دوسروں کو نفع بھی پہنچائے
انسان کے لئے دو باتیں ضروری ہیں۔ بدی سے بچے اور نیکی کی طرف دوڑے۔ اور نیکی کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ایک ترکِ شر دوسرا فاضۂ خیر۔ ترکِ شر سے انسان کامل نہیں بن سکتا۔ جب تک اس کے ساتھ افاضۂ خیر نہ ہو یعنی دوسروں کو نفع بھی پہنچائے اس سے پتہ لگتا ہے کہ کس قدر تبدیلی کی ہے اور یہ مدارج تب حاصل ہوتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی صفات پر ایمان ہواور اُن کا علم ہو۔ جب تک یہ بات نہ ہو انسان بدیوں سے بھی بچ نہیں سکتا۔ دُوسروں کو نفع پہنچانا تو بڑی بات ہے۔ بادشاہوں کے رُعب اور تعزیراتِ ہند سے بھی تو ایک حد تک ڈرتے ہیں اور بہت سے لوگ ہیں جو قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے پھر کیوں احکم الحاکمینکے قوانین کی خلاف ورزی میں دلیری پیدا ہوتی ہے۔ کیا اس کی کوئی اور وجہ ہے بجز اس کے کہ اُس پر ایمان نہیں ہے؟ یہی ایک باعث ہے۔ الغرض بدیوں سے بچنے کا مرحلہ تب طے ہوتاہے جب خداپر ایمان ہو۔ پھر دوسرا مرحلہ یہ ہوناچاہیے کہ اُن راہوں کی تلاش کرے جو خداتعالیٰ کے برگزیدہ بندوں نے اختیار کیں۔ وہ ایک ہی راہ ہے جس پر جس قدر راستباز اور برگزیدہ انسان دنیا میں چل کر خداتعالیٰ کے فیض سے فیضیاب ہوئے۔
(ملفوظات جلد۲ صفحہ ۲۳۹،۲۳۸۔ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
میں تو بڑی آرزو رکھتا ہوں اور دعائیں کرتا ہوں کہ میرے دوستوں کی عمریں لمبی ہوں،تا کہ اس حدیث کی خبر پوری ہو جائے جس میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں چالیس برس موت دنیا سے اٹھ جائے گی… اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں جو نافع الناس اور کام کے آدمی ہوں گے۔اللہ تعالیٰ ان کی زندگی میں برکت بخشے گا۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ ۲۰۲۔ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)