگ کر رہی ہوتی ہیں تو خاوند کہتا ہے کہ تم کہاں اور کیوں گئی تھی؟ تو آپ کہتی ہیں کہ میں لجنہ کے کام سے گئی تھی تو وہ کہتا ہے کہ تم نے میرا حق نہیں ادا کیا۔ اسی طرح بیوی خاوند کو کہتی ہے کہ تم وہاں جماعتی کام کے لیے چلے گئے تھے اور تم نے میرا حق ادا نہیں کیا، میں اور بچے گھر میں اکیلے بیٹھےbore ہو رہے ہیں اور ہمیں کہیں لے کر نہیں جاتے۔ پس یہ تو عقل کی بات ہے، آپس میں اگر باہمی افہام و تفہیم ہو، سمجھ بوجھ ہو تو یہ دیکھنا ہو گا کہ میں نے اپنے حقوق کیlimitبنانی ہے اور آپس میں ایک دوسرے سے مل بیٹھ کر، جس طرح دو دوست اچھی طرح معاملہ طے کرلیتے ہیں کہ تم یہ کرو، میں یہ کروں۔ تو ہر ایک کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو تو حقوق کی تلفی کوئی نہیں ہوتی۔
باہمی افہام و تفہیم کی اہمیت اور ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور انور نے تلقین فرمائی کہ بیوی کا خاوند پر حق ہے کہ وہ اس کو وقت بھی دے، اس کی ضروریات کو بھی پورا کرے، بچوں کے ساتھ اس کو سیر کے لیے بھی لے کر جائے، باہر بھی پھرائے، اس کا خیال بھی رکھے، اس کی عزت بھی کرے، اس کا احترام بھی کرے۔ اسی طرح بیوی کا فرض ہے اور یہ خاوند کا حق ہے کہ وہ خاوند کی عزت و احترام کرے اور وفاداری سے ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔ اگر وفا ہو اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا عہد ہو تو الله میاں نے یہی کہا ہے کہ تم ایک دوسرے سے پختہ عہد لیتے ہوتو اس کا خیال رکھو۔ جب علیحدگی ہونی ہے تب بھی جو ایک دوسرے سے عہد لے چکے ہو اس کو ضائع نہ کرو، ایک دوسرے کے راز، راز ہی رہنے چاہئیں۔
یہ تو سمجھ کی بات ہے کہ کس حد تک آپ سمجھتی ہیں کہ حق کیا ہے؟ خاوند بیوی میں دوستی ہونی چاہیے اور اعتماد ہونا چاہیے، اگر وہ نہیں تو پھر کوئی فائدہ نہیں ہے، یہ رشتہ تو اعتماد کا ہے۔
حضور انور نے مزید توجہ دلاتے ہوئے فرمایاکہ ساسوں کو بہوؤں کے معاملے میں دخل نہیں دینا چاہیے اور ان کو آزاد چھوڑنا چاہیے، ان کو یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ یہ بھی کسی کی بیٹی ہے جو میں اپنے گھر لے کر آئی ہوں۔اور بہو کو ساس کا خیال رکھنا چاہیے کہ جس طرح میں اپنی ماں کی عزت کرتی ہوں، اس کی بھی عزت کروں ، تو یہ بھی understanding کی بات ہے۔
ہمارے ہاں پاکستانی طبقے میں جہالت بھی بڑی ہے، جو پاکستان سے یہاں آ جاتے ہیں، وہ بعض پڑھے لکھے تو ہیں نہیں۔اب جو نئی نسل ہے وہ پڑھ لکھ رہی ہے اور ان میں کچھ عقل بھی آ رہی ہے۔
حضور انورنے ایسے ہی کم تعلیم یافتہ طبقے میں پائے جانے والے مخصوص ثقافتی رجحانات پر اظہارِ تشویش کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے افراد اپنے بالغ ہونے والے بچوں پر بے جا اثر انداز ہوئے ہیں نیز ازدواجی فیصلوں سمیت ایسے معاملات میں اطاعت کا مطالبہ کرتے ہیں جس کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تائید نہیں ہوتی۔ حضور انورنے بڑی صراحت سے وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے ماؤں کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ طلاق کا مطالبہ کریں۔ کچھ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال پیش کرتے ہیں، آپؑ نے اپنے بیٹے کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنی دہلیز کو بدل دے، جس کا مطلب طلاق ہے۔ تاہم سب سے پہلے مد نظر رہے کہ یہ ایک باپ کا معاملہ تھا(ماں کا نہیں) ، دوسری بات یہ ہے کہ ایسی صورتوں میں باپ کو درست فیصلہ کرنا چاہیے، اگر باپ بھی کوئی غیر معقول کام کرے تو یہ حق لاگو نہیں ہوتا۔
حضور انورنے اس بات پر زور دیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ طلاق اور بےجاسختیاں وغیرہ نہیں کرنی چاہئیں۔ بلکہ آپؑ نے فرمایا ہے کہ میں ایسے مردوں کو تو مرد سمجھتا ہی نہیں اور جہالت کی انتہا ہے کہ وہ بیویوں کے حق ادا نہیں کرتے اور ان پر سختی کرتے ہیں۔ اور اسی طرح بیوی کو کہا کہ تم خاوند کے حق ادا کرو تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔بلکہ ایک دفعہ ایک مجلس میں کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےسامنے ایک صحابی کی شکایت کر دی کہ وہ اپنی بیوی پر بہت سختی کرتے ہیںتو آپؑ کو بہت غصہ چڑھا، آپؑ نےبہت ڈانٹا۔وہاں بیٹھے ہوئے لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے کبھی آپؑ کو اتنے غصے میں نہیں دیکھا۔ تو اس کے بعد ایک دوسرے صحابی وہاں سے توبہ توبہ کرتے اٹھے، وہ بھی اپنی بیوی سے سختی کیا کرتے تھے۔ وہ بازار گئے اور بیوی کے لیے تحفے لیے اور گھر گئے۔ گھر جا کر اسے بڑے پیار سے چیزیں پیش کیں کہ یہ لو، میں تمہارے لیے لایا ہوں اور بجائے بدتمیزی سے بولنے کے پیار کی باتیں کرنے لگے ۔
حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ بیوی نے ان کو حیران ہو کر دیکھا کہ آج آپ کو ہو کیا گیا ہے ، طبیعت ٹھیک ہے،یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں ؟ اس پر تمام شاملینِ مجلس بھی مسکرا دیں اور انہوں نے خوب حظ اٹھایا۔
حضور انور نے مزید بیان فرمایا کہ انہوں نے کہا کہ ہو یہ گیا ہے کہ آج میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو غصے میں دیکھ کر آیا ہوں کہ انہوں نےجس طرح ڈانٹا ہے، میری شکایت بھی نہ کہیں ہو جائے، تو میں اپنی عاقبت سنوارنے کے لیے آئندہ تم سے سختی نہیں کروں گا۔ تم میرے حق ادا کرو، میں تمہارے حق ادا کروں گا، ہم دونوں اب دوست بن کر رہیں گے۔
آخر پر حضور انور نے دوبارہ تلقین فرمائی کہ اسی طرح ساسوں، بہوؤں، نندوں ، بھابیوں ، سب کو ایک دوسرے کا خیال رکھنا چاہیے۔
بعد ازاں اپنے علاقے میں بطور سیکرٹری تبلیغ خدمت کی توفیق پانے والی ایک لجنہ ممبر نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ ہمارے مربی صاحب جماعت کے خدام کے ساتھ مل کر کولون Cathedral کے سامنے اور مختلف مقامات پر تبلیغی مہم (campaign)کر رہے ہیں اور الحمد لله غیر از جماعت لوگوں پر اس کا بہت اچھا اثر ہو رہا ہے۔ ہماری لجنہ اور ناصرات بھی کئی بار سوال کر چکی ہیں کہ ہم بھی اس میں حصہ لینا چاہتی ہیں، اس لیے ہم امسال گرمیوں کی چھٹیوں میں ’’مَیں ایک مسلمہ ہوں، اپنا سوال پوچھیں‘‘کی کمپین کرنے کا ارداہ کیا ہے۔ پیارے حضور! ہماری راہنمائی فرمائیں کہ ہم اس کو کیسے بہترین طور پر کر سکتے ہیں؟
حضور انورنے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح مرد کر رہے ہیں، تم بھی کر لو، اس پر تمام شاملینِ مجلس بھی مسکرا دیں۔
حضور انورنے مزید فرمایا کہ اور کوشش یہ کرو کہ زیادہ تر عورتوں اور لڑکیوں سے رابطہ کرو۔ عام دنیا میں مذہب سے دُوری لڑکوں میں بھی ہے اور لڑکیوں میں بھی ہے۔ مذہب میں لڑکوں میں پھر کچھ fanaticsپیدا ہو جاتے ہیں اور لڑکیوں میں بالکل وہ دیکھ دیکھ کر اور حالت ہے۔ جب آپ لوگوں کی حالت دیکھیں گی کہ آپ مذہب کی باتیں کر رہی ہیں تو لڑکیوں، غیر مذہب رکھنے والوں یا atheists یا جو غیر مسلم ہیں یا غیر احمدی مسلمان ہیں، سب میں یہ احساس پیدا ہو گا کہ احمدی لڑکیاں اور عورتیں جوکام کر رہی ہیں، الله اور رسولؐ کی باتیں کر رہی ہیں تو ہمیں بھی سننا چاہیے۔تو اپنا نمونہ قائم کرو لیکن صبر اور حوصلے سے۔
ایک تو یہ ہے کہ علم حاصل کرو، جب کمپین کرو گی کہ I am a Muslim, ask your question تو سوال کا جواب بھی تو آنا چاہیے، اس لیے علم حاصل کرو اور دیکھو کہ آج کل عصرحاضر کے مسائل کیا ہیں، کس قسم کے سوال لوگ کرتے ہیں، ان کے جواب تیار کرو۔
آجکل جرمنی میں یہی زیادہ تر ہوا ہے کہ اسلام اور خلافت کے خلاف ایک مہم شروع ہوئی ہوئی ہے یا اسلام کے خلاف کہ یہ سختیاں کرتا ہے اور جہاد کی باتیں کرتا ہے یا عورتوں کے حق ادا نہیں کرتا تو ان چیزوں پر جواب اچھی طرح تیار کرو تاکہ جواب دے سکو۔ یہی چند issues ہوتے ہیں۔ ان کو بتاؤ کہ اسلام عورت کے حق ادا کرتا ہے، اسلام امن کی باتیں کرتا ہے، اسلام ملک سے محبت کی باتیں کرتا ہے، اسلام ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دیتا ہے، اسلام میں ہر چیز کو عدل اور انصاف سے اس کا حق ادا کرنے کا حکم ہے اور اسلام تو یہاں تک کہتا ہے کہ چاہے تمہارا خودنقصان ہو رہا ہو لیکن انصاف کو تم نے نہیں چھوڑنا۔
تو یہ تعلیم ہے اور یہی تعلیم ہمیں خلافت دیتی ہے اور یہی تعلیم ہمیں اسلام دیتا ہے۔ تو یہ باتیں جب اچھی طرح سمجھ سمجھ کے، سوچ کے، عبور حاصل کر کے کرو گی تو لوگوں پر اس کا اثر بھی ہو گا۔
اس کے بعد حضور انور نے صدر صاحبہ لجنہ کولون سے گفتگو فرمائی۔پھر حضور انور نے از راہِ شفقت تمام طالبات کو قلم عطا فرمائے اور ناصرات اور بچیوں میں چاکلیٹس تقسیم فرمائیں۔اسی دوران حضور انور نے ایک طالبہ سے استفسار فرمایا کہ وہ کیا پڑھ رہی ہے؟ موصوفہ نے عرض کیا کہ وہ معاشیات پڑھ رہی ہے، تو حضور انور نے تبصرہ فرمایا کہ جنگ کے بعدعموماًمعیشت زوال پذیر ہو جاتی ہے اور اسے ازسرنَوتعمیر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس دوران ایک لجنہ ممبر نے عرض کیا کہ انہوں نے ایک اردو نظم لکھی ہے، قلمیں تقسیم فرماتے ہوئے حضور انور نے نہایت شفقت سے موصوفہ کو نظم پڑھنے کی اجازت مرحمت فرمائی ۔اسی طرح اس دوران ایک طفل کی تقریبِ آمین بھی منعقد ہوئی۔
حضور انورنے آخر پر سب شاملین کوالسلام علیکم کہا اوراس طرح سے یہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔